پاکستان اور طالبان کے درمیان چپقلش، وجوہات اور تناظر

|تحریر: زلمی پاسون|

24دسمبر 2024ء کی رات کو پاکستانی جیٹ طیاروں نے افغانستان کے سرحدی صوبے پکتیکا کے ضلع برمل میں مختلف مقامات کو نشانہ بنایا۔ پاکستانی حکام کے مطابق کہ یہ مقامات تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے وابستہ دہشت گردوں کے ٹھکانے تھے، جو پاکستان میں زیادہ تر دہشت گرد حملوں کے ذمہ دار ہیں۔ پاکستانی حکام نے دعویٰ کیا کہ ان فضائی حملوں میں 71 دہشت گرد مارے گئے، جبکہ طالبان حکومت نے کہا کہ ان حملوں میں 46 افراد، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل تھے، جاں بحق ہوئے۔ متاثرین کے حوالے سے دونوں دعوؤں کی صداقت ابھی تک واضح نہیں ہو سکی، لیکن افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن (یوناما) نے طالبان حکومت کے اس دعوے کی تائید کی کہ ان حملوں میں خواتین اور بچوں سمیت شہری ہلاک ہوئے۔

یہ فضائی حملے طالبان حکومت کو حسب معمول ناگوار گزرے، جہاں طالبان حکام نے پاکستانی سفارتکاروں کو بلا کر سخت احتجاج ریکارڈ کروایا۔ اس کے بعد 28 دسمبر کو پاکستانی اور افغان سیکیورٹی فورسز کے درمیان سرحدی جھڑپیں ہوئیں۔ اگرچہ بعد میں سرحد پر صورتحال کشیدہ ہونے کے بعد معمول پر آ گئی، لیکن کشیدگی برقرار رہی کیونکہ ٹی ٹی پی پاکستان میں دہشت گرد حملے جاری رکھے ہوئے ہے اور اب بھی سابقہ فاٹا کے ساتھ منسلک ڈیورنڈ لائن پر حالات کشیدہ ہی ہوتے ہیں جہاں طالبان کی جانب سے ہیوی مشینری کے ذریعے خوست سے منسلک مقامات پر نئی چیک پوسٹیں قائم کرنے کے دوران پاکستانی فوج کی جانب سے فائرنگ کی اطلاعات موجود ہیں اور یہ سلسلہ تادمِ تحریر جاری ہے۔

پاکستان کے افغانستان کے اندر فضائی حملے عموماً کسی اہم دہشت گرد حملے کے بعد ہوئے ہیں، بالخصوص جب ان حملوں کا ہدف پاکستان کی سیکیورٹی فورسز ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر، دسمبر کے فضائی حملے اس وقت کیے گئے جب چند دن پہلے ٹی ٹی پی کے ایک دہشت گرد حملے میں افغانستان کی سرحد سے متصل جنوبی وزیرستان کے شورش زدہ ضلع میں 16 سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے علاوہ پاکستان نے گزشتہ سال 18 مارچ 2024ء میں بھی اسی طرح کے فضائی حملے کیے تھے جب دہشت گردوں نے 16 مارچ 2024ء کو شمالی وزیرستان کے ایک نیم فوجی کیمپ پر حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں سات اہلکار، بشمول دو سینئر افسران ہلاک ہوئے تھے۔ اس واقعے کے بعد بھی وہی صورتحال دیکھنے کو ملی تھی، یعنی طالبان حکومت کی جانب سے احتجاجی مراسلے، سرحدی جھڑپیں اور پھر کشیدگی میں کمی آنا شامل تھا۔ مارچ 2024ء کے فضائی حملوں کے نتیجے میں مطلوبہ اہداف مارے گئے یا نہیں، لیکن ان حملوں کے چند دن بعد ہی ٹی ٹی پی نے خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ میں بشام کے مقام پر ایک گاڑی پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں 5 چینی شہریوں سمیت 6 افراد جاں بحق ہو گئے۔

دسمبر کے فضائی حملوں کے بعد ممکنہ طور پر ہونے والے بڑے دہشت گرد حملوں کے اثرات ابھی سامنے نہیں آئے ہیں۔ تاہم، مارچ 2024ء کے حملوں کے نتیجے میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کو دیکھتے ہوئے یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ اس طرح کے فضائی حملے افغانستان سے متصل پاکستان کے علاقوں میں بڑھتے ہوئے تشدد اور بدامنی کو ختم کرنے کے مطلوبہ مقصد کو حاصل کر سکیں گے۔

