|تحریر: جو اٹارڈ، ترجمہ: یار یوسفزئی|
حال ہی میں کرونا وائرس کی ایک نئی پریشان کن قسم نے جنم لیا ہے جسے B.1.1.529 یا اومیکرون کہا جاتا ہے۔ اس قسم کا سامنے آنا لاپرواہی کے ساتھ فوری سرمایہ دارانہ مفادات کو ترجیح دینے کا نا گزیر نتیجہ ہے، جس کے باعث اس وباء کا کوئی انت دکھائی نہیں دے رہا۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اومیکرون کی پہلی تشخیص جنوبی افریقہ میں ہوئی تھی، جہاں صوبہ خاؤتنگ میں یہ تیزی کے ساتھ ڈیلٹا نامی قسم سے زیادہ تیزی کے ساتھ پھیل رہی تھی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پورے ملک کے اندر سات دنوں کی اوسط سے اس کے 300 کیس رپورٹ ہو رہے تھے، جو نومبر کے اواخر تک 4 ہزار تک پہنچ گئے۔ اومیکرون دنیا کے دیگر ممالک میں بھی پھیلنا شروع ہو گیا ہے اور اٹلی، جرمنی، برطانیہ، اسرائیل، ہانگ کانگ اور ڈنمارک کے اندر اس کے کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔
جیسا کہ پورے کرونا وباء کے عرصے کے حوالے سے کہا جا سکتا ہے؛ ایسا ہونے سے بچا جا سکتا تھا۔ ایک تعقلی اور عالمی منصوبہ بندی کی بنیاد پر شاید ابھی تک ہم کرونا کا پوری طرح خاتمہ کر چکے ہوتے۔ ابھی تک ویکسین کے 9 ارب ڈوز تیار کیے جا چکے ہیں جبکہ سال کے آخر تک اس کی تعداد 12 ارب تک پہنچنے کا امکان ہے، جو دنیا کے ہر شخص کے لیے کافی ہے۔
مغربی ممالک میں اگرچہ 60 فیصد سے زائد افراد کو دونوں ڈوز لگ چکے ہیں، غریب ممالک میں یہ تعداد 3 فیصد ہے۔ ان مایوس کن اعداد و شمار کی ذمہ دار بڑی دوا ساز کمپنیاں، جو انسانی جانوں کی کوئی پرواہ کیے بغیر منافع خوری کو ترجیح دیتی ہیں، اور ویکسین کے حوالے سے تحفظاتی پالیسیاں اپنانے والے امیر ممالک ہیں۔ اس کے نتیجے میں وائرس کی ایسی نئی خطرناک قسموں کو پروان چڑھنے کا سازگار ماحول ملا ہے جو زیادہ آسانی سے پھیلتی ہیں۔ جیسا کہ ہم نے مارچ کے مہینے میں لکھا تھا:
”امیر ترین ممالک اپنی آبادیوں کو سب سے پہلے ویکسین فراہم کرنے کی دوڑ میں اس کی ذخیرہ اندوزی کرتے ہوئے تلخ کلامی پر اتر آئے ہیں اور بے شمار زندگیاں خطرے میں ڈال رہے ہیں۔۔۔اس دوران، غریب ممالک میں وائرس کا پھیلاؤ اور تغیر جاری ہے اور اس کی نئی اقسام سامنے آنے کا خطرہ موجود ہے جو زیادہ تیزی سے پھیلنے والی اور زیادہ مہلک ہوں گی۔“
دوا ساز سرمایہ داروں اور سامراجی ممالک نے غریب ممالک کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔ دہائیوں سے جاری معاشی قتلِ عام نے ان ممالک میں سماج اور صحت کے انفراسٹرکچر کو پہلے سے ہی برباد کر دیا تھا، پھر جب وباء پھیل گئی تو اربوں افراد کو وائرس سے کوئی دفاع فراہم نہیں کیا گیا۔ اب سامراجیوں کی اپنی اپنی معاشی بحالی کو ترجیح دینے کی سرد مہر اور شعوری پالیسی کے سنگین نتائج پوری دنیا کو بھگتنے پڑ سکتے ہیں، ایک ایسے وقت میں جب بین الاقوامی تعاون کی اشد ضرورت ہے۔
جیسا کرو گے، ویسا بھرو گے
