تحریر: |آدم پال|
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سرحدوں پر کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ ایک دفعہ پھر دونوں جانب سے حب الوطنی کے پژمردہ جذبات کو بڑھاوا دینے کی مسلسل کوشش کی جا رہی ہے۔ ایک ایسے سماج میں جہاں سرحد کے دونوں جانب بھوک، بیماری، بیروزگاری اور ذلت کی بہتات ہے وہاں ملک و قوم کے دفاع کے لیے مر مٹنے کے لیے عوام کو مائل کرنے کی سعی جاری ہے۔ دونوں ممالک کے حکمرانوں کے چوری کیے ہوئے اربوں روپے سوئس بینکوں سمیت دنیا کے دیگر محفوظ مقامات پر موجود ہیں اور یہ حکمران طبقات اس ملک کے عوام سے توقع کر رہے ہیں کہ وہ برطانوی سامراج کی بنائی ہوئی اس سرحد کو قائم و دائم رکھنے کے لیے آگ اور خون کی ہولی کھیلیں۔ ایسے میں درمیانے طبقے کے کچھ حصے یقیناًاپنی حب الوطنی کا ثبوت دینے کی بھرپور کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں لیکن دونوں جانب کا محنت کش طبقہ اس تمام تر ناٹک سے بالکل بیزار ہے۔
درحقیقت اس تمام تر خونی کھلواڑ کی ضرورت ہی اس لیے پیش آئی ہے کہ دونوں جانب کے محنت کش طبقات عوام حکمرانوں کی عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف خاموشی کو توڑتے ہوئے اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔ اس میں کلیدی کردار 2ستمبر کو ہندوستان میں ہونے والی ملک گیر ہڑتال نے ادا کیا۔ اس ہڑتال نے پورے ملک کے طول و عرض میں مختلف قوموں، زبانوں، ذاتوں، مذہبوں اوردیگر تعصبات میں بٹی آبادی کو طبقے کی بنیاد پر یکجا کر دیا۔ ایک لمبے عرصے سے کہا جا رہا تھا کہ ہندوستان میں ملک گیر سیاست ناممکن ہو چکی ہے اور ہر علاقے کے اپنے مخصوص مسائل ہیں اور ان کے حل کے لیے علاقائی پارٹیاں موجود ہیں۔ اسی دوران ہمیں مختلف ریاستوں میں ذات پات، قبیلے، قوم، زبان اور مذہب کے نام پر بنی سیاسی پارٹیوں کا عروج بھی نظر آیا جنہوں نے نہ صرف مختلف ریاستوں میں اپنی حکومتیں بنائیں بلکہ مرکز میں بھی کلیدی وزارتوں پر حق جتایا۔ اسی بنا پر طبقاتی جڑت کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ لیکن اب اس صورتحال میں ایک بہت بڑی تبدیلی واضح طور پر نظر آتی ہے اور ان تمام تعصبات کو ہندوستان کے محنت کش طبقے کی طبقاتی جڑت نے رد کیا ہے۔ کشمیر سے لے کر کیرالا تک اور پنجاب سے لے کر آسام تک پورے ہندوستان کے اٹھارہ کروڑ محنت کشوں نے 2ستمبر کو مودی کی مزدور دشمن پالیسیوں کیخلاف احتجاج کر کے واضح کر دیا کہ ان پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانا آسان نہیں ہو گا۔ مودی کی انتخابی مہم میں ہندوستان کے تمام بڑے سرمایہ داروں نے اس کی حمایت کی تھی ۔ اس کے ساتھ ساتھ عالمی مالیاتی اداروں اور مختلف انوسٹمنٹ بینکوں نے واضح طور پر مودی کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ ان تمام سرمایہ داروں کو امید تھی کہ مودی جیسا شخص ہندوستان میں موجود نسبتاً مضبوط مزدور تنظیموں پر کاری حملے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ہندوستان کے مالیاتی شعبے سے لے کر دیگر اداروں کی نجکاری اور دیگر سرمایہ دار نواز پالیسیوں کو لاگو کرنے کے لیے مؤثرثابت ہو گا۔ مودی نے آتے ہی اس ایجنڈے پر کام شروع کیا لیکن اس کے حملوں کے جواب میں محنت کشوں کی وسیع ترین مزاحمت بھی دیکھنے کو ملی جس نے مودی کے ارادوں کو ابھی تک کامیابی سے دور رکھا ہوا ہے۔
