[تحریر: پارس جان]
’’بہت سے قارئین نے ٹراٹسکی کی جوانی کی تصویر کو کئی بار شائع ہوتے ہوئے دیکھا ہو گا۔ اس وقت بھی اس کی کشادہ پیشانی کے نیچے خیالات اور تصورات کا ایسا طوفانی بہاؤ دکھائی دیتا تھا جو اسے تاریخ کی شاہراہ سے دھکیل کر ذرا پرے لے جاتا تھا۔ یہ بہاؤ یا تو اسے کسی چوراہے پر کھڑا کر دیتا یا سب کچھ توڑ کر نیا راستہ بنانے پر مجبور کر دیتا۔ پھر نیا راستہ بنانے کی جدوجہد میں ہم اپنے سامنے ایک ایسا آدمی دیکھتے ہیں جس نے انقلاب کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی تھی۔ ایک پختہ رہنما اور مقرر جس کی زباں لوہے کی طرح تیز اور لچکدار ہے جو اپنے مخالفوں کو کاٹ کے رکھ دیتی ہے‘‘ یاروسلاوسکی (1923ء)
مندرجہ بالا الفاظ ایک نامور سٹالنسٹ بیوروکریٹ نے اس وقت کہے تھے جب اسے لینن ازم کے نئے سیاسی برانڈ سے خود بھی کوئی زیادہ شناسائی نہیں تھی۔ پھر اس کے بعد جس جس نے بھی ٹراٹسکی کی کردار کشی کی اس کو اسی مناسبت سے نوازا گیا۔ لیکن نشیب و فراز کے ایک طویل سلسلے کے بعد بالآخر تاریخ نے اپنی کفایت شعاری کا لوہا منوا ہی لیا۔ رواں ماہ کامریڈ ٹراٹسکی کا 73 واں یومِ شہادت ایسے حالات میں منایا جا رہا ہے جب عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات اور ان کی گونج خود کامریڈ ٹراٹسکی کے زورِِ قلم، عملی تگ و دو اور گفتار و کردار کے وکیل بن گئے ہیں۔ لائبریریوں کی شیلفوں میں بند کتابوں کے اوراق یا دقیق بحثوں میں مستعمل دلیلیں ہی نہیں بلکہ جدید ترقی یافتہ ممالک کی اہم شاہراہوں اور چوراہوں پر گونجتے نعرے، تاریخی افق پر نئی نسل کے قدموں کی لرزہ خیز آہٹ، سرمائے کے کعبوں اور ایوانوں کی کانپتی بنیادیںیہ سب گلا پھاڑ پھاڑ کر چِلا رہے ہیں کہ ان ایوانوں کی پر تعیش زندگی کو مسترد کر کے آزمائشوں اور ابتلاؤں کی کٹھن ہولناکیوں میں بھی انسانیت کے سوشلسٹ مستقبل پر غیر متزلزل یقین رکھنے والا وہ مارکسی مجاہد سچ کہتا تھا۔ جب دیوارِ برلن کے گرنے کے 24 سال بعد ’سرمایہ ‘پھر جرمنی میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتابوں میں سرِ فہرست آ گئی ہو اور سٹالنزم کے دل شکن تجربے سے عمومی شعور صحتیاب ہو کر مارکسزم کو از سرِ نو کھوجنا شروع کر چکا ہو، تو ایسے حالات میں ٹراٹسکی کی یاد بزمِ یاراں کا لطف دوبالا کر دیتی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے تازہ دم بہار کی کسی پر فضا صبح کو کوئی گلستاں کی سیر کو نکلا ہو۔
