آپریشن عزم استحکام: ڈرامہ یا حقیقت؟

|تحریر: زلمی پاسون|

پاکستان میں اس وقت دہشت گردی کے خلاف ایک بار پھر آپریشن کرنے کی بحث زبان زد عام ہے اور اس مجوزہ آپریشن کو ”آپریشن عزم استحکام“ کا نام دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں وزیراعظم ہاؤس سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا کہ 23 جون کو وزیر اعظم نے نیشنل ایکشن پلان پر مرکزی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں آپریشن ’عزم استحکام‘ کے آغاز کے ذریعے انسداد دہشت گردی کی قومی مہم کو دوبارہ متحرک کرنے کی منظوری دے دی تھی۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ آپریشن ایک جامع اور فیصلہ کن انداز میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے کوششوں کے متعدد خطوط کو مربوط اور ہم آہنگ کرے گا۔

بعد ازاں اس آپریشن کے خلاف مختلف سیاسی جماعتوں بالخصوص پاکستان تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام کے رہنماؤں کے بیان سامنے آئے۔ مجوزہ آپریشن کو مسترد کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اس کے علاوہ پشتون تحفظ مومنٹ نے روز اول سے تمام تر آپریشنز کی واضح مخالفت کی ہے اور مختلف احتجاجوں اور جلسوں کے ذریعے ان مجوزہ آپریشنز کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔ دوسری جانب، سیکورٹی ذرائع نے کہا کہ بعض سیاسی جماعتیں آپریشن عزم استحکام پر سیاست کر رہی ہیں، دہشت گردی کی روک تھام کے لیے کثیرالجہتی پالیسی ترتیب دی جائے گی، منشیات کی روک تھام، دہشت گردوں کو سزائیں دلوانے کے لیے مؤثر قانون سازی ہوگی اور دہشت گردوں کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔

ہم اس بحث میں پاکستان میں جاری دہشت گردی کا مختصر جائزہ لیتے ہوئے ان کے خلاف مختلف آپریشنز کے حوالے بھی دیں گے جبکہ ان تمام تر آپریشنز کے نتیجے میں متاثرہ علاقوں میں امن کے قیام اور دیگر عناصر پر تفصیلی بات رکھیں گے جب کہ ساتھ ہی ساتھ ان تمام تر آپریشنز کی وجوہات اور مقاصد پر بھی روشنی ڈالی جائے گی۔

دہشت گردی اور ریاستی پالیسی

1978ء میں افغانستان میں برپا ہونے والے انقلابِ ثور کو افغانستان میں ناکام کرنے اور خطے میں پھیلنے سے روکنے کیلئے پہلی بار اس سامراجی ریاست نے اپنے آقا امریکی سامراج اور سعودی عرب کی ایما پر پیٹروڈالر جہاد کی بنیادیں ڈالتے ہوئے یہاں پر دہشت گردی کے کاروبار کا باقاعدہ آغاز کیا۔ اس ضمن میں سابقہ فاٹا سمیت خیبر پختونخواہ کے افغانستان سے متصل سرحدی علاقے اور بلوچستان کے شمالی پشتون علاقہ جات کو دہشت گردوں کے فروغ کے لیے بروئے کار لاتے ہوئے دہشت گردی کا دھندہ شروع کیا۔

دہشت گردی کے اس کاروبار کی آڑ میں ریاست پاکستان کی جرنیل شاہی اور دیگر اشرافیہ نے خوب ڈالر بٹورے اور بیرون ملک جائیدادیں بنانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں مگن ہونے لگے۔

گو کہ خلق پارٹی کے انقلابیوں نے ثور انقلاب کا ان دہشت گردوں کے سامنے بھرپور دفاع کیا، مگر اپنی اندرونی کمزوریوں اور سوویت یونین کی بے جا مداخلت نے ثور انقلاب کا گلا گھونٹ دیا اور ببرک کارمل جیسے سوویت یونین کے وظیفہ خور طفیلیے کو اقتدار پر بٹھا دیا گیا۔ مگر دہشت گردی کا یہ کاروبار ہنوز جاری رہا جس کا بظاہر 1992ء میں شہید ڈاکٹر نجیب اللہ کی موت پر رد انقلابی قوتوں کے برسرِ اقتدار آنے سے اختتام ہونے لگا۔ مگر ریاست پاکستان اور ان کے سامراجی آقاؤں نے دہشت گردوں کی تنظیمِ نو کرتے ہوئے 1996ء میں افغانستان پر قابض ہونے والے اور موجودہ نام نہاد حکمران طالبان تک کا سفر جاری رکھا۔