پاکستان اور طالبان کے تعلقات میں بگاڑ کیوں؟

سامراجی پشت پناہی سے تخت کابل پر بٹھانے کے بعد پاکستان اور طالبان کے تعلقات میں گرمجوشی کے برعکس سرد مہری آنے لگی اور اس ضمن میں ریاست پاکستان کی جانب سے جن توقعات کا اندازہ لگایا جا رہا تھا وہ تمام تر توقعات اب تک غلط ثابت ہوئیں۔ جن کی وجوہات پر تفصیل سے بحث کی جائے گی۔ 24 دسمبر کو ہونے والے فضائی حملے پاکستانی فوج کی جانب سے افغان سر زمین پر اگست 2021ء میں طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد سے تیسری بڑی کاروائی تھی، جبکہ پچھلے سال کے دوران دوسری کارروائی تھی۔

ستمبر 2023ء میں ایک سرحدی چوکی پر پاکستانی طالبان کے حملے کے بعد پاکستان نے غیر دستاویزی افغانوں کے خلاف کاروائی کا آغاز کیا اور 8 لاکھ سے زائد افراد کو افغانستان واپس بھیج دیا۔ پاکستان نے طالبان پر دباؤ ڈالنے کے لیے افغان مہاجرین کی جبری بے دخلی سمیت افغانستان پر تجارتی پابندیاں بھی سخت کر دی تھیں، جس کے نتیجے میں افغانستان کی معیشت کو ایک حد تک نقصان اٹھانا پڑا۔ بالخصوص 24 دسمبر 2024ء کا حملہ اس حوالے سے کافی حیران کن تھا کہ حالیہ فضائی حملے ایسے وقت میں کیے گئے جب پاکستان کا ایک وفد، جس کی قیادت حال ہی میں دوبارہ تعینات کیے گئے افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے سفیر محمد صادق کر رہے تھے، کابل میں موجود تھا۔ حملوں کے وقت، وفد طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی، وزیر داخلہ سراج الدین حقانی اور وزیر صنعت و تجارت نور اللہ عزیزی کے ساتھ ملاقاتیں کر چکا تھا۔ وفد نے اگلے ہی دن طالبان کے نائب وزیراعظم برائے سیاسی امور مولوی عبد الکبیر کے ساتھ اپنی طے شدہ ملاقات بھی کی۔ اس کے باوجود، فضائی حملوں نے 15 ماہ کے وقفے کے بعد کھلنے والی سفارتی کھڑکی کو بند کر دیا، جس سے افغانستان کی طالبان حکومت کے ساتھ ٹی ٹی پی یا کسی اور معاملے پر مذاکرات کے امکانات محدود ہو گئے۔ اگر یہ حملے نہ کیے جاتے تو وفد کا دورہ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان اختلافات کو حل کرنے کے لیے اعلیٰ سطحی روابط کے تسلسل کا آغاز کر سکتا تھا۔

امریکی انخلا کے نتیجے میں کابل میں اشرف غنی کی حکومت کا خاتمہ ہوا، جسے پاکستانی حکومت بھارت کی حمایتی سمجھتی تھی۔ اس کے علاوہ، پاکستانی فوجی و سول اشرافیہ کو امید تھی کہ نئی طالبان حکومت تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو قابو میں رکھے گی۔ یہ امیدیں اس تصور پر مبنی تھیں کہ طالبان پاکستان کو اس سپورٹ اور حمایت کے بدلے انعام دیں گے جو پاکستان نے امریکی قیادت میں ہونے والی جنگ کے دوران فراہم کی تھی۔

لیکن طالبان کے اقتدار میں آنے نے اس کے برعکس اس شدت پسند گروہ کو مزید طاقتور کر دیا، جس کے پاس (اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق) تقریباً چھ ہزار جنگجو ہیں۔ پاکستانی طالبان نے نئے وسائل کا فائدہ اٹھایا، جن میں جدید امریکی ساخت کے ہتھیار بھی شامل ہیں جو طالبان کے افغانستان پر قبضے کے دوران حاصل کیے گئے تھے اور افغان جیلوں سے سینکڑوں جنگجوؤں کی رہائی بھی بہرحال شامل ہے۔ جس نے ٹی ٹی پی کی طاقت میں مزید اضافہ کیا۔