2ستمبر کو ہونے والی اس ہڑتال میں ہمیں واضح طور پر نظر آتا ہے کہ قیادت کی مفاہمت کی تمام تر کوششوں کے باوجود نیچے سے محنت کشوں کا اتنا شدید دباؤ تھا کہ قیادت عین وقت پراس ہڑتال کی کال واپس نہیں لے سکی۔ اس ہڑتال کی تیاری میں پورے ملک میں کئی ہفتوں پہلے سے جلسے ، جلوس اور کنونشن منعقد کیے گئے اور ہر شعبے کے محنت کشوں کو متحرک کیا گیا۔ ریاست اور رجعتی قوتوں کی جانب سے محنت کشوں کو اس عملی اقدام سے دور رکھنے کے لیے ہر قسم کے حربے استعمال کیے گئے اور پولیس سمیت دیگر اداروں کو مزدور رہنماؤں کو ڈرانے دھمکانے اور جھوٹے مقدمات قائم کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ لیکن اس تمام ترجبر کے باوجود ہندوستان کے محنت کشوں نے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ایک روزہ عام ہڑتال کر کے ایک نیا باب رقم کیا۔ کمیونسٹ پارٹیوں کی زوال پذیر قیادتوں کے باعث محنت کشوں کی اتنی بڑی تحریک ابھی تک اپنا سیاسی اظہار نہیں کر پائی اور نہ ہی ابھی تک مودی کیخلاف فیصلہ کن فتح حاصل کر پائی ہے لیکن یہ ناگزیر طور پر نئی سیاسی تشکیلات اور تحریکوں کو جنم دے گی جو ہندوستان کی سرمایہ دارانہ ریاست کو چیلنج کرنے کا باعث بنے گی۔
اسی دوران پاکستان میں بھی محنت کشوں کی بکھری ہوئی لیکن متعدد تحریکیں موجود ہیں۔ ینگ ڈاکٹروں، نرسوں سے لے کر اساتذہ اور کسان سڑکوں پر احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں اور حکمرانوں کی نجکاری اور دیگر مزدور دشمن پالیسیوں کیخلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ اس سلسلے کی سب سے بڑی تحریک اس سال فروری میں نظر آئی جب پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ پی آئی اے کے محنت کشوں نے آٹھ دن تک تمام اندرون ملک اور بیرون ملک پروازوں کو بند کر دیا۔ جب کراچی میں پی آئی اے کے دو ملازمین کو ریاستی اداروں کی جانب سے فائرنگ میں قتل کر دیا گیا جبکہ بہت سے زخمی ہوئے تو یونین قیادت کی نافرمانی کرتے ہوئے محنت کشوں نے مکمل ہڑتال کر دی۔ ہڑتال کے آٹھ دنوں میں رینجرز اور پولیس کے ذریعے محنت کشوں کو ہر قسم کی دھمکیاں دی گئیں لیکن اس کے باوجود ہڑتال کو ختم نہیں کروایا جا سکا۔ صرف قیادت کی غداری کے باعث ہی اتنی عظیم الشان ہڑتال اپنے انجام کو پہنچی۔ جس وقت یہ ہڑتال جاری تھی اس وقت واپڈا، اسٹیل مل اور دیگر بہت سے اداروں میں نجکاری کیخلاف تحریکیں جاری تھیں۔ لیکن کوئی ایسی قیادت یہاں موجود نہیں تھی جو ان تحریکوں کو یکجا کر کے ایک عام ہڑتال کی جانب لے جا سکتی۔ لیکن یہاں عام ہڑتال کا سوال معروضی طور پر ضرور ابھرا تھا اور ریلوے، واپڈا سمیت بہت سے اداروں کے محنت کشوں کے شعور کو ان واقعات نے جھنجھوڑا تھا۔ اس صورتحال نے پاکستان کے حکمرانوں کو خوفزدہ کر دیا تھا۔
