|تحریر: فضیل اصغر|
آج سے ٹھیک ایک سال پہلے 13اپریل 2017ء کے دن مشال خان کو اپنے اور دیگر طلبہ کے حقوق کی لڑائی لڑنے کی پاداش میں یونیورسٹی انتظامیہ اور ریاست کی پشت پناہی میں مذہب کا سہارا لیتے ہوئے انتہائی درندگی سے مردان یونیورسٹی میں شہید کر دیا گیا۔ جس انداز سے مشال خان کو مارا گیا وہ مناظر کوئی بھی باحس انسان دیکھ تک نہیں سکتا۔ اس وحشیانہ جرم میں اے این پی کا طلبہ ونگ پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن، پی ٹی آئی کا طلبہ ونگ انصاف سٹوڈنٹ فیڈریشن اور جماعت اسلامی کا طلبہ ونگ اسلامی جمعیت طلبہ شامل تھیں۔ تمام تر شواہد سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس عمل میں یونیورسٹی انتظامیہ اور ریاست، دونوں کی پشت پناہی موجود تھی۔ مشال خان مسلسل یونیورسٹی انتظامیہ کی کرپشن، فیسوں میں اضافے اور طلبہ کو درپیش دیگر مسائل کے حل کیلئے جدوجہد میں سرگرم عمل تھا۔ اس کا ثبوت مشال کے قتل ہونے سے کچھ ہی دن پہلے ایک ٹی وی چینل کو دیئے گئے انٹرویو سے ہو جاتا ہے۔
مشال کو اس جدوجہد کی پاداش میں حکمران طبقے نے عبرت ناک موت دینے کی ناکام کوشش کی۔ یونیورسٹی انتظامیہ کو یہ لگ رہا تھا کہ شاید توہین مذہب کے نام پر مشال کو مروا دیا جائے تو اس کے بعد کسی کو بات کرنے کی جرات نہیں ہوگی۔ اس طرح وہ بڑے آرام سے اس آواز کو خاموش کر دیں گے جو انتظامیہ کی اپنی کرپشن کے خلاف اٹھ رہی ہے، لیکن نتیجہ اس کے بالکل برعکس نکلا۔ مشال خان پر توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگا کر اسے مروا تو دیا گیا مگر اس آواز کو جسے یونیورسٹی انتظامیہ خاموش کرانا چاہتی تھی نہ کرا سکی۔ مشال خان کی شہادت پر پورے ملک میں مشال سے ہمدردی اور اس کے قاتلوں کے خلاف نفرت پھیلنا شروع ہوگئی۔ مشال خان کے لئے پورے پاکستان میں بے شمار احتجاج ہوئے۔ کئی تعلیمی اداروں میں طلبہ نے بغیر کسی پلیٹ فارم یا تنظیم کے خود رو احتجاج بھی کیے۔ اس طرح وہ آواز جو مردان یونیورسٹی کے اندر خاموش کرانے کی کوشش کی گئی تھی پورے ملک میں گونج اٹھی۔
آغاز میں میڈیا نے اپنے روایتی انداز میں مشال خان کے بہیما نہ قتل کو عوام سے چھپانے کی کوشش کی مگر سوشل میڈیا پر متعدد ویڈیوز آجانے کے بعد بڑھتے عوامی دباؤ کی وجہ سے بالآخر میڈیا کو بھی یہ خبر دکھانا پڑگئی۔ اس طرح یہ واقعہ مشہور ہونا شروع ہوگیا اور مشال خان کی لئے عوامی ہمدردی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اس کے خوف سے آخر کار ریاست کو بھی ہاتھ پیر چلانے کا ناٹک کرنا پڑا اور قاتلوں کی تلاش کا آغاز ہوا۔ ایک لمبے عرصے تک مشال خان کے والد کو اس کیس کے لئے شدید پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ نام نہاد عدالتوں کا گھٹیاکردار ویسے بھی عام لوگوں پر واضح ہے اور وہ جانتے ہیں کہ یہاں صرف پیسوں سے انصاف ملتا ہے۔ عوامی دباؤ کے نتیجے میں ریاست کے اس خصی ادارے کو بھی کچھ نہ کچھ کرنا پڑا۔ تقریباً دس ماہ مشال خان کے والد کو ذلیل کرنے کے بعد بالآخر انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے متوقع گھٹیا فیصلہ سنا دیا گیا جس میں ایک کو سزائے موت، پانچ کو عمر قید، پچیس کو تین سال قید اور چھبیس ملزمان کو ناکافی شواہد کی بنیاد پر با عزت بری کر دیا گیا۔ حکمران طبقے کی ان نام نہاد عدالتوں سے اور توقع بھی کیا کی جا سکتی ہے۔ یہاں ہر غریب انسان کی مجبوری کا کھل کر مذاق اڑایا جاتا ہے۔ لہذا ایسی عدالتوں اور ایسی ریاست کے رہنے کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا۔ حقیقی انصاف کیلئے اسے (حکمران طبقے کی ریاست) کو اکھاڑ پھینکنا ہوگا اور ایک مزدور ریاست قائم کرنی ہوگی۔ اسی طرح اس واقعے نے ریاست کی بی ٹیم یعنی نام نہاد قوم پرستوں کی تاریخی متروکیت کا کھل کر اظہار کیا۔ اے این پی کی طلبہ ونگ پی ایس ایف جو کسی دور میں بائیں بازو کی سیاست کیا کرتی تھی اور ترقی پسندی کے نظریات کی وجہ سے مشہور تھی، نے اس انسانیت سوز واقعہ میں قائدانہ کردار اداکیا۔ اس گھٹیا حرکت سے انہوں نے اپنا حقیقی چہرہ سب کے سامنے عیاں کر دیا۔
مشال کی فیسوں میں کمی اور انتظامیہ کی کرپشن میں کے خلاف اٹھنے والی آواز، اس کے جسم کے ساتھ زمین میں دفن نہ ہو پائی اور متعدد یونیورسٹیوں میں انہی مسائل پر ہونے والے احتجاجوں کی صورت میں پھر سے بلند ہونا شروع ہوگئی۔ مثلا قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں بننے والی طلبہ کی شاندار تحریک، جس نے فیسوں میں اضافے کو روک ڈالا۔ ڈیرہ غازی خان میں انڈس انسٹیٹیوٹ کی انتظامیہ کے خلاف طلبہ کی شاندار تحریک، بولان میڈیکل کالج کے انٹری ٹیسٹوں میں ہونے والی بے ضابطگیوں کے خلاف کوئٹہ کے طلبہ کی عظیم تحریک، انٹر بورڈ کے غلط نتائج کے خلاف ملک بھر میں ہونے والے احتجاج اور امپیریل کالج لاہور کے طلبہ کا جعلی ڈگریوں کے خلاف بہت بڑا احتجاج اور دھرنا۔ سب سے اہم واقعہ پشاور یونیورسٹی میں ریاستی پشت پناہی میں بننے والا متحدہ طلبہ محاذ نامی فورم ہے جس میں اسلامی جمعیت طلبہ، پشتون سٹوڈنٹ فیڈریشن اور انصاف سٹوڈنٹ فیڈریشن نمایاں ہیں۔ اسے طلبہ تحریک کو ہائی جیک کرنے کیلئے خود بنوایا گیا، اس کی مصنوعی حمایت پیدا کروانے کی کوشش کی گئی جو انتہائی بری طرح ناکام ہوئی اور اسے پشاور یونیورسٹی کے طلبہ نے رد کر دیا۔ اس کے علاوہ بھی پورے ملک میں اور کئی احتجاج ہوئے۔ اس طرح مشال خان کی حق کے لئے بلند کی گئی آواز نے مشال خان کی شہادت کے ساتھ اپنے آپ کو اور زیادہ اونچا کر لیا۔ یہاں سب سے اہم بات سمجھنے کی یہ ہے کہ جو آواز مشال خان اٹھا رہا تھا وہ محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے ہر طالب علم کی آواز تھی۔ ان سب کے مسئلے بھی وہی ہیں جن کا ذکر مشال خان نے کیا تھا۔
سرمایہ دارانہ نظام کے عالمی بحران کے دور میں آ ج تعلیم ایک انتہائی منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ سرکاری اداروں میں بھی فیسوں میں مسلسل اضافہ کیاجا رہا ہے جس کی بنیادی وجہ پاکستان کی تیزی سے گرتی ہوئی معیشت ہے۔ اس وقت پاکستان کا کل بیرونی قرضہ 90ارب ڈالر کے قریب پہنچ چکا ہے جس میں سی پیک کے قرضوں نے ابھی شامل ہونا ہے۔ اسی طرح قرضے لینے کی رفتار میں آئے روز شدت ہی آتی جا رہی ہے۔ اس تمام تر صورت حال میں یہاں کا حکمران طبقہ اس بحران کا تمام تر بوجھ پھر محنت کش طبقے پر ڈال رہا ہے جس کے نتیجے میں عام لوگوں سے ان کی ہر بنیادی سہولت چھینی جا رہی ہے۔ چاہے صحت کا شعبہ ہو یا تعلیم کا، ہر جگہ نجکاری کی جارہی ہے (یعنی کہ ان سرکاری اداروں کو بیچا جا رہا ہے)۔ ایسی صورت حال میں تحریکوں کا ابھرنا ناگزیر ہے۔ اسی وجہ سے ہم پچھلے کچھ عرصے سے طلبہ اور محنت کشوں کے بڑھتے ہوئے احتجاج اور تحریکیں دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان جیسی معیشت کے پاس اس نظام میں رہتے ہوئے قرضے لینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں لہذا آنے والے عرصے میں بحران کے شدت اختیار کرنے کی وجہ سے مزید عوام دشمن پالیسیاں اپنائی جائیں گی اور اس کے نتیجے میں ہم بڑے بڑے احتجاج اور ہڑتالیں دیکھیں گے۔