مگر 2001ء کے بعد اس لڑائی میں ایک تبدیلی آئی، جب نام نہاد ”وار آن ٹیرر“ کے خلاف ایک بار پھر امریکی سامراج کے ساتھ کرائے کے قاتل کے طور پر کام کرتے ہوئے اس ریاست نے ایک نئی جنگ مول لی۔ ایک طرف ”وار آن ٹیرر“ کی بنیاد پر انہیں ڈالر ملنے لگے جبکہ دوسری جانب وہ افغانستان سے بے دخل کیے جانے والے طالبان کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے لگے جس کی بنیاد پر ڈبل گیم کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان الزامات سے چھٹکارا پانے، امریکی سامراج کی نظروں میں اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرنے اور ڈالر بٹورنے کے لیے ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے 2004ء میں سابقہ فاٹا میں پہلی بار بیرونی مجاہدین سے سابقہ فاٹا کو صاف کرنے کے نام پر فوجی آپریشن کا آغاز کیا۔

اس آپریشن سے مسئلہ حل ہونے کی بجائے بگڑنے لگا، لاکھوں کی تعداد میں عوام دربدر ہونے لگے۔ اور مشرف نے دہشت گردوں کی ڈالروں کے عوض نیلامی کے لیے عام نہتے اور معصوم عوام کو قربانی کا بکرا بنانا شروع کیا۔ جبکہ عوام کی زندگیاں تاراج ہوتی گئیں۔ مگر نتیجتاًنام نہاد تحریک طالبان پاکستان کے نام سے دہشت گرد تنظیم کا وجود عمل میں لایا گیا، اور اس دہشت گرد جتھے نے پاکستان میں بالعموم اور خیبر پختونخواہ و بلوچستان میں بالخصوص ریاستی آشیرباد سے اپنی دہشت گردانہ کاروائیوں کا آغاز کیا۔ یوں پختونخوا میں ٹی ٹی پی ایک قوت بن کر ابھرنے لگی، جنہوں نے مالاکنڈ ڈویژن سے متصل علاقوں میں اپنی نام نہاد رٹ کا اعلان کیا۔ نام نہاد مصنوعی جتھے ٹی ٹی پی کے خلاف ریاست نے مندرجہ ذیل آپریشنز کیے:

1۔ 2007ء میں خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف پہلا بڑا فوجی آپریشن ’راہ حق‘ کے نام سے شروع کرایا۔

2۔ 2009ء میں سوات میں سیکورٹی کی صورت حال ایک بار پھر اس وقت خراب ہو گئی جب ملا فضل اللہ منظر عام پر آیا۔ اس وقت کے آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کی قیادت میں فوج نے ’راہ راست‘ نامی آپریشن شروع کیا جو تین ماہ تک جاری رہا۔

3۔ ان کا کہنا تھا کہ جنوبی وزیرستان میں 2009ء میں آپریشن ’راہ نجات‘ شروع کیا گیا جبکہ 2012ء میں ملکی تاریخ کا سب سے بڑا فوجی آپریشن ’ضرب عضب‘، جنرل راحیل شریف کی قیادت میں شروع کیا گیا۔

4۔ 2016 ء میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوج کی کمان سنبھالی تو آپریشن ’رد الفساد‘ کے نام سے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن شروع ہوا اور اس کا دائرہ کار ملک بھر میں پھیلایا گیا۔

اس کے علاوہ ایسے درجنوں آپریشنز اور بھی شامل ہیں جو کہ اعلانیہ یا غیر اعلانیہ طور پر کیے گئے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ان آپریشنز کے بعد متاثرہ علاقوں میں امن کا قیام ہوا ہے؟ وہاں پر دہشت گردی کی جو بنیادیں رکھی گئی تھیں وہ ختم ہو چکی ہیں؟