لیکن اس تمام تر صورتحال میں کشمیر میں ابھرنے والی آزادی کی تحریک نے دونوں ممالک کے حکمرانوں کے پاؤں تلے سے زمین نکال دی ہے اور دونوں خوف اور دہشت سے لرز رہے ہیں۔ پاکستان کے حکمران کشمیر کی آزادی کی تحریک کو مذہبی جنون اورانفرادی دہشت گردی سے مسلسل زائل کرتے رہے ہیں جبکہ ہندوستان کے حکمران فوجی جبر کے ذریعے اس تحریک کو کچلتے رہے ہیں۔ لیکن حکمرانوں کے ان تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود یہ تحریک تین ماہ سے مسلسل آگے بڑھتی جا رہی ہے۔ 8جولائی سے شروع ہونے والی اس تحریک میں اب تک نوے سے زائد افراد شہید کیے جا چکے ہیں جبکہ سینکڑوں پیلٹ گن سے حملوں کے باعث اپنی بینائی کھو چکے ہیں۔ ہزاروں زخمی ہیں جبکہ اس سے بھی زیادہ گرفتار ہیں اور بد ترین تشدد کا سامنا کر رہے ہیں۔ مختلف پہلوؤں سے یہ کشمیر میں ابھرنے والی سب سے بڑی تحریک ہے۔ اس سے پہلے کشمیر میں مسلسل کرفیو 72دن تک جاری رہا جبکہ اس دفعہ یہ نوے دن تک پہنچ رہا ہے۔ پہلی دفعہ عید الاضحٰی پر عید کی نماز کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس کی وجہ ہندوستان کی ریاست کا خوف تھا کہ یہ اجتماع ایک سیاسی جلسے کی شکل اختیار کر لے گا اور اس موقع کو عوام اپنی نفرت کا اظہار کرنے کے لیے استعمال کریں گے۔ ریاست کے تمام تر جبر کے باوجود تحریک کو کچلا نہیں جا سکا بلکہ ہر قتل کے بعد زیادہ پر جوش انداز میں نوجوان باہر نکلتے ہیں اور ہندوستان کی فوج کے سامنے قمیصیں پھاڑ دیتے ہیں کہ ہمت ہے تو سینہ گولیوں سے چھلنی کر دو لیکن ہم آزادی کا نعرہ لگانے سے باز نہیں آئیں گے۔ نوجوانوں کے اس تمام تر انقلابی جوش و جذبے کا محرک جہاں قومی جبر ہے وہاں بیروزگاری اور معاشی مسائل نے بھی اسی تحریک کو ابھارنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ دہلی میں جاری طلبہ تحریک کی جانب سے اس تحریک کی حمایت اور پھر محنت کش طبقے کی ابھرتی تحریک نے ہندوستان کے حکمرانوں کو مزید خوف میں مبتلا کر دیا ہے وہاں پاکستان کے حکمران بھی اپنے مقبوضہ علاقوں میں اس تحریک کے پھیلنے سے خوفزدہ ہیں۔ اس لیے دونوں جانب سے اس تحریک کو قومی جنگ اور مذہبی جنونیت کے جبر تلے کچلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اڑی میں ہونے والا حملہ بھی اسی سلسلے کی کڑی تھا جس میں کشمیر کے نوجوانوں کی قربانیوں اور انقلابی جدوجہد کو دہشت گردی کے ذریعے مسخ کرنے کی کوشش کی گئی۔ تحریک کو زائل کرنے کی یہ غلیظ کوشش کسی بھی جانب سے ہوئی ہو اس کی پر زور مذمت کرنا ہر انقلابی کا فریضہ ہے۔ آنے والے دنوں میں بھی ایسی تمام کوششوں کیخلاف جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ ان جلسوں جلوسوں میں پاکستان کے جھنڈے اس غربت اور دہشت زدہ ملک سے قطعی طور پرمحبت کا اظہار نہیں بلکہ ہندوستان کی فوج سے نفرت کی علامت کے طور پر لہرائے جاتے ہیں۔ کشمیر کی آزادی کبھی پاکستانی ریاست کی حمایت سے نہیں حاصل کی جا سکتی جبکہ اس ریاست کے سامراجی عزائم پہلے سے واضح ہیں۔ آزادی کے حصول کا واحد رستہ ہندوستان اور پاکستان کے محنت کش طبقے کی حمایت ہے جو پہلے ہی مختلف تحریکوں میں موجود ہے۔ ان تمام تحریکوں کو ایک انقلابی مارکسی پارٹی کے ذریعے ہی یکجا کیا جا سکتا ہے۔
