|تحریر: آدم پال|
استاد ذاکر حسین کی وفات دنیا بھر میں موسیقی کے مداحوں کے لیے انتہائی دکھ اور تکلیف کا باعث ہے۔ دنیا بھر میں موجود ان کے ان گنت چاہنے والے جہاں اس صدمے سے دو چار ہیں وہاں ان کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی ریکارڈنگز بھی بار بار شوق و ذوق سے سن رہے ہیں اور انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے آج بھی بے اختیار ”واہ! استاد!“ پکار اٹھتے ہیں۔ ذاکر حسین برصغیر سمیت پوری دنیا میں ہندوستانی کلاسیکی موسیقی اور بالخصوص طبلے کا ایک استعارہ بن چکے ہیں۔ در حقیقت طبلے اور ہندوستانی کلاسیکی موسیقی جسے شاستریہ سنگیت بھی کہا جاتا ہے اسے دنیا بھر میں مقبول کروانے کے جس سفر کا آغاز ان کے والد اور استاد اللہ رکھا اور ان کے رفقا نے شروع کیا تھا، وہ اسے نئی بلندیوں پر لے گئے اور مغربی دنیا کے بڑے ناموں کے ساتھ سنگت کرتے ہوئے اسے دنیا بھر میں مقبولیت کی معراج پر پہنچا دیا۔
در حقیقت انہوں نے 1970ء کی دہائی میں ہی ہندوستان کو الوداع کہہ کر امریکہ کے شہر سان فرانسیسکو میں رہائش اختیار کر لی تھی اور باقی کی زندگی کا زیادہ تر وقت مغربی موسیقاروں اور سازندوں کے ساتھ پرفارم کرنے اور مغربی اور مشرقی موسیقی کے امتزاج پر مبنی نئے تجربات اور دھنیں ترتیب دینے میں صرف کیا۔ ان کا انتقال بھی 15 دسمبر، 2024ء کو 73 برس کی عمر میں اسی شہر میں ہی ہوا جسے فن اور فنکاروں کی آماجگاہ بھی کہا جاتا ہے اور وہیں 19 دسمبر کو انہیں سپرد خاک کر دیا گیا۔ ان کی وفات پر صرف ہندوستانی کلاسیکی موسیقی سننے والے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں موسیقی کے شعبے سے وابستہ اور اس سے محظوظ ہونے والے اشکبار ہیں اور خاص کر سازندے غمزدہ ہیں جو ان کو اپنا نمائندہ سمجھتے تھے۔
استاد ذاکر حسین طبلے کے استاد تھے اور اس ساز کو دنیا بھر میں مقبول کروانے کے ساتھ ساتھ ہندوستانی موسیقی میں موجود اس کی جڑوں کی آبیاری کرنے میں بھی ان کا نمایاں کردار ہے۔ آج اگر تمام تر جدید کمپیوٹرائزڈ آلات، تکنیک اور مغربی سازوں کی موجودگی کے باوجود یہ ساز زندہ ہے اور اسے بجانے والے سازندے ہزاروں کی تعداد میں برصغیر سمیت پوری دنیا میں موجود ہیں تو اس میں بھی استاد ذاکر حسین کا اہم کردار ہے۔ اپنی پوری زندگی اس ساز کے لیے وقف کرنے کے بعد جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو وہ دنیا بھر میں طبلے کا استعارہ بن چکے ہیں اور آج موسیقی کے حلقوں میں طبلے کا ذکر ان کے بغیر ادھورا تصور کیا جاتا ہے۔
طبلہ جو یہاں کی مقامی موسیقی کا ساز ہے اور آج اسے اس موسیقی کا لازمی جزو سمجھا جاتا ہے اسے مغربی سازوں کی سنگت میں پیش کرنا اور اس ساز سے نابلد شائقین کو مسحور کرنا یقینا ایک مشکل مرحلہ تھا لیکن استاد اللہ رکھا اور پھر ان کے بعد ذاکر حسین نے اسے بخوبی سر انجام دیا اور شائقین کے دل جیتنے میں کامیاب رہے۔ گو کہ یہ عمل محض ابتدائی مراحل میں ہے اور اس میں مزید نکھار اور خوبصورتی کی بہت زیادہ گنجائش موجود ہے لیکن اس وسیع عمل کی بنیاد رکھنے میں اس گھرانے کی کاوشیں قابل تحسین ہیں۔
