[رپورٹ:حمید علی زادے]
آج 3اکتوبر کو اچانک شروع ہونے والے بڑے مظاہرے میں ہزاروں افراد تہران کے بازار میں سڑکوں پر نکل آئے۔نعرے لگاتے ہوئے مظاہرین پورے بازار میں پھیل گئے اور ایک بنک کی عمارت کو تباہ کر دیا۔مظاہرے دراصل حالیہ عرصے میں ہونے والی تیز ترین مہنگائی، ایرانی ریا ل کے انہدام اور حکومت کی جانب سے ان دونوں حقیقتوں کو تسلیم نہ کرنے کے خلاف تھے۔
مظاہرین جو نعرے لگا رہے تھے وہ کچھ اس یوں ہیں: ’’شام کو چھوڑو، ہمارے بارے میں سوچو‘‘،’’ ڈرو مت، ہم سب متحد ہیں‘‘، ’’بے کار ریاست فوراً استعفیٰ دے‘‘، ’’لوگوں کو دھوکہ دینے والی بے شرم ریاست‘‘۔ مظاہرین کے پولیس سے ٹکراؤ کے نتیجے میں کئی سو لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔کل بھی (2اکتوبر)تہران بازار میں کئی سو افراد کا نسبتاً چھوٹا مظاہرہ ہوا تھا۔
ایران کے دوسرے بڑے شہر مشہد میں بھی کچھ گروپوں کی جانب سے جارحانہ مظاہرے پولیس کے ساتھ پر تشدد ٹکراؤ پر منتج ہوئے۔یہ مظاہرے بھی ہوشربا مہنگائی کے خلاف تھے اور مظاہرین ریاست سے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے تھے۔
گزشتہ سال مغربی ممالک کی طرف سے ایران پر تاریخ کی سخت ترین پابندیوں کے بعد افراطِ زر آسمان کو چھو رہا ہے۔طلبہ کی جانب سے تہران کی 20سپر مارکیٹوں اور چار حکومتی خوراک کی تقسیم کے سینٹرز کے سروے کے مطابق10بنیادی ترین غذائی اجناس کی قیمتوں میں مارچ سے جولائی تک اوسطاً 70فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔اسی دوران مرکزی بینک افراطِ زر کی شرح 20فیصد تک ظاہر کرہا تھا۔اس وقت افراطِ زر اگرچہ 29فیصد ظاہر کی جا رہی ہے لیکن حقیقی صورتحال اس سے کہیں زیادہ خوفناک ہے۔
مندرجہ بالا صورتحال کے تناظر میں ریال کی قیمت میں بھی مسلسل کمی آ رہی ہے۔سوموار کے روز کاروبار کے اختتام پر ایک ڈالر کے مقابلے میں ریال کی قیمت 34200 سے مزید گر کر تاریخ کی کم ترین سطح یعنی 36100ریال فی ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ گزشتہ ہفتے سوموار کے روز ایرانی ریال 24600جبکہ صرف ڈیڑھ سال پہلے تک 12000فی ڈالر پر کھڑا تھا۔
دوسری طرف ایرانی ریاست اس صورتحال پر کسی قسم کا کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کر رہی۔درحقیقت حکام اس بات سے مکمل انکاری ہیں کہ کوئی مسئلہ سرے سے موجود بھی ہے۔کل احمدی نژاد نے اپنے ایک بیا ن میں کہا کہ یہ ایک نفسیاتی لڑائی ہے، لیکن بھوک سے نڈھال ایرانی لوگ جن مشکلات کا شکار ہیں اس بارے میں وہ کچھ کہنے سے قاصر ہے۔ایران بہت تیزی سے گہرے بحران میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔جولائی میں نشاپور کے شہر میں بھی گوشت کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر ہزاروں افراد نے مظاہرہ کیا تھا۔بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی کے ساتھ سطح کے نیچے پکنے والے لاوے کے دباؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔مستقبل میں جو کچھ ہونے والا ہے، یہ مظاہرے اس کی ایک معمولی سی جھلک ہیں۔
مارکسسٹ ڈاٹ کام، 3اکتوبر 2012ء
متعلقہ: