پاکستان: مظلوم اقوام کی تحریکیں اور کمیونسٹ نظریات

|تحریر: فضیل اصغر|

اس وقت پاکستان میں ایک ہی وقت میں مختلف مظلوم اقوام کے عوام اپنے حقوق کے لیے عظیم الشان جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان میں بلوچ، پشتون، گلگت بلتستان کے عوام اور ’آزاد‘ کشمیر کے عوام شامل ہیں۔ اسی طرح دیگر مظلوم اقوام میں بھی ریاستی جبر اور محرومی کے خلاف شدید غم و غصہ موجود ہے جو جلد ہی پھٹے گا۔ دوسری طرف مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے پنجاب سمیت دیگر علاقوں میں محنت کش عوام کے اندر شدید غم و غصہ موجود ہے۔ ریاستی اداروں بالخصوص فوج کے حوالے سے ماضی میں پنجاب کے درمیانے طبقے میں پائی جانے والی حمایت بھی ختم ہو چکی ہے۔ آئی ایم ایف کی ایما پر مہنگائی، عوامی اداروں کی نجکاری اور تنخواہوں میں کٹوتیوں کے خلاف سرکاری ملازمین کے عظیم الشان احتجاج بھی ہوئے ہیں اور مستقبل میں مزید ہوں گے۔ اسی طرح نجی صنعتوں کے محنت کشوں میں بھی شدید بے چینی ہے جو کسی بھی وقت ایک آتش فشاں کی طرح پھٹ سکتی ہے۔ اس طرح معروضی طور پر پاکستان جیسی مصنوعی ریاست میں آج ایک دفعہ پھر ایسے حالات بن چکے ہیں کہ تمام مظلوم و محکوم عوام کو مل کر ایک کامیاب جدوجہد کرنے سے حکمران نہیں روک سکتے۔

مگر یہ تحریکیں ایک دوسرے سے الگ کیوں ہیں؟

پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ تمام تحریکیں ایک دوسرے سے الگ تھلگ کیوں ہیں؟ کیونکہ اگر یہ سب مل کر جدوجہد کریں تو ایک زیادہ بڑی طاقت بن سکتے ہیں اور حکمران طبقے کا مقابلہ کرنے کے لیے زیادہ بڑی افرادی قوت اور وسیع بنیادوں سے تحریک کو نہ صرف مضبوط کر سکتے ہیں بلکہ اہم کامیابیاں بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے ہر تحریک کے قائدین کو اپنی ذات اور فوری مطالبات سے آگے بڑھ کر بڑا سوچناہو گا۔ لیکن اس کے لیے ایک ایڈوانس نظریہ اور پلیٹ فارم درکار ہے۔ لیکن اس وقت ان تمام تحریکوں کو آپس میں متحد کرنے والا کوئی پلیٹ فارم موجود نہیں۔ یہ پلیٹ فارم ایک ایسے نظریے کی بنیاد پر ہی بن سکتا ہے جو پاکستان کی سرمایہ دارانہ ریاست کے خلاف تمام مظلوموں کو جوڑنے کی بات کرتا ہو۔

مگر یہاں سب سے بڑا سوال تو ان احتجاجی تحریکوں کی قیادتوں سے بنتا ہے کہ مل کر جدوجہد کرنے کے لیے کوئی عملی اقدامات کیوں نہیں لیے جا رہے؟ در اصل اس وقت، ان تحریکوں بالخصوص بلوچ اور پشتون تحریک کی قیادتیں، قوم پرستی کے نظریات رکھتی ہیں۔ موجودہ عہد میں قوم پرستی کا نظریہ مظلوموں کو جوڑنے کی بجائے توڑنے کا کام کر رہا ہے۔ قوم پرستی کا نظریہ اس حد تک گل سڑ چکا ہے کہ اس کے تحت ظالم کے خلاف مظلوموں کا اتحاد بنانا ناممکن ہو چکا ہے۔ صورت حال تو یہاں تک آ پہنچی ہے کہ قوم پرست قیادتوں کی جانب سے امریکہ، برطانیہ یا انڈیا جیسے سامراجی ممالک تک سے ”دشمن کا دشمن، دوست ہوتا ہے۔“ کے فارمولے کے تحت مدد لینا قابل قبول سمجھا جاتا ہے، بلکہ عین پریکٹیکل سمجھا جاتا ہے، مگر دیگر مظلوموں سے یکجہتی کی اپیل کرنے کو نا قابل عمل سمجھا جاتا ہے۔