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ کرونا کے خلاف جنگ کو اومیکرون سے ”بہت بڑا خطرہ“ لاحق ہے اور دنیا بھر میں اس کے پھیلاؤ کی صورت میں ”سنگین نتائج“ نکل سکتے ہیں۔ ابھی تک وباء سے بلا واسطہ یا بالواسطہ طور پر تقریباً 1 کروڑ 50 لاکھ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ اموات کی نئی لہروں سے یہ تعداد مزید بھی بڑھے گی۔
اگرچہ اومیکرون پر ابھی تک بڑے پیمانے کی تحقیقات نہیں ہوئی ہیں مگر ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ اس کے سپائیک پروٹین، جس کے ذریعے وائرس انسانی خلیات میں داخل ہوتا ہے، 32 مختلف شکلوں میں موجود ہیں۔ جنوبی افریقہ سے دستیاب ڈیٹا کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ ڈیلٹا والی قسم کی نسبت 100 سے لے کر 500 فیصد تک زیادہ پھیلنے کے قابل ہوگی، اور سائنسدانوں کو ڈر ہے کہ اسے ویکسین سے حاصل شدہ قوتِ مدافعت روک نہیں پائے گی۔
ڈبلیو ایچ او نے اس بنیاد پر اومیکرون کو ’خطرے والی قسم‘ قرار دے دیا ہے، جو اب تک سب سے سنجیدہ درجہ بندی ہے۔ جواباً، درجنوں ممالک نے جنوبی افریقہ سے آنے والے سیاحوں پر پابندی لگا دی ہے۔ یعنی جب بات حد سے گزر جاتی ہے تو تب ہی یہ متحرک ہوتے ہیں۔ اومیکرون جنم لے چکا ہے۔ ابھی تک ہم نہیں جانتے کہ یہ کتنا خطرناک ہے اور لوگوں کو کتنا متاثر کر سکتا ہے، اور موجودہ ویکسین اس کے خلاف کتنی کار آمد ہوں گی۔ مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ غریب ممالک کے اندر، جہاں ابھی تک بڑے پیمانے پر ویکسی نیشن بھی نہیں ہوئی، یہ تباہی مچا کے رکھ دے گی۔
جنوبی افریقہ میں اس قسم کا ابھرنا کوئی اتفاق نہیں، جہاں سرکاری قومی ویکسی نیشن کی شرح محض 27 فیصد ہے، اور دیہاتی آبادی میں اس سے کئی گنا کم ہے۔
دراصل برّاعظمِ افریقہ میں یہ ویکسی نیشن کی سب سے بڑی شرحوں میں سے ایک ہے، اور جنوبی افریقی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس اگلے پانچ مہینوں کے لیے کافی ویکسینیں ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان کی اکثریت عطیہ کی گئی ویکسینیں ہیں جو ایکسپائر ہونے والی ہیں، مطلب ان کو زیرِ استعمال لانے کے لیے تھوڑا سا وقت بچا ہے؛ اس کے علاوہ ٹھنڈی سٹوریج کے فقدان، پسماندہ انفراسٹرکچر اور ویکسی نیشن کے ذرائع (خاص کر سرنج) کی کمی کے باعث ویکسین فراہم کرنے کا کام مشکل ہو گیا ہے۔ اگر جنوبی افریقہ کو شروع سے ویکسین کی فراہمی یقینی بنائی جاتی تو ابھی اس کی یہ حالت نہ ہوتی۔
پچھلے عرصے میں کرونا کی نئی اقسام کا جنم ان ممالک (مثلاً برطانیہ، بھارت، برازیل) میں ہوتا رہا ہے جہاں دائیں بازو کے سیاستدانوں کی ’ہرڈ ایمیونٹی‘ والی حکمتِ عملی کے باعث، تاکہ معیشتوں کو بند ہونے سے روکا جا سکے، یا ویکسی نیشن کی کم تعداد کے باعث، یا دونوں کی وجہ سے، بڑے پیمانے پر غیر ویکسین شدہ آبادیوں کو آپس میں ملنے جلنے دیا گیا۔