ویسے تو کامریڈ ٹراٹسکی کی ساری زندگی ہی تلاطم خیز موجوں سے لڑتے ہوئے گزری مگر خاص طور پر اکتوبر انقلاب کے بعد کی دو دہائیاں تاریخ کا وہ میزان ہیں جن پر اس عہد کی کل سیاسی فہم و فراست کے مقابلے میں بھی کامریڈ ٹراٹسکی کا پلڑا بھاری دکھائی دیتا ہے۔ سرمایہ داری کو شکست ہو چکی تھی مگر جلد ہی محنت کشوں کی فتح کو سٹالنزم کے آسیب نے اپنے شکنجے میں لے لیا۔ یہ وہ دور تھا جب عالمی سطح پر طاقتوں کے توازن نے ایک بالکل نئے سیاسی عہد کو جنم دیا تھا۔ یہ ہر حوالے سے منفرد تاریخی عہد تھا۔ تشکیک، امکان اور آزمائش قدم قدم پر دلکش وسوسے لیے کھڑے تھے۔ ’مزدوروں کی مسخ شدہ ریاست ‘ کی سائنسی توضیح ہی اس نئی تبدیل شدہ کیفیت کی غمازی کر رہی تھی۔ فوری طور پر اسے آڑے ہاتھوں لیا گیا مگر نصف صدی کے بعد واقعات کے تسلسل نے اس پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی۔ آج رتی بھر سیاسی دیانت رکھنے والا شخص بھی ’نظریہ مسلسل انقلاب ‘ اور ’ مارکسی نظریہ ءِ ریاست ‘ کی صداقت کو مسترد نہیں کر سکتا۔
2008ء کے بعد سے اب تک سرمایہ داری اپنی تاریخ کے کٹھن ترین بحران کی لپیٹ میں ہے۔ یہ روایتی عرو ج و زوال کے چکر سے ہٹ کر بنیادی نامیاتی بحران ہے جسے نجی ملکیت اور قومی ریاست کی حدود میں حل نہیں کیا جا سکتا۔ بورژوا ماہرینِ معیشت بھی اس کی نا قابلِ حل پذیری کے معترف ہوئے بغیر رہ نہیں پا رہے۔ ٹریکل ڈاؤن نیو لبرلزم سے لے کر کینشیئن طرزِ معیشت تک سب کچھ آزمایا جا چکا۔ اس بحران کی عالمگیریت نے مارکسی بین الاقوامیت کی معاشی اور سیاسی بنیادوں کو اور بھی واضح کر دیا ہے۔ دنیا کا کوئی خطہ بھی ایسا نہیں جہاں معاشی زوال نے سیاسی طوفانوں کے بیج نہ بوئے ہوں۔ سرمائے کے پالیسی سازوں کی برتری کی علامت یورپی یونین وینٹی لیٹر پر آ چکی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی معاشی اور فوجی طاقت امریکہ 16 ٹریلین ڈالر سے زیادہ کی مقروض ہے اور عراق اور افغانستان کے بعد اب مشرقِ وسطیٰ میں سیاسی مہم جوئی کے ذریعے اپنے تابوت میں آخری کیل ٹھوکنے کے درپے ہے۔ تیسری دنیا کے حکمران طبقات کی نا اہلی کا پول کھل چکا ہے۔ سابقہ سوشلسٹ اور اصلاح پسند مرتی ہوئی سرمایہ داری سے زندگی کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ مٹھی بھر طفیلیئے سرمایہ دار بحران سے بھی ریکارڈ منافع جمع کر رہے ہیں۔ طبقاتی خلیج کبھی نہ دیکھی گئی سطح پر پہنچ چکی ہے۔ ساڑھے تین ارب سے زیادہ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے رہنے پر مجبور ہیں۔ قیادت کا بحران ان کی زندگیوں کو مزید جہنم بنا رہا ہے۔ یہ سب عوامل مل کر عالمی انقلاب کی نوید سنا رہے ہیں۔ اس عالمی انقلاب کا طبل یورپ میں بج چکا ہے۔ اس صورتِ حال میں ٹراٹسکی کے نظریات اور سیاسی تجربات سے استفادہ حاصل کرنے کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔
ٹراٹسکی بلاشبہ غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک تھا۔ اس نے فلسفہ، تاریخ، معیشت، جنگی ٹیکنیک، علم و ادب، فنون، اخلاقیات غرضیکہ انسانی دلچسپی کے ہر پہلو پر علم و تحقیقی کا بیش قیمت خزانہ تخلیق کیا۔ خاص طور پر چھوٹے بڑے واقعات میں فوری مداخلت کے لیے ٹراٹسکی کی تحریریں لوگوں کے دل میں اتر جاتی تھیں۔ اسی وجہ سے مشہور برطانوی ادیب برنارڈ شا نے اسے ’پمفلٹوں کا شہزادہ‘ کا لقب دیا تھا۔ مگر تمام تر خصوصیات کے باوجود وقتی طور پر وہ سرمایہ داری اور سٹالنزم دونوں کے تاریخی عروج کو روک نہیں پایا۔ یہ کہنا کہ اگر وہ اتنا با صلاحیت اور مقبول تھا تو واقعات کی پشت پر سوار ہو کر بعد کی تباہی سے انسانیت کو بچا کیوں نہیں پایا، معاشرتی علوم سے سراسر نابلدی ہے۔ ’مسیحا ‘ یا ’سپر مین‘ کا تصور خالصتاً انسانی ذہن کی کارستانی ہے اور آرزومندانہ سوچ کی عکاسی ہے جس کا حقائق ہمیشہ منہ چڑاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانی سماج مختلف معیار اور کردار کے اشخاص سے واقف ہے جن میں نہایت کم رتبہ لوگ بھی ہوتے ہیں اور بہت جلیل القدر انسان بھی، مگر وہ سب معروض یعنی فطرت ہی کی پیداوار ہوتے ہیں نہ کہ کسی آفاقی شعور کی۔ گویا فرد جتنا بھی بلند کردار یا ہیبت ناک کیوں نہ ہو وہ آخری تجزیے میں فطرت ہی کی پیداوار ہوتا ہے۔ اینٹی ڈیورنگ میں اینگلز لکھتا ہے کہ ’’انسانی دماغ کی پیداواریں بیک وقت فطرت کی بھی پیداوار ہونے کے سبب فطرت کے دیگر باہمی رشتوں کی تردید نہیں کرتیں بلکہ ان سے مطابقت رکھتی ہیں۔‘‘
ٹراٹسکی 7 نومبر 1879ء کو روس کے علاقے یوکرائن کے گاؤں یانووکا میں پیدا ہوا۔ نو عمری میں ہی انقلابی سرگرمیوں میں شریک ہوا اور مارکسزم کے نظریات پر عبور حاصل کرتا گیا۔ انہی سرگرمیوں کے باعث اسے جیل اور سائبیریا جیسی جگہ پر جلاوطنی کی سزائیں بھگتنی پڑیں۔ لیکن رشین سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی کے قیام کے فوری بعد ہی وہ اس کا ممبر بن گیا۔ 1903ء میں ہونے والی بالشویک اور منشویک کی پھوٹ کے دوران ہونے والی نظریاتی بحثوں میں بھی ٹراٹسکی نے اہم کردار ادا کیا۔ 1905ء کے انقلاب کے دوران ٹراٹسکی جلا وطنی سے واپس روس آیا اور مختلف لیف لیٹ اور رسائل کی اشاعت میں کلیدی کردار ادا کرنے لگا۔ اپنی نظریاتی پختگی، انتہائی سرگرم کردار اور محنت کشوں سے جڑت کے باعث وہ انقلاب کے دوران پیٹروگراڈ میں بننے والی پہلی سوویت میں 26 نومبر 1905ء کو اس کا چئیرمین منتخب ہوا۔ 2 دسمبر کو اس سوویت نے زار کے خلاف ایک بیان جاری کیا جس کے بعد اس کے تمام قائدین کو گرفتار کر کے جلا وطن کر دیا گیا۔ اس کے بعد ٹراٹسکی دوسری انٹرنیشنل میں کردار ادا کرنے کے علاوہ لینن کے ساتھ نظریاتی بحثوں میں مصروف رہا اور ساتھ ہی انقلابی پرچوں کی اشاعت بھی جاری رکھی۔ اس دوران اس نے نظریہ مسلسل انقلاب کو تخلیق بھی کیا اور اسے ترویج بھی دی۔