افغان طالبان کی مزید حوصلہ افزائی کے بعد ٹی ٹی پی نے پاکستان کے اندر اپنے حملے بڑھا دیے، جس میں انہوں نے اپنے طریقہ واردات کو تبدیل کرتے ہوئے عوامی مقامات کی بجائے سیکیورٹی اور پولیس فورسز کو نشانہ بنایا۔ اسلام آباد میں قائم سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کی حالیہ رپورٹ کے مطابق، پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے 2024ء میں 257 آپریشنز کے دوران 934 دہشت گردوں کو ہلاک کیا، لیکن اسی عرصے میں 444 دہشت گرد حملوں میں کم از کم 685 اہلکار بھی مارے گئے ہیں، جس نے پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے لیے گزشتہ دہائی کے سال کو سب سے مہلک سال بنا دیا۔

پاکستان اور طالبان کے اندرونی تعلقات کی ابتری کو عالمی منظر نامے کی سیاست کی نکتہ نظر سے دیکھنا اشد ضروری ہے کیونکہ 2016ء میں امریکی سامراج میں جس ٹرمپزم کے مظہر کا آغاز ہوا اس کی وجہ سے اس پوری خطے میں ریاستِ پاکستان کی حوالدر والی حیثیت ختم ہو گئی اور یہ عہدہ انڈیا کو دیا جانے لگا، جس کے بعد بالخصوص 2018ء میں امریکی سامراج نے جب بلاواسطہ طالبان کے ساتھ نام نہاد سامراجی معاہدہ ”دوحہ ایگریمنٹ“ کا آغاز کیا اس کے بعد ریاستِ پاکستان کا طالبان پر جو کنٹرول تھا وہ بھی محدود ہوتا گیا اور پھر 2021ء میں طالبان کی کابل پر تخت نشینی کے بعد طالبان اور پاکستان کی سمجھوتے والی شادی میں دراڑ پڑتی گئی، جو کہ بھرنے کے بجائے مزید گہری ہوتی جا رہی ہے۔

دوسری جانب پاکستان اور طالبان کے تعلقات کو طالبان اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے اندرونی تضادات کے نقطہ نظر سے بھی سمجھنا ضروری ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ اس وقت ایک طرف اگر ریاستِ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ میں واضح تقسیم موجود ہے، اور ان دھڑہ بندیوں کی وجہ سے طالبان کے ساتھ پرانی ڈگر کے تعلقات برقرار رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ دوسری جانب طالبان میں بھی تین اہم دھڑے موجود ہیں، جن میں سے کابل دھڑا اور حقانی نیٹ ورک کے پاکستان کے ساتھ وہ پرانے تعلقات نہیں رہے جو کہ ایک وقت میں تھے جبکہ دوسری جانب قندھاری شیخ نے پاکستان کے ساتھ ایک حد تک اپنی بقاء کے لیے تعلقات رکھے ہوئے ہیں جسے ہم سمجھوتے کی شادی ہی قرار دے سکتے ہیں اور قندھار کے شیخ کی جانب سے بار ہا پاکستان پر حملوں کی نہ صرف سرزنش کی گئی ہے بلکہ اس کے خلاف فتویٰ بھی جاری کیا گیا، کہ پاکستان پر حملے کرنا حرام ہے۔ پاکستان اور طالبان کے آپسی تعلقات کے حوالے سے ہم نے بار ہا اس بات کو واضح کیا ہے کہ پاکستان اور طالبان کے درمیان تعلقات پرانی ڈگر کے نہیں رہیں گے بلکہ طالبان جونہی اقتدار میں لائے جائیں گے تو ان کے رویے میں ایک اہم تبدیلی رونما ہو گی جس کا جھکاؤ ایران اور انڈیا کی جانب ہو گا اور اس وقت طالبان کے اپنی پہلی والی حکومت میں یا پھر 20 سالہ لڑائی کے دوران ان تمام دشمنوں سے تعلقات میں بہتری ہونے جا رہی ہے جس میں انڈیا، ایران، روس اور سنٹرل ایشیا کے دیگر ممالک شامل ہیں۔ آزادانہ تعلقات بنانے کا یہ عمل ریاستِ پاکستان سے برداشت نہیں ہو پا رہا۔