دنیا کے اکثریتی علاقوں میں ویکسی نیشن کی مسلسل کم شرح کے پیشِ نظر اومیکرون جیسی قسم کے جنم لینے کی پیش گوئی ممکن تھی۔ جیسا کہ ہم نے وضاحت کی تھی، اگر وائرس کی پرانی اقسام کو گردش کرنے دیا جائے تو وہ ویکسین اور انفیکشن کے ذریعے حاصل کی گئی قوتِ مدافعت، جو کرونا کی تشخیص کر کے اسے روکتی ہے، پر قابو پانے کے لیے خود کو تبدیل کرتی ہے:
”نئی اقسام، جو زیادہ مہلک ہوتی ہیں، کے جنم لینے کو روکنے کا طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑنا بند کیا جائے۔ وائرس کے ارتقاء کو روکنے کا آسان طریقہ لوگوں کا آپس میں میل جول کم کرنا ہے۔۔۔سیاسی طور پر اس سے مراد کارپوریٹ کے منافعوں پر وائرس کے پھیلاؤ میں کمی کو ترجیح دینا ہے۔ مگر سرمایہ دار سیاستدان ایسا ہر گز نہیں چاہتے۔“
اومیکرون انسانیت کے لیے ایک بری خبر ہے مگر بڑے دوا ساز سرمایہ داروں کے لیے یہ خوشخبری ہے، جو انتشار اور جانی نقصان کی پرواہ کیے بغیر وباء کے دوران زیادہ سے زیادہ منافعے کمانا چاہتے ہیں:
”ان کارپوریشنز نے سرمایہ کاروں کے سامنے نئی اقسام کے لیے ویکسین بنانے کے حوالے سے دیوہیکل منافعوں کی پیش گوئی کی ہے۔ وائرس کا خاتمہ ان کے مالیاتی مفادات کے خلاف ہے۔ دورِ حاضر کے ارتقائی عمل کو دیکھا جائے تو کرونا اور ان سرمایہ کاروں کے بیچ باہمی تعلق پایا جاتا ہے، جو محنت کش لوگوں کے خون چوسنے میں برابر کے شریک ہیں۔“
ان دنوں فائزر، بائیو این ٹیک اور موڈیرنا ہر سیکنڈ میں 1 ہزار ڈالر منافع کما رہے ہیں، جبکہ فائزر 2021ء کے آخر تک ویکسین کی مد میں 36 ارب ڈالر کمائے گی۔ یہ دیوہیکل منافعے امیر ترین ممالک کو براہِ راست ویکسین فروخت کرنے کا نتیجہ ہے، جو بڑی تعداد میں خریداری کی اہلیت رکھتے ہیں، اور ابھی نئی ویکسین کے لیے بھی معاہدے کر رہے ہیں۔ اومیکرون کی خبر جیسے ہی پھیل گئی، دنیا بھر کے سٹاک ایکسچینجز میں دوا ساز کمپنیوں کے شیئرز بڑھنے لگے۔ سرمایہ داری کی وحشت کی اس سے بہتر مثال ڈھونڈنا مشکل ہوگا۔
اس سارے عرصے میں دوا سازی سے وابستہ سرمایہ دار تسلسل کے ساتھ ویکسین کی دانشورانہ ملکیتی حقوق کا سختی سے دفاع کرتے رہے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ ویکسین کو تیار کرنے کے حوالے سے کی جانے والی تحقیقات کی اکثریت ریاست نے عوام کا پیسہ استعمال کرتے ہوئے کی تھیں۔ یہ لٹیرے محض اپنے مالیاتی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے دوا سازی کے ذرائع پر قابض ہیں اور جان بچانے والی دوائیوں کے ملکیتی حقوق حاصل کر کے منافعے نچوڑتے رہتے ہیں۔
ایک سال پہلے، جنوبی افریقہ اور بھارت نے عالمی ادارہ تجارت (ڈبلیو ٹی او) سے کرونا ویکسین کے دانشورانہ ملکیتی حقوق ختم کرنے کی اپیل کی تھی تاکہ غریب ممالک میں ان کے فارمولوں پر ویکسین تیار کی جا سکیں۔ ڈبلیو ٹی او کے سامراجی ممالک، جن میں امریکہ، یورپی یونین اور برطانیہ شامل تھے، نے فوری طور پر اس کی مخالفت کی۔ ایسا انہوں نے اپنے اپنے ممالک کے دوا ساز سرمایہ داروں کے کہنے پر کیا، جو ہر سال اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کروڑوں خرچ کرتے ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے ویکسین کا فارمولہ عام کرنے کے حق میں چند باتیں کی تھیں مگر سامراجیوں نے اس حوالے سے کچھ بھی نہیں کیا۔ اس کے برعکس، جرمنی ایسا کرنے کا سخت مخالف رہا، جس کا کہنا تھا کہ ”دانشورانہ ملکیت ایجادات کا ذریعہ ہے اور اسے ہمیشہ قائم رکھنا پڑے گا۔“ مختصر یہ کہ اس نظام کے رکھوالے انتہائی شدید بحران میں بھی نجی ملکیت کے ادارے پر سمجھوتہ نہیں کرتے۔
ذخیرہ اندوزی کے نتیجے میں 87 فیصد ویکسینوں کے اوپر امیر ممالک کی اجارہ داری بن چکی ہے۔ مغربی سرمایہ دار آپس میں تلخ کلامی پر اُتر کر ذخیرہ اندوزی کرنے لگے، تاکہ اپنے حریفوں سے پہلے اپنی معیشت بحال کر کے منافعوں کا بہاؤ جاری کیا جائے۔
ہونا تو ایسا چاہیے تھا کہ کرونا وباء، جو پورے سرمایہ دارانہ نظام کے وجود کے لیے خطرہ ہے، نام نہاد عالمی قائدین کو فوری قومی مفادات پسِ پشت ڈال کر مشترکہ دشمن کے خلاف متحد ہونے پر مجبور کرتی۔ اس کی بجائے وہ ذخیرہ اندوزی کی دوڑ میں اس طرح لگ گئے کہ اپنی اپنی ملکی آبادی سے چار اور پانچ گنا زیادہ ویکسینیں ذخیرہ کر لیں۔
سائنسدانوں کی جانب سے بارہا تنبیہات ملنے کے باوجود، کہ ویکسین کی تحفظاتی پالیسیاں ان کی اپنی آبادیوں اور معاشی بحالیوں کے لیے خطرہ بنیں گی، انہوں نے غریب ممالک کو کھوکھلے بیانات اور مگرمچھ کے آنسوؤں کے سوا کچھ نہیں دیا۔
برطانیہ میں جلد ہی تمام بالغ افراد کو دوسری ڈوز لگ جائے گی۔ جبکہ زمبابوے میں 25 فیصد اور نمیبیا میں 14 فیصد افراد کو ابھی تک صرف پہلی ڈوز لگ پائی ہے۔ ویکسینیشن کی شرح بڑھ جانے سے مانگ میں کمی کے باعث امیر ممالک کے پاس لاکھوں ڈوز پڑے پڑے ایکسپائر ہو کر ضائع ہو گئے ہیں۔
برٹش میڈیکل جرنل کے مطابق محض امریکہ نے مارچ کے اواخر تک 1 لاکھ 80 ہزار ڈوز ضائع کیے ہیں۔ پوری دنیا میں 24 کروڑ 10 لاکھ ویکسینیں ضائع ہونے کے امکانات ہیں کیونکہ وہ ایکسپائر ہونے سے پہلے ضرورت مندوں کو بر آمد نہیں کی جائیں گی۔ یہ قابلِ نفرت تضاد منڈی کے انتشار ہی کی پیدوار ہے!
ستمبر میں ہونے والے G7 کے اجلاس، جس کی میزبانی بائیڈن نے کی تھی، میں ہدف لیا گیا تھا کہ اس سال کے آخر تک 92 غریب ترین ممالک کو 40 فیصد آبادی کو ویکسین فراہم کرنے میں مدد دی جائے گی۔ یہ وعدے جلد ہی بھاپ بن کر اڑ گئے۔ یہ ہدف حاصل نہیں ہو سکے گا، جو پہلے سے ہی بہت چھوٹا تھا۔ امریکہ نے اپنے وعدے کا 25 فیصد حصہ فراہم کیا ہے، یورپی یونین نے 19 فیصد اور برطانیہ نے 11 فیصد۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈبلیو ایچ او کی جانب سے ’کو ویکس‘ پروگرام کے ذریعے غریب ممالک کو ویکسین فراہم کرنے کے ہدف کا محض دو تہائی حاصل کیا جا سکے گا، جو 2021ء کے لیے 2 ارب ویکسینوں کا ہدف تھا۔
