|تحریر: روزا لکسمبرگ، ترجمہ: یار یوسفزئی|
(15جنوری، محنت کش طبقے کے عظیم قائد روزا لکسمبرگ اور کارل لبنیخت کی شہادت کا دن ہے۔ مندرجہ ذیل مضمون روزا لکسمبرگ کی زندگی کی آخری تحریر ہے۔ یہ فری کورپس (Freikorps، جرمن پیرا ملٹری ملیشیا) کے ہاتھوں 1919ء کی اسپارٹکس بغاوت کچلے جانے کے بعد اور کارل لبنیخت اور روزا کی گرفتاری اور قتل سے چند گھنٹے پہلے لکھا گیا تھا۔)
”وارسا میں حالات قابو میں آگئے!“، منسٹر سیبسٹیانی نے پیرس چیمبر آف ڈپٹیز (فرانسیسی پارلیمان) کے سامنے اعلان کیا، جب پاسکویچ کے غارت گر دستوں نے 1831ء میں پراگا کے مضافات کو تاراج کرنے کے بعد باغیوں کا قتل عام کرنے کے لیے پولینڈ کے دارالخلافہ پر حملہ کر دیا۔1؎
”برلن میں حالات قابو میں آگئے!“، بورژوا اخبارات نے فاتحانہ اعلان کیا، ایبرٹ اور نوسکے2؎ بھی یہی کہہ رہے ہیں، اور ”فاتح فوج“ کے دستوں کا بھی یہی کہنا ہے جن کا برلن میں پیٹی بورژوا ہجوم رومال لہراتے اور نعرے مارتے ہوئے استقبال کر رہا ہے۔ عالمی تاریخ کے پنوں میں جرمن فوج کی شان و شوکت اور عزت و وقار کا بول بالا ہوگیا۔ یہ وہی ہیں جو فلینڈرز (بیلجیئم) اور آرگون (فرانس) میں دم دبا کر بھاگ نکلے تھے، اور ووروارٹس عمارت میں موجود تین سو ”اسپارٹے سسٹس“ کے خلاف شاندار فتح حاصل کرکے اپنی ساکھ دوبارہ بحال کی۔ برلن کی گلیوں میں رائن ہارٹ اور اس کے ساتھیوں کے کارناموں کے سامنے وہ دن بھی ماند پڑ گئے جب عظیم جرمن فوج لیج کے فاتح جنرل وون ایمیچ کی قیادت میں پہلی دفعہ بیلجیئم داخل ہوئی۔3؎ جنونی حکومتی دستوں نے ان ثالثوں کو قتل کر دیا جو ووروارٹس عمارت کو سرنڈرکرنے کے لیے سرگرداں تھے، اور رائفلوں کے بٹ مار مار کر انہیں پہچاننے کے لائق نہیں چھوڑا۔ قیدیوں کو دیوار سے لگا کر قطار میں کھڑا کر دیا گیا اور اتنی بے دردی سے مارا کہ ان کی کھوپڑیوں اور دماغ کے ٹکڑے جا بجا بکھرے پڑے تھے۔ ان جیسے عظیم کارنامے دیکھ کر فرانسیسیوں، انگریزوں اور امریکیوں کے ہاتھوں ذلت آمیز شکستوں کو کون یاد رکھ سکتا ہے؟ اب دشمن ”اسپارٹکس“ ہے، برلن وہ جگہ ہے جہاں پر ہمارے افسران جیت کا مزہ چکھ سکتے ہیں، اور نوسکے، ”ایک محنت کش“، وہ جنرل ہے جوایسی فتوحات کی قیادت کر سکتا ہے جہاں لوڈن ڈورف بھی ناکام ہوگیا تھا۔ 4؎
پیرس میں نام نہاد ”امن و امان“ کے حامیوں کے اس جشن کو کون بھول سکتا ہے جب کمیونارڈز کی لاشوں کے اوپر بورژوازی رقص و سرود کا تہوار منا رہی تھی۔ 5؎ یہ وہی بورژوازی تھی جس نے حال ہی میں پروشیا (جرمن سلطنت) سے شرمناک شکست کھا کر ہتھیار ڈال دیے تھے اور دشمن کو حملہ کرتا دیکھ کر نیچ بزدلوں کی طرح دارالخلافہ چھوڑ کر فرار ہو چکے تھے۔ آہ! مگر جب ان پیرس کے باسی محنت کشوں کی اور ان کی نہتی عورتوں اور بچوں کی باری آئی، جو بھوک سے بلک رہے تھے اور ٹھیک سے مسلح بھی نہیں تھے، تو بورژوازی کے عزیز فرزندوں، ”بہادر نوجوانوں“ اور فوجی افسران کی مردانگی دوبارہ جاگ اٹھی۔ مارسؔ کے یہ دلیر بیٹے6؎، جو اس سے قبل غیر ملکی دشمن کے سامنے جھک چکے تھے، نہتے لوگوں، قیدیوں اور شکست خوردہ کو اپنے وحشیانہ ظلم کا نشانہ بناتے رہے۔
