|رپورٹ: پروگریسیو یوتھ الائنس، لاہور|
4 اگست 2018ء کو ہفتہ کے دن لاہور میں ریجنل مارکسی سکول کا انعقاد کیا گیا جس میں دو سیشن تھے،’’عالمی اور پاکستان تناظر‘‘ اور ’’ریاست اور انقلاب‘‘۔ پہلے سیشن میں لیڈ آف عدیل زیدی نے دی اور چیئر سہیل راٹھور نے کیا۔
عدیل زیدی نے بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں بہت بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ امریکہ جیسا سامراج اپنی تاریخ کے بد ترین دور سے گزر رہا ہے۔ ٹرمپ کے امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے کے دعوے خاک میں ملتے ہوئے نظر آ رہے ہیں اور امریکہ مزید زوال کی طرف بڑھ رہا ہے۔ چین کے بڑھتے ہوئے کردار سے بھی امریکہ خوفزدہ ہے اور چین کے ساتھ تجارتی جنگ کا آغاز کر چکا ہے۔ چین بھی اپنی لوٹ مار میں اضافہ کرنے کے لئے حسبِ توفیق ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔ لیکن چین بھی سرمایہ داری کے حتمی بحران کے دور میں ابھرنے والا سامراج ہونے کی وجہ سے وہ کردار ادا نہیں کر پا رہا جو گذشتہ سامراجوں نے کیا۔ اس کے علاوہ لندن میں ٹرمپ کے خلاف ہونے والے احجاج، برطانیہ میں بڑھتا سیاسی عدم استحکام، میکسیکو میں آملو کی فتح، وینز ویلا میں تحریک کا تناظر یا ایراق میں ہونے والے احتجاج غیر معمولی واقعات ہیں۔ پاکستان پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان بھی شدید معاشی اور سیاسی بحران کی لپیٹ میں ہے۔ حالیہ الیکشن نے حکمران طبقے کو بری طرح بے نقاب کیا ہے۔ ممکنہ وزیرِ خزانہ بھی آئی ایم ایف کی غلامی کو قبول کر چکا ہے اور اقتدار میں آنے کے 100 دن کے اندر 200 اداروں کو بیچنے کا منصوبہ بھی بنا چکا ہے۔ یہ تمام تر صورتحال پاکستان میں مزید عدم استحکام پیدا کرے گی اور بحران مزید گہرا ہوگا۔ آنے والے عرصے میں ہم بہت بڑی عوامی تحریکیں دیکھیں گے۔ انقلابی پارٹی تحریک کے وقت تیار نہیں ہوسکتی، اس کے لئے ہمیں ابھی سے اپنے کام کو تیزی سے بڑھانا ہوگا تاکہ مستقل میں ابھرنے والی تحریکوں کو کامیاب بنایا جا سکے۔
اس کے بعد رائے اسد نے کہا کہ عالمی صورتحال سے پاکستان بھی بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ امریکہ اور چین کے تنازعے میں پاکستانی ریاست بھی دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے جس کے اثرات ہمیں الیکشن میں بھی نظر آتے ہیں۔ یہ الیکشن پاکستان یا شائد دنیا کی تاریخ کا غلیظ ترین الیکش تھا۔ عمران خان کو اکثریت دینے کے لئے سر توڑ کوشش کی گئی۔ اس الیکشن نے اداروں کی رہی سہی ساکھ کو کاری ضرب لگائی ہے اور عمران خان تھوڑے ہی وقت میں بری طرح بے نقاب ہوا ہے۔ آئے روز کوئی نہ کوئی سکینڈل سامنے آتا ہے اور ریاست ایک مذاق بن چکی ہے۔ ماضی میں ایم کیو ایم اور ق لیگ کو گالیاں دینے کے بعد اب ان سے اتحاد ہو یا، لوٹوں کو پارٹی میں شامل نہ کرنے کے دعوے ہوں یا آزاد امید واروں کو خرید کر سیٹوں میں اضافہ کرنا، عمران خان نے اتنے یوٹرن لیے ہیں کہ کوئی چاہتے ہوئے بھی اس کا دفاع نہیں کر سکتا۔ بہت کم وقت میں پی ٹی آئی بھی عوامی غصے کا مرکز بنے گی جس کے آثار ابھی سے نظر آ رہے ہیں۔ سرکاری اداروں کی نجکاری سے محنت کش احتجاج کریں گے اور ایک دوسرے کے ساتھ جڑت بنائیں گے۔ پاکستان میں وہ تمام آتشگیر مواد موجود ہے جو کسی بڑے دھماکے کے لئے درکار ہے۔