افغانستان سے امریکی سامراج کا شرمناک انخلا اور دہشت گردی کی نئی لہر

امریکی سامراج کی افغانستان میں طویل ترین جنگ میں ذلت آمیز شکست کے بعد افغانستان پر ایک بار پھر طالبان کی وحشت کو مسلط کر دیا گیا۔ افغانستان میں طالبان کے اقتدار کو لگ بھگ تین سال ہونے کو ہیں، اور ان تین سالوں کے بعد پاکستان میں شدت پسندوں کی کارروائیوں میں اضافہ اور اس کے نتیجے میں جانی نقصان میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ سال 2023ء میں پاکستانی سیکورٹی فورسز کے پانچ سو سے زائد اہلکار دہشت گردوں کے حملوں میں جان کھو چکے ہیں جبکہ رواں سال 2024ء کے پہلے چھ ماہ میں مزید اڑھائی سو اہلکاروں کی اموات ہوئی ہیں۔ ان میں سے 70 اموات اپریل میں ہوئیں۔ شدت پسند ماضی کے برعکس بظاہر اب عام عوامی مقامات پر حملوں کی بجائے سیکورٹی فورسز کو زیادہ نشانہ بنا رہے ہیں۔ جبکہ اس کے علاوہ حالیہ کچھ واقعات میں چائنیز انسٹالیشنز پر حملے ہوئے ہیں، جن کی ذمہ داری ٹی ٹی پی پر ڈالی جارہی ہے۔ رپورٹس کے مطابق بالخصوص داسو ڈیم کے واقعے کے بعد چینی سرمایہ کار اور چینی ریاست نے ریاست پاکستان پر پریشر ڈال کر انہیں نئے آپریشنز کرنے پر مجبور کر دیا۔ ریاست پاکستان نے بظاہراس دباؤ کے تحت آپریشن کا اعلان کیا اور چین سے اس کے لیے مالی امداد بھی طلب کی ہے۔پاکستان کے حکمرانوں کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو جاننا مشکل نہیں کہ جنگ اور فوجی آپریشنز ان کے لیے سب سے منافع بخش کاروبار رہا ہے۔ آپریشن کے حوالے سے جونہی مخالفت سامنے آئی تو اگلے دن وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے ایک نیا اعلامیہ جاری ہوا جس میں اس نے وضاحت دی کہ موجودہ آپریشن محض تین نکات پر مشتمل ہوگا اور یہ آپریشن پچھلے فوجی آپریشنز سے مختلف ہوگا۔ جس کی تفصیل یہ ہے:

1۔ ایسے بڑے پیمانے پر مسلح آپریشن نہیں ہو گا جن کے نتیجے میں نقل مکانی کی ضرورت محسوس ہو۔

2۔ آپریشن کا آغاز پارلیمانی اتفاق رائے کے بعد شروع کیا جائے گا۔

3۔ خفیہ معلومات کی بنیاد پر کارروائی ہو گی۔

موجودہ آپریشن عزم استحکام پرانے آپریشن سے مختلف کیونکر ہوگا اور پہلے یہ سب کیوں نہیں کیا گیا، اس پر تفصیل سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے عالمی سرمایہ دارانہ نظام پر اگر نظر دوڑائی جائے، تو عالمی سرمایہ دار نظام کی زوال پذیری کی وجہ سے پاکستانی ریاست کے سامراجی آقا بالخصوص امریکی سامراج نسبتی زوال کا شکار ہے۔ اور اسی وجہ سے افغانستان میں تاریخ کی طویل ترین جنگ کے دوران وہ ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوا۔ یاد رہے کہ امریکی سامراج کی نامیاتی زوال پذیری کا آغاز 2008ء کے اقتصادی بحران کے بعد ہونے لگا، جس کی کمزوری کا معیاری اظہار 2016ء میں ٹرمپ کے بطور صدر انتخاب میں ہوا۔

ٹرمپ کے آنے کے بعد امریکی سامراج کے تمام روایتی اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کے فیصلوں پر اثرات مرتب ہوئے۔ ان میں ایسے بہت سارے فیصلے شامل ہیں جن کو ٹرمپ کی صدارتی مدت ختم ہونے کے بعد بائیڈن آج تک آگے لے کر جا رہا ہے۔ ان میں سب سے اہم فیصلہ افغانستان میں مزید فوج نہ رکھنے کا فیصلہ ہے۔ افغانستان سے امریکی شکست کا پورا ملبہ پاکستان کے اوپر ڈال دیا گیا کیونکہ امریکی سامراج کو اپنی ناکامی کے لیے بلی کے بکرے کی ضرورت تھی اور اس کے لیے پاکستان جیسے گماشتہ حکمران کہیں اور آسانی سے ملتے بھی نہیں۔ اس کے علاوہ سامراجی جنگ میں طویل عرصے سے شکست کا سامناکرنے کے باعث امریکی حکمران اپنی فرسٹریشن میں بارہا پاکستان کو ڈبل گیم کی پالیسی پر خبردار بھی کر تے رہے مگر پاکستانی ریاست اپنے خصی پن اور نامیاتی کمزوریوں کے باعث اپنی اس پالیسی کو کبھی بھی دفن نہیں کر سکی۔ اور ڈالر کمانے کے آسان نسخے کے طور پر ڈبل گیم پالیسی کا یہ سلسلہ نہ صرف امریکی سامراج کے ساتھ چلتا رہا بلکہ طالبان کے ساتھ بھی بدستور آگے بڑھتا رہا۔