فروری 1917ء کے روس کے انقلاب کے بعد وہ جلا وطنی سے واپس روس آیا اور بالشویک پارٹی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے لینن کے ساتھ مل کر اکتوبر 1917ء کے سوشلسٹ انقلاب کی قیادت کی۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد اسے خارجہ امور کے کمیسار کی ذمہ داری دی گئی جس دوران اس نے جرمنی کے ساتھ بریسٹ لٹویسک میں ہونے والے امن مذاکرات میں انتہائی مہارت کے ساتھ اپنا کامیاب کردار ادا کیا۔ اس کے بعد اسے سرخ فوج کی قیادت کی ذمہ داری دی گئی جس کے بعد اس نے روس کی ٹوٹی پھوٹی شکست خوردہ فوج کو ایک انقلابی اٹھان دی جس نے سامراجی ممالک کی افواج کو شکست فاش دی۔ اس دوران وہ لینن کے ساتھ مل کر تیسری انٹرنیشنل جسے کمیونسٹ انٹرنیشنل یا کومنٹرن بھی کہا جاتا ہے کی تشکیل بھی کرتا رہا اور اس کے سالانہ بھرپور اجلاس منعقد کر کے اس عالمی پرولتاریہ کی قیادت کے طور پر ایک فعال اور متحرک تنظیم بنایا۔
1924ء میں لینن کی وفات کے بعد اسے سوویت یونین کی مزدور ریاست میں ابھرتی ہوئی بیوروکریسی کا مقابلہ کرنا پڑا جس کی قیادت سٹالن کر رہا تھا۔ اس نے لیفٹ اپوزیشن کی تشکیل کی اور اپنے درست مؤقف کے ساتھ ہر محاذ پر ڈٹارہا۔ معروضی حالات کے نا موافق ہونے کے باعث سٹالنسٹ طاقتور ہوتے چلے گئے اور بتدریج سوویت یونین کی مزدور ریاست کو مسخ کرتے گئے۔ اس دوران ٹراٹسکی کو سوویت یونین سے جلا وطن کر دیا گیا۔ اپنے انقلابی نظریات اور کردار کے باعث یورپ اور امریکہ کی سرمایہ دارانہ ریاستیں بھی اسے قبول کرنے کو تیار نہ تھیں اور بالآخر اس انقلابی کو میکسیکو میں رہنے کے لیے جگہ ملی۔ وہاں بھی اس نے مارکسزم کے انقلابی نظریات کا دفاع جاری رکھا اور اپنی شہرہ آفاق کتابیں ’میری زندگی‘، ’انقلابِ روس کی تاریخ ‘ اور ’انقلاب سے غداری‘ لکھیں۔ جب تیسری انٹرنیشنل میں اصلاح کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں اور یہ تنظیم سٹالن کی خارجہ پالیسی کا آلہ کار بن کر رہ گئی تو ٹراٹسکی نے چوتھی انٹرنیشنل بنانے کا عزم کیا۔ اس کامنشور لکھا اور اس کی تنظیم ساز ی کی جدوجہد کا آغاز کر دیا۔ لیکن جلا وطنی میں بھی یہ عظیم انقلابی سٹالنسٹ بیوروکریسی کے دل کا کانٹا بن چکا تھا۔ روس میں انقلاب برپا کرنے والی بالشویک پارٹی کی قیادت کی اکثریت اور ہزاروں بالشویکوں کا قتل کرنے کے باوجود سٹالن اور اس کے حواری ٹراٹسکی سے خوفزدہ تھے۔ اس خطرے کو مٹانے کے لیے منصوبہ بندی کی گئی اور بالآخر 20 اگست 1940ء کو میکسیکو میں اس کے گھر روسی خفیہ ایجنٹ نے برف توڑنے والے کلہاڑے سے وار کر کے ٹراٹسکی کو قتل کر دیا۔ اس وقت وہ اپنی ایک اور ضخیم تصنیف پر کام کر رہا تھا جس کا نام تھا ’سٹالن‘۔