محمد شہزاد نے کہا کہ مستقبل میں پاکستان میں انتہائی دلچسپ اور خوفناک صورتحال بنتی نظر آرہی ہے۔ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے بعد ان کی شرائط پر عمل کرنا پاکستان کے لئے لازم ہے۔ پاکستانی ریاست کے بحران سے نکلنے کا تمام راستے بند ہو چکے ہیں اور ہر ناکام کوشش مزید تضادات کو جنم دے رہی ہے۔ آخر میں عدیل زیدی نے اختتامیہ کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ ایک درست تناظر بنانا انقلابی پارٹی کی بقا کا سوال ہوتا ہے کیونکہ درست تناظر کے بغیر درست حکمتِ عملی نہیں بنائی جا سکتی۔ ہمارا تناظر تحریکوں کا تناظر ہے اس لئے ہمیں اس تناظر کے حساب سے ایک ایسی پارٹی بنانا ہوگی جو لوگوں کو اس جہنم سے نکال کر ایک انسانی سماج میں رہنے کا موقع فراہم کرے۔
اس کے بعد دوسرا سیشن شروع ہوا جس کا موضوع ’’ریاست اور انقلاب‘‘ تھا۔ لیڈ آف محمد شہزاد نے دی اور چیئر رائے اسد نے کیا۔ لیڈ آف شروع کرتے ہوئے شہزاد نے کہا کہ ہمارے لیے ریاست کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ریاست کیا ہے اور اس کا آغاز کیسے ہوا؟ ریاست کے آغاز کی تاریخ بتاتے ہوئے شہزاد نے کہا کہ ریاست ازل سے موجود نہیں تھی۔ جب تک طبقاتی تفریق نہیں تھی اس وقت تک ریاست بھی نہیں تھی۔ طبقاتی تفریق کے ساتھ ریاست کا بھی جنم ہوا تاکہ نجی ملکیت سے محروم طبقے کو قابو میں رکھا جا سکے۔ چونکہ یہ ازل سے موجود نہیں ہے اس لئے طبقاتی تفریق کے خاتمے کے ساتھ ریاست کا خاتمہ بھی ممکن ہے۔ شہزاد نے کہا کہ انقلاب میں محنت کش طبقے کے لئے لازم ہے کہ وہ پرانی ریاستی مشینری کا خاتمہ کرے اور ایک مزدور ریاست بنائے۔
اس کے بعد آفتاب اشرف نے کہا کہ لینن نے یہ کتاب 1917 میں لکھی تھی جب ردِ انقلاب حاوی تھا۔ لینن اس وقت کئی نتائج تک پہنچ چکا تھا۔ ریاست کوئی بے جان چیز نہیں ہے بلکہ زندہ افراد پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ توقع کرنا کہ انقلاب میں یہ ریاستی مشینری محنت کش طبقے کے لئے کام کرے گی، ایک بیوقوفی ہوگی۔ تاریخ نے بارہا یہ ثابت کیا ہے کہ ایسا ممکن نہیں۔ انقلاب کے بعد سوشلزم میں بھی ریاست موجود ہوگی کیونکہ فوری طور پر ایسا ممکن نہیں کہ سب کو ان کی ضرورت کے مطابق دیا جا سکے۔ بلکہ سب سے ان کی اہلیت کے مطابق کام لیا جائے گا اور اس کام کے بدلے دیا جائے گا اور یہ نا انصافی ہے۔ جب تک تک نا انصافی موجود ہے، ریاست موجود رہے گی۔ جب ذرائع پیداوار ترقی کریں گے اور افراط پیدا ہوگی تو یہ ممکن ہوگا کہ سب سے ان کی اہلیت کے مطابق کام لیا جائے اور ان کی ضرورت کے مطابق دیا جائے۔ اس سے ناانصافی اور طبقاتی تفریق دونوں کا خاتمہ ہو جائے گا اور اس کے ساتھ ہی ریاست بھی ختم ہو جائے گی۔ وہ ایک انسانی سماج ہوگا۔