2018ء میں جب ٹرمپ نے باقاعدہ طالبان کے ساتھ بلا واسطہ مذاکرات کا آغاز کیا تو یہ امر ریاست پاکستان کو پسند نہیں تھا۔ کیونکہ ریاست پاکستان بالخصوص فوجی اشرافیہ افغانستان سے امریکی انخلا کے حق میں نہیں تھی اور وہ چاہتی تھی کہ امریکہ افغانستان کے اندر ہی ٹکا رہے، تاکہ ڈالروں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ برقرار رہے۔ مگر چونکہ امریکی سامراج کی اقتصادی کمزوری، جنگ کی طوالت اور دیگر عناصر کے باعث امریکہ یہاں سے انخلا پر مجبور ہوا اور اسے ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ گوکہ یہ طالبان کی کامیابی نہیں تھی بلکہ افغانستان کے عوام جتنا امریکی سامراج اور اس کے کٹھ پتلیوں سے نفرت کرتے تھے اتناہی طالبان اور ان کی وحشت سے بھی نفرت کرتے تھے۔ لیکن وہاں پر کوئی منظم سیاسی قوت موجود نہیں تھی جو اس نفرت اورغم و غصے کو مجتمع کرتے ہوئے امریکی سامراج اور طالبان کے خلاف ایک ہی وقت میں لڑائی لڑتے ہوئے اقتدار میں آتی۔ اسی لیے وہاں پر طالبان کی وحشت دوبارہ مسلط ہو گئی۔ اس کے بعد خطے میں حالات بہتر ہونے کی بجائے مزید بگڑنے کی طرف چلے گئے۔ پاکستان کے حکمران طبقے کی نظریاتی اور سیاسی طور پرسب سے قریبی دوستانہ قوت کے کابل میں برسر اقتدار آنے کے باوجود خطے میں امن نہیں ہوسکا بلکہ قتل و غارت کے سلسلے میں شدت آتی جارہی ہے۔ انقلابی لیڈر لینن نے بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ جنگ انتہائی منافع بخش کاروبار ہے اور یہ حقیقت پاکستان کے حکمرانوں اور طالبان بخوبی جانتے بھی ہیں اور اس کاروبار میں حصے دار بھی ہیں۔ انہی کاروباری معاملات کے تحت پاکستان میں ٹی ٹی پی نے ریاست کے ساتھ نام نہاد مذاکرات کا ڈھونگ رچایا مگر نومبر 2022ء میں سیز فائر کا معاہدہ ختم کرتے ہوئے حملے شروع کر دیے جوکہ آج تک بدستور جاری ہیں۔

اس کے علاوہ آپریشن عزم استحکام میں ایک اور اہم بحث بھی شامل ہے، وہ ہے بلوچستان میں چینی انسٹالیشنز یا ان کے آفیشلز پر حملے۔ یہ حملے بلوچ مسلح حریت پسندوں کی جانب سے کیے جا رہے ہیں۔ ان کے خلاف ویسے بھی فوجی آپریشنز چل رہے ہوتے ہیں مگر عزم استحکام کے ذریعے چینی سامراج کو جنگ کے کاروبار میں حصہ دار بنانے کی تگ و دو بھی جاری ہے۔

2007ء سے لے کر آج تک جتنے بھی فوجی آپریشنز ہوئے ہیں، ان کے نتیجے میں صرف اور صرف تباہی و بربادی ہی پھیلی ہے۔ ان کی وجہ سے لوگوں کی زندگیاں برباد ہو چکی ہیں اور لوگ ایک غیر معمولی کیفیت کے اندر دربدر کی ٹھوکریں کھا تے ہوئے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔لیکن حکمران طبقے نیاس کاروبار سے اربوں ڈالر کمائے ہیں۔

