|تحریر: پارس جان|
انسانی تاریخ کے سب سے بڑے واقعے یعنی انقلابِ روس کو 99 برس ہو گئے۔ یہ انقلاب چونکہ روسی کیلنڈر کے مطابق اکتوبر میں رونما ہوا تھا ،اس نسبت سے اسے اکتوبر انقلاب بھی کہا جاتا ہے ۔ اس عظیم انقلاب کی قیادت بالشویک پارٹی نے کی تھی،اس لئے تاریخ اور سیاسیات کے سٹوڈنٹس اسے بالشویک انقلاب بھی کہتے ہیں۔ جدید کیلنڈر کے مطابق سات نومبر کو دنیا بھر میں اس انقلاب کی سالگرہ منائی جاتی ہے۔ سوویت یونین کے انہدام سے قبل پاکستان سمیت دنیا بھر کے ممالک میں سوویت یونین کے سفارتخانوں میں اور ان کی زیرِ نگرانی بالشویک ڈے کو بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا تھا۔ سٹالنسٹ بیوروکریسی اس دن کو دنیا بھر میں اپنے رعب اور رعونت کو بڑھاوا دینے کے لئے استعمال کرتی تھی۔ ان کے وظیفہ خوار سیاسی لیڈر اور دانشور بھی تفاخرانہ دلجمعی سے بالشویک ڈے کی تقریبات کا اہتمام کرتے تھے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد ساری چیزیں اپنے الٹ میں بدل گئیں۔ انقلاب پر فخر کرنے والوں نے انقلاب کے نام سے بھی کترانا شروع کر دیا۔ بھگوڑوں کے لیے جب این جی اوز اور صوفی ازم کی پناہ گاہیں بھی کم پڑنے لگیں تو وہ نام نہاد ’ترقی پسند‘ سرمایہ داروں کے براہِ راست دلال بن گئے۔ بالشویک انقلاب کو فراموش کر دینے کی یہ روش وبا کی طرح پھیلی۔ چند سر پھرے ،دیوانے سرخ پرچم کو تھامے مارے مارے پھرتے رہے۔ تمسخر،ہتک آمیز قہقہے اور حقارت کو تمغوں کی طرح سینوں پر سجائے یہ مٹھی بھر مارکسی سرفروش وقت کے دھارے کے خلاف اس سائنسی امید اور یقین کے ساتھ لڑتے رہے کہ یہ دھارا ضرور پلٹے گا۔ اور پھر 2008 ء میں تاریخ کا دھارا پلٹنا شروع ہوا اور عرب ممالک سے لے کر یورپ اور کینیڈا سے لے کر لاطینی امریکہ تک سرخ جھنڈے تھامے عوام الناس سڑکوں پر نظر آنا شروع ہو گئے۔ 2016 ء میں جب بالشویک انقلاب کی 99 ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے تو عالمی سرمایہ داری2008ء سے بھی بڑے معاشی بحران کے دہانے پر کھڑی ہے اور اس کے خلاف نفرت کا لاوا پک کر بغاوت کی شکل میں پھٹنے کو بیتاب ہے۔
بالشویک انقلاب کا طرہِ امتیاز
بالشویک انقلاب نے روس کا نقشہ ہی تبدیل کر کے رکھ دیا تھا۔ چند سالوں اور عشروں میں اتنے وسیع سوشل اور فزیکل انفراسٹرکچر کی تعمیر کی اور کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ مغربی اور امریکی میڈیا جھوٹے اعدادو شمار کے ذریعے سوویت یونین کی حاصلات کی پردہ پوشی کرتا رہا اور آج بھی کرتا ہے۔ لیکن اسی دوران کئی نامور بورژوا معیشت دان اور دانشور سوویت منصوبہ بند معیشت کی حاصلات کو معجزہ قرار دینے پر مجبور نظر آتے ہیں۔ کچھ سال قبل امریکہ کے ایک معاشی تاریخ دان ’’RC Allen‘‘ کی کتاب ’’Farm to Factory‘‘ شائع ہوئی جس میں 1928ء کے بعد منصوبہ بند معیشت (افسر شاہانہ زوال پزیری کے باجود) کے تحت تیز ترین صنعتکاری اور معاشی ترقی کا اعتراف کیا گیا ہے، کتاب میں ٹھوس حقائق اور اعداد و شمار کے ساتھ واضح کیا گیا ہے کہ 1928ء سے 1970ء تک سوویت یونین میں فی کس جی ڈی پی میں اضافہ کسی بھی ترقی یافتہ مغربی ملک سے بڑھ کر تھا۔