”وارسا میں حالات قابو میں آگئے!“، ”پیرس میں حالات قابو میں آگئے!“، ”برلن میں حالات قابو میں آگئے!“۔ عالمی جدوجہد کی تاریخ میں، ہر نصف صدی کے بعد”نظم و ضبط“ کے علمبردار و محافظ یہی دعویٰ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مگر خوشی سے سرشار ”فاتحین“ یہ نہیں سمجھ پاتے کہ وہ ”نظم و ضبط“ جسے قائم و دائم رکھنے کے لیے انسانوں کی بلی دینی پڑے، ناگزیر طور پر اپنی تاریخی منزل کی جانب بڑھتا ہے؛ اپنے خاتمے کی جانب۔
برلن میں یہ حالیہ ”اسپارٹکس بغاوت“ کیا تھی؟ اس کے کیا نتائج نکلے؟ ہمارے لیے اس میں کیا اسباق ہیں؟ اس دوران جبکہ ابھی جنگ کا خاتمہ نہیں ہوا اور ردِ انقلاب اپنی جیت کی خوشی منا رہا ہے، انقلابی پرولتاریہ کے لیے لازم ہے کہ جو کچھ ہوا اس کا جائزہ لے اور واقعات اور ان کے نتائج کو تاریخ کی کسوٹی پر پرکھے۔ بغیرکوئی وقت ضائع کیے، انقلاب چاک قبروں، ماضی کی ”فتوحات“ اور ”شکستوں“ کو پھلانگتا ہوا بڑی سرعت سے اپنی عظیم منزل کی جانب بڑھتا چلا جاتا ہے۔ عالمی سوشلزم کے سپاہیوں کا اولین فریضہ یہ ہے کہ شعوری بنیادوں پر انقلاب کے اصولوں اور انقلابی راستے پر کار بند رہیں۔
کیا اس معرکے میں انقلابی پرولتاریہ کی حتمی جیت متوقع تھی؟ کیا ہم ایبرٹ اور شائیڈمن کا تختہ الٹ کر مزدور آمریت کے قیام کی توقع کر سکتے تھے؟ اگر ہم تمام متغیر عناصر کا بغور جائزہ لیں تو یقیناً ایسا ممکن نہیں تھا۔ سپاہیوں کی ایک بڑی تعداد کی سیاسی ناپختگی انقلابی جنگ کی کمزور کڑی تھی، لہٰذا افسران اپنے سپاہیوں کو رد انقلابی مقاصد کے لیے عوام کے خلاف استعمال کرنے میں کامیاب رہے۔ محض اس امر سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس موڑ پر کوئی دیرپا انقلابی فتح ممکن نہیں تھی۔ مزید یہ کہ فوج کی ناپختگی جرمن انقلاب کی عمومی ناپختگی کی نشانی ہے۔
انقلاب کی حدت ابھی تک دیہاتوں تک نہیں پہنچی تھی اور سپاہیوں کی ایک بھاری اکثریت دیہاتوں سے تعلق رکھتی تھی۔ ابھی تک برلن باقی ملک سے تقریباً پوری طرح کٹا ہوا رہا ہے۔ یہ امر درست ہے کہ صوبوں کے انقلابی مراکز جیسا کہ رائن لینڈ، شمالی ساحل، برنس وِک، سیکسونی اور ورٹمبرگ، نے برلن کے محنت کشوں کی ہمت بندھائے رکھی۔ مگر وہ ابھی تک ایک دوسرے کے قدم سے قدم ملا کر نہیں چلتے، ان کے بیچ ابھی بھی عملی اتحاد کا فقدان ہے، جس کی موجودگی سے برلن کے محنت کش طبقے کی پیش قدمی اور لڑائی کے جذبے کو بلا شک و شبہ مہمیز ملتی۔ مزید برآں، انقلاب کی سیاسی ناپختگی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ معاشی جدوجہد ابھی اپنے ابتدائی مرحلے میں ہے، جو انقلاب کے شعلوں کے لیے درکار ایندھن کی حیثیت رکھتی ہے۔ اور یہ ایک بنیادی وجہ ہے کہ انقلابی طبقاتی جدوجہد تاحال شیر خواری کے مرحلے میں ہے۔
