|تحریر: آدم پال|
موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں صرف ارب پتی افراد یا ان کے نمائندوں کو ہی سیاست کا حق دیا گیا ہے۔ کروڑوں محنت کش افراد کے کسی نمائندے کو نہ تو سیاست کرنے کی اجازت دی جاتی ہے اور نہ انہیں اپنے حقوق کے لیے منظم ہونے کا کوئی بھی موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ حکمران طبقے کے افراداور نمائندوں کا تعلق سیاسی پارٹیوں سے ہو یا فوج سمیت کسی بھی ریاستی ادارے سے صرف ان کو ہی اس نظام میں اجازت دی جاتی ہے کہ وہ حکمرانی کر سکیں۔
پاکستان کے موجودہ سیاسی منظر نامے کی بھی یہی حقیقت ہے۔ ایک طرف عوام کے خون اور پسینے کی پیاسی تحریک انصاف کی حکومت ہے جس میں آٹے، چینی اور ادویات سمیت ہر بنیادی ضرورت کی اشیا کے مافیاز کا گٹھ جوڑ بر سر اقتدار ہے اور تمام ریاستی اداروں اورسامراجی مالیاتی اداروں کی پشت پناہی سے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ عوام بھوک، بیماری اور غربت سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں لیکن حکومت میں بیٹھے موٹے موٹے مگر مچھ محنت کشوں کی آخری بوٹی بھی نوچنے میں مشغول ہیں۔ حکومت کی تمام تر پالیسیوں کا مقصد ان مگر مچھوں کے پیٹ بھرنا اور ان کی لہو کی ہوس پوری کرنا ہے۔ گیس اور بجلی کے بلوں کی قیمتوں میں اضافہ ہو یا پھرادویات سمیت اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں آئے روز کا اضافہ اس کا مقصد عوام کی جیبوں میں موجود آخری سکہ بھی ان مگر مچھوں کی تجوریوں میں بھرنا ہے۔ ہر روز مہنگائی کے کوڑے عوام پر برسائے جاتے ہیں جبکہ اس درد پر اگر کوئی چیخ بلند ہو یا کسی بھی قسم کا احتجاج برپا کیا جائے تو بد ترین ریاستی جبر مسلط کر دیا جاتا ہے۔ پولیس سمیت تمام سکیورٹی اداروں اور عدلیہ کا مقصد عوام کی آہ و بکا اور احتجاج کے لیے بلند ہونے والی آواز کو بیدردی سے کچلنے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ یہ تمام ادارے برطانوی سامراج نے بنائے ہی اس لیے تھے تاکہ حکمران طبقے کی حاکمیت کو تحفظ دیا جاسکے اور محنت کشوں کو نسل در نسل غلامی کی زنجیروں میں جکڑا جا سکے۔ اسی مقصد کے لیے تمام قوانین بنائے گئے جو آج تک بھی موجود ہیں اور ان قوانین کا تحفظ کرنے کے لیے پارلیمنٹ سمیت تمام ادارے مسلسل اپنا کردار ادا کرتے رہتے ہیں۔
اس گھٹن کے ماحول میں عوام کی حقیقی تحریک کو کچلنے کے لیے اپوزیشن کی سیاست کو عوام پر مسلط کیا جا رہا ہے، جس میں ارب پتی افراد کا ایک اور ٹولہ اقتدار کی ہڈی حاصل کرنے کے لیے زبانیں باہر نکالے اپنی تعفن زدہ سیاست چمکانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ پی ڈی ایم کی تمام تر قیادت ایسے افراد پر مشتمل جن کی دولت کا اندازہ لگانا بھی عام شخص کے لیے مشکل ہے۔ فضل الرحمن سے لے کر بلاول اور مریم نواز تک، تمام افراد اربوں روپے کی دولت اور جائیداد کے مالک ہیں یا پھر اسے اربوں ڈالر تک بھی کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔ بلاول اور اس کی بہن آصفہ کی اپنی جائیداد اور دولت کا اندازہ لگانا شاید سندھ کے ایک ہاری کے لیے نا ممکن ہو جو صبح سے شام تک انتہائی بد ترین حالات میں مشقت کرتا ہے لیکن اس کے باوجوداپنے خاندان کے لیے دو وقت کی روٹی بھی پوری نہیں کر پاتا۔ کراچی اور حیدرآباد کی فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی حالت بھی زیادہ مختلف نہیں جو اٹھارہ گھنٹے تک روزانہ کام کرکے سرمایہ داروں کے لیے دولت کے انبار لگاتے جاتے ہیں لیکن ان کی اپنی زندگی مسلسل کم ہوتی جاتی ہے۔ محنت کشوں کی صحت اور تعلیم کی بنیادی ضروریات تو ان حکمرانوں نے کیا پوری کرنی تھی ان کی دو وقت کی روٹی بھی ان سے چھین لی گئی ہے اور اب لاکھوں محنت کش دن میں ایک وقت کی روٹی بھی بمشکل ہی حاصل کر پاتے ہیں۔ قابل علاج بیماریوں سے سسک سسک کر مرنے والوں کی تعداد بھی اب کئی گنا بڑھ چکی ہے لیکن کبھی کوئی ارب پتی سیاست دان یا میڈیا پر بیٹھے ان کے پالتو تجزیہ کار، اینکر اوردانشور اس حوالے سے ایک جملہ بھی نہیں بول پاتے۔ پی ڈی ایم میں موجود قوم پرست سیاستدانوں کی صورتحال بھی زیادہ مختلف نہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی ہو یا محمود خان اچکزئی کی پختونخوا ملی عوامی پارٹی، اختر مینگل کی پارٹی ہو یا ڈاکٹر عبدالمالک کی پارٹی، یہ تمام پارٹیاں بھی ارب پتی افراد کی رکھیل ہیں اور محنت کشوں کی نمائندگی کہیں بھی کسی بھی سطح پر موجود نہیں اور نہ ہی امارت اور غربت کی بڑھتی خلیج اور سرمایہ داروں کی لوٹ مار پر کبھی کوئی گفتگو ان میٹنگز میں موضوع بحث بنی ہے۔ ان تمام سیاسی پارٹیوں، خواہ وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں، ان کا مقصد امریکہ اور چین سمیت مختلف سامراجی طاقتوں کی کاسہ لیسی اور ان کی لوٹ مار کے لیے اپنی خدمات پیش کرنا ہوتا ہے۔ ان سیاسی قیادتوں کے ذریعے ہی یہ سامراجی طاقتیں یہاں کے عوام کو غلامی کی بیڑیوں میں جکڑ کر رکھتے ہیں اور اپنی لوٹ مار میں سے چند ٹکڑے ان مقامی حکمرانوں کی طرف بھی اچھال دیے جاتے ہیں۔ ان میں سے اگر کوئی حکمران تھوڑی سی بھی حکم عدولی کرے تو اسے عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے۔
اس ملک کے فوجی آمروں کی تاریخ بھی یہی کچھ بتاتی ہے اور آج فوج کے جرنیلوں کے جو اسکینڈل سامنے آ رہے ہیں وہ بھی اسی سلسلے کا حصہ ہیں۔ جنرل عاصم سلیم باجوہ کے پیزے کے کاروبار کا اسکینڈل اب زبان زد عام ہو چکا ہے اور ملکی سیاست میں اس پر کافی بحث بھی ہو چکی ہے۔ لیکن ابھی تک کسی بھی قسم کی کاروائی نہیں ہو سکی۔ اس سے پہلے بھی بہت سے جرنیلوں پر کرپشن کے الزامات لگ چکے ہیں جن میں سابقہ آمروں اور ان کے حواریوں سمیت بہت سے اعلیٰ افسران شامل ہیں لیکن حکمران طبقے کے باقی افراد کی طرح اس نظام کی موجودگی میں یہ سب بھی محفوظ ہیں۔ ان کے نام بھی منظر عام پر صرف آپسی لڑائیوں کے دوران آتے ہیں اور عاصم سلیم باجوہ کی اربوں روپے کی بد عنوانی اور لوٹ مار کے قصے بھی اسی لیے سامنے آئے کہ یہ سی پیک جیسے متناعہ منصوبے میں براہ راست ملوث تھا۔ اس منصوبے کے حوالے سے پاکستان کا حکمران طبقہ تو بڑے پیمانے پر مال بٹورنے کے لیے تیار ہے لیکن امریکہ اسے اپنے سامراجی اثر و رسوخ کے لیے خطرہ محسوس کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین کے اس سامراجی منصوبے پر اکثر میڈیا میں تنقید بھی نظر آتی ہے اور اس میں بلند شرحِ سود اور کرپشن کی کہانیاں بھی اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ یہ چین کے پاکستانی ریاستی اداروں میں اثر و رسوخ کی کمزوری کو بھی ظاہر کرتی ہے جسے پورا کرنے کی خواہش تو چین کے حکمران طبقے میں موجود ہے لیکن امریکی سامراج کا متبادل بننے کی صلاحیت ابھی تک اس میں موجود نہیں۔
دوسری جانب آئی ایم ایف کی پالیسیوں اور سودی قرضوں کے ذریعے لوٹ مار پر تمام حکمرانوں کا اتفاق رائے موجود ہے۔ سیاسی جلسوں اور ٹی وی شوز میں ایک دوسرے پر گالیوں کی بوچھاڑ کرنے والے اور ایک دوسرے کو جیلوں میں ڈال کر اذیت دینے کے بیانات دینے والے کبھی بھی آئی ایم ایف کی پالیسیوں کو نشانہ نہیں بناتے اور اس کے سامنے عدلیہ، پارلیمنٹ، جرنیلوں اور سیاستدانوں سمیت سب حکمرانوں کے سر خم ہو جاتے ہیں۔ بلکہ آئی ایم ایف سے قرضے کی قسط حاصل کرنے کے لیے جتنے بھی عوام دشمن اقدامات کرنے پڑیں انہیں نہ صرف خاموشی سے تسلیم کر لیا جاتا ہے بلکہ پوری ریاستی طاقت استعمال کرتے ہوئے عوام پر مسلط کر دیا جاتا ہے۔ اس کے لیے خواہ سکیورٹی اداروں کی طرف سے محنت کشوں پر گولی چلانی پڑے یا انہیں دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات میں پابند سلاسل کرنا پڑے اس میں کبھی بھی ہچکچاہٹ نظر نہیں آتی۔ حکومت اور اپوزیشن کی تمام سیاسی پارٹیاں یہی کچھ کرتی رہی ہیں اور آمریتوں میں بھی یہی کچھ ہوتا رہا ہے۔ میڈیا میں ایک بھی کالم نگار یا تجزیہ کار ان سودی قرضوں کی مخالفت کرتا نہیں دیکھا گیا جو ان کی عوام دشمن حقیقت کو بیان کرتا ہے بلکہ الٹا آئی ایم ایف کی پالیسیوں کو انتہائی ضروری بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور یہ جھوٹ بولا جاتا ہے کہ ان خون آشام پالیسیوں سے ہی ملک میں خوشحالی آئے گی۔
انہی پالیسیوں کے تحت ہی اسٹیل مل کے ساڑھے چا ہزار ملازمین کو نوکری سے نکال دیا گیا ہے جبکہ سوئی گیس، ریلوے، پی آئی اسے سمیت دوسرے سرکاری اداروں میں اسی قسم کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ان اقدامات کے اثرات نجی شعبے پر بھی مرتب ہوتے ہیں اور وہاں بھی اجرتوں میں کمی اور مزدور دشمن اقدامات میں اضافہ ہوتا ہے۔ پہلے ہی حکمرانوں کی پالیسیوں کے نتیجے میں کروڑوں افراد بیروزگار ہو چکے ہیں اور ملک میں بھوک سے مرنے والوں کی تعدادنئی انتہاؤں کو چھو رہی ہے لیکن حکمران طبقے کے مظالم کم ہونے کی بجائے بڑھتے جا رہے ہیں جبکہ دوسری جانب ان کی پر تعیش زندگیوں میں رتی برابر بھی کمی نہیں آئی۔ حکمرانوں کے اپنے ایوانوں کے لیے مختص بجٹ بڑھائے جا رہے ہیں اور ان کی عیاشیوں کے لیے عوام کے ٹیکسوں سے زیادہ اخراجات کیے جا رہے ہیں لیکن عوام سے زندگی بھی چھینی جا رہی ہے۔