کیا عام لوگ بھی قوم پرست ہیں؟

البتہ مظلوم اقوام کے محنت کش عوام قطعاً بھی قوم پرست نظریات نہیں رکھتے۔ وہ بلاشبہ اپنے قومی حقوق حاصل کرنا چاہتے ہیں اور قومی جبر سے نجات چاہتے ہیں مگر جیسا کہ لینن نے کہا تھا کہ قومی سوال حتمی تجزیے میں روٹی کا سوال ہوتا ہے، لہٰذا آخری تجزیے میں ان کا نظریہ ”روٹی، بجلی، مکان، روزگار، امن“ ہے۔ جہاں اس وقت قوم پرست قیادتیں اپنی اپنی قوم کے دائرے کو مزید تنگ کرتی جا رہی ہیں وہیں دوسری طرف مختلف اقوام کے محنت کش عوام باقی مظلوموں کا درد بھی محسوس کر رہے ہیں اور ان کے اندر ظالم کے خلاف مل کر جدوجہد کرنے کا جذبہ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کی کئی مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ مثلاً پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر پنجاب کے کسی علاقے، غالباً لاہور کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک نوجوان یہ کہہ رہا ہے کہ ”ہمیں بجلی اور گیس کے بل ادا کرنے کے لیے اپنی موٹر سائیکل بیچنی پڑی“۔ اس کی دھیمی اور احساس محرومی سے بھری آواز اور لہجے سے جو درد ظاہر ہو رہا تھا، اسے کسی بھی قومی تعصب کے بغیر سب نے محسوس کیا۔ اس ویڈیو کو ہر قوم کے محنت کش عوام نے شیئر کیا۔ اسی طرح پنجاب میں بلوچ قومی تحریک کے خلاف دہائیوں سے جاری تمام تر ریاستی پراپیگنڈے کے باوجود بلوچ لانگ مارچ کو عام عوام سے بھرپور یکجہتی ملی۔

قوم پرستی: عام لوگ بمقابلہ دانشور

اگرچہ مظلوم اقوام کے محنت کش عوام کے اندر قوم پرستی کا نظریہ موجود نہیں لیکن بہر حال بہیمانہ ریاستی جبر اور زبردستی ٹھونسے گئے مصنوعی ’نظریہ پاکستان‘ کے خلاف رد عمل میں محنت کش عوام کی کچھ پرتیں بھی قوم پرستانہ نعرے بازی کرنے لگتی ہیں۔ لیکن ان تحریکوں کی قیادتیں شعوری طور پر قوم پرست نظریات رکھتی ہیں اور ’اپنی‘ قومی تحریک کو دوسری تمام عوامی تحریکوں سے الگ تھلگ رکھنا چاہتی ہیں۔ ان کے پاس قوم پرستی کے نظریے کی فوقیت کی واحد دلیل ’نظریہ پاکستان‘ کی مخالفت ہے جو ویسے بھی آج اپنی موت آپ مر چکا ہے۔ یعنی کہ کوئی بھی سائنسی دلیل تو دور، بھونڈی دلیل بھی موجود نہیں۔ یہ ویسے ہی ہے کہ اگر کسی شخص سے پوچھا جائے کہ تم نے جھوٹ کیوں بولا؟ تو وہ جواب دے کہ فلاں نے بھی تو بولا۔ یعنی کہ جب کسی مظلوم قوم کا کوئی عام نوجوان یا محنت کش ریاستی جبر کے رد عمل میں ایسی بات کرے گا جس سے قوم پرستی جھلک رہی ہو تو اس کی بنیاد میں ریاستی جبر سے نفرت کا اظہار، ریاستی جبر سے آزادی حاصل کرنا اور ایک خوشحال زندگی کی تمنا جیسے عوامل کار فرما ہوں گے۔ مگر جب ایک قوم پرست دانشور یہی بات کرے گا تو اس کے ذہن میں اپنے مخصوص پیٹی بورژوا پس منظر کی وجہ سے باقی اقوام سے اپنے آپ کو اور اپنی قوم کو منفرد کرنے کی سوچ موجود ہو گی، جو کہ سراسر رجعتی رد عمل ہے۔