ان سب حقائق کو مد نظر رکھ کر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت ایک فیصلہ کن اور دیرپا فتح ممکن نہیں تھی۔ تو کیا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ پچھلے ہفتے کی جدوجہد ”بے جا“ تھی؟ اگر یہ کسی سوچے سمجھے ”حملے“ یا ”کو“ کی بات ہوتی تو اس کا جواب ہاں میں ہوتا۔ مگر پھر ہفتے بھر کی اس جنگ کی وجہ کیا بنی تھی؟ 6 دسمبر اور 24 دسمبر سمیت تمام پچھلے واقعات کی طرح یہ واقعہ بھی ظالمانہ حکومتی اشتعال انگیزی کا نتیجہ تھا۔ شوشیسٹر کے مقام پر نہتے مظاہرین کے خون کے ساتھ کھیلی جانے والی ہولی، ملاحوں کا قتل عام، اور اس دفعہ برلن پولیس ہیڈکوارٹرز پر ہونے والا حملہ بعد کے تمام واقعات کے لیے چنگاری ثابت ہوا۔ انقلاب چالاک ”منصوبہ سازوں“ کی جانب سے مرتب کیے گئے کسی مکارانہ منصوبے اور کسی کی منشاء کے عین مطابق ہموار انداز سے ہرگز آگے نہیں بڑھتا۔
انقلاب کا آغاز انقلابیوں کی بجائے انقلاب دشمنوں کے کسی عمل سے بھی ہو سکتا ہے، اور در حقیقت ماضی کے انقلابات میں اکثر ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ ایبرٹ اور شائیڈمن کی جانب سے جاری مسلسل اور کھلی اشتعال انگیزی کے سامنے انقلابی محنت کش ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہو گئے۔ یقینا، یہ انقلاب کی بقا کا سوال تھا کہ ان حملوں کا بھرپور انداز میں فوری جواب دیا جائے، تاکہ ردِ انقلاب کو آگے بڑھنے سے روکا جا سکے اور پرولتاریہ کے انقلابی دستوں اور عالمی مزدور تحریک میں جرمن انقلاب کی ساکھ متزلزل نہ ہونے پائے۔
برلن کے عوام کی جانب سے یہ فوری اور اچانک مزاحمت اتنی توانائی اور بھرپور عزم کے ساتھ ابھری کہ پہلے مرحلے میں انہوں نے اخلاقی فتح حاصل کر لی۔
یاد رہے کہ انقلاب کے بنیادی نامیاتی قوانین میں سے ایک قانون یہ ہے کہ جب اس کی شروعات ہو جائے تو یہ کبھی ایک مقام پر کھڑا نہیں رہتا، یہ کسی مرحلے پر غیر متحرک نہیں ہوتا اور نہ ہی اسے روکا جا سکتا ہے۔ کاری ضرب لگانا سب سے بہترین دفاعی حکمت عملی ہوتی ہے۔ یہ کسی بھی لڑائی کا بنیادی اصول ہے مگر انقلاب کے معاملے میں یہ کہیں زیادہ صادر آتا ہے۔ یہ برلن کے پرولتاریہ کے بھرپور عزم اور اپنی طاقت کے تازہ احساس کا اظہار ہے کہ وہ محض آئیکورن 7؎ کی بحالی کے مطالبے کے بعد آرام سے نہیں بیٹھے، بلکہ خود رو طور پر رد انقلاب کے مراکز پر قبضے شروع کر دیے اور بورژوا پریس، نیم سرکاری پریس ایجنسی اور ووروارٹس کے دفتر کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ یہ سارے اقدامات عوام پر یہ حقیقت آشکار ہونے کا نتیجہ تھا کہ جہاں تک رد انقلاب کی بات ہے، وہ ہار نہیں مانے گا بلکہ اپنی طاقت کا مظاہرہ جاری رکھے گا۔