اس حوا لے سے اب ایک انتہائی بڑا حملہ پنشن اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں پر کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے موجودہ حکومت نے پے اینڈ پنشن کمیشن 2020ء تشکیل دے دیا ہے جس کی نگرانی آئی ایم ایف کا منتخب کردہ نمائندہ حفیظ شیخ کر رہا ہے۔ اس کمیشن میں چودہ سو ارب روپے مالیت کے اس بجٹ کا جائزہ لیا جائے گا اور حتمی طور پر پنشن کو ختم کرنے کے اقداما ت کیے جائیں گے جنہیں بہت جلد عملی جامہ پہنانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ اسی طرح، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بھی بڑے پیمانے پر کٹوتی اور جبری پر برطرفیوں کے سلسلے کا آغاز کیا جائے گا۔ گوکہ ان تمام تر ظالمانہ اقدامات کو نئی لفاظی میں لپیٹا جائے گا اور انہیں ”اصلاحات“ یا عوام کی خوشحالی کے لیے خزانے پر بوجھ میں کمی جیسے الفاظ میں بیان کیا جائے گا۔ درحقیقت، اس ملک کے حکمران اس دھرتی پر سب سے بڑا بوجھ ہیں جو کہیں بھی بیان نہیں کیا جاتا۔ عوام کا خون چوسنے والی یہ بلائیں اب آئی ایم ایف کے احکامات کے تحت مزید کروڑوں لوگوں سے زندگی کی ڈور کھینچنے جا رہی ہے اور جو اس کیخلاف آواز بلند کرے گااس کیخلاف ریاستی جبر کا آغاز کر دیا جائے گا۔ پہلے ہی اس ملک کا وزیر داخلہ اعجاز شاہ برملا یہ کہہ چکا ہے کہ جو بھی حکومت کیخلاف آواز بلند کرتا ہے اسے دہشت گردوں کے ذریعے یا کسی بھی دوسرے طریقے سے خاموش کروا دیا جاتا ہے۔ درحقیقت،یہ حکمران طبقے کا اعتراف ہے کہ اپنی حکمرانی کو مسلط رکھنے کے لیے اور اس خونی نظام کو جاری رکھنے کے لیے حکمرانوں کو اگر اپنے مخالفین کی جانوں کی بلی بھی چڑھانی پڑے تو اس میں دیر نہیں کی جاتی۔ اگر اس ملک میں واقعی کوئی قانون، آئین یا کوئی قاعدہ موجودہوتا تو وزیر داخلہ کو سخت ترین سزا دی جا سکتی تھی لیکن اب شک و شبہ کے بغیر واضح ہو چکا ہے کہ یہاں حکمرانوں کا ننگا جبر موجود ہے اور اس کے لیے کسی بھی قسم کی حقیقی اپوزیشن برداشت نہیں کی جاتی۔
حکمران طبقے کے مظالم کو جاری رکھنے کے لیے جہاں بینکوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کا ایک پورا مالیاتی نظام موجود ہے وہاں پر اس مزدور دشمن مالیاتی نظام کے تحفظ کے لیے ریاستی ادارے بھی موجود ہیں۔ ضلعی انتظامیہ، پولیس اورعدلیہ کا کردار تو پہلے ہی محنت کش عوام پر واضح ہو چکا تھا کہ یہ کس طبقے کے تحفظ کے لیے موجود ہیں۔ ان ریاستی اداروں کے رگ و پے میں محنت کشوں سے شدید نفرت اور حقارت موجود ہے اور ہر قدم پر محنت کشوں کی تحقیر اور تذلیل کرنا یہ ادارے اپنا اولین فرض سمجھتے ہیں جبکہ دوسری جانب حکمران طبقے کا کوئی شخص خواہ کتنا ہی گھناؤنا مجرم کیوں نہ ہو اس کو بلند ترین مقام عطا کیا جاتا ہے اور اس کے تحفظ کے لیے ہر اقدام کیا جاتا ہے۔ اس سماج میں جو رسمی و غیر رسمی تعلیم دی جاتی ہے اس میں بھی یہی بنیادلازمی موجود ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹیوں اور کالجوں سے فارغ التحصیل افراد جب ان اداروں کا حصہ بنتے ہیں تو انہیں عوام دشمن کردار اپنانے میں ذرا بھی تامل نہیں ہوتا۔ اس نظام کے تحت دی گئی تعلیم میں بھی سب سے ضروری عنصر محنت کشوں سے نفرت کا ہی موجود ہوتا ہے جو ہر قدم پر طلبہ کے دماغوں میں انڈیلا جاتا ہے اور انہیں سامراجی آقاؤں کی اطاعت کے لیے باقاعدہ تیار کیا جاتا ہے۔ ٹی وی ڈراموں، فلموں، اخبارات اور دیگر تمام ذرائع بھی اس تاثر کو مزید مضبوط کرنے کا کردار ادا کرتے ہیں اور کبھی بھی مزدوروں کی جدوجہدوں اور تحریکوں کی پذیرائی نظر نہیں آتی بلکہ صرف ان کے کچلے جانے اور ان پر پولیس کے تشدد کی خبریں دکھائی دیتی ہیں۔ اس طرح اگر کبھی کسی مزدور پر ظلم دکھایا بھی جائے تو اس میں بیچارگی اور ذلت کو ہی ابھاراجاتا ہے اور حکمرانوں کی منافقانہ خیرات، شفقت اور دریادلی کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لیے محنت کشوں کی مزید تذلیل کی جاتی ہے۔
لیکن موجودہ حالات نے حکمرانوں کا حقیقی چہرہ عوام کے سامنے لانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ جن ریاستی اداروں کو تقدس کا درجہ دیا جاتاتھا ان کی بد عنوانی اور لوٹ مار اس آپسی لڑائی میں مزید کھل کر سامنے آ چکی ہے۔ ججوں اور جرنیلوں کی کرپشن کے نت نئے سکینڈل سامنے آنا اسی کا حصہ ہے۔ اسی طرح، ججوں اور اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز افراد کے جنسی سکینڈل اور ان کی ویڈیوز بھی منظر عام پر لائی جا رہی ہیں جو اس آپسی لڑائی کے باعث ہی ممکن ہوا ہے۔اسی طرح وزیر اعظم عمران خان نے بھی کہہ دیا ہے کہ ان کی تمام فون کالز باقاعدگی سے سنی جاتی ہے اور تمام گفتگو ملک کی خفیہ ایجنسیوں کے پاس محفوظ ہوتی ہے۔ ایسے میں یہ ان اداروں کیخلاف چارج شیٹ بھی ہے کیونکہ ماضی کے تمام وزرائے اعظم پر کرپشن اور بد عنونی کے الزامات ہیں اور ساتھ ہی ان پر ملک دشمن قوتوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ عاصم سلیم باجوہ کے پیزے کے کاروبار سے لے کر جہانگیر ترین کی چینی کے کاروبار میں لوٹ مار بھی اعلی ترین عہدوں پر فائز رہنے کے دوران ہی ممکن ہوئی۔ اس طرح ان کا تمام ریکارڈ بھی موجود ہونا چاہیے اور قانونی طور پر اسے عوام کے سامنے پیش کرنا چاہیے تاکہ ٹیکس ادا کرنے والے عوام اس لوٹ مار اور بد عنوانی کی حقیقت جان سکیں۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو یہ تاثر پیدا ہوگا کہ فون سننے والے پھر اس سب میں یا تو ملوث ہوتے ہیں یا اس کو آشیر باد دیتے ہیں۔ خود عمران خان کو نواز شریف اور زرداری کی بد عنوانی کے لیے کی جانے والی تمام فون کالز منظر عام پر لانی چاہیے اور اسی طرح اپنے ان وزیروں اور مشیروں کی فون کالز بھی سامنے لانی چاہیں جن پر پیسے لے کرادویات کی قیمتیں بڑھانے سے لے کر چینی اور آٹے کی لوٹ مارکرنے کے الزامات موجود ہیں۔ درحقیقت حکمران طبقے کی موجودہ لڑائی میں واضح ہو چکا ہے کہ سب ہی کرپشن اور لوٹ مار میں ملوث ہیں اور ایک دوسرے کے پاٹنر بھی ہیں لیکن سب مل کر اس نظام کو بھی جاری رکھنا چاہتے ہیں جو ان کی لوٹ مار کو تحفظ دیتا ہے۔