سٹالن نے اقتدار سنبھالتے ہی بتدریج ٹراٹسکی کے کردار کو مسخ کرنا شروع کر دیا تھا اور انقلاب روس کے لیے اس کی تمام جدوجہد کو تاریخ کے صفحات سے مٹا دیا گیا۔ لیکن یہ تاریخ کا سبق ہے کہ جو تاریخ کو رد کرتے ہیں تاریخ انہیں رد کر دیتی ہے۔ 1991ء میں سوویت یونین کے انہدام نے ٹراٹسکی کے نظریات اور پیشن گوئی کو وقت اور حالات کی کسوٹی پر درست ثابت کیا اور اس کی کتاب ’انقلاب سے غداری‘ میں لکھی گئی اس کی تحریریں سوویت یونین میں زندہ قوت کے طور پر نمودار ہوئیں۔
آج ٹراٹسکی کی زندگی ہمارے لیے اسباق سے بھرپور ہے۔ ٹراٹسکی سمیت تمام عظیم مارکسی اساتذہ کی شخصیات کو ماوارائے فطرت خصوصیات سے نوازنا اور ان سے سیکھنے کی بجائے ان کی عقیدت کا طوق گلے میں ڈال لینا خود ان مارکسی اساتذہ کے قابلِ تقلید نظریات کے ساتھ صریحاً ناانصافی ہو گی۔ خود شخصیات اور ان کے تاریخی کردار کا تجزیہ کرنے کا عمل دو بالکل مختلف اور متضاد علمی اسلوب کا حامل ہو سکتا ہے۔ ایک خالص تجریدی اور عینی طرزِ تجزیہ اور دوسرا خالصتاً مادی اور معروضی رویہ جس کی درست اور ثابت قدم تفہیم اور تعمیل ہی ان عظیم مارکسی شخصیات کے ’تاریخی کارناموں‘ کی عمل پذیری کا باعث بنی۔ یہ کہنا کہ یہ عظیم لوگ باطنی طور پر باقی انسانوں سے ممتاز تھے ایک لا یعنی مفروضہ ہے۔ شخصیات کی قلبی یا روحانی وارداتیں نہیں بلکہ ان کی شعوری اور عملی سرگرمیاں ان کے تاریخی مقام اور کردار کا تعین کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً تمام خیال پرست عموماً شخصیت پرست بھی ہوتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ خطرناک وہ ہوتے ہیں جو مادیت کے انقلابی پرچم کے سائے تلے بھی شخصیات کے طلسم تلاش کر رہے ہوتے ہیں یا ان میں مبتلا ہوتے ہیں۔ کسی بھی تاریخی کارنامے کی روداد سن کر دم بخود ہو جانا یا کسی فرد کی قابلِ قدر خدمات کے تذکرے پر رقت طاری ہو جانا اس فرد کی عظمت کی نہیں بلکہ سن کر یا پڑھ کر دم بخود رہ جانے والے کی علمی ناپختگی اور داخلی خلفشار کی علامت ہوا کرتے ہیں۔ یعنی اپنی کمزوریوں، نا اہلیوں اور ادھورے پن کی تکمیل اور اس کی تجسیم ہی شخصیت پرستی کا بنیادی جوہر ہوتا ہے جس کی جڑیں خیال پرستی کے زہراب سے آلودہ ہوتی ہیں۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ ہر بزدل کا آئیڈیل عام طور پر ایسا تاریخی کردار ہوتا ہے جس کی وجہ شہرت اس کی جرات اور بہادری ہویا پھر ہرکم فہم دا نشور کا آئیڈیل بہت نامور فلسفی۔ بڑے ناموں سے عام طور پر چھوٹے لوگ ہی مرعوب ہوتے ہیں اور سچے شاگرد جستجو اور محنت کے جذبے سے لبریز رواں دواں رہتے ہیں اور نئی تاریخ رقم کرتے چلے جاتے ہیں۔ مجرد شخصیات کی ا سیری کا یہ بیہودہ عمل مُردہ عظیم شخصیات سے شروع ہو کر زندہ ماورائے فطرت افراد کی بے دلیل اطاعت پر ختم ہو جاتا ہے۔