دراصل قوم پرستی کا نظریہ سرمایہ داری کا نظریہ ہے جو کہ سرمایہ دارانہ نظام کے آغاز میں ترقی پسند کردار کا حامل تھا، کیونکہ اس وقت سرمایہ دارانہ نظام بھی ترقی پسند کردار کا حامل تھا۔ اپنے آغاز میں اس نے مختلف چھوٹے چھوٹے قبیلوں اور گروہوں کو اکٹھا کر کے قومی ریاستوں کی بنیاد ڈالی اور اس کے ساتھ ہی ملکی منڈی کی بھی تشکیل کی۔ اس کے نتیجے میں ذرائع پیداوار میں بھی ترقی ہوئی۔ مگر آج سرمایہ دارانہ نظام عالمی سطح پر زوال کا شکار ہے اور کوئی بھی مسئلہ حل کرنے سے قاصر ہے، بلکہ الٹا نئے مسائل پیدا کرتا جا رہا ہے۔ ایسے میں قوم پرستی کا نظریہ بھی محنت کش عوام کو تقسیم کرنے کا موجب بن رہا ہے اور انتہائی رجعتی شکل اختیار کر چکا ہے۔

قوم پرست دانشور ماضی قریب میں، بالخصوص جب سوویت یونین موجود تھا، بحیثیت مجموعی ایسے نہیں تھے۔ سوویت یونین کی صورت میں مسخ شدہ شکل میں ہی سہی لیکن بائیں بازو کی ایک بڑی طاقت کی موجودگی میں قوم پرست دانشوروں کے نظریات پر سٹالنزم کے مسخ شدہ نظریات کی واضح چھاپ نظر آتی تھی۔ اس وقت آزادی حاصل کرنے کے لیے کم از کم کسی حد تک سنجیدہ منصوبہ بندی اور تناظر ضرور موجود ہوتا تھا (درست ہو یا غلط وہ الگ بات ہے)۔ آج تو مسائل کے مستقل حل کے لیے سنجیدہ پلان تک نہیں بنایا جا رہا۔ یہ انتہائی تشویشناک صورت حال ہے۔

ہم نظریے پر اتنی بات کیوں کر رہے ہیں؟

کسی بھی احتجاجی تحریک میں سب سے اہم سوال یہ نہیں ہوتا کہ آج کیا کرنا ہے، بلکہ یہ ہوتا ہے کہ اس احتجاجی تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے مستقبل کی حکمت عملی کیا ہے۔ مستقبل کی درست حکمت عملی بنانا اور اسے عملی جامہ پہنانا ہر احتجاجی عوامی تحریک کی قیادت کی بنیادی ترین ذمہ داری ہوتی ہے۔ یہ اس احتجاجی عوامی تحریک کی زندگی اور موت کا سوال ہوتا ہے۔ اسی لیے ہر احتجاجی عوامی تحریک کی قیادت انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ حکمت عملی ہمیشہ موجودہ صورت حال (معروضی اور موضوعی) کا جائزہ لیتے ہوئے مستقبل کا تناظر بنانے کے بعد ہی تشکیل پاتی ہے۔ یعنی یہ سمجھنا کہ احتجاجی تحریک کو مزید توانا کیسے کیا جا سکتا ہے؟ اس کے مطالبات کیسے منوائے جا سکتے ہیں؟ ریاست کی جوابی کاروائیوں کا مقابلہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ جن مسائل کے گرد یہ احتجاجی تحریک جاری ہے، ان کو مستقل بنیادوں پر کیسے حل کیا جا سکتا ہے؟ کیونکہ اگر وقتی طور پر مطالبات تسلیم ہو بھی جائیں اور مستقبل میں حکمران پھر وہی مسائل پیدا کر دیں تو یہ حکمرانوں کی کامیابی ہو گی۔ پھر اس بنیاد پر احتجاجی تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے پلان آف ایکشن تیار کرنا۔ اس پلان آف ایکشن میں احتجاجی تحریک کو منظم کرنے اور باقی علاقوں کے عوام اور خاص طور پر محنت کش طبقے میں اس کے لیے یکجہتی بڑھانا شامل ہوتا ہے تاکہ حکمرانوں پر پریشر ڈالا جا سکے۔

اس میں سب سے اہم پہلو یہ ہوتا ہے کہ موجودہ صورت حال کا کن بنیادوں پر جائزہ لیا جا رہا ہے؟ اگر وہ بنیادیں انقلابی اور سائنسی نہ ہوں تو پھر لازماً غلط سمجھ بوجھ، غلط حکمت عملی کو جنم دیتی ہیں۔ یہ بنیادیں نظریات ہوتے ہیں۔ لہٰذا درست اور سائنسی نظریہ کسی بھی احتجاجی تحریک کی کامیابی کے لیے صرف جزوی اہمیت نہیں رکھتا بلکہ فیصلہ کن اہمیت رکھتا ہے۔ اسی لیے انقلاب روس 1917ء کے لیڈر لینن نے کہا تھا، ”انقلابی نظریے کے بغیر کوئی انقلابی تحریک ممکن نہیں۔“