مشرقی اور مغربی موسیقی کا امتزاج انتہائی پیچیدہ کام ہے اور اس حوالے سے بہت سے تجربات کیے جاتے رہے ہیں۔ خاص طور پر پچھلی صدی میں جب عالمی سطح پر سرمایہ داری کے پھیلاؤ کے باعث دنیا ایک گلوبل ویلج بنتی چلی گئی تو اس حوالے سے تجربات میں بھی اضافہ ہوا۔ لیکن زیادہ تر تجربات ناکامی سے دوچار ہوئے اور چند ایک کو ہی کامیابی ملی۔ ان تمام تجربات میں استاد اللہ رکھا اور ذاکر حسین کی اپنے رفقا کے ہمراہ دنیا کے دیگر موسیقاروں کے ساتھ موجود پرفارمنسز نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ ذاکر حسین نے مغربی دنیا کے مشہور میوزک بینڈ دی بیٹلز (The Beatles) کے مشہور موسیقار اور گلوکار جارج ہیریسن کے ساتھ بھی پرفارم کیا جبکہ مغربی سازوں کے دیگر سازندوں جن میں Cello (وائلن جیسا ساز لیکن حجم میں اس سے کہیں بڑا)بجانے والے یو-یو-ما (Yo-Yo-Ma)، گٹارسٹ جان میکلاف لین (John McLaughlin) اور ڈرم بجانے والے میکی ہارٹ Mickey Hart اور دنیا کے دیگر نامور موسیقاروں اور سازندوں کے ساتھ بھی پرفارم کیا۔ ان کی یہ تمام پرفارمنسز یادگار ہیں اور دنیا میں ان کو سننے والے آج بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
ذاکر حسین
1951ء میں بمبئی سمیت پورا ہندوستان آزادی کے داغدار اجالے اور بٹواے کے زخموں سے رِس رہا تھا جب ذاکر حسین کا جنم ہوا۔
جنم کے چند لمحوں بعد ان کے کانوں میں پڑنے والی آوازوں میں سے ایک طبلے کی آواز بھی تھی جس کا اہتمام ان کے والد اللہ رکھا نے خصوصی طور پر کیا تھا۔ اس کے بعد مرتے دم تک وہ طبلے کے ساتھ ہی وابستہ رہے اور اپنے والد اور استاد کے سفر کو ہی نئی منزلوں کی جانب لے جاتے رہے۔ بڑے فنکاروں کے فن کو ان کے سماج سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا، در حقیقت ایسے فنکار سماج میں جاری تبدیلیوں کا ہی اپنے فن کے ذریعے اظہار کر رہے ہوتے ہیں اور ان کے فن کا جائزہ لیتے ہوئے اس سماج میں جاری گہری تبدیلیوں کا مشاہدہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ جیسے کسی بھی دور میں لکھا گیا ادب اس عہد کی تاریخ بھی ہوتا ہے ایسے ہی کسی بھی دور کی موسیقی اس عہد کے سماج اور وہاں بسنے والے افراد کی شعوری یا لاشعوری خواہشات، جذبات، امنگوں اور ذوق کی عکاس بھی ہوتی ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد ابھرنے والی دنیا میں دنیا دو قطبین کے درمیان بٹی ہوئی تھی ایک جانب سوویت یونین اور منصوبہ بند معیشتیں تھیں جبکہ دوسری طرف سرمایہ داری کی تاریخ کا سب سے بڑا عروج تھا۔ اس دوران مغربی سرمایہ دارممالک نے کمیونزم کے خوف سے فلاحی ریاست کو فروغ دیا اور عوام کی بہت بڑی اکثریت کا معیار زندگی تیزی سے بلند ہونا شروع ہوا۔ اس عروج کے دوران ہی 1960ء کی دہائی بالخصوص 1968ء میں پوری دنیا کے بہت سے سرمایہ دار ممالک میں انقلابی تحریکیں ابھریں اور لاکھوں کی تعداد میں طلبہ اور محنت کش اس سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے لیے متحرک ہوئے۔ یہ انقلابی دور موسیقی سمیت تمام فنون کو بھی نئی بلندیوں سے روشناس کروا رہا تھا۔ اس دور میں مغربی ممالک میں ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کا تعارف بھی بڑے پیمانے پر ہوا اور اسے سننے اور سمجھنے کے رجحان میں بھی تیز اضافہ ہوا۔ اسی دوران لاہور سے شام چوراسی گھرانے کے استاد نزاکت علی خان اور سلامت علی خان کی جوڑی خیال گائیکی کی بلندیوں کو چھوتی نظر آتی ہے جسے مغرب میں بھی پذیرائی ملی۔ اسی عرصے میں اللہ رکھا، ذاکر حسین اور ان کے ساتھ روی شنکر جیسے سازندوں کو بھی مغربی ممالک میں بہت زیادہ مقبولیت ملی۔ بعد کی دہائیوں میں جہاں انقلابی تحریکیں اپنی قیادتوں کی نظریاتی غداریوں کے باعث اسی نظام کی حدود میں قید ہو کر زوال پذیر ہو گئیں وہاں اس کلاسیکی موسیقی میں بھی دلچسپی بتدریج کم ہوتی گئی۔
سرمایہ دارانہ نظام کے عروج کے بعد 1970ء کی دہائی میں زوال پذیری کا آغاز ہوا جو تھوڑے بہت اتار چڑھاؤ کے ساتھ آج ایک گہری کھائی کی جانب تیزی سے لڑھک رہا ہے۔ اس دوران فنونِ لطیفہ اور موسیقی میں بھی زوال نظر آتا ہے اور گائیکی سے لے کر سازوں کے بجانے کا ہنر بہتر ہونے کی بجائے بدتر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ذاکر حسین اسی عہد کے نمائندے ہیں اور ان کے طبلے میں اس عہد کا مد و جزر بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔
ان کی بہترین پرفارمنسز ان کے والد کے ساتھ ہی ابتدائی دنوں میں نظر آتی ہیں۔ نقادوں کے مطابق ان کے والد کا طبلہ ان سے مختلف ہونے کے ساتھ ساتھ ان سے بہتر بھی تھا۔ ذاکر حسین جدت کے دلدادہ تھے اور اپنے استاد کی ہی طرح کی باغیانہ روش رکھنے کے باعث قدیم طریقوں سے انحراف کرنے اور نئی تبدیلیوں کو ہمیشہ کھلی بانہوں سے خوش آمدید کہنے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ امریکی سماج اور وہاں موجود سرمایہ داری کی سرشت میں یہ صفت موجود ہے جس کا ماضی میں ترقی پسندانہ کردار بھی رہا ہے۔ در حقیقت امریکی سماج پوری دنیا کی افرادی قوت کو سمیٹ کر ہی پروان چڑھا ہے اور اس کی ثقافت میں بھی یہ رنگ موجود ہے۔ اس صفت کا اظہار ذاکر حسین کی شخصیت میں بھی ہوتا ہے اور وہ خود کو موسیقی کے نئے رجحانات کے مطابق ڈھالتے رہے اور کبھی بھی نئے تجربات سے نہیں گھبرائے، بلکہ وہ دو قدم آگے بڑھ کر خود پرانی روش سے رو گردانی کرتے اور نئی آمیزش کو اختیار کرتے تھے۔ اس روش اور قاعدے سے روگردانی کو پرانے استاد ملاوٹ کہتے ہیں اور اس کی ہمیشہ سے سرزنش کرتے آئے ہیں۔ ذاکر حسین اس رویے کا مذاق اڑاتے تھے اور اپنے شاگردوں کو بھی نئے تجربات جسے وہ Improvisation کہتے تھے کرنے کی تلقین کرتے تھے۔ ان نئے تجربات اور دنیا پر حاوی سوچ کے لیے قابل قبول ہونے کے باعث انہیں بے پناہ مقبولیت بھی ملی اور دنیا بھر کے ایوارڈ بھی ان کے نام ہوئے لیکن اس میں طبلے کی مٹھاس، اس کے رچاؤ اور اس کی خوبصورتی میں کتنی کمی ہوئی اس کا احساس صرف با ذوق اور حساس افراد ہی کر سکتے ہیں۔
تاج محل چائے