یہاں ہمیں ایک بار پھر انقلاب کے عظیم تاریخی قوانین کا عملی مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے جو ان جرمن انڈیپنڈنٹ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی جیسے رنگا رنگ نام نہاد ”انقلابیوں“، جو ہمیشہ جدوجہد سے بھاگنے کی کوشش میں ہوتے ہیں، کی تمام تر لفاظی اور غرور کو خاک میں ملا ڈالتا ہے۔
جونہی انقلاب کا بنیادی سوال واضح طور پر ابھرے گا۔۔یعنی سر دست انقلاب میں یہ سوال ایبرٹ اور شائیڈمن کی حکومت کا تختہ الٹنا ہے جو کہ سوشلزم کی فتح کے راستے میں اولین رکاوٹ ہے۔۔ تب یہ بنیادی مسئلہ بار بار بھرپور انداز میں اپنا اظہار کرے گا۔ فطرت کے اس قانون کی ناگزیریت کے باعث، جدوجہد کے ہر موڑ پر اس مسئلے کا پردہ چاک ہوتا جائے گا، چاہے انقلاب اسے حل کرنے کے لیے تیار ہو یا نہ ہو، چاہے اس کے لیے حالات سازگار ہوں یا نہ ہوں۔ ”ایبرٹ اور شائیڈمن مردہ باد!“، ہر انقلابی بحران میں ناگزیر طور پر ابھرنے والا یہی وہ واحد نعرہ ہے جو تمام بکھری جدوجہدوں کو یکجا کر سکتا ہے۔ چنانچہ کوئی چاہے یا نہ چاہے، انقلاب اپنی داخلی اور معروضی منطق کے تحت خود رو انداز میں جدوجہدکے ہر مرحلے کوانتہا تک پہنچا دیتا ہے۔
انقلابی عمل کے ابتدائی مراحل میں یہ تضاد موجود ہوتا ہے کہ ایک طرف تو مسئلے کی نوعیت سنگین شکل اختیار کر لیتی ہے جبکہ دوسری جانب حالات کے سازگار نہ ہونے اور واضح رستے کا ادراک نہ ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے سے کٹی ہوئی الگ تھلگ انقلابی لڑائیوں کا نتیجہ رسمی شکست کی صورت میں نکلتا ہے۔ مگر تاریخ کا ایک اور عجیب قانون یہ ہے کہ انقلاب ”جنگ“ کی وہ واحد شکل ہے جس میں حتمی جیت ”شکستوں“ کے لمبے سلسلے کے بعد ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔
سوشلزم کی پوری تاریخ اور سارے جدید انقلابات ہمیں کیا سکھاتے ہیں؟ 1831ء میں لیون (فرانس) میں ریشم بننے والوں کی بغاوت کو بہت بڑی شکست سے دوچار ہونا پڑا، جو یورپ میں طبقاتی جدوجہد کی پہلی چنگاری تھی؛ برطانیہ میں چارٹسٹ تحریک کا خاتمہ شکست کی صورت ہوا؛ جون 1848ء میں پیرس کے پرولتاریہ کی بغاوت شدید ناکامی کے ساتھ ختم ہوئی؛ اور پیرس کمیون بھی بھیانک شکست کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ جہاں تک انقلابی جدوجہد وں کی بات ہے، تو سوشلزم کا پورا سفر ہی بدترین شکستوں سے لبریز ہے۔ مگر اس کے ساتھ تاریخ دھیرے دھیرے ناگزیر طور پر حتمی جیت کی جانب بھی بڑھ رہی ہے! جن شکستوں کے ذریعے ہم قیمتی نتائج کی صورت میں تاریخی تجربہ حاصل کرتے ہیں، ہمت اور جذباتی قوت حاصل کرتے ہیں، ان کے بغیر آج ہم کہاں کھڑے ہوتے؟ آج جبکہ ہم پرولتاریہ کی طبقاتی جنگ کے آخری معرکے کی جانب بڑھ رہے ہیں، ماضی کی یہی ناکامیاں ہماری رہنمائی کر رہی ہیں؛ اور ان میں سے ہر ایک اہمیت کی حامل ہے کیونکہ وہ ہماری قوت اور سمجھ میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔
انقلابی جدوجہد، پارلیمانی جدوجہد کی ضد ہے۔ جرمنی کے اندر ہم پچھلی چار دہائیوں سے محض پارلیمانی”فتوحات“ ہی حاصل کرتے آئے تھے۔ ہم عملی طور پر یکے بعد دیگرے فتح حاصل کرتے جا رہے تھے۔ مگر جب 4 اگست 1914ء کو ہمیں ایک بڑے امتحان سے گزرنا پڑا تو اس کا نتیجہ سیاسی تباہی اور اخلاقی شکست کی صورت نکلا، جو انتہائی شرمناک ناکامی اور بے مثال زوال تھا۔8؎ آج تک ہم انقلابات میں ناکام ہوتے رہے ہیں۔ مگر پھر بھی یہ ناگزیر ناکامیاں مستقبل کی حتمی جیت کی ضامن بنتی رہتی ہیں۔
مگر ایسا ہونا ایک ہی صورت ممکن ہے۔ یہ کہ لازمی طور پر ہر ناکامی کی وجہ تلاش کی جائے۔ کیا ناکامی کی وجہ ناسازگار تاریخی حالات کی رکاوٹ تھی جس سے عوام کی آگے بڑھنے کی لڑاکا توانائی ماند پڑ گئی، یا اس کی وجہ فیصلہ لینے میں ہچکچاہٹ، تذبذب اور اندرونی کمزوریاں تھیں جس نے انقلابی تحرک کو اپاہج بنا دیا؟
ایک جانب فرانس کا فروری انقلاب اور دوسری جرمنی کا مارچ انقلاب ان دونوں صورتوں کی بہترین مثالیں ہیں۔ 1848ء میں پیرس کے پرولتاریہ نے جو ہمت دکھائی، وہ پوری دنیا کے پرولتاریہ کی طبقاتی جدوجہد کے لیے توانائی کا سر چشمہ بن گیا۔ اسی سال جرمنی کے مارچ انقلاب میں پیش آنے والے قابلِ نفرت واقعات آج جرمنی کی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ بن چکے ہیں۔ جرمن سوشل ڈیموکریسی کی تاریخ میں اس کے اثرات جرمن انقلاب کے حالیہ واقعات اور گہرے بحران میں بھی نظر آ رہے ہیں۔
مذکورہ تاریخی سوالات کی روشنی میں ”اسپارٹکس بغاوت“ کی ناکامی کو کس طرح دیکھا جائے گا؟ کیا اس کی وجہ ناسازگار حالات اور غضب ناک اور قابو سے باہر ہوتی انقلابی توانائی کا ٹکراؤ تھا یا اس کی وجہ کمزور اور متذبذب ردعمل تھا؟
دونوں! یہ بحران دوہری فطرت کا حامل تھا۔ ایک جانب برلن کے عوام پوری قوت اور پر اعتمادی کے ساتھ جارحانہ انداز میں آگے بڑھ رہے تھے اور دوسری جانب برلن کی متذبذب اور بے حس قیادت فیصلے لینے میں ہچکچا رہی تھی جو حالیہ ناکامی کی وجہ بنی۔ قیادت ناکام ہو چکی ہے۔ مگر ایک نئی قیادت کا جنم ممکن اور لازمی ہے، ایک ایسی قیادت جسے عوام اپنے آپ میں سے منتخب کریں۔ عوام کا عنصر انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ وہ چٹان ہے جس کے اوپر انقلاب کی حتمی فتح استوار ہو گی۔ عوام کو ایک امتحان سے گزرنا پڑا اور اس ”ناکامی“ کے ذریعے وہ اس تاریخی ناکامیوں کے دھارے کا حصہ بن گئے، جو عالمی سوشلزم کے لیے فخر اور قوت کا باعث ہے۔ اور اسی وجہ سے یہ ”ناکامی“ مستقبل کی کامیابیوں کے لیے راہ ہموار کرے گی۔
”برلن میں حالات قابو میں آگئے!“ او سرمایہ داری کے احمق چمچو! تمہارے اس ”امن و امان“ کی بنیادیں ریت کی بنی ہیں۔ کل انقلاب پھر ”للکارتے ہوئے ابھرے گا“، اور تمہیں دہشت زدہ کرتے ہوئے کھلے عام اعلان کرے گا:
میں تھا، میں ہوں، میں رہوں گا!