زخموں پر نمک پاشی کرتے ہوئے، ان ممالک سے دیوہیکل پیمانے پر ویکسین برآمد کی جا رہی ہیں جہاں ان کی اشد ضرورت ہے۔ مثلاً، جنوبی افریقہ میں تیار ہونے والی جانسن اینڈ جانسن کی ایک ڈوز والی ویکسین، جو وہاں پر ایسٹرا زینیکا کی معطلی کے بعد انتہائی ضروری ہو گئی تھی، پچھلے سال امیر یورپی ممالک کو بر آمد کی جاتی رہی۔ یعنی سامراجی بد معاشوں کی اپنی زائد ویکسینیں ضرورت مند ممالک کو دینے سے انکار کرنے کے ساتھ بڑی دوا ساز کمپنیاں افریقی ممالک کا استحصال جاری رکھ کر مغربی ممالک میں مزید ذخیرہ اندوزی کر رہی ہیں۔
ان مجرمانہ پالیسیوں کے اثرات مغربی ممالک پر بھی پڑنا شروع ہو چکے ہیں۔ کچھ ہی ہفتے قبل مغرب نے وباء کے خاتمے اور ’معمول‘ کی واپسی کا فخریہ اعلان کیا تھا۔ مگر اب سردیوں کے مہینوں میں کیسز، ہسپتال میں داخلے اور اموات بڑھنے کے پیشِ نظر اومیکرون کی وجہ سے ایک دفعہ پھر لاک ڈاؤن کا نیا سلسلہ شروع ہونے کے کے امکانات نظر آ رہے ہیں۔
متعدد یورپی ممالک میں ایس او پیز اور لاک ڈاؤن کی پابندیاں اچانک متعارف کرانے سمیت ویکسی نیشن کے لازمی قرار دیے جانے کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج ہوئے ہیں۔ اگرچہ ان مظاہروں کی قیادت فاشسٹ اور سازشی تھیوریوں پر یقین رکھنے والے کر رہے ہیں مگر یہ اس بات کا بھی اظہار ہے کہ ان دو سالوں کے اندر عوام کا حکومتوں سے اعتماد اٹھ چکا ہے، جس کے دوران وہ وباء پر قابو پانے میں ناکام رہے ہیں۔
کیا کِیا جائے؟
سرمایہ داروں کی دور اندیشی کا فقدان اور سامراجیوں کے ہاتھوں غریب ممالک کا استحصال، دونوں اومیکرون کے برابر ذمہ دار ہیں۔ یہ نئی قسم اس نظام کی بنائی ہوئی بلا ہے، جس کو سب آتا ہوا دیکھ رہے تھے مگر کوئی اسے روکنے کے لیے متحرک نہیں ہوا۔ ٹراٹسکی نے اپنے دور کے حکمران طبقے کے بارے میں لکھا تھا کہ وہ اپنی آنکھیں بند کیے پہاڑ کے کنارے کی جانب دوڑتے جا رہے ہیں۔ آج کے حکمران آنکھیں کھول کر ایسا کر رہے ہیں!
ہم نے فروری میں لکھا تھا کہ ”یہ وباء تب تک ختم نہیں ہوگی جب تک دنیا کی پوری آبادی کو ویکسین نہ لگے۔“ در حقیقت، شاید ابھی بہت دیر ہو چکی ہے۔ شاید ابھی وائرس وبائی زکام کی طرح نہ ختم ہونے والی وباء بن چکی ہے؛ ہماری زندگی کے اوپر منڈلاتا ہوا بھوت جس کے ساتھ ہمیں جینا پڑے گا۔ یہ نا گزیر نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ بد نظمی کا نتیجہ تھا، جسے مستقبل کی نسلوں پر مسلط کیا گیا۔
یہ بار بار ثابت ہو چکا ہے کہ سرمایہ داری میں اس پیمانے کے عالمی بحران سے نمٹنے کی اہلیت نہیں ہے۔ وباء کے خاتمے کے لیے درکار تمام ٹیکنالوجی اور تجربات موجود ہیں۔ مگر کرونا کے خلاف لڑائی میں نجی ملکیت اور قومی ریاست راستے کی رکاوٹیں بنی ہوئی ہیں؛ وباء کے خاتمے کے لیے عالمی تعاون اور منافعوں کی بجائے ضرورت کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم ضروری ہے۔
کسی قسم کی معمول کی واپسی کو یقینی بنانے کا واحد راستہ وباء کی لڑائی کے ساتھ بوسیدہ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی لڑائی کو یکجا کرنا ہے، اس سے پہلے کہ یہ نظام انسانیت کو مزید بربریت میں دکھیل دے۔