انڈیا میں 1990ء کی دہائی میں یونی لیور کمپنی کی جانب سے بروک بانڈ تاج محل کے نام سے چائے کے برانڈ کی تشہیر کے لیے ذاکر حسین کا انتخاب کیا گیا۔ 1990ء کی دہائی انڈیا میں اہمیت کی حامل ہے کیونکہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد انڈیا میں ریاستی سرمایہ داری کا اختتام ہو رہا تھا اور منڈی کی بے لگام معیشت کا آغاز۔ اس سماجی معاشی تبدیلی کے اثرات سماج کے ہر شعبے اور ہر پہلو پر مرتب ہوئے۔ اسی دور میں ہی ذاکر حسین اس چائے کے اشتہار سے ہندوستان کے گھر گھر تک مشہور ہو گئے اور سرمایہ دارانہ استحصال کے نئے دور کی عکاسی موسیقی میں کرتے ہوئے نظر آئے۔ سان فرانسیسکو سے آگرہ ریکارڈنگ کے لیے پہنچے جہاں ٹی وی کے لیے اس تشہیری مہم میں وہ تاج محل کے سامنے طبلہ بجاتے ہوئے اور پھر چائے پیتے ہوئے نظر آئے۔
اس اشتہار کی ٹیگ لائن تھی ”واہ، استاد نہیں! واہ، تاج بولیے!“۔ اس تشہیری مہم پر ذاکر حسین کو کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ان پر کلاسیکی موسیقی کی اقدار سے روگردانی کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ لیکن ذاکر حسین امریکہ میں رہنے کے ساتھ ساتھ سرمایہ دارانہ نظام، اس کے نظریات، اخلاقیات اور کلاسیکی موسیقی کی کمرشلائزیشن کو مکمل طور پر قبول کر چکے تھے اس لیے وہ اس سفر میں پیچھے ہٹنے کی بجائے آگے ہی بڑھتے چلے گئے اور نت نئے تجربات کرتے رہے۔ ان کو زندگی میں گریمی ایوارڈ سمیت عالمی سطح کے دیگر ایوارڈز ملنے اور مغربی میڈیا میں بھرپور کوریج ملنے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے۔
کلاسیکی موسیقی کو سرمایہ دارانہ منڈی کے اصولوں کے تحت استوار کرنے کا عمل پنڈت روی شنکر نے ہی شروع کر دیا تھا جب وہ استاد اللہ رکھا کے ساتھ مغربی ممالک میں پرفارمنس کرنے کے سفر پر روانہ ہوئے۔ مغربی دنیا میں آج بھی ستار کے تعارف اور اس کے استعارے کے طور پر روی شنکر کا ہی نام لیا جاتا ہے اور ان کے شاگرد آج بھی اس سفر کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس سفر میں موسیقی کی مٹھاس، اس کے رس اور اس کے جمالیاتی پہلو میں مسلسل کمی ہوتی نظر آتی ہے جبکہ کمرشلائزیشن بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے۔ گو کہ اس عمل کو جاری رکھنے والے یہی کہتے ہیں کہ ہم موسیقی کے رستے میں حائل سرحدوں کو توڑ رہے ہیں اور دنیا بھر میں مختلف ملکوں، زبانوں اور ثقافتوں میں تقسیم لوگوں میں پُل کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ یقینا قابل تحسین ہے لیکن اس عمل میں وہ سرمائے کی پوجا کرتے ہوئے روح کی اس غذا کو کتنا بے ذائقہ اور لذت سے عاری کرتے جا رہے ہیں اس کا حساب لگانا مشکل نہیں۔
سرمائے کی حاکمیت نے جہاں ہر سماج میں محنت کش طبقے کے استحصال میں اضافہ کیا ہے وہاں ہر فن میں بھی چاشنی، شوق اور جمالیاتی احساس تقریباً ختم کر دیا ہے۔ آج موسیقی سمیت تمام فنون سرمائے کی لونڈی بن چکے ہیں اور فنکار کا مقصد اپنے فن کو نکھارنا اور اپنے آپ اور مداحوں کو جمالیاتی حظ پہنچانا نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا رہ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی موسیقی سننے والوں کو جمالیاتی تسکین دینے کی بجائے ہنگامہ آرائی اور شور بنتی چلی جا رہی ہے۔