دوسری اہم بات کہ طالبان پر اس وقت امریکی سامراج کا اثر کافی حد تک موجود ہے اور اس اثر کی بنیاد پر ہی طالبان تعلقات بنانے میں مگن ہیں۔ اگر امریکی سامراج کی ریاستِ پاکستان کو پرانی نہج پر آشیر باد حاصل ہوتی تو آج طالبان ٹی ٹی پی کو پاکستان پر حملے کرنے سے روک لیتے، مگر امریکی سامراج کی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پر افغانستان میں 20 سالہ جنگ کے دوران دہرے کردار کے حوالے سے جو غم و غصہ موجود ہے اس کو ایک حد تک ٹھنڈا کرنے کے لیے امریکی سامراج کی جانب سے طالبان کو اب تک ”ٹی ٹی پی“ کے حوالے سے کوئی ہدایات نہیں ملی ہیں۔ دوسری جانب طالبان اپنے پرانے حریف انڈیا سمیت دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات بنانے میں مصروف عمل ہیں۔ حال ہی میں انڈیا کے ساتھ طالبان کے وزیر خارجہ کی ملاقات ہوئی ہے، جس میں انڈیا نے افغانستان میں ترقیاتی منصوبوں پر دوبارہ کام کرنے کا اعادہ کیا ہے۔ انڈیا اور طالبان کے آپسی تعلقات پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہیں، مگر موجودہ حالات میں وہ ان تعلقات کو روکنے سے کافی حد تک دور ہیں۔

حالیہ سرحدی تنازعات اور اس کے اثرات

اس وقت اگر دیکھا جائے تو پاکستان اور افغانستان میں براجمان دونوں حکمران اور بالخصوص پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے شدید نفرت پائی جاتی ہے جبکہ دہشت گردی کے خلاف پاکستانی سیکیورٹی اداروں کی ناکامی بھی سب پر عیاں ہو چکی ہے جہاں لوگ حالیہ دہشت گردی کے واقعات کو سکیورٹی اداروں کی بالواسطہ یا بلاواسطہ پشت پناہی کا ہی نتیجہ سمجھتے ہیں۔ جبکہ افغانستان میں بھی صورتحال اسی طرح ہے، گو کہ افغانستان میں دہشتگردی اور بدامنی میں کافی کمی دیکھنے میں آئی ہے اور اس کی بنیادی وجہ دہشتگرد جھتے کے پاس مسند اقتدار ہے۔ لیکن ایک مخصوص پیمانے پر داعش موجود ہے۔ جس کے حوالے سے بھی متضاد آراء موجود ہیں۔ جس طرح پاکستان افغان طالبان کو ’ٹی ٹی پی‘ کی سرپرستی کا الزام دیتا ہے، بالکل اسی طرح طالبان ریاستِ پاکستان کو داعش کے سلسلے میں مورد الزام ٹھہراتے ہیں کہ داعش کے پاکستان اور ’ٹی ٹی پی‘ کے افغانستان میں محفوظ ٹھکانے اور دیگر انفراسٹرکچر موجود ہیں۔ مگر طالبان دونوں جانب سے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے دونوں دہشگرد تنظیموں کو دونوں ممالک کا اندرونی مسئلہ گردانتے ہیں۔

اس وقت افغانستان میں برسر اقتدار طالبان کے اندرونی تضادات کافی حد تک منظر عام پر آ چکے ہیں مگر یہاں ایک چیز کی وضاحت ضروری ہے کہ ان تنازعات کے تناؤ میں ایک دوسرے کو مارنے تک کی نوبت نہیں آئی ہے اور اگر ایسا کوئی منظر بنتا ہے تو اس کو دوسرے طریقے سے ہینڈل کیا جاتا ہے۔ بالخصوص حقانی نیٹ ورک کے اہم اور سرکردہ رہنما قبائلی امور کے وزیر خلیل حقانی کے قتل کو طالبان کے آپسی تضادات کا شاخسانہ قرار دیا جاتا تھا مگر ان کی ذمہ داری داعش نے قبول کر لی ہے۔ طالبان کے آپسی اختلافات کو اس ڈر کی وجہ سے کافی پوشیدہ رکھا جاتا ہے، تاکہ ان کی صفوں سے نکلنے والے ان کے دشمن نہ بنیں۔