لیکن اب اس نظام کی بنیادیں پوری دنیا میں ہل رہی ہیں اور تاریخ کا بد ترین مالیاتی بحران پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ سمیت دنیا کی تمام بڑی معیشتیں لرز رہی ہیں اور تاریخ کی بد ترین معاشی گراوٹ کا شکار ہیں۔ ان معیشتوں کی ترقی کا بھانڈا بھی بیچ چوراہے پھوٹ چکا ہے جو اپنے عوام کو وینٹی لیٹر بھی فراہم نہیں کر سکیں اور لاکھوں افراد صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔ اسی طرح ترقی یافتہ ممالک میں کروڑوں افراد بیروزگار ہو چکے ہیں اور ان ممالک میں فٹ پاتھ پر زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد اب لاکھوں سے کروڑوں کی جانب بڑھ رہی ہے۔ امریکہ میں لاکھوں افراد خوراک کی کمی کا شکار ہیں جبکہ یورپ کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی بچوں سمیت لاکھوں افراد غذائی قلت کا شکار ہو رہے ہیں۔ ایسے میں پاکستان جیسے ملک کی معیشت کو بہتر کرنا یا اس نظام میں رہتے ہوئے کسی بھی قسم کی بہتری کی امید رکھنا بیوقوفی کے سوا کچھ نہیں۔ اگرکوئی یہ سمجھتا ہے کہ حکومت کی تبدیلی سے بیروزگاری اور مہنگائی کم ہوگی یا اجرتو ں میں اضافہ ہوگا تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ نام نہاد جمہوریت کی جگہ اگر براہ راست آمریت مسلط کر دی جائے یا پھر اپوزیشن پارٹیاں اقتدار میں آ جائیں اس ملک کے حالات کسی بھی صورت بہتر نہیں ہو سکتے بلکہ وقت کے ساتھ اس میں مزید گراوٹ ہی آئے گی، گو کہ حکمرانوں کی دولت کے انبار مسلسل برھتے چلے جائیں گے خواہ وہ حکمران وردی والے ہوں یا وردی کے بغیر۔
اسی طرح، اس ملک کی سامراجی کاسہ لیسی بھی بدستور جاری رہے گی اور چین اور امریکہ سمیت سعودی عرب، ترکی اور خطے کے دوسرے ممالک کے سامنے بھی غلام کی حیثیت نہ صرف برقرار رہے گی بلکہ غلامی کی شرائط بھی سخت ہوتی چلی جائیں گی۔ پہلے ہی اسرائیل کی صیہونی ریاست کو تسلیم کرنے کے احکامات جاری ہوچکے ہیں اور غلام کے پاس حکم عدولی کی آپشن بھی موجود نہیں۔ فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کو نظر انداز کر کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے دلائل کا آغاز بھی میڈیا پراپنے گماشتوں کے ذریعے کروا دیا گیا ہے۔ ان دلائل کے مطابق لاکھوں فلسطینیوں کے خون کا سودا کرکے اور فلسطین کی آزادی کی تحریک سے غداری کرنے کی کہیں زیادہ قیمت وصول کی جاسکتی ہے اور اس لیے حکمرانوں کو اپنی جیبوں کی جانب دیکھنا چاہیے نہ کہ اسرائیل کی سامراجی ریاست کے مظالم کو۔ اس سے پہلے بھی سامراجی آقاؤں کے حکم پر فلسطینیوں کا خون بہایا گیا تھا جب 1970ء میں بریگیڈئر ضیا الحق کی قیادت میں فوج کے ایک دستے نے اردن میں فلسطینیوں کا قتل عام کیا تھا۔ اس واقعہ پرآج بھی فلسطینی سیاہ ستمبر کے نام سے ہر سال سوگ مناتے ہیں۔ اسی سامراجی غلامی کے تسلسل میں اب اگر یہ انسان دشمن اقدام کرتے ہوئے اسرائیل کو تسلیم کر لیاجاتا ہے تو بھی یہ اس غلیظ حکمران طبقے کا پہلا یا آخری فیصلہ نہیں ہوگاجو ہر سامراجی جنگ میں مظلوموں کا خون بہانے کے لیے تیار ہوتا ہے تا کہ اس کی اپنی حکمرانی اور لوٹ مار قائم رہے۔ کشمیر کی آزادی کی تحریک کے ساتھ بھی غداری کی ایک طویل داستان ہے جو اب اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہی ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں تو پہلے ہی سقوطِ کشمیر کی اصطلاح استعمال کر رہی ہیں جس پر موجودہ حکمرانوں کی جانب سے مکمل خاموشی نظر آتی ہے۔