استاد اللہ رکھا
ذاکر حسین نے اپنی تمام تر تربیت اپنے والد اور استاد اللہ رکھا سے حاصل کی۔ اپنی زندگی بھر کے تجربات اور بے پناہ مقبولیت کے باوجود نظر آتا ہے کہ وہ مہارت اور جمالیاتی پہلوؤں میں اپنے استاد سے آگے نہیں جا سکے۔ اس میں ان کی اپنی شخصیت کے علاوہ اسی عہد کے سماج اور معروضی حالات کا بھی اثر موجود ہے جب سرمایہ داری عالمی سطح پر ترقی کر رہی تھی اور یہاں پرانے سماج کے تمام تانے بانے توڑنے کا عمل ابھی ابتدائی مراحل میں تھا۔
استاد اللہ رکھا کا جنم 1919ء میں جموں کے ڈوگرہ خاندان میں ہوا تھا اور ان کا خاندان ڈوگری زبان بولتا تھا۔ اپنے ڈوگرہ خاندان کی جنگجوانہ روایت سے بغاوت کرتے ہوئے وہ گرداس پور میں طبلہ سیکھنے کا شوق پورا کرتے رہے اور پہلی دفعہ 1938ء میں لاہور کے ریڈیو سٹیشن میں تعینات ہوئے۔ اس کے بعد ان کی بمبئی ٹرانسفر ہوئی تو انہیں ریڈیو پر طبلہ بجانے کا بھی موقع ملا۔ اس کے بعد وہ وہاں کی فلم نگری سے بھی وابستہ رہے اور فلموں کی موسیقی بھی ترتیب دیتے رہے لیکن ان کا شوق اور جنون طبلہ ہی تھا۔ اس لیے فلمی موسیقی کو خیر آباد کہتے ہوئے طبلہ بجانے میں ہی مگن رہے اور پھر روی شنکر کے ساتھ بیرونی ممالک کے دوروں پر روانہ ہو گئے جہاں انہیں بے حد پذیرائی ملتی رہی۔
اللہ رکھا اور ذاکر حسین کا کمال یہ بھی ہے کہ انہوں نے موسیقی کے تمام شعبوں میں اپنے ہنر کا جادو جگایا جو اپنی مثال آپ ہے۔ خیال گائیکی اور دھرپد سے لے کر غزل، قوالی اور فلمی گیت میں ہر جگہ انہوں نے طبلے کے ساتھ سنگت کی اور ہر جگہ اپنی مہارت کا ثبوت دیا۔ اسی طرح کتھک سمیت رقص کے مختلف انداز اور نامور فنکاروں کے ساتھ بھی پرفارم کیا جو یقینا قابل ستائش ہے۔ اکثر سازندے کسی ایک طرز کی موسیقی کے ساتھ ہی وابستہ ہو جاتے ہیں اور انہیں دوسری طرز کے گلوکاروں یا رقص کے ساتھ سنگت کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ لیکن یہاں خیال گائیکی اور فلمی گیت جیسی انتہائی مختلف اصناف کے ساتھ مکمل انصاف ہوتا نظر آتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ اسی طرز کی موسیقی کے ساتھ عمر بھر سنگت کرتے رہے ہیں۔ ذاکر حسین نے جنوبی ہندوستان کے کلاسیکی گویوں کے ساتھ بھی سنگت کی اور انہیں وہاں بھی بے حد پذیرائی ملی۔ اس موسیقی کو کارناٹک موسیقی بھی کہا جاتا ہے جو شمالی ہندوستان کی کلاسیکی موسیقی سے تھوڑی مختلف ہے، گو کہ دونوں کی بنیاد ایک ہی ہے۔ یہ جنوبی ہندوستان کی تمام ریاستوں کی موسیقی پر مشتمل ہے اور اس میں تال کے لیے طبلے کے علاوہ مرندگَم (ڈھولک کی شکل کا ساز)، کنجیرا (ڈفلی سے ملتا جلتا ساز) اور گھٹم (گھڑے جیسا ساز) زیادہ استعمال ہوتے ہیں۔ ذاکر حسین نے ان سازوں کے ساتھ بھی پرفارم کیا اور پذیرائی بھی حاصل کی۔
سولو پرفارمنس (Solo)