جہاں تک دہشت گردوں کی کمر توڑنے کا معاملہ ہے تو یہ محض ایک ڈھکوسلہ ہی ثابت ہوا ہے۔ آج تک سیکورٹی اداروں نے کوئی ایک بڑے لیول کے دہشت گرد کی تصویر یا ویڈیو نہیں دکھائی ہوگی کہ فلاں آپریشن کے نتیجے میں ہم نے اتنے دہشت گردوں کو مار دیا ہے۔ اور جن لوگوں کو مختلف آپریشنز کے ذریعے مار کے دکھایا جاتا تھا ان کی قلعی کھل گئی ہے کہ وہ ریاست کے پاس ہزاروں کی تعداد میں جبری گمشدگی کے شکار سیاسی کارکن ہوتے ہیں جنہیں وقتاً فوقتاً خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں نام نہاد سیکورٹی اداروں کے آپریشنز میں دہشت گرد کہہ کر مار کے دکھایا جاتا ہے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ خیبر پختونخواہ سمیت بلوچستان کے پشتون علاقوں میں نام نہاد تحریک طالبان پاکستان کے لیے عوامی حمایت شروع سے ہی موجود نہیں رہی ہے۔ حالانکہ ریاست نے بارہا کوشش کی ہے کہ وہ طالبان کے ذریعے یہاں پر پنپنے والی طبقاتی کشمکش اور قومی جبر کو نظر انداز کرنے کے لیے استعمال کرے۔ مگر ظاہر ہے کہ اس وقت پاکستان سمیت پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کی زوال پذیری کی وجہ سے لوگوں کی حالت زندگی میں بربادی کے سوا کچھ نہیں۔ لہٰذا طبقاتی کشمکش اس وقت پوری دنیا میں سطح پر آ چکی ہے۔

دوسری جانب ہم نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد ریاست نے کوشش کی کہ وہ خیبر پختونخواہ کے شمالی علاقوں میں دوبارہ سے ٹی ٹی پی کو انسٹال کرے۔ مگر پورے خیبر پختونخواہ کے غیور محنت کش عوام نے ریاستی پالیسی اور ان کے سامراجی عزائم کو خاک میں ملاتے ہوئے ”اولسی پاسون (دہشت گردی کے خلاف جاری عوامی تحریک)“ کے نام سے درجنوں شہروں اور مضافاتی علاقوں میں مزاحمتی لانگ مارچ کیے جن کے نتیجے میں ریاست گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئی۔

مگر ٹی ٹی پی اس وقت ریاست کے بحران اور دھڑے بندی میں مسلسل اپنی کاروائیاں کرتی جا رہی ہے اور اس کا ایک پیر افغانستان اور دوسرا پھر پختون خواہ کے علاقوں میں ہے۔ وہ مسلسل ریاستی سیکورٹی اداروں پر حملے کر رہی ہے جبکہ اس کے علاوہ ریاست پاکستان کے طالبان کے ساتھ بگڑتے ہوئے تعلقات بھی بظاہرٹی ٹی پی کی وجہ سے ہیں۔ ریاست پاکستان شروع دن سے اس دہشت گردی کا سارا ملبہ بظاہر افغان طالبان پر ڈال رہی ہے لیکن ان کے ساتھ مذاکرات بھی کر رہی ہے اور ان کو عالمی سطح پر تسلیم کروانے کی کوششیں بھی کر رہی ہے جبکہ دوسری جانب پاکستان میں مختلف دہائیوں سے آباد افغان مہاجرین کو دہشت گرد بنا کر پیش کیا گیا اور پچھلے سال ان کی جبری بے دخلی بھی کی گئی اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ یعنی بظاہر کشیدہ صورتحال کے باوجود پاکستان کے حکمرانوں کے افغانستان کے حکمرانوں اور دہشت گردوں سے یارانے ہیں لیکن محنت کش افغانیوں اور مہاجرین کے خلاف انتہائی غلیظ اور زہریلا پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے اور انہیں دہشت گرد قرار دیتے ہوئے جبری طور پر بیدخل کیا جا رہا ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

آپریشن عزم استحکام؛ ماضی اور حال

موجودہ آپریشن پرانے آپریشن سے کئی وجوہات کی بنیاد پر مختلف ہوگا۔ جس طرح تحریر میں اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ موجودہ آپریشن کا اعلان ایک ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے جب سرمایہ داری کی زوال پذیری اپنی انتہاؤں کی جانب گامزن ہے۔ جبکہ ریاست پاکستان کی اندرونی ٹوٹ پھوٹ، امریکی سامراج کے ساتھ تعلقات اور سب سے اہم عوامی حمایت کی عدم موجودگی اس اعلان شدہ آپریشن کو محض اعلان تک ہی محدود رکھ سکتی ہے۔ ایک تو یہ بحث کافی زیادہ مشہور ہے کہ اس آپریشن کو چین کی جانب سے سپانسر کیا جائے گا گوکہ چین نے ایسی کسی مالی امداد کو ابھی تک رد کیا ہے، جبکہ ساتھ ہی ساتھ گزشتہ ہفتے پاکستانی اور امریکی فوجیوں کی مشترکہ مشقیں بھی نظر آئی ہیں اور امریکہ میں پاکستانی سفیر نے باقاعدہ طور پر امریکی سامراج سے آپریشن عزم استحکام کو کامیاب بنانے کے لیے چھوٹے ہتھیاروں سمیت دیگر انفراسٹرکچر کی امداد کی اپیل کی ہے۔