افغانستان میں پاکستانی جیٹ طیاروں کی بمباری سیکیورٹی اداروں کی ناکامی کو چھپانے کا ایک وطیرہ ہے اور عوام کو الو بنانے کا بھی ایک اوزار ہے۔ یعنی کہ ہم دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے لیے کسی دوسرے ملک میں بھی حملے کر سکتے ہیں گو کہ ’ٹی ٹی پی‘ کی انسٹالیشنز افغانستان میں موجود ہیں مگر آج تک کسی ایک بھی حملے میں ریاست پاکستان نے ان کو ٹارگٹ نہیں کیا ہے۔ مختصراً ان حملوں کے اثرات کے ذریعے ریاستِ پاکستان عوام کو یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ ہم دہشت گردی کو ختم کرنے کے سلسلے میں سنجیدہ ہیں اور اس ضمن میں چائنہ کو بھی یقین دہانی کرائی جاتی ہے کہ ہم دہشت گردی کو ختم کرنے میں لگے ہوئے ہیں کیونکہ ایک وقت میں ٹی ٹی پی نے چین کی سرمایہ کاری کو کافی حد تک نشانے پہ لیا ہوا تھا۔ مگر مارچ 2024ء کے بعد ٹی ٹی پی نے چینی سرمایہ کاری کو اب تک نشانہ نہیں بنایا ہے اور یہ تبدیلی چینی حکمران اور طالبان کے درمیان بڑھتی ہوئی آپسی سرمایہ کاری اور سفارتی تعلقات کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔ مگر یہ صورتحال کب تک موجود رہے گی اس ضمن میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ امریکی سامراج میں بھی اس وقت اہم تبدیلی ٹرمپ کی شکل میں رونما ہو چکی ہے اور ٹرمپ انتظامیہ کی کوشش ہو گی کہ طالبان کو مزید امریکی سامراج کے پیرول پہ لگایا جائے جس کے لیے وہ ڈالرز کی امداد میں کٹوتی کی دھمکیاں بھی دے رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ٹرمپ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پر اپنے پہلے دور میں بھی شدید حملے کر چکا ہے، یہ سلسلہ اس دورانیے کے اندر مزید شدت اختیار کر سکتا ہے اور اس ضمن میں طالبان کے ذریعے ٹی ٹی پی اور اس خطے میں موجود دیگر پراکسیز کو چینی سرمایہ کاری کے خلاف استعمال کر سکتا ہے۔

اس وقت ٹی ٹی پی کی جانب سے جتنے بھی حملے کیے جاتے ہیں ان میں ریاستی سیکیورٹی اہلکار نشانے پر ہوتے ہیں اور ریاستی ادارے ان دہشت گردوں کا جڑ سے خاتمہ نہیں کر سکتے کیونکہ یہ وہی دہشت گرد ہیں جنہیں انہی ریاستی سیکیورٹی اداروں کی پشت پناہی سے پروان چڑھایا گیا اور آج وہ ایسے خونخوار اژدھے بن چکے ہیں جو کہ اپنے ہی آقاؤں کو نگل جانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ٹی ٹی پی کی جانب سے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی اگست 2021ء میں وقوع پذیر ہوئی جب طالبان کو تخت کابل پر بٹھا دیا گیا اور یہی حکمت عملی اب ریاستی سیکیورٹی اداروں کے لیے درد سر بن چکی ہے، جس کی وضاحت ان حملوں کے نتیجے میں ہلاک اور زخمی ہونے والے سیکیورٹی اہلکاروں کے اعداد و شمار میں دی جا چکی ہے۔

