تحریر: | ولید خان |
سرمایہ داری کے گہرے ہوتے بحران کے اثرات مزید شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ 2007-2008ء کے بحران کے بعد ریاستوں نے اپنی عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ یہ بحران پہلے آنے والے بحرانات کی طرح عارضی بحران ہے جس کے بعد پھر خوشحالی کا دور دورہ ہو گا۔ لیکن سات سال کی ذلتوں، کٹوتیوں، گرتے ہوئے معیارزندگی، بڑھتی بربریت ، سماجی تباہی اور مستقبل کی نا امیدی سے اب پوری دنیا کے محنت کشوں میں یہ شعور اجاگر ہو رہا ہے کہ بحران وقتی نہیں بلکہ نامیاتی ہے۔ یہ ایسا بحران ہے کہ جس میں امیر ، امیر تر ہوتے جا رہے ہیں اور غریب ، غریب تر۔ ہر رورز ایک نئی سنسنی خیز خبر، نیا انکشاف ہو رہا ہے۔ آئے دن حکمران طبقہ کی لوٹ مار، ٹیکس چوری اور بے غیرتی کی کہانیاں منظرِ عام پر آ رہی ہیں۔ سرمایہ داری کی تاریخ میں حکمران طبقہ وقتًا فوقتاً بے نقاب ہوتا رہا ہے لیکن اس وقت نامیاتی بحران کے اثرات میں سلگتی عوام کے شعور پر ہر انکشاف ایک تازیانہ ہے جس سے یہ سیکھ رہے ہیں کہ پورا حکمران طبقہ، چاہے اس کا تعلق دنیا کے کسی بھی خطے یا ادارے سے ہو، استحصال اور لوٹ مار کی منڈی میں سب اکٹھے ہیں۔
کل میڈیا میں فوج کے اندرونی احتساب کے نتیجے میں چھ افسران جن میں دو جرنیل، تین بریگیڈئیر اور ایک کرنل شامل ہیں، کی برطرفی کی خبر چلی۔ پہلے خبر بارہ افسران کی چلی جو بعد میں چھ تک محدود ہو گئی۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اس خبر کی تصدیق یا تردید کسی بھی آفیشل فوجی ذرائع سے نہیں ہوئی۔خبر نکلی اور جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ فوج کے اہم دھڑے کی رضامندی کے بغیر اس طرح کی خبر کا باہر نکلنا ممکن ہی نہیں۔ اس کے بعد رات گئے تک ایک طوفان بدتمیزی میڈیا میں برپا رہا جس میں ہر رنگ نسل کے سیاست دان، تجزیہ نگار اور سابق فوجی افسروں نے اپنا حصہ ڈالا ۔ سب نے جنرل راحیل شریف کے گن گائے، پاک فوج کی ہنر مندی اور ایمانداری کے بول بالے کے نعرے لگائے اور تمام سیاسی، افسر شاہی اور عدلیہ سے خود احتسابی کے تقاضے کئے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس مطالبے میں وہ تمام سیاسی، سماجی اور ریاستی ادارے اور افراد شامل ہیں جن پر خود ہر طرح کی سنگین کرپشن کے الزامات ہیں۔
اس تمام شور و غوغے سے علیحدہ ہو کر یہ سمجھنے اور دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہو رہا ہے ؟ اور کیوں ہو رہا ہے؟
2013ء کے انتخابات کے بعد تمام سیاسی پارٹیاں اقتدار میں ہیں۔ کوئی وفاق میں، کوئی صوبے میں۔ تین سالوں کے اندر کوئی پارٹی عوام کو درپیش مسائل میں سے ایک بھی مسئلہ حل نہیں کر پائی اور نہ ہی کر سکتی ہے۔ہر گزرتے دن کے ساتھ حکمرانوں کی لوٹ مار اور عوام کی ذلت میں اضافہ ہو رہا ہے۔اس لوٹ مار پر پردہ پوشی اور عوامی دباؤ سے بچنے کیلئے دن رات بلند و بانگ دعوے، فروعی نعرے اور میڈیا پر سطحی گفتگو جاری ہے۔ ساتھ ہی ساتھ پچھلے کئی سالوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوج مسلسل کامیابیوں کے دعوے کرتی آ رہی ہے جس کی حقیقت روزانہ بڑھتے چھوٹے اور بڑے دہشت گردی کے واقعات عیاں کر رہے ہیں۔ معیشت برباد ہے ، عوام تباہ حال اور سچائی کا شدید فقدان۔
بنیادی وجہ یہ ہے کہ عالمی سرمایہ داری کے بحران نے پاکستان کی معیشت کو بھی برباد کر کے رکھ دیا ہے جس کے ساتھ ہی عالمی سامراجی اداروں نے مزید ٹیکسوں، کٹوتیوں اور نجکاری کا نسخہ جاری کر دیا ہے جس کی وجہ سے بے پناہ بے روزگاری اور ضروریاتِ زندگی کا حصول مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ان حالات کے اندر اگر اس ملک کو کسی چیز نے سہارا دیا ہوا ہے تو وہ کالی معیشت ہے جو گھن کی طرح ہر ادارے کو کھا رہی ہے۔انتہائی محتاط اندازوں کے مطابق بھی اس کا روزانہ کا تخمینہ دس سے پندرہ ارب روپے ہے۔ اس میں جہاں سرمایہ دار طبقہ ٹیکسوں کی چوری، بلوں کی عدم ادائیگی اور گوشواروں کو ظاہر نہ کرنے پر عمل پیرا ہے، جہاں درمیانی طبقہ، افسر شاہی اور عدلیہ دن رات رشوت خوری اوربدعنوانی میں ملوث ہے وہیں پر مختلف سیکورٹی ادارے اور سیاست دان بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان،اشیا خوردونوش، سیمنٹ، کھاد وغیرہ کی سمگلنگ، قبضہ مافیا، سٹاک مارکیٹ اور مختلف کھیلوں کی سٹہ بازی، منشیات فروشی، ٹھیکوں کی بندر بانٹ وغیرہ میں برابر کے حصہ دار ہیں۔ یہ کالا دھن سفید کرنے کیلئے پراپرٹی، سٹاک مارکیٹ، ریستوران، نجی سکولوں، ہسپتالوں ، نت نئی بوتیکوں وغیرہ میں لگایا جاتا ہے۔ اس تمام گھناؤنے کھیل کی رکھوالی اور ترسیل مختلف نام نہاد طالبان کے گروہوں اور بنیاد پرست تنظیموں کے ذریعے کی جاتی ہے اور اس کی پردہ پوشی کیلئے نام نہاد آزاد میڈیا کو حصہ دار بنا کر فروعی اور فضول خرافات دن رات مختلف چینلز پر بکی جاتی ہیں۔ تمام تر دہشت گردی، کرپشن کے کیسز اور مختلف تادیبی کاروائیوں کی پھرتیاں اس لوٹ مار کی کشمکش ہے جو ریاست کے مختلف دھڑوں کے درمیان مسلسل جاری ہے۔ اس سارے خونی کھلواڑ کے اندر عوام کا پرسانِ حال کوئی نہیں۔
پاناما دستاویز میں نواز شریف کے اہل و عیال کے ملوث ہونے کے انکشافات کے بعد حکومت پر مسلسل دباؤ بڑھ رہا ہے۔ عوام میں اپنی ٹوٹتی بکھرتی ساکھ، عوامی تحرک کو ٹھنڈا رکھنے اور اندرونی خلفشار پر قابو پانے کیلئے سیاسی پارٹیوں کو ایک اچھا تماشا مل گیا ہے۔ عمران خان دوبارہ سے دن رات وزیرِ اعظم بننے کے خواب دیکھ رہا ہے جبکہ باقی سیاسی جماعتیں وفاق سے مراعات اور لوٹ مار میں زیادہ حصہ داری کیلئے کمر بستہ ہو رہے ہیں۔ لیکن یہ ریاست کا بانجھ پن اور سیاسی جماعتوں کی شدید کمزوری ہے کہ بیس سے زائد دن گزرنے کے باوجود اپنے آپسی اختلافات ، اندرونی خلفشار اور لوٹ مار کی ہوس پر تھوڑا بہت قابو کر کے وفاقی حکومت کے خلاف نام نہاد ہی سہی ، ایک سیاسی پلیٹ فارم تشکیل دے سکیں۔ نیچے سے پستی عوام کے بڑھتے دباؤ اور اضطراب سے خوفزدہ حکمران کچھ کرنے یا نہ کرنے کی گو مگو کی کیفیت میں ہیں اور ساتھ ہی اس حقیقت کے احساس میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ کسی کی بھی کوئی سیاسی یا سماجی نہ جڑیں ہیں نہ حیثیت جو آگے بڑھ کر عوام کے بے تاب سمندر کی قیادت کر سکے۔
ایسے میں فوج کی طرف سے اندرونی احتساب اور اس کے نتیجے میں ہونی والی برطرفیاں معنی خیز شکل اختیار کر جاتی ہیں جس سے ایک طرف تو سیاسی پارٹیوں کا بانجھ پن اور دوسری طرف فوج کی اندرونی کیفیت عیاں ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک معاشرہ جس کی معاشی بنیاد لوٹ کھسوٹ اور کالے دھن پر مبنی ہو، اس میں کسی ایک ادارے کا پاک اور تمام گندگی سے بالا تر رہنے کا دعویٰ محض دیوانے کا خواب ہی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ فوج کے ادارے کی بدعنوانیوں اور لوٹ مار کے قصے اخباروں کی سرخیاں بنتے جا رہے ہیں۔ فوج کے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کی آئے دن دہشت گردی کے واقعات دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ ہاؤسنگ کالونی، NLC، جنگی آلات کی خریداری، مختلف مالیاتی و تعمیراتی ادارے، ٹرسٹ اور تجارتی ادارے جن کی وجہ سے فوج کا ادارہ پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی گروہ بن چکا ہے، اس کی کرپشن ، بد عنوانیوں اور سابقہ جرنیلوں کی کارستانیوں کی وجہ سے اس ادارے کی ساکھ بری طرح مجروح ہو چکی ہے۔ ایسے میں اپنے ہی ادارے کے اندر کرپشن میں ملوث حاضر سروس افسروں کی برطرفی، جس کی نظیر نہیں ملتی، بیرونی دباؤ اور اندرونی خلفشار کی واضح نشاندہی ہے۔ ایک طبقاتی معاشرے میں فوج میں بھی طبقات ہوتے ہیں۔ پچھلے پندرہ سالوں میں جتنے سپاہی اور جونیئر افسران نام نہاد دہشت گردی کی راہ میں مارے گئے ہیں اتنے پاکستان کی تاریخ میں چاروں جنگوں میں نہیں مارے گئے۔ بالا افسران کی لوٹ مار اور نچلے افسران اور عام سپاہیوں کی بے وجہ قربانیوں نے ادارے کے اندر کے تضادات کو بہت بڑھا دیا ہے۔ ایسے میں اپنی مقبولیت کو بڑھانے، ادارے کی ساکھ کو بحال کرنے اور معاشرے میں اثرورسوخ قائم رکھنے کیلئے جنرل راحیل شریف نے جو قدم اٹھایا ہے وہ اب واپس نہیں لیا جا سکتا۔ اب ہر دھڑا دوسرے دھڑے کو نیچا دکھانے کیلئے اس قسم کی کاروائیاں کرنے کی کوششیں کرے گا جس کے نتیجہ میں فوج میں عدم استحکام اور دھڑے بندی اور زیادہ بڑھے گی۔
اس تمام تر صورتحال کے باوجود اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف کے علاوہ ریاست کے پاس اور کوئی قابلِ اعتماد شخص موجود نہیں جس سے حکومت کی معیاد پوری کروائی جا سکے۔ پچھلے کچھ عرصے میں ریاست کے مختلف دھڑوں کی طرف سے عوام کیلئے نئی نام نہاد قیادتوں کو پذیرائی دلانے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں جن میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان، سابق چیف جسٹس افتخار چودھری ، طاہر القادری اور عمران خان جیسی شخصیات ہیں جن کی نہ عوام میں کوئی جڑیں ہیں اور نہ ہی ان کی سیاست سے کسی کو سروکار۔ روزانہ کے عمل میں محنت کش طبقہ سیکھ چکا ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں، سماجی کارکن، ریاستی ادارے اور سرمایہ دار ٹولہ ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔ حکمرانوں کے پاس ان مسائل کا کوئی حل موجود نہیں کیونکہ وہ خود مسائل کی جڑ ہیں۔ اس کا اظہار آئے دن محنت کشوں کی اور نوجونوں کی کسی نہ کسی، چھوٹی یا بڑی بکھری ہو ئی تحریکوں میں ہو رہا ہے، چاہے وہ دیو ہیکل اداروں پی آئی اے اور واپڈا کی نجکاری کے خلاف تحریکیں ہوں ، کسی کالج میں فیسوں کے اضافے پر ہو یاکسی فیکٹری میں تنخواہوں میں اضافے کی۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب کسی بھی شہر کا کوئی بڑا چوک احتجاج کا میدان نہ بنتا ہو۔ محنت کش طبقہ اپنے مسائل کے حل اور اس نظام کی بیڑیوں سے آزاد ہونے کیلئے مختلف تحریکوں میں تیار ہو رہا ہے۔ اس ذلت و رسوائی، بربریت اور سماجی خلفشار سے نکلنے کا واحد طریقہ سوشلسٹ انقلاب ہے جس کے نتیجہ میں تمام بڑی صنعتوں، بینکوں، صحت اور تعلیم کے شعبوں، انفراسٹرکچر اور قدرتی وسائل کو محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں لیا جائے تاکہ پیداوار کا مقصد نسلِ انسانی کی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے انسانیت کی معراج کا حصول ہو۔