اس صورتحال میں چین اور امریکہ کا سامراجی کردار بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جو اس خطے میں مقامی حکمرانوں سے زیادہ اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے سامراجی منصوبے کے ذریعے پاکستان کے حکمرانوں کو لوٹ مار کے نئے مواقع ملے ہیں اور خطے میں ابھرنے والی کسی بھی تحریک کو وہ اپنے ان مالی مفادات کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ دوسری جانب خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے سامراجی کردار نے امریکی سامراج کے کردارکوکسی حد تک کم کیا ہے ۔ اس کی ایک بڑی وجہ امریکہ کا معاشی بحران ہے جس نے پوری دنیا میں امریکی سامرا ج کے کردار کو محدود کیا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ سے بحرالکاہل تک امریکہ ہر جگہ دوسری علاقائی سامراجی قوتوں سے مفاہمت کرنے پر مجبور ہو رہا ہے لیکن ساتھ ہی اپنی بقا کی جنگ بھی لڑ رہا ہے۔ افغانستان میں پسپائی اور فوجوں کے انخلا کے بعد امریکی سامراج اس خطے میں اثر و رسوخ کے لیے ہندوستان کو پہلے سے زیادہ استعمال کر رہا ہے۔ ماضی میں یہ کردار پاکستان ادا کرتا رہا ہے۔ لیکن اب پاکستانی ریاست کی داخلی کمزوری ، انتشار اور ٹوٹ پھوٹ کے باعث اس سے کسی مؤثر کردار کی توقع رکھنا مشکل ہے۔ دوسرا چین کی سرمایہ کاری کے دیو ہیکل حجم کے بعد پاکستان کے حکمرانوں کی جانب سے پہلے جیسی وفاداری ممکن بھی نہیں۔ اس سرمایہ کاری کے نتیجے میں حکمران طبقے کی تو پانچوں گھی میں ہیں لیکن محنت کش عوام کے لیے آگ اور خون کا نیا میدان سجایا جا رہا ہے۔ ایک طرف تو بلند ترین شرح سود پراتنے بڑے قرضوں سے عوام کی تھوڑی بہت بچت بھی چینی سرمایہ کار کمپنیاں لوٹ کر لے جائیں گی اور چین سے آنے والی برآمدات یہاں موجود رہی سہی صنعت کو بند کرنے کا موجب بنیں گی جن سے بیروزگاری میں مزید اضافہ ہو گا۔ اس کے علاوہ بحر ہند میں امریکہ اور چین کے سامراجی تضادات کے نتیجے میں یہاں کے عوام پراکسی جنگوں کا لقمہ بنیں گے۔
بہت سے مقامی سیاسی لیڈر ان سامراجی تضادات میں اپنی وفاداری کی بھرپور قیمت وصول کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ قوم، مذہب،زبان یاعوام کی کسی بھی محرومی کو سامراجی آقاؤں کی لڑائی میں مال بٹورنے کے لیے بھرپور انداز میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ بہت سے قوم پرست اقتصادی راہداری کو خوشحالی کے لیے نسخہ کیمیا ثابت کرتے ہوئے اپنی قوم کی خوشحالی کے اس منصوبے سے محروم ی کا واویلا کر رہے ہیں جبکہ ان کا اصل مقصد ٹھیکوں میں اپنا حصہ حاصل کرنا ہے۔ اگر چین کی سرمایہ کاری سے غربت کا خاتمہ ہونا ہوتا اور خوشحالی آنی ہوتی تو سب سے پہلے خود چین میں آتی جہاں پاکستان کی کُل آبادی سے زیادہ لوگ غربت اور محرومی کا شکار ہیں۔ جد ید ترین صنعتوں کے محنت کش خود کشیاں کرنے پر مجبور ہیں جبکہ حکمرانوں کی دولت اور عیاشی بڑھتی جا رہی ہے۔
ایسے میں بلوچستان کی قومی آزادی کی تحریک کو بھی مسخ کیا جا رہا ہے۔ مودی کی جانب سے اس تحریک کی حمایت درحقیقت ان ہزاروں دلیر اور جرات مند نوجوانوں کی تضحیک ہے جنہوں نے اس عظیم مقصد کے لیے اپنی زندگیاں قربا ن کر دیں۔ امریکی پشت پناہی یا ہندوستان کی ریاست کی حمایت سے اگر آزادی مل سکتی ہوتی تو پیورٹو ریکو سے لے کر آسام تک ہندوستان اور امریکہ کی غلام بہت سی قومیں پہلے آزادی حاصل کر لیتیں۔ پاکستانی ریاست کے سامراجی تسلط اور فوجی جبر کیخلاف ابھرنے والی قومی آزادی کی تحریکوں کی حقیقی حمایت صرف خطے کے محنت کش طبقات ہی کر سکتے ہیں۔ افغانستان میں ہندوستان اور پاکستان کے سامراجی عزائم کا ٹکراؤ ہو یا کشمیر اور بلوچستان میں ان کا فوجی جبر ہر جگہ پر حکمران طبقات عوام کی تحریکوں کو اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ایسے میں یہ توقع کرنا کہ پاکستان کشمیر کو آزادی دلائے گا یا ہندوستان بلوچستان کو، بہت بڑا جرم ہو گا۔