سب سے اہم سوال یہ ہے کہ چینی سامراج کبھی بھی اتنے بڑے پیمانے پر ریاست پاکستان کو فنڈ نہیں دے سکتا جتنا امریکی سامراج نے وقتاً فوقتاً پاکستانی ریاست کو دیا تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ امریکی سامراج بھی اس پورے سلسلے میں خاموش تماشائی کی طرح نہیں بیٹھ سکتا بلکہ وہ بھی اپنا کردار ادا کرنے کے لیے ریاست پاکستان کو احکامات صادر فرمائے گا۔ کیونکہ ریاست پاکستان کی گماشتگی کی تمام تر رسیاں اس وقت بھی امریکی سامراج کے ہاتھوں میں ہیں اور وہ امریکی سامراج کی مرضی کے خلاف کوئی بھی آزادانہ کاروائی نہیں کر سکتا۔

دوسرا اہم نقطہ یہ ہے کہ اس وقت ریاست پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ آج سے 10 سال پہلے کی طرح ”ایک پیج“ پر نہیں ہے۔ اگرچہ لوٹ مار کیلئے اندرونی لڑائیاں تو ہمیشہ سے ہی موجود تھیں مگر آج یہ اندرونی لڑائیاں شدید بھی ہو گئی ہیں اور سب کے سامنے بھی آگئی ہیں۔ جن کا اظہار نہ صرف اسٹیبلشمنٹ کے اندر ہوتا ہے بلکہ مختلف ریاستی اداروں (پارلیمان، عدلیہ، میڈیا، سیکورٹی اداروں) اور سیاسی رجحانات میں بھی ہو رہا ہے۔ بالخصوص جرنیلوں کے حوالے سے کہا جائے تو اس وقت براہِ ر است آمریت مسلط نہیں لیکن اس کے باوجود بھی عوامی رائے عامہ جرنیلوں کو ہی مہنگائی، بیروزگاری سمیت تمام تر مسائل کا ذمہ دار قرار دیتی ہے۔ اسی طرح اعلیٰ افسران میں مال کی ریل پیل بہت زیادہ بڑھ چکی ہے جو کہ ادارے کی رگ رگ میں رچ بس چکی ہے۔ جبکہ ساتھ ہی ساتھ عوامی سطح پر فوج کا امیج حد سے زیادہ متنازعہ بن چکا ہے جہاں پر عوامی حمایت کا ناپید ہونا ایک اہم عنصر ہے۔ پنجاب سمیت پورے ملک میں اس وقت جرنیلوں کے ہر فیصلے کو ہی غلط کہا جا رہا ہے۔ یہی ایک اہم وجہ ہے کہ فوجی آپریشنز کے لیے عوامی حمایت ختم ہو چکی ہے۔

خیبر پختون خواہ کے بعض علاقوں میں عوامی جرگے ہو رہے ہیں جہاں پر یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ ہم اس فوجی آپریشن کو کسی بھی صورت میں کرنے نہیں دیں گے اور نہ ہی لوگ نقل مکانی کریں گے۔ اگر کسی آدمی نے نقل مکانی کرنے کی کوشش کی تو ان کو مبلغ 10 لاکھ روپے جرمانہ کیا جائے گا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مجوزہ آپریشن عزم استحکام کے سلسلے میں عوامی رائے یا عوامی شعور کس نہج پر موجود ہے۔

آپریشن عزم استحکام کے خلاف سیاسی پارٹیاں بھی میدان عمل میں آ چکی ہیں مگر یہاں پر واضح ہے کہ یہ تمام تر سیاسی پارٹیاں محض ریاست کے داخلی تضادات کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ کیونکہ جس وقت خیبر پختون خواہ میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشنز ہو رہے تھے، جن کا کوئی بھی نتیجہ نظر نہیں آرہا تھا، اُس وقت یہ تمام تر سیاسی رجحانات ان آپریشنز کی کھلم کھلا حمایت کر رہے تھے۔ آج جب حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں، عوامی شعور میں معیاری تبدیلی آ چکی ہے، تو یہ سیاسی پارٹیاں اپنی دکانداری چمکانے کے لیے حالات کا رخ دیکھ کر وار کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔کچھ کی دیوٹی لگائی گئی ہے کہ وہ کھل کر عوامی رائے عامہ کے مخالف سمت میں بیانیہ اتاریں جبکہ دیگر عوام کے ہمدرد بننے کا ناٹک کرہے اور موقع ملتے ہی عوام کی پیٹھ میں چھرا گھونپیں گے اور اپنے آقاؤں سے وفاداری ثابت کریں گے۔