کمیونسٹ نظریات اور تحریکوں کی جڑت

کمیونزم وہ واحد نظریہ ہے جو رنگ، نسل، ذات، پات، قوم، مذہب، فرقے، زبان، صنف وغیرہ کی تفریق سے بالا تر ہو کر محنت کش طبقے اور مظلوموں کے اتحاد کی بات کرتا ہے۔ اتحاد کا یہ نعرہ قطعاً بھی جذباتی نہیں بلکہ سائنسی بنیادوں پر ہے۔ اگر کسی بھی احتجاجی تحریک کو کامیاب ہونا ہے تو اس کی لازمی شرط یہ ہے کہ محنت کش طبقے اور دیگر مظلوم عوام کی تحریکوں کے ساتھ اتحاد بنایا جائے۔ کمیونسٹ یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک پاکستان میں سرمایہ دارانہ نظام، سرمایہ دارانہ ریاست اور اس کے سامراجی آقا یعنی امریکہ، چین وغیرہ موجود ہیں، پاکستان میں کوئی بھی مظلوم قوم آزاد نہیں ہو سکتی۔ تمام مظلوم اقوام کی آزادی کی بنیادی شرط یہ ہے کہ اس سرمایہ دارانہ ریاست اور سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کیا جائے جو کہ ایک سوشلسٹ انقلا ب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس جدوجہد کے دوران جہاں جو کامیابی ملے اسے سمیٹتے جانا چاہیے اور سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی منزل کی جانب بڑھتے جانا چاہیے۔

ان تحریکوں کو آپس میں کیسے جوڑا جا سکتا ہے؟

اس وقت ضرورت ہے کہ مظلوم اقوام کی تمام تحریکوں کو آپس میں جوڑنے کے لیے فوری طور پر ان کی قیادتوں کو ایک مشترکہ اجلاس بلایا جائے جن میں ملک بھر سے محنت کش طبقے کی لڑاکا قیادتوں کو بھی مدعوکیا جانا چاہیے۔ اس اجلاس میں قومی جبر سے نجات اور قومی حقوق کے حصول کے لیے مشترکہ مطالبات پر مبنی ایک ملک گیر جدوجہد کا مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دینا چاہیے۔ اس کے لیے تمام تر قومی و لسانی تعصبات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ”ایک کا دکھ، سب کا دکھ!“ کی بنیاد پر ایک ملک گیر ایکشن کمیٹی تشکیل دینی چاہیے۔ مہنگائی، بیروزگاری، نجکاری،مہنگی بجلی کے خلاف ملک بھر میں موجود غم و غصے کو مدنظر رکھتے ہوئے مطالبات میں مزدوروں، کسانوں، طلبہ کے مطالبات بھی شامل کرنے چاہئیں۔ جن میں تنخواہوں میں اضافہ، فیسوں کا خاتمہ وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح مفت بجلی، سستا تیل سمیت محنت کش عوام کو در پیش دیگر مسائل کے حل کے لیے بھی مطالبات شامل کرنے چاہئیں۔ اس تمام عمل میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی اپنی تمام قوتوں کے ساتھ شریک ہو گی اور اس جڑت کو مضبوط کرنے کی کوشش کرے گی۔ اس پارٹی کے کارکنان پہلے ہی ان تحریکوں میں موجود ہیں اور اہم کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ یہ پیغام وہاں پر موجود تمام کارکنان اور قیادتوں تک پہنچا بھی رہے ہیں۔

اگر اس طرز پر آگے بڑھا جاتا ہے تونہ صرف اس وقت جاری ان تحریکوں کی یکجہتی میں اضافہ ہو گا اور حکمرانوں پر دباؤ بڑھے گا بلکہ پورے ملک میں انقلابی بغاوت بھڑک اٹھنے کے امکانات بھی موجود ہیں۔ اس اقدام سے پورے ملک میں انقلابی سیاست کا ایک نیا آغاز ہو گا اور یہ چنگاری پھر پورے سرمایہ دارانہ نظام کو ہی اپنی لپیٹ میں لینے کی جانب بھی بڑھ سکتی ہے۔ ایسی صورتحال میں محنت کش عوام اپنے حقوق کے لیے بھیک نہیں مانگیں گے، نہ ہی وقفے وقفے سے چند ٹکڑے حاصل کریں گے، بلکہ حکمرانوں کے حلق میں ہاتھ ڈال کر اپنا لقمہ چھیننا شروع کریں گے۔ اس کی ایک زبردست جھلک ’آزاد‘ کشمیر میں ہمیں دیکھنے کو ملی بھی ہے۔ انقلابی بغاوت کا یہ ماحول جلد یا بدیر بڑی بڑی ملٹی نیشنل و ملکی کمپنیوں اور فیکٹریوں کے مزدوروں کو بھی میدان عمل میں کھینچ لائے گا۔