اس گھرانے میں ہمیں طبلے کی سولو پرفارمنس کا بھی عروج نظر آتا ہے جو کسی بھی سازندے کے لیے سب سے بلند مقام ہوتا ہے۔ گائیکی کو ہی موسیقی میں سب پر سبقت حاصل ہے اور دیگر تمام ساز اس گائیکی کو رچانے اور خوبصورت بنانے کے لیے پس منظر میں ہی اپنا کام کرتے ہیں۔ گلوکار سُروں کو ایک مخصوص دھن میں خوبصورتی سے ادا کرتے ہوئے سننے والوں کو تفریح فراہم کرتا ہے جبکہ مختلف ساز اس گائیکی کی سنگت کرتے ہوئے محفل کو رنگین کرتے ہیں۔ لیکن سُر تال کے بغیر نامکمل ہے۔ موسیقی کی بنیاد سُر کے ساتھ ساتھ تال پربھی موجود ہے اور دونوں کی ہم آہنگی ہی موسیقی کو جنم دیتی ہے۔ دنیا بھر میں تال کے لیے مختلف ساز قدیم زمانے سے استعمال ہوتے آئے ہیں جن میں سے طبلہ ایک ہے۔ تال کی ادائیگی کے لیے گائیکی کی بنیاد ہونے کے باوجود طبلہ دیگر سازوں کے ساتھ پس منظر میں ہی استعمال ہوتا ہے اور یہ تمام ساز مل کر گلوکاری کو سپورٹ فراہم کرتے ہیں۔ لیکن سولو پرفارمنس میں کوئی بھی سازندہ اپنے ساز کے ساتھ پس منظر سے نکل کر سامنے منظر پر آ جاتا ہے اور سننے والوں کو مسحور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ گزشتہ صدی میں اس رجحان میں اضافہ ہوا ہے اور سازندوں کی سولو پرفارمنس الگ سے ایک باقاعدہ صنف بن چکی ہے۔ اس شعبے میں طبلے کو نمایاں کرنے اور اس کی سولو پرفارمنس کے لاکھوں نئے مداح پیدا کرنے میں بھی ان دونوں استاد وں کا اہم کردار ہے۔ لیکن اپچھلی صدی میں اس کے موجد اور اس کے اصول واضح کرنے والی شخصیت احمد جان تھرکوا ہیں جن کے ذکر کے بغیر طبلے کی کوئی بھی محفل اور اس ساز پر کوئی بھی تحریر ادھوری ہے۔
احمد جان تھرکوا
آج یہ نام گمنامی کے پردوں میں چھپا ہوا ہے اور مقبول عام فنکاروں میں سے بہت کم اس عظیم فنکار سے واقفیت رکھتے ہیں۔ لیکن جو بھی طبلے کی تال کے جمالیاتی احساس، خوبصورتی اور کشش کو سننا چاہتا ہے اور طبلے سے حقیقی معنوں میں لطف اندوز ہونا چاہتا ہے تو اسے احمد جان کو ہی سننا چاہیے۔
ان کے نام کے ساتھ ”تھرکوا“ کا لاحقہ ان کے استاد منیر خان کے والد یعنی دادا استاد کالے خان نے عطا کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کی انگلیاں طبلے پر جس طرح ناچتی تھیں اور بجلی کی سی تیزی سے تال کو اجاگر کرتی تھیں اس سے ایسا لگتا تھا کہ یہ تھرک رہی ہیں۔ بارہ سال کی عمر سے طبلہ سیکھنے کا جو عمل انہوں نے شروع کیا وہ 1976ء میں مرتے دم تک جاری رہا۔ ذاکر حسین نے بھی ایک انٹرویو میں ان کی عظمت کا اعتراف کیا تھا اور کہا تھا کہ ان سے بڑا طبلہ وادن کوئی نہیں۔ احمد جان کو طبلے کا ماؤنٹ ایورسٹ بھی کہا جاتا ہے جو اس فن کی معراج پر ان کی موجودگی کا درست اظہار بھی ہے۔
ان کی ایک 1936ء کی ریکارڈنگ یوٹیوب پر موجود ہے جس میں وہ پہلی دفعہ طبلے کی سولو پرفارمنس پیش کر رہے ہیں۔ اس پرفارمنس سمیت ان کی جو چند ریکارڈنگز موجود ہیں وہ ان کی اس فن میں مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ انہوں نے طبلے کی سولو پرفارمنس کے اصول بھی پیش کیے جس میں سب سے پہلے فرش بندی کی جاتی ہے پھر پیشکاری سے آغاز کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد قاعدہ آتا ہے، پھر ٹکڑا اور پھر گت بجائی جاتی ہے۔ طبلے کے بول اپنے آغاز سے انجام تک جس ترتیب اور انداز سے پیش کیے جاتے ہیں وہ سننے والے کو بے ساختہ واہ واہ کہنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ جو بھی تال بجائی جاتی ہے