کسی کو مصنوعی طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا اصل محرک خود اپنے آپ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ہوتا ہے تاکہ خود کو اس عظیم ’باطنی ورثے‘ سے جوڑ لیا جائے۔ یہ درست ہے کہ زندگی کے غیر معمولی تجربات اور عظیم واقعات میں متحرک مداخلت کی وجہ سے کچھ شخصیات باطنی طور پر سماج کی دیگر اکثریتی پرتوں سے زیادہ تندرست اور توانا ہو جاتی ہیں لیکن ایسا صرف اور صرف ان عملی تجربات کے زیرِ اثر اور مرہونِ منت ہی ہوتا ہے۔ معروضی سچائی اور اس کے ارتقا کے قوانین کا ادراک ہی کسی فرد کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ خود تاریخی عمل پر انمٹ نقوش ثبت کر سکے۔ مارکس، اینگلس، لینن، ٹراٹسکی، ٹیڈ گرانٹ سب اس لیے عظیم ہیں کیونکہ وہ معروضی سچائی کے نہ صرف سائنسی مفسرین تھے بلکہ ان کی تفسیروں میں بھی تعمیر کا عنصر غالب رہا، یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنے بعد کے زمانے کے خدوخال کو بھی بسا اوقات فیصلہ کن حد تک متاثر کیا۔ کسی بڑے تاریخی کردار کی طرح بن جانے کی خواہش نام کمانے لینے یا مشہور ہوجانے کی مکروہ کاوشوں کا اظہار ہوتی ہے جو ذات کے کھوکھلے پن اور کم مائیگی کی دلیل ہوتا ہے۔ ناموری کا چسکا ایک نفسیاتی ناسور ہے جو علم و حکمت کا گلا گھونٹنا شروع کر دیتا ہے۔ تمام تر دانشورانہ نفسیاتی اور اخلاقی پراگندگی کا سر چشمہ بھی یہی ہے۔ کسی کے جیسا بن جانے کی خواہش کا مطلب اور ناگزیر پہلوہی یہ ہوتا ہے کہ کوئی دوسرا ویسا نہ بن سکے، اسی لیے رقابت اور حسد انسانی رشتوں کو مسخ کرنا شروع کر دیتا ہے۔ چاپلوسی، خوشامد پسندی، مطلق ا لعنانی، موقع پرستی اور دیگر تمام قسم کی ذہنی غلاظتیں ایسے دماغ میں جا گزیں ہونا ناگزیر ہوتا ہے جو اپنی منفرد شناخت کے خبط میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ بوژوا میڈیا اور ذرائع ابلاغ کی ترقی کے ساتھ ساتھ علم و دانش کی کمرشلائزیشن نے اس عمل کو اور بھی مہمیز دی ہے۔ اینگلزایک سچا مارکسی تھا اورناموری اور اس سے منسلک دیگر گھٹیا توہمات سے بے انتہا بدظن تھا، ا سی لیے اس نے اپنے جسدِ خاکی کو دفنانے کی بجائے جلا دینے کی وصیت کی تھی۔ وہ مارکس کی طرف ایسے توہماتی رویوں کے اندر چھپے رجعتی عناصر کی پیش بینی کر رہا تھا جو مارکسزم میں عقیدہ پروری کے بیج بونے کے مترادف تھے۔ تاریخ نے اسے درست ثابت کیا۔ سٹالن مارکسی مذہب کا پیغمبربن گیا اور اس انقلابی نسل کے زیادہ تر عظیم دماغ اس پر ایمان لے آئے۔ تاریخ نے پھر ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جو انہوں نے اپنی تقدیر میں خود لکھا تھا۔