1917
ء سے 1967ء کے پچاس سالوں میں سوویت یونین نے اپنی مجموعی داخلی پیداوار میں نوگنا اضافہ کیا۔ دوسری جنگِ عظیم میں اگرچہ افرادی قوت اور وسائل کے اعتبار سے سب سے زیادہ نقصان سوویت یونین کا ہی ہوا تھا۔ سوویت یونین کے 27 ملین سے زیادہ لوگ اس جنگ میں ہلاک ہوئے تھے جو جنگ کی کل ہلاکتوں کے نصف کے لگ بھگ ہے۔ مگر اس کے باوجود 1945ء سے 1979ء تک اس کے جی ڈی پی کا اضافہ پانچ گنا تھا۔ 1950ء میں سوویت یونین کا جی ڈی پی امریکہ کے جی ڈی پی کا 33 فیصد تھا جو 1979ء تک 58 فیصد ہوچکا تھا۔ امریکی سامراج کے بہت سے پالیسی ساز اس بات پر قائل تھے کہ بیسویں صدی کے اختتام تک سوویت جی ڈی پی امریکہ سے بڑھ جائے گا۔ افراطِ زر اور بیروزگاری کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا تھا۔ تیل، فولاد، سیمنٹ، ٹریکٹر اور بہت سی مشینیں بنانے میں سوویت روس امریکہ کو بھی پیچھے چھوڑ گیا تھا۔ خلائی میدان کو ہی لے لیجئے جہاں روس نے امریکہ پر سبقت حاصل کر لی تھی۔ تکنیکی ترقی کی بات کریں تو دوسرے سیاروں کو روبورٹس (سپیس پروبز) کے ذریعے مسخر کرنے کا آغاز سوویت سائنسدانوں نے ہی کیا تھا، اس کے بعد ایک لاکھ کلوگرام کے سپیس سٹیشن ’میر‘ جیسا پراجیکٹ آج بھی اکیلے امریکہ کے بس کی بات نہیں ہے اور نئے ’انٹرنیشنل سپیس سٹیشن‘ کی تعمیر اور آپریشن میں روس کا کلیدی کردار ہے، اس سٹیشن پر خلا نورداور سامان رسد بھیجنے اور واپس لانے کے لئے آج بھی کئی دہائیاں قبل سوویت دور کا ’سویوز سسٹم‘ استعمال کیا جارہا ہے جسے سب سے محفوظ اور قابل اعتماد سمجھا جاتا ہے۔ ثقافتی ترقی کا یہ عالم تھا کہ سپورٹس اور فنون میں سوویت یونین کے سپوتوں نے کار ہائے نمایاں سر انجام دیتے ہوئے دنیا بھر میں نام کمایا۔ اولمپکس میں ایک سے زیادہ بار امریکہ سے زیادہ تمغے سوویت یونین کے حصے میں آئے۔ صحت کے شعبے اور خوراک کے معیار کے حوالے سے بات کی جائے تو صرف ایک اعشاریہ ہی کافی ہے کہ امریکہ نے سرمایہ دارانہ بنیادوں پر جو اوسط عمر کئی سو سال میں حاصل کی وہ سوویت یونین میں منصوبہ بند معیشت کے تحت چند دہائیوں میں حاصل کی گئی۔ 1960ء کی دہائی میں ایک سوویت شہری کی اوسط عمر امریکہ کے برابر (68سال) جا پہنچی تھی جس کی تصدیق امریکہ کے مستند میڈیکل رسالوں میں کی گئی، یاد رہے کہ 1920ء کی دہائی میں سوویت یونین میں اوسط عمر 40سال سے بھی کم تھی۔ یہ سب واقعی حیران کن تھا۔
انقلاب اور انقلابی نظریہ