لیکن یہ تمام واقعات عوام کے شعور پر گہرے اثرات مرتب کر رہے ہیں اور پورے سماج میں ایک بنیادی تبدیلی کے آثار ابھر رہے ہیں۔ اس سماج پر جس طرز سے اب تک حکمرانی کی جاتی رہی ہے اب اس طرح ممکن نہیں۔ یہاں جو نظریات اور بنیادیں حکمرانی کے لیے بنائی گئیں تھیں وہ ایک ایک کر کے ختم ہوتی جا رہی ہیں اور حکمرانوں کے پاس عوام کو دینے کے لیے اب کچھ بھی نہیں۔ جو منافقانہ نعرے کئی دہائیوں سے لگائے جاتے رہے ہیں، ان کی کھوکھلی حقیقت داخلی اور خارجی محاذوں پر واضح ہوچکی ہے۔ آئی ایس آئی کے ایک سابقہ سربراہ جنرل اسد درانی کے مطابق تو اب انڈیا کی دشمنی بھی پاکستان کے لیے اہمیت کی حامل نہیں۔ یہ موصوف پہلے انڈیا کی خفیہ ایجنسی کے سابقہ سربراہ کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ کتاب بھی شائع کروا چکے ہیں اور ان دونوں کی دوستی کے قصے بھی بہت مقبول ہوئے تھے۔ امریکہ اور انڈیا کی بڑھتی قربت کے باعث پاکستان کے حکمرانوں کا ایک حصہ بھی اسی کیمپ کے ذریعے مزید مال بٹورنے کے حق میں ہے جس میں نواز شریف بھی سر فہرست ہے۔ کشمیر پر مودی کے غاصبانہ قبضے کے بعد پاکستان کے موجودہ حکمرانوں کی عدم مزاحمت بھی اسی جانب اشارہ دیتی ہے جو اس تمام تر سامراجی کھیل کا پردہ چاک کرنے کے لیے کافی ہے۔
یہ تمام اقدامات حکمرانی کے تمام پرانے طریقوں کی متروکیت کا بھی اعلان کر رہے ہیں۔ برطانوی سامراج کی بنائی گئی ریاست ہو یا ان سامراجی نظریات کے تحت ترتیب دی گئی خارجہ و داخلہ پالیسیاں۔ اس سماج پر مسلط کردہ سیاست ہو یا ملٹی نیشنل کمپنیوں اور بینکوں کی رکھیل معیشت، سامراجی اداروں میں ترتیب دیا گیا تعلیمی نصاب ہو یا سرمایہ داروں کا گماشتہ میڈیا، پورے کا پورے نظام اور اس کی بنیادیں ہی لرز رہی ہیں۔ اس خونی نظام کو حتمی طور پر چیلنج کرنے اور اسے جڑ سے اکھاڑ دینے کی اگر کوئی طاقت رکھتا ہے تو وہ اس ملک کا محنت کش طبقہ ہے۔ یہ موجود صنعتیں ہوں یا مواصلات اور بجلی، پانی کا انفراسٹرکچر، پورا سماج محنت کشوں کا مرہون منت ہے۔ لیکن جو اس نظام کو حقیقی طور پر چلاتے ہیں وہ اس کے مالک نہیں۔ ملکیت کے رشتوں کو صرف ایک انقلاب کے ذریعے ہی تبدیل کیا جا سکتا ہے اور سرمایہ داروں کی تمام تر ملکیت، بینکوں میں موجود دولت اور صنعت کے کلیدی حصوں کو محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں لیتے ہوئے ہی تمام تر ظلم اور استحصال کا مکمل خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ کشمیر اور گلگت بلتستان سے لے کر بلوچستان تک تمام مظلوم قومیتوں کے حقوق ہوں یا مزدوروں اور کسانوں کو بنیادی ضروریات کی فراہمی، اس سب کو یقینی صرف ایک سوشلسٹ سماج میں بنایا جا سکتا ہے اور اس کے لیے اس لوٹ کھسوٹ کے نظام کے خلاف ایک انقلابی بغاوت کو منظم کرنا ہوگا۔اس کے علاوہ نجات کا کوئی رستہ نہیں۔