’دوسرا ہٹلر، ہو بہو نپولین یاسٹالن کا نیا جنم‘اور اسی طرح ’آج کا مارکس، ہمارے عہد کا لینن یا اکیسویں صدی کا ٹراٹسکی‘ جیسی اصطلاحات تاریخ کی سائنس کی متعفن تضحیک کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ اور خاص طور پر جب مارکسی حلقوں میں ایسا اندازِ گفتگو در آئے تو یہ شرمناک حد تک مجرمانہ بن جاتا ہے۔ مارکس، اینگلس، لینن، ٹراٹسکی وغیرہ کوئی معینہ فریضہ ادا نہیں کر رہے تھے یا انہوں نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کسی کی بیہودہ نقالی میں اپنے افعال اور زندگیوں کے راستے کا تعین نہیں کیا تھا بلکہ وہ معروضی تقاضوں سے خود کو ہم آہنگ کرتے ہوئے اور ہر نئی علمی اور عملی آزمائش سے نبرد آزما ہوتے ہوئے اس تاریخی فریضے کی تکمیل کر رہے تھے۔ اور انہیں فوری طور پر اپنی زندگیوں میں کوئی داد وتحسین نہیں مل رہی تھی بلکہ مسلسل دشنام، بہتان، لعن طعن اور اپنوں، پراؤں کی حقارت برداشت کرنی پڑتی تھی۔ ’معینہ کی طرف سفر‘ کا تاریخ کی ہیگلیائی تشریح (وہ بھی غلط) سے تو کوئی تعلق ہو سکتا ہے مگر تاریخی مادیت کی سائنس اسے واشگاف انداز میں مسترد کر چکی ہے۔ اس غلط طرزِ فکر سے نام نہاد عظیم شخصیات کو ہر طرح کے اخلاقی اور سیاسی جرائم کرنے کی کھلی چھٹی مل جاتی ہے۔ وہ دوسروں سے تنقید یا اختلاف کرنے کا حق چھین لینے کے درپے ہوتے ہیں کیونکہ ان کا یقین مستحکم ہوتا ہے کہ اگر وہ وقتی طور پر غلط بھی ہیں تو آئندہ واقعات بالآخر انہیں درست ثابت کر ہی دیں گے کیونکہ یہ ’معینہ ‘ ہے۔ خود کو ساری کائنات کا محور قرار دے کر اپنی خود ساختہ دنیا تخلیق کر کے حقیقی دنیا میں محض مذاق بن جانا ان کا مقدر ہوتا ہے۔ ایسے افراد زندہ طاقتوں کے بدلتے ہوئے توازن کے مابین منتشر ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ معروضی سچائی کی تحقیق سے کنارا کش ہو کر بلآخر اپنی ذات کے پاتال میں غرق ہو جاتے ہیں۔
تیسری دنیا میں بالخصوص ایسے بہت سے نام نہاد انقلابی کردار رہے ہیں جو عظیم مارکسی استادوں کی طرح کی شباہت اپنانے اور ان کی طرح دکھنے تک کی کوشش کرتے رہے بلکہ ایک موصوف تو لینن کی تصویر سامنے رکھ کر شیو بنایا کرتے تھے تاکہ آج کے عہد کے لینن بن سکیں اور بالآخر وہ اپنے منطقی انجام کو جا پہنچے۔ بلکہ تیسری دنیا میں ہی کیوں مغرب میں بھی اپنے آپ کو ٹراٹسکائیٹ کہلا نے والوں کی کمی تو نہیں۔ جتنے ٹراٹسکائیٹ مارکسزم کے نظریاتی ورثے اور اکتوبر انقلاب کے دفاع کی لڑائی میں شہید ہوئے اتنے نہیں تو اس کے نصف سے زائد اپنے عہد کا ٹراٹسکی ثابت ہونے کے زعم میں نظریاتی طور پر دیوالیہ ہو گئے۔ تمام مارکسی اساتذہ بلاشبہ قابلِ تقلید ہیں مگر ’بغیر تحقیق اور جذبہ ءِ تعمیر کے تقلید‘ ایک نفسیاتی بیماری کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ یورپ کی ٹراٹسکائیٹ تحریک کی تاریخ ایسے بے شمار کرداروں سے بھری پڑی ہے جو ٹراٹسکی کی عظیم قربانیوں کے وزن تلے ہی دب کر سیاسی طور پر ہلاک ہو گئے اور ان عظیم قربانیوں کے معروضی محرکات اور نظریاتی عوامل تک کبھی رسائی حاصل نہ کر سکے۔ کسی بھی مسئلے کا مناسب حل تلاش کرنے کا طریقہ یہ نہیں کہ یہ سمجھا جائے کہ اگر لینن اور ٹراٹسکی یہاں ہوتے تو وہ کیا کرتے بلکہ سائنسی تقاضا یہ ہے کہ مسئلے کی وجوہات تلاش کر کے زمان و مکان کی مناسبت سے موزوں راستہ نکالنے کی کوشش کی جائے جو یا تو بالکل وہی ہوگا جو ہونا چاہیے یا پھر اس کے قریب قریب ہو گا۔ اگر کوئی سوال کرے کہ اذیتوں بھرے اس نظام سے نجات کا آخر کیا ذریعہ ہے تو اس کا جواب ایک ہی ہے، کوئی ہیرو یا مسیحا نہیں بلکہ پارٹی، انقلابی پارٹی۔ بورژوا انفرادیت سے نہیں بلکہ اجتماعیت کی مضبوط اینٹوں سے تعمیر شدہ مارکسی بین الاقوامی۔
ٹراٹسکی کی زندگی اور جدوجہد کا فیصلہ کن سبق یہی نہیں کہ سوشلسٹ انقلاب تک ناقابلِ مصالحت جدوجہد، بلکہ کمیونسٹ معاشرے کی تشکیل تک ان تھک جنگ۔ جنگ ترمیم پسندی، نظریاتی انحراف، طبقاتی مصالحت اور مفاد پرستی کے خلاف۔ اس جنگ کے اوزار عالمی سطح پر واقعات کی ب بھٹی میں تپ تپ کر فولاد بن رہے ہیں۔ انسانی تاریخ کے عظیم ترین معرکے کا وقت قریب آ رہا ہے، اسے سر کرنے کے لیے انقلابیوں کو نظریاتی سوجھ بوجھ، جرات، ثابت قدمی، مستقل مزاجی، بھر پور اعصاب اور سب سے بڑھ کر انقلابی وجدان کی ضرورت ہے جو صرف اور صرف اپنے آپ کو انسانی بقا کے عظیم مقصد کے لیے وقف کر کے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ جس کی وضاحت کامریڈ ٹراٹسکی نے کچھ یوں کی تھی:
’’کوئی عظیم کام وجدان کے بغیر نہیں ہوتا یعنی اس لاشعوری حِس کے بغیر جو اگرچہ نظریاتی اور عملی کام سے پروان چڑھتی رہتی ہے مگر فرد کی فطرت میں پوری طرح جڑ پکڑے ہوئے ہوتی ہے۔ نہ ہی نظریاتی تعلیم اور عملی روزمرہ اس سیاسی بصیرت کی جگہ لے سکتا ہے جو کسی انسان کو کوئی صورتحال سمجھنے، اسے پرکھنے اور مستقبل میں جھانکنے والی آنکھ عطا کرتی ہے۔ فطرت کا یہ تحفہ اچانک ردو بدل اور اتھل پتھل کے مواقع پر فیصلہ کن اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ یعنی انقلاب کے موقع پر‘‘ (میری زندگی صفحہ 219)