گزشتہ کچھ سالوں سے لفظ انقلاب اتنا بے دریغانہ اور بے باکانہ استعمال ہوا ہے کہ لگتا ہے شاید اس کے معنی ہی بدل گئے ہیں۔ ویسے بھی آجکل سرمایہ داروں اور ان کے درمیانے طبقے کے نظریہ سازوں کامرغوب ترین اور پسندیدہ فلسفہ بھی تو یہی ہے کہ لفظوں میں دراصل کوئی معنی ہوتے ہی نہیں۔ اسے مابعد جدیدیت کے نام سے منچلے دانشوروں نے فیشن بنا دیا ہے ۔ یہ شاید دنیا کا واحد فلسفہ ہے جس کی تعریف کرنا ہی ناممکن ہے کیونکہ اس کے لیے پھر لفظوں کی ضرورت پڑتی ہے جن میں اس فلسفے کی رو سے کوئی معنی ہی نہیں ہے ۔ گویا ہر شخص اس فلسفے کو اپنے طریقے سے سمجھ اور بیان کر سکتا ہے۔ اسی لیئے جس کے جو دل میں آتا ہے لکھ اور بول رہا ہے اور پھر بضد بھی ہوتا ہے کہ اسے فلسفہ مان لیا جائے۔ اس تشریحی قاعدے کی بھینٹ سب سے زیادہ چڑھنے والا لفظ ’انقلاب ‘ ہی ہے۔ ایک طرف تو الطاف حسین ، طاہر القادری ، عمران خان سب ’’انقلابی‘‘ ہو گئے ہیں۔ اوپر سے نام نہاد بائیں بازو میں بھی کھمبیوں کی طرح انقلاب کی جدید اور ما بعد جدید تشریحات اور توضیحات دکھائی دینے لگی ہیں۔ سب سے بڑا ظلم تو یہ کیا جاتا ہے کہ انقلاب کو کسی بھی نظریئے سے آزاد اور ماورا ایک سماجی مظہر قرار دے کر کسی بھی انقلابی نظریئے کی ضرورت اور افادیت سے ہی یکسر انکار کر دیا جائے۔ اور اگر نظریئے کا نام استعمال بھی کرنا پڑے تو اسے وقت اور حالات سے ہم آہنگ کرنے کے مقدس فریضے کے تحت اتنا توڑ مروڑ دیا جاتا ہے کہ اس کی اصل روح ہی غائب ہو جاتی ہے۔ ان تشریحات کی رو سے پرولتاریہ یعنی صنعتی مزدور جسے کارل مارکس نے انقلاب کا روحِ رواں قرار دیا تھا اور جس کی قیادت میں روسی عوام کو منظم کرتے ہوئے لینن اور ٹراٹسکی نے بالشویک پارٹی کے ذریعے روس میں انقلاب برپا کیا تھا،اس طبقے کا تو اب وجود ہی نہیں۔ اب تو روبوٹس کا دور ہے ،کمپیوٹر پر کام کرنیوالے وائٹ کالر مزدور تھوڑے ہی ہیں وہ تو ’معزز ‘شہری ہیں،وغیرہ وغیرہ۔ مختصر یہ کہ اب ہم سب مڈل کلاس ہیں اور طبقاتی کشمکش اور تفاوت ختم ہو چکا ہے۔ ہاں البتہ انقلاب کی ضرورت ہے اور وہ آئے گا مگر اس کے نئے طریقے اور ڈھنگ سوچنے اور ڈھونڈنے ہونگے۔ چونکہ بالشویک پارٹی پرولتاریہ کی نمائندہ پارٹی ہوتی ہے لہٰذا ہمیں ایسی پارٹی کی ضرورت نہیں ہے اور آج کے عہد میں مڈل کلاس کی نمائندہ ڈھیلی ڈھالی ’’مارکسی‘ ‘ پارٹی بنانی چاہیئے جو کہ آزادئ اظہار رائے کے نام پر مزدور دشمن نظریات کو بھی کھلے دل سے برداشت کرے۔ اسی طرح پرولتاریہ کی آمریت کو ایک فرسودہ نظریہ قرار دے کر یہ مابعد جدیدیئے انقلا بی بورژوا پارلیمانی طریقہ کار سے انقلاب لانے کے خواہاں ہیں۔ اس لیئے جماعتِ اسلامی سے بھی اتحاد ہو سکتا ہے اور تحریکِ انصاف میں انٹرازم بھی۔ سب سے بڑھ کر بورژوا میڈیا، اینکرز ، اخباری کالموں اور ٹی وی ٹاک شوز میں کتھارسس کرنے کو بھی خالصتاً انقلابی اور وقت کی عین ضرورت بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ’عوام کے وسیع تر مفاد‘ میں عوام کے دشمنوں اور قاتلوں سے بھی یارانے بنا کر انقلاب کی خدمت کرنے والوں کا صرف ایک ہی نظریہ ہوتا ہے اور وہ ہے نظریۂ ضرورت۔ حقیقت یہ ہے کہ مارکسی نظریات سے زیادہ جدید اور انقلابی نظریہ ابھی تک تو کوئی پیش نہیں کیا جا سکے۔ اور سچے اور مخلص انقلابی کارکنوں کے لیئے مارکسی نظریئے کی فہم و فراست اور تعلیم و تربیت عہد کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