ٹرانسپورٹ، بجلی، صحت، تعلیم کے شعبے سے جڑے سرکاری ملازمین جو اپنی خصی اور مفاد پرست یونین قیادتوں سے تنگ ہیں، وہ بھی ایک نئے جذبے کے ساتھ اس جدوجہد کا حصہ بنیں گے۔ کسان اور طلبہ بھی منظم ہونا شروع ہوں گے۔ اس طرح ملک میں ایک طرف مٹھی بھر سرمایہ داروں کی فوج، پولیس، عدلیہ، میڈیا کھڑا ہو گا اور دوسری طرف کروڑوں محنت کش عوام جو لڑنے مرنے کو تیار ہوں گے۔ اس کے بعد کروڑوں محنت کش عوام کو کسی مسلح کاروائی کی ضرورت نہیں پڑے گی اور نہ ہی فوج، پولیس کے سپاہی ان پر اندھا دھند گولیاں برسا پائیں گے۔ اس ماحول میں سیکیورٹی کے ادارے بھی طبقاتی بنیادوں پر ٹوٹ جائیں گے۔ جرنیل ایک طرف کھڑے ہوں گے اور عام سپاہیوں کی بڑی تعداد محنت کش عوام کے ساتھ۔ حالیہ عرصے میں ایسی چند جھلکیاں ہم نے سری لنکا، کینیا اور بنگلہ دیش میں دیکھی ہیں۔

ذرا سوچیں اگر ایک دن کے لیے ٹرانسپورٹ، بجلی، صحت، تعلیم، صفائی، ٹیلی کمیونیکیشن اور فیکٹریوں کے مزدور کام کرنا بند کر دیں تو کیا ہو گا؟ اس دن ایک بھی بلب نہیں جلے گا، ایک بھی پہیہ نہیں گھومے گا، ایک بھی جہاز نہیں اڑے گا، ایک بھی ریل نہیں چلے گی، فون کی کوئی گھنٹی نہیں بجے گی! یعنی کہ پورا نظام جام ہو جائے گا۔

اس وقت محنت کش طبقہ اپنی اس عظیم الشان طاقت کے بلبوتے پر تمام مظلوم اقوام اور سماج کی مظلوم پرتوں کی قیادت کرتے ہوئے ’جمہوری حقوق‘ کے نام پر ملنے والے چند ٹکڑوں کی بھیک کی بجائے پورے سرمایہ دارانہ نظام کو ہی ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اکھاڑ پھینکنے کی پوزیشن میں ہو گا۔ اگر اس سارے عمل کے دوران انقلابی کمیونسٹ پارٹی اپنی قوتوں میں تیز ترین اضافہ کرتے ہوئے موجود ہوئی تو اس کے نظریاتی کارکنان سوشلسٹ انقلاب کے پوٹینشل کو حقیقت میں تبدیل کرنے کی فیصلہ کن جست کو ممکن بنا دیں گے۔

سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے ساتھ ہی ہر طرح کے قومی جبر کی مادی بنیادیں ہی ختم ہو جائیں گی۔ ایک سوشلسٹ مزدور ریاست میں ہر قوم کو آزادی ہو گی کہ وہ چاہے تو جمہوری عمل کے ذریعے اس سوشلسٹ ریاست کا حصہ بنے یا چاہے تو اپنی الگ آزاد ریاست بنا لے۔

لہٰذا آج ہر قوم کے محنت کش عوام اور نوجوانوں کا تاریخی فریضہ ہے کہ وہ مروجہ سیاست کی کسی بھی طرح کی اندھا دھند غلامانہ تقلید کو لات ماریں، ہمتِ کفر کریں، جرأتِ تحقیق لائیں اور زمینی خداؤں کو للکارنے والے سائنسی و انقلابی نظریات سے لیس ہوں۔ آج کے عہد میں یہ نظریہ صرف کمیونزم یعنی سائنسی سوشلزم کا ہی ہے۔ اس مقصد کے لیے انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے ممبر بنیں اور اسے تیز ترین بنیادوں پر مضبوط کرنے اور اس کے نظریات کو پھیلانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ آج ہمارے پاس ایک شاندار موقع ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں امیر اور غریب کے طبقاتی فرق اور قومی جبر پر مبنی ایک جابر، استحصالی اور انسان دشمن سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔

Comments are closed.