بشکریہ مارکسسٹ انٹر نیٹ آرکائیوز
نوٹس
(1) 1830ء میں بیلجیم اور فرانس کے اندر انقلابات برپا ہو رہے تھے۔ پولینڈ تب سلطنتِ روس کا حصہّ تھا اور زارِ روس پولینڈ کی فوج کو ان دونوں انقلابات کو کچلنے کے لیے استعمال کرنا چاہ رہا تھا۔ جس کے نتیجے میں پولینڈ کی فوج کے اندر ایک بغاوت (نومبر بغاوت) نے جنم لیا جو روسی سلطنت سے آزادی حاصل کرنا چاہتے تھے۔ 1831ء میں ایوان پاسکویچ کی قیادت میں روسی فوج وارسا میں داخل ہوئی اور بغاوت کو کچل کر ختم کر دیا۔ بغاوت کے خاتمے پر تجزیہ کرتے ہوئے فرانسیسی وزیر خارجہ سیبسٹیانی نے کہا کہ ”وارسا میں امن لوٹ آیا۔“
(2) یہ دونوں جرمن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے قائدین میں سے تھے۔ فریڈرک ایبرٹ جمہوریہ جرمنی کا پہلا صدر تھا اور گستاونوسکے پہلا وزیر دفاع۔
(3) لیج کی جنگ پہلی عالمی جنگ کا اولین معرکہ تھا۔ اوٹو وون ایمیچ کو لیج میں موجود قلعوں کو شکست دینے کے مخصوص مہم پر بھیجا گیا تھا تاکہ بیلجیم میں جرمن مداخلت کے لیے راہ ہموار کی جا سکے۔
(4) ایرک لوڈن ڈروف جرمن فوج کا جنرل تھا جو پہلی عالمی جنگ میں جرمنی کو شکست کھاتا اور انقلاب کو ابھرتا دیکھ کر ملک سے فرار ہو گیا تھا۔
(5) پیرس کمیون 1871ء کی ناکامی پر بات کی جا رہی ہے۔ ”بیکانل“ ایک قدیم تہوار تھا جو قدیم رومن اور قدیم یونان میں زراعت، شراب، بارآوری کے خدا ’بیکس‘ سے منسوب تھا۔
(6) رومن مذہب میں ’مارس‘ جنگ کا خدا تھا۔
(7) ایمیل آئیکورن پولیس ڈیپارٹمنٹ کا ہیڈ تھا جسے فریڈرک ایبرٹ عہدے سے ہٹانا چاہ رہا تھا۔
(8) پہلی عالمی جنگ، جو کہ ایک سامراجی جنگ تھی جس کا مقصد منڈیوں کی از سرنو تقسیم تھا، میں دوسری انٹرنیشنل کی متعدد پارٹیوں نے اپنی اپنی قومی بورژوازی کی حمایت کا اعلان کر دیا جس میں جرمن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی بھی شامل تھی۔