جنگ مخالف صرف ایک حقیقی تحریک پی ٹی ایم کی شکل میں موجود ہے، جس کا مینڈیٹ یہی ہے۔ مگر تحریک کی قیادت کے پاس بھی مجوزہ آپریشن سمیت عمومی جدوجہد پر صرف جذباتی نعرے موجود ہیں۔ سیاسی پروگرام کی عدم موجودگی کی بنیاد پر تحریک سے جڑے ہوئے نوجوانوں میں مایوسی اور بے چینی پھیلنا ایک ناگزیر عمل ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہنا ضروری ہے کہ موجودہ آپریشن کے پراپیگنڈے نے مذکورہ تحریک کو ایک بار پھر موقع فراہم کیاہے کہ وہ کوئی ٹھوس سیاسی پروگرام دے۔ لیکن مذکورہ تحریک پر دوستانہ تنقید کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ ہم ان کے کام کو یکسر نظر انداز کریں۔ آج پشتون سماج میں طالبان اور جنگ مخالف جتنے بھی جذبات پائے جاتے ہیں ان کا اظہار ایک وقت میں پی ٹی ایم کے ذریعے ہوا تھا۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ حالات کا جبر بھی عوامی شعور کے تعین میں فیصلہ کن کردار کا حامل ہوتا ہے اور وہ شعور کافی آگے بڑھ چکا ہے جبکہ پی ٹی ایم کی قیادت ماضی میں ہی زندہ ہے۔آج مہنگائی، بیروزگاری، بجلی کے بل اور مالی دیوالیہ پن ایک اہم ترین ایشو ہے جو دہشت گردی اور ریاستی جبرکے خلاف موجود نفرت کے ساتھ مل کر زیادہ شدت اختیار کر رہا ہے۔ اس صورتحال میں کسی بھی سیاسی قوت کے پاس کسی بھی مسئلے کا انقلابی حل موجود نہیں اور نہ ہی موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں کوئی حل دیا جا سکتا ہے۔ اس لیے جو بھی عوامی غم و غصیکو اس نظام کی حدود میں قید رکھنے کی کوشش کرے گا وہ بری طرح ناکام ہوگا۔

اس کے علاوہ آپریشن عزم استحکام کے حوالے سے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر آپریشن کا آغاز ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں بہت سارے عناصر کھل کر اپنا اظہار کر سکتے ہیں۔ خاص کر پورے ملک میں عوامی غم و غصہ تحریک کی شکل میں سطح پر اپنا اظہار کر سکتا ہے۔ اب لوگ نام نہاد فوجی آپریشنز کو اپنے معاشی مسائل کے ساتھ جوڑ کر موازنہ کریں گے۔ عوامی حمایت کی عدم موجودگی میں اگر کاروباری مفادات کے لیے کوئی آپریشن مسلط کیا جاتا ہے توفوج اور عوام کے بیچ میں جھڑپیں بھی رونما ہو سکتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاسی پارٹیاں اپنی پوائنٹ سکورنگ کے چکر میں عوام کے سامنے مزید ننگی ہو کر سامنے آئیں گی اور عوام واضح طور پر دیکھ سکیں گے کہ بظاہر آپریشن کی مخالفت کرنے والے فیصلہ کن وقت پر دوسری جانب کھڑے ہوں گے۔