موجودہ کشیدگی سے فائدہ اٹھا کر دونوں ممالک کے دفاعی بجٹ میں مزید اضافہ کیا جائے گا اور امریکہ ‘ چین ‘ روس اور دیگر ممالک سے اسلحے کی خریداری کے نئے معاہدے ہوں گے جن میں دونوں جانب کے جرنیل اور سیاستدان بھرپور کمیشن کھائیں گے۔ اسی طرح پاکستان میں ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹیوں سمیت فوج کے تمام کاروباروں میں مزید وسعت آئے گی ۔ حب الوطنی کے مصنوعی جذبے کو ابھارکر دائیں بازو کی عوام دشمن دہشت گرد قوتوں کوعوام پر مسلط کرنے کی مزید کوشش کی جائے اور اس کے ذریعے نجکاری، لبرلائزیشن اور دیگر مزدور دشمن اقدامات کو پوری قوت سے لاگو کیا جائے گا۔
لیکن ان تمام حملوں کے بعد محنت کشوں کی تحریکیں بھی زیادہ شدت سے ابھریں گی اور سرحد کے دونوں جانب حکمران طبقات کی پالیسیوں کو چیلنج کریں گی۔ ایسے میں ہندوستان میں موجود کمیونسٹ پارٹیوں کی قیادتوں سے کسی فعال کردار کی توقع نہیں کی جا سکتی ۔ اپنی تنگ نظر قوم پرستی میں غرق ہو کر وہ قومی سرحدوں سے بلند کسی بھی طبقاتی یکجہتی پر یقین نہیں رکھتے اور نہ ہی ان کے پاس ایسی کوئی نظریاتی بنیادیں موجود ہیں۔ اس لیے تحریکوں کی شدت ان کمیونسٹ پارٹیوں کی مزید ٹوٹ پھوٹ کا باعث بنے گی جبکہ ان پارٹیوں سے باہر بڑی تحریکوں کے ابھرنے کے امکانات بڑے پیمانے پر موجود ہیں۔
ایسی صورتحال میں صرف پرولتاری بین الاقوامیت پر مبنی درست مارکسی موقف ہی تمام تحریکوں کو آگے بڑھنے کا راستہ دے سکتا ہے۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران لینن نے قومی جنگوں کیخلاف طبقاتی جنگ کا ایک واضح مؤقف پیش کیا تھا۔ جس میں اس نے محنت کشوں کو پروگرام دیا تھا کہ وہ ان جنگوں میں دوسرے ملک کی فوج سے لڑنے کی بجائے اپنے اپنے ملک کے حکمرانوں کیخلاف جنگ کریں۔ اس طرح ان حکمرانوں کو مزید کمزور کرتے ہوئے طبقاتی نظام کیخلاف ایک فیصلہ کن لڑائی کی جانب بڑھا جا سکتا ہے۔
آج پھر حکمران طبقات اور سامراجی طاقتیں خطے کے محنت کشوں کو نئی جنگوں کی جانب دھکیلنے کی کوشش کر رہی ہیں ۔ دوسری جانب امن کے نام پر بھی قومی تعصبات کو مزید فروغ دیا جاتا ہے اور قومی ریاست کو ابدی اور لافانی بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ برطانوی سامراج کی لگائی ہوئی مصنوعی لکیریں محنت کشوں کے لیے کسی بھی قسم کا تقدس اور احترام نہیں رکھتیں خواہ میڈیا پراس کے لیے کتنا ہی واویلا کیا جائے ۔ دونوں جانب کے محنت کش عوام حکمرانوں کے تمام تر مصنوعی اور کھوکھلے نعروں سے بلند ہو کر طبقے کی بنیاد پر یکجا ہو کر اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں گے اور آنے والے عرصے میں زیادہ بڑی تحریکیں ابھریں گی۔ ایسے میں اگر ایک ایسی انقلابی مارکسی قوت موجود ہوتی ہے جومحنت کشوں کی بین الاقوامی جڑت پر یقین رکھتی ہے اور طبقے کی وسیع پرتوں تک اپنا پیغام پہنچاتے ہوئے انہیں منظم کرتی ہے تو اس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف فیصلہ کن جدوجہد اور سوشلسٹ انقلاب کی جانب بڑھا جا سکتا ہے۔