پاکستان کی خصی اور جابر ریاست کی جابرانہ اور عوام دشمن پالیسیاں روز اول سے ہی جاری تھیں جس کے نتیجے میں اس کے خلاف کئی تحریکوں نے جنم لیا۔ حتی کہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی عوامی بغاوت کے کامیاب انقلاب پر منتج نہ ہونے کا نتیجہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں نکلا۔ مظلوم قومیتوں پر اس ریاست کی جانب سے شدید ترین جبر کیا گیا ہے۔ ہزاروں لوگوں کی لاشوں کو مسخ کیا گیا (جو بلوچستان میں ابھی بھی کیا جا رہا ہے )۔ ڈالر جہاد کی صورت میں پشتون عوام کی زندگیوں کو تباہ و برباد کر دیاگیا۔ آج اس جابر ریاست کی جابرانہ پالیسیوں کی وجہ سے اس کے خلاف ہر طرف بغاوتیں جنم لے رہی ہیں۔ اس وقت پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کی صورت میں پشتون عوام نے ایک بڑی تحریک کا آغاز کیا ہوا ہے۔ طویل عرصے کی مسلسل برداشت کے بعد بالآخر پشتون عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور ایک عظیم الشان تحریک نے جنم لیا۔ اس وقت یہ تحریک اپنے عروج پر ہے اور لاکھوں کے مجمعے اکٹھے کر رہی ہے جن میں موجود لاکھوں لوگ حقیقی جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس تحریک کا مکمل میڈیا بلیک آوٹ کیا جا رہا ہے۔ ریاست کی جانب سے اس کے خلاف گھٹیا ترین پروپیگینڈا کیا جا رہا ہے مگر یہ تحریک آگے ہی بڑھتی جا رہی ہے۔ یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستانی ریاست ایک جابر ریاست ہے جس کے ہاتھ مشال خان جیسے بے شمار معصوم حق گو انسانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ یہ حکمران طبقے کی ریاست ہے اور اس طبقے کے مفادات کے تحفظ کے لئے محنت کشوں اور مظلوموں کی آواز کو دبانے کا ایک آلہ ہے۔ آج اس ریاست کے خلاف ایک بڑی تحریک کو منظم کرنے ضرورت ہے جس میں تمام مظلوم قومیں اور محنت کش طبقہ شامل ہو۔ کیونکہ اس ریاست نے ان دونوں پر مسلسل جبر کیا ہے (مختلف اشکال میں) لہذا ان دونوں کو اس کے خلاف مل کر جدوجہد کرنا ہوگی۔ صرف یہی اتحاد کامیابی کا واحد رستہ ہے۔ سب سے اہم بات سمجھنے کی یہ ہے کہ یہ محنت کش طبقہ ہی ہے جو اس ملک کو چلا رہا ہے اور ایک عام ہڑتال کی صورت میں پورے ملک کو جام کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ اس کی اس عظیم الشان طاقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس جابر ریاست کو نہ تو بندوق سے شکست دی جا سکتی ہے اور نہ ہی سامراجی امداد سے (سامراج نے ہمیشہ اپنے مفادات کیلئے تحریکوں کو خون میں ڈبویا ہے)۔ اس کو صرف ایک عام ہڑتال کی صورت میں ہی جام کر کے شکست دی جا سکتی ہے۔
مشال خان، ہزاروں مظلوم پشتونوں، بلوچوں اور دیگر مظلوموں کے اس جابر ریاست کے ہاتھوں قتل ہونے کا بدلہ صرف اس جابر ریاست کو اکھاڑ کراور اس کی جگہ اپنی ریاست (مزدوروں، کسانوں اور مظلوموں کی)قائم کرکے ہی لیا جا سکتا ہے۔ ایک ایسی ریاست جس کے مفادات محنت کش طبقے سے جڑے ہوئے ہوں اورجس کا مقصد پیسے والوں کا تحفظ کرنے کی بجائے انسانیت کی فلاح ہو۔
جابر ریاست کے خلاف جدوجہد تیز ہو!
مشال کی راہ ہماری ہے، جنگ ہماری جاری ہے!
ایک کا دکھ، سب کا دکھ!
سوشلسٹ انقلاب زندہ باد!