اک فقیرِ آوارہ؛ اک صدائے مستانہ
وہ خمارِ دلسوزاں؛ وہ قرارِ خوبانہ
لفظ عاجزانہ ہیں؛ شعر والہانہ ہیں
پھر بھی ہو سکے گا کب ذکرِ خوئے جانانہ
چیختے چلے آؤ؛ دھاڑتے چلے جاؤ
جستجو شکیبانہ؛ اور ملالِ رندانہ
اس کی مسکراہٹ پر ہے نثار یہ دنیا
اس کی خفتگی پر تو ڈول جائے میخانہ
دل کا وہ سکندر تھا اور دماغ کا تھا قیس
گویا ہر لحاظ سے وہ تھا ذوقِ رندانہ
مفلسی بلا کی تھی؛ تشنگی غضب کی تھی
پر وہ طرزِ خود داری اور وہ طرفِ شاہانہ
رندگی بھی باقی ہے؛ بزم بھی جواں لیکن
وہ ضمیرِ پیمانہ؛ وہ غرورِ میخانہ
آج اس کی باتیں ہیں شورِ عالمِ گفتہ
آج اس کے نعرے ہیں چار سو دلیرانہ
ہم سے لوگ کہتے ہیں کچھ لکھو ارے پارسؔ
لفظ ہی نہ رستہ دیں تو کیا کرے یہ دیوانہ
(پارس جان)