بحث کو سمیٹنے کے لیے یہاں پر ضروری ہے کہ ہم مذکورہ فوجی آپریشن سمیت دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کرنے کی بات کریں کہ دہشت گردی کے خلاف کیسے لڑا جا سکتا ہے۔ اس موضوع پر ہم نے بارہا تحریریں لکھی ہیں جو آپ ہماری ویب سائٹ پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان تحریروں میں ہمارا مؤقف یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے لیے ہمیں ریاستی اداروں اور مروجہ سیاسی پارٹیوں پر بھروسہ کرنے کی بجائے عوامی سطح پر جمہوری طریقے سے عوامی ایکشن کمیٹیاں تعمیر کرنا ہوں گی۔ یہ کمیٹیاں کارخانوں، مزدور یونینوں، عوامی اداروں، تعلیمی اداروں،ضلع، تحصیل، یونین کونسل سے لے کر گلی، محلے، تعلیمی اداروں اور کام کی جگہوں پر موجود ہوں۔ ان میں بالخصوص محنت کش طبقے کی نمایاں نمائندگی موجود ہو۔ جبکہ اس کے علاوہ ہم نے دہشت گردی کے سوال کو لے کر مہنگائی، بیروزگاری اور دیگر سوالات کے ساتھ بھی جوڑنا ہوگا اور ایک عبوری پروگرام کے تحت ہم اس لڑائی کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ اس وقت پاکستان میں عالمی مالیاتی سامراجی ادارے آئی ایم ایف کے احکامات پر جو پالیسیاں مرتب کی جا رہی ہیں ان پالیسیوں کے نتیجے میں پورے پاکستان کے محنت کش عوام میں بے چینی پھیل رہی ہے۔ اس بے چینی کے خلاف عوامی تحریکوں کی اٹھان کو کسی بھی صورت میں خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بالخصوص اگر ہم کشمیر کے غیور محنت کش عوام کی جدوجہد کا جائزہ لیں تو انہوں نے عوامی قوت کے بلبوتے پر عالمی مالیاتی سامراجی ادارے آئی ایم ایف کے احکامات کو زمین تلے دفن کر دیا۔

اس وقت خیبر پختون خواہ میں بھی بجلی کے سوال پر عوامی غم و غصہ موجود ہے جس کا اظہار خیبر پختون خواہ کے ضلع صوابی میں پچھلے کچھ عرصے کے دوران احتجاجی مظاہروں، ہڑتالوں اور جلسوں کی شکل میں ہونے جا رہا ہے۔ جن کو پورے خیبر پختون خواہ اور پاکستان میں پھیلانے کی ضرورت ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ خیبر پختون خواہ میں بجلی کے حوالے سے تحریک انصاف کے وزیراعلیٰ کی جانب سے جو اداکاری کی گئی، اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ خیبر پختونخواہ میں بجلی کے سوال پر کوئی عوامی تحریک نہ پنپے۔ ان ڈراموں میں خیبر پختون خواہ کے وزیراعلیٰ صاحب کو وفاقی حکومت کی بھرپور تائید حاصل ہے اور وفاق اور صوبے دونوں آپس میں محض زبانی کلامی حملے کرنے پر تلے ہوئے ہیں جس سے وہ عوام کو بیوقوف بنانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔

لہٰذا دہشت گردی کے مسئلے کو محنت کش عوام کو درپیش دیگر مسائل کے ساتھ جوڑتے ہوئے ایک مشترکہ ملک گیر جدوجہد کا آغاز کرنے کی ضرورت ہے۔ اس جدوجہد کا سب سے موثر اقدام ملک گیر عام ہڑتال ہے۔ ایک ملک گیر عام ہرتال محنت کش عوام کو ان کی حقیقی طاقت کا ادراک دے گی جو کہ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکنے کی جانب فیصلہ کن پیشرفت ہو گی۔ مگر یہ کام ایک ایسی انقلابی قیادت کر سکتی ہے جو رنگ، نسل، ذات، برادری، قبیلے، زبان، مذہب، مسلک وغیرہ سے بالاتر ہو کر محنت کش عوام کو طبقاتی بنیادوں پر منظم کرے۔ یعنی کہ ایک انقلابی کمیونسٹ پارٹی ہی یہ کام کر سکتی ہے، مزدوروں کی قیادت میں تمام مظلوم پرتوں کو متحد کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کا پروگرام صرف اسی پارٹی کے پاس موجود ہے۔

آج ہم پاکستان سمیت پوری دنیا میں ایسی ہی انقلابی قیادت تیار کر رہے ہیں۔ ہم ان تمام باشعور سیاسی کارکنان، طلبہ، نوجوانوں، کسانوں، مزدوروں اور مظلوم اقوام سے تعلق رکھنے والے محنت کش عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ آئیں اور انقلابی کمیونسٹ پارٹی کا حصہ بنیں، تاکہ ہم نہ صرف اپنے آج کو بلکہ آنے والی نسلوں کے مستقبل کو بھی تبدیل کر سکیں۔

ریاستی جبر مردہ باد!
دہشت گردی مردہ باد!
سامراجیت مردہ باد!
سرمایہ داری مردہ باد!
سوشلسٹ انقلاب زندہ باد!

Comments are closed.