متضاد کردار کا عہد۔ ۔ ایک سیاسی لطیفہ
آج کے عہد کا کردار کیا ہے اور بالشویک انقلاب اور نظریات آج کے عہد میں کس طرح مناسبت رکھتے ہیں۔ یہ انتہائی سنجیدہ سوالات ہیں جن کا جواب دینا یا تلاش کرنا ہر انقلابی کے لیئے ضروری ہے۔ آج سرمایہ داری اپنی تاریخ کے بدترین زوال کی طرف بڑھ رہی ہے۔ سرمایہ داری کی ساری تاریخ عروج و زوال کے چکر سے عبارت ہے۔ ہر بحران کے بعد عروج آتا ہے ، اس کو ایسا معمول سمجھا جانے لگا تھا جس کا تعلق سرمایہ داری کی جبلت کے ساتھ ہے اور اس کا دوسرا مطلب سرمایہ داری کی ابدیت ہی ہے۔ لیکن لگ یہ رہا ہے کہ اب سرمایہ داری ایک نئے معمول میں داخل ہو گئی ہے۔ حالیہ بحران کے بعد زوال اور انہدام ہے عروج یا استحکام نہیں۔ تو کیا سرمایہ داری خود بخود ختم ہو جائے گی؟ ہر گز نہیں۔ اپنے تمام تر زوال اور ٹوٹ پھوٹ کے باوجود سرمایہ داری نہ صرف یہ کہ مسلط رہے گی بلکہ اور زیادہ وحشت ناک اور درندہ صفت ہوتی چلی جائے گی۔ بیروزگاری، غربت، بیماری اور لاعلاجی ماضی میں کبھی نہ دیکھی گئی سطح تک پہنچ سکتے ہیں۔ پہلی، دوسری اور تیسری دنیا کی نام نہاد تقسیم قصۂ پارینہ بن چکی ہے۔ تو کیا محنت کش طبقہ مسلسل اور ابدی طور پر تحریک میں رہے گا۔ ایسا ہونا بھی ناممکن ہے۔ اس وحشی سرمایہ داری کے ہر حملے کے خلاف محنت کش مزاحمت ضرور کریں گے مگر اس مزاحمت کی شدت اور نوعیت میں تبدیلی آتی رہے گی۔ انتہائی شکست خوردگی کے دورانیے بھی آئیں گے جب لگنے لگے گا کہ تحریک کو فیصلہ کن شکست ہو گئی۔ مگر یہ دورانیے ماضی کی طرح عشروں اور نسلوں پر محیط نہیں ہونگے۔ ایک ہی نسل کو بار بار لڑنا پڑے گا۔ یوں یہ تاریخ کی سب سے جانباز نسل ثابت ہو گی۔ کیونکہ اس لڑائی کے لیئے تیار قیادت کہیں بھی موجود نہیں ہے۔ انہی لڑائیوں اور پسپائیوں کے پے درپے تازیانوں کے ردِ عمل میں ہی نئے عہد کی نئی قیادت ابھرے گی اور حالات کی بھٹی میں فولاد بنتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکنے کا فریضہ سر انجام دے گی۔ مگر قیادت کے کردار اور خدوخال پر بات کرنے سے پہلے عہد کے کردار کی مزید تعریف و توضیح کی ضرورت ہے۔
گزشتہ ماہ بغیر نام کی ایک حیرت انگیزتحریرپڑھنے کا اتفاق ہواجو خود بتا رہی تھی کہ وہ کسی سابقہ مارکسی یا مابعد جدیدیئے انقلابی کی کاوش ہے۔ تمام مارکسی اصطلاحات کو اپنی من مرضی کے نئے معنی اور مفہوم عطاکرنے کی جسارت، تحریر کی ہر لائن سے جھلک رہی تھی۔ تحریر کا بنیادی مقصد موجودہ عہد کی تعریف اور توضیح تھا۔ مذکورہ تحریر میں موجودہ عہد کو متضاد کردار کا عہد قرار دیا گیا تھا۔ اس نام اور تعریف کا مطلب تو یہ ہوا کہ یقیناًکوئی ایسا عہد بھی ہو گا جو متضاد کردار کا حامل نہیں ہو گا۔ یعنی اس میں یکسانیت ہو گی یا وہ تضادات سے مبرا ہو گا۔ کارل مارکس ، فریڈرک اینگلز، لینن ، ٹراٹسکی اور ٹیڈ گرانٹ سمیت کسی بھی نظریاتی استاد نے کسی بھی ایسے عہد کا تصور بھی نہیں کیا ہو گا جس میں تضادات نہ ہوں۔ ہر عہد ہی کیا ہر شے ،سماجی یا طبعی مظہر تضادات سے لبریز ہوتا ہے۔ موجودہ یا کسی بھی عہد کو متضاد کہہ کر دراصل اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جا رہا ۔ یا شاید یہ اس بات کا اعتراف ہے کہ موصوف لکھاری موجودہ عہد کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ اپنے نقطہ نظر کی مزید وضاحت کرتے ہوئے موصوف فرماتے ہیں کہ یہ عہد کوئی یکسر انقلابی عہد نہیں ہے۔ کیا کوئی بھی عہد یکسر انقلابی یا ردِ انقلابی ہو سکتا ہے؟ اس سوال کا سب سے مصدقہ جواب خود بالشویک انقلاب کی تاریخ سے دیا جا سکتا ہے۔ جب انسانی تاریخ کا یہ سب سے عظیم انقلاب رونما ہو رہا تھا تو اس وقت بھی ہزاروں نہیں لاکھوں مسلح ردِ انقلابی دستے رجعتی سربراہان کی قیادت میں سرگرمِ عمل تھے۔ وہ بالشویکوں کے اقتدار پر قبضے کے بعد بھی متحرک رہے اور کئی جوابی ردِ انقلابی حملے بھی کیئے گئے۔ وہ بھی کوئی یکسر انقلابی معروض نہیں تھا۔ اسی طرح سوویت یونین کے انہدام کے بعد کی کالی رات میں بھی کہیں کہیں سرخ شمعیں روشن ہوتی رہیں۔ وینزویلا کا انقلاب اسی بھیانک سیاسی دور کے بطن سے پیدا ہوا۔ اسی طرح پاکستان میں ضیاالحق کے رجعتی دورِ اقتدار میں بھی سماج میں بے شمار مزاحمتی تحریکیں موجود تھیں۔ وہ بھی کوئی یکسر ردِ انقلابی معروض نہیں تھا۔ دراصل اس طرح کی اصطلاحات اپنی مفاہمت ، نظام سے مصالحت، موقع پرستی اور مفاد پرستی کو جواز فراہم کرنے کے لیئے گھڑی جاتی ہیں۔ کیونکہ ابھی یکسر انقلابی معروض نہیں ہے لہٰذا ابھی یہ سب کچھ جائز ہے۔ ان کے خیال کے مطابق ایک دن آبادی کا سو فیصد انقلابی ہو جائے گا،ساری ٹریڈ یونین قیادتیں مارکسی فلسفے کو حفظ کر لیں گی۔ ساری روایتی قیادتیں اپنی موقع پرستی ترک کر دیں گی، تمام مخالف طبقات خود بخود فنا ہو جائیں گے تو ہم بھی اپنا قبلہ درست کر لیں گے۔ اس سے زیادہ المناک سیاسی لطیفہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔
موجودہ عہد کی ایک سادہ سی توضیح یہ ہے کہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد کی طویل اور دردناک رجعتیت اپنے منطقی انتہا کو پہنچ چکی تھی جو اب اپنی نفی کرنا شروع کر چکا ہے۔ ہم عالمی سطح پر ایک نئے عہد میں داخل ہوچکے ہیں۔ یہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد کا عہد نہیں ہے۔ یہ عرب بہار کے بعد کا عہد ہے۔ یہ ہندوستان میں سب سے بڑی ملک گیر ہڑتال اور پھر اگلے ہی سال انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ملک گیر ہڑتال کا عہد ہے۔ یہ برطانیہ اور امریکہ میں سوشلسٹ سیاست کی تجدید کا عہد ہے۔ یہ یورپی یونین کے زوال اور یورپ کی ریڈیکلائزیشن کا عہد ہے۔ یہ پاکستان میں تاریخ کی پہلی پی آئی اے کی ہڑتال کے بعد کا عہد ہے۔ اس عہد میں داعش اور دیگر سامراجی اوزار بھی پنپ اور بڑھ رہے ہیں۔ یہ باہمی ٹکراؤ ہی تحریکوں کو مزید بڑھاوا دے رہا ہے۔ لیکن قیادت کا بحران گہرے سے گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں تحریکوں کو راستہ دینے والی کوئی قیادت ہی موجود نہیں۔ یہاں پر ہمیں بالشویک انقلاب کی آج کے عہد میں اہمیت اور افادیت کا احساس ہوتا ہے۔ کوئی اصلاح پسند قیادت ان تحریکوں کو منطقی انجام تک لے کر نہیں جا سکتی۔ ان تحریکوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیئے بالشویک انقلاب کو مشعلِ راہ سمجھتے ہوئے سماج کی تبدیلی کے لیئے جدوجہد کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں بالشوازم؟
بالشویک انقلاب نے زار کے انتہائی پچھڑے ہوئے روس کو صرف ایک عشرے میں جدید تاریخ کی ایک دیوہیکل طاقت میں بدل کر ’سپر پاورز‘ کی فہرست میں لا کھڑا کیا۔ انقلاب سے قبل کا روس بیک وقت ایک سامراجی قوت بھی تھا جس کا اثرو رسوخ مشرقی یورپ اور وسطی اور جنوبی ایشا تک پھیلا ہوا تھا، اور ایک نوآبادیاتی کردار کا حامل بھی تھا جو معاشی اور تکنیکی اعتبار سے برطانیہ اور دیگر مغربی قوتوں کے دستِ نگر تھا۔ یہ ایک انتہائی ناہموار معاشرہ تھا جس نے بادشاہت کی چھایا تلے مالیاتی سرمائے کے زیرِ اثر مختلف طبقوں کے مابین مبہم اور بے ہنگم پیداواری اور سماجی تعلقات استوار کیے ہوئے تھے۔ جاگیردار اشرافیہ کے ساتھ ساتھ ایک بے حد دولت مند اور عیاش نومولود سرمایہ دار طبقہ بھی موجود تھا جو جدید سیکولر ریاست کی تشکیل کا اہل نہیں تھا اور دوسری طرف آبادی کی اکثریت پر مشتمل کسان اورزرعی مزدور تھے جو انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ قحط اور فاقے مختلف دورانیوں سے سماجی معمول کا حصہ بن چکے تھے۔ لیکن ایک تازہ دم اور نو آموز صنعتی مزدور طبقہ بھی تھا جس کی تعداد اگرچہ کم تھی لیکن اس میں افزودگی کا عمل تیزی سے بڑھ رہا تھا جو اسکے معیار اور اعتماد کو جلا بخش رہا تھا۔ فزیکل اور سوشل انفراسٹرکچر کی حالت دگرگوں تھی۔ نچلے طبقات کے ساتھ ساتھ سماج کی تما م تر پرتیں بے یقینی اور عدم تحفظ کا شکار تھیں۔ خواتین کو کسی قسم کے معاشی اور سیاسی حقوق حاصل نہ تھے اور وہ ابھی تک قرونِ وسطیٰ کی طرز کی حقارت آمیز زندگی گزار رہی تھیں۔ خواتین پر تشدد کو قانونی طور پر جائز سمجھا جاتا تھا۔ اسی لیے یہ بھی کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی کہ روسی خواتین نے اپنے مزدور بھائیوں کے ہمراہ انقلاب میں قابلِ تقلید کردار ادا کیا تھا بلکہ زارِ روس کے خلاف عملی تحریک اور انقلاب کی شروعات ہی خواتین کے دن سے اس وقت ہوئی تھی جب وہ بڑی تعداد میں راشن لینے کے لیے طویل لائن میں گھنٹوں کھڑی رہنے کے بعد اکتا کر باغیانہ روش کے ساتھ سڑکوں پر نکل آئی تھیں۔ ٹیکسٹائل کی صنعت میں کام کرنے والی محنت کش خواتین اس تحریک میں پیش پیش تھیں۔ زار کا روس عملاً ایک جابرانہ فیڈریشن تھی جس میں ہر قومیت میں احساسِ محرومی نقطۂ ابال کو پہنچا ہوا تھا اور جذبۂ حریت تیزی سے پروان چڑھ رہا تھا۔ لینن نے بجا طور پر روس کو ’مظلوم قومیتوں کا جیل خانہ‘ قرار دیا تھا۔ مختصر یہ کہ سماج کا تانا بانا منتشر ہونے کے دہانے پر پہنچ کر ایک از سرِ نو سماجی نظم و ضبط کے لیے نہ صرف آمادہ تھا بلکہ پک کر تیار بھی ہو چکا تھا۔ یہ تاریخی فریضہ ایک انقلابی جراحی کے ذریعے ہی پورا کیا جا سکتا تھا۔ سوال یہ تھا کہ طبقات کے اس غیر معتدل کُل میں سے ایک سماجی تنظیمِ نو کی قیادت کون سا طبقہ کرے گا۔ تمام تر دانشوروں اور نکتہ چینوں کی سوچ کے برعکس اور لیون ٹراٹسکی کے تناظر کے عین مطابق یہ فریضہ روسی پرولتاریہ نے ادا کیا۔
روس کے مندرجہ بالا نقشے کو مدِ نظر رکھ کر اگر آج کے پاکستان پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہو گا کہ مسائل اور معروضی صورتحال میں کس قدر مشابہت پائی جاتی ہے۔ غلیظ پیٹی بورژوا دانشوروں کے مطابق پاکستان تو شاید کسی اور سیارے پر واقع ہے۔ یہ تو بے غیرت محنت کش طبقہ ہے۔ یہاں انقلاب کبھی نہیں آسکتا وغیرہ وغیرہ۔ اور خاص طور پر بالشویک انقلاب اور نظریات کے لئے تو پاکستان میں قطعاً کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ یہ سب باتیں سائنسی تنقید کی ایک رتی بھی برداشت نہیں کر پاتیں۔ حقیقتاً پاکستان میں مذہبی بنیاد پرستی سے لے کر قومی محرومی تک، امن وامان کی بدحالی سے لے کر کالی معیشت کی اجارہ داری تک تمام مسائل کا اگر کوئی حل ہے تو وہ صرف اور صرف پسماندہ روس میں برپا ہونے والے سوشلسٹ انقلاب کی طرز کی سماجی تبدیلی میں ہی مضمر ہے۔ لیکن یہ تبدیلی سائنسی شعور اور مارکسی سمجھ بوجھ کی حامل قیادت کے بغیر ناممکن ہے۔ یہ قیادت روحانی پژمردگی کا شکار لیڈروں کی سوچ کے برعکس انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ہوتی ہے۔ یہی بالشوازم کی اصل روح ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ پاکستانی معاشرہ تو شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے یہاں ایک منظم اور نظریاتی پارٹی بنانا ناممکن ہے۔ لہذٰا حسبِ منشا سمجھوتے ناگزیر ہیں۔ نام نہاد لبرل شرفا، سیکولر دانشور، بکاؤ ترقی پسندوں،’ڈھیلا ڈھالا بایاں بازو‘ اور حتیٰ کہ دائیں بازو کے بااثر لوگوں کے ساتھ بھی مل کر کام کیا جا سکتا ہے۔ تمام تر ’مہان‘ نظریاتی اساتذہ نظریہ ضرورت کے تحت اسی طرح کی ’لچکدار‘ پارٹیاں بناتے بناتے گوشہ گمنامی میں غرق ہو گئے۔ باقیوں کا مستقبل بھی ایسا ہی ہو گا۔ در اصل پاکستان میں بھی ایک منظم اور نظریاتی بالشویک پارٹی کی تعمیرنہ صرف ممکن ہے بلکہ ناگزیر ہو چکی ہے۔ مگر اس کے لئے غیر معمولی قربانیوں، مستقل مزاجی، استقامت، لگن، حوصلے اور ولولے کی ضرورت ہے۔