دوسری جانب طالبان بھی ان سرحدی تنازعات سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں اور افغانستان کے عوام کو یہ یقین دلانے کی کوشش میں مگن ہیں، کہ ہم پاکستان کے ساتھ پرانی نہج پر تعلقات نہیں رکھتے اور نہ ہی ہم پاکستان کے پیرول پر اس وقت حکمرانی کر رہے ہیں۔ ان سرحدی تنازعات کی بنیاد پر طالبان اس کوشش میں بھی مصروف عمل ہیں کہ کسی طرح افغانستان کے عوام کو اپنے ساتھ جوڑ سکیں اور ان میں اپنی مقبولیت بنا لیں۔ کیونکہ افغانستان میں پاکستان سے شدید نفرت پائی جاتی ہے، لیکن یہاں پر چند چیزوں کا احاطہ کرنا ضروری ہے جونہی 24 دسمبر کو پاکستانی جیٹ طیاروں نے افغانستان پر بمباری کی تو اس کے اگلے دن عوام میں غم و غصہ پھیل گیا اور انہوں نے باقاعدہ طور پر احتجاج کرنے کی کال دی تھی مگر صرف افغانستان کے ایک ہی شہر خوست میں محدود پیمانے پر احتجاجی مظاہرہ ہوا۔ اس احتجاج کو بھی طالبان کی جانب سے مخصوص نعرے دیے گئے تھے۔ اس لیے کہ طالبان کسی بھی خود رو اور آزادانہ احتجاجی مظاہرے کو برداشت نہیں کرتے کیونکہ وہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ اگر ایک بار عوام احتجاجی مظاہروں کی جانب بڑھ گئی تو پھر ان احتجاجی مظاہروں کا رخ طالبان کی جانب بھی ہو سکتا ہے۔ اسی لیے طالبان کی جانب سے احتجاجی مظاہروں پر مکمل پابندی عائد ہے۔ اس کے علاوہ اس سرحدی تنازعے کے دوران قندھار کے شیخ کی جانب سے خواتین کے حقوق پر مزید ڈھاکہ ڈالا گیا، جن میں دو اہم احکامات شامل ہیں پہلا یہ تھا کہ افغانستان میں خواتین کی غیر سرکاری اداروں اور این جی اوز میں نوکری کرنے پر مکمل پابندی عائد ہو گئی جبکہ دوسرے فرمان میں گھروں کے کمروں میں کھڑکیوں پر پابندی لگا دی گئی تاکہ خواتین کی آواز ہمسائے کے گھر میں نہ پہنچے اور نہ ہی کوئی دوسرا ہمسایہ ان کھڑکیوں سے دوسرے گھروں میں جھانکے۔ مختصراً اس وقت پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی تنازعات اس نوعیت کے نہیں ہیں جو کہ دونوں ممالک کے حکمران طبقات کے لیے کوئی بڑا چیلنج ہوں بلکہ ان سرحدی تنازعات کے ذریعے دونوں ممالک کے حکمران اپنے اندرونی تنازعات، مسائل، کمزوریوں اور خامیوں کو چھپانے کی کوشش میں مگن ہیں، جو کہ ناممکن ہی ہے۔

اس لیے دونوں ممالک کے محنت کش طبقے کو اپنے حکمران طبقے کی منافقت کو ننگا کرنا ہو گا، کیونکہ اس وقت دونوں ممالک کے غریب محنت کش عوام جس معاشی تنگدستی، سیاسی و سماجی بحرانات کا شکار ہیں، شاید اس کی تاریخ میں کوئی مثال ملتی ہو۔ گو کہ پاکستان کے محنت کش عوام افغانستان کے مظلوم عوام سے کافی بہتر حالات میں موجود ہیں، مگر سرمایہ داری کی عمومی زوال پذیری کی وجہ سے دونوں ممالک کے محنت کش عوام بارود کے ڈھیر پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ لیکن دونوں ممالک کے محنت کش عوام میں ایک اہم فرق ہے۔ جہاں پاکستانی محنت کش عوام کے پاس اپنے غم و غصّے کو ظاہر کرنے کے لیے کافی حد تک سیاسی آزادی موجود ہے مگر افغانستان میں تو یہ سیاسی آزادی بھی دہشت گرد حکمران چھین چکے ہیں۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ افغانستان کے نام نہاد حکمرانوں کو افغانستان کے مظلوم عوام اپنی طبقاتی جڑت کے ذریعے ہی شکست فاش دے سکتے ہیں۔ لہٰذا بیرونی نجات دہندگان، سامراجی ممالک کی مداخلت اور کسی معجزے سے توقع کرنا محض بے وقوفی ہی ہو گی۔ اس وقت افغانستان میں جو بحرانی کیفیت موجود ہے، اس کا خاتمہ صرف طالبان کے خاتمے سے نہیں بلکہ اس نظام کو جڑ سے اکھاڑنے کے ساتھ منسلک ہے۔ کیونکہ طالبان سے پہلے بیس سالہ نام نہاد جمہوریت کے حکمرانوں کو امریکی سامراج کی آشیر باد حاصل تھی اور طالبان کو بھی۔ اس طرز حکمرانی میں افغانستان کے چار کروڑ مظلوم عوام کی صورتحال ہر حوالے سے ابتر ہی تھی۔ اسی لیے یہ جنگ اپنے آغاز میں گو کہ قومی ہے، مگر حتمی تجزیے میں یہ ایک عالمی جنگ ہے، جس کا مقصد سرمایہ داری اور سامراجیت کا خاتمہ ہے، جس کا متبادل سوشلسٹ سماج کی تعمیر ہے اور یہی انسانیت کی اصل معراج ہو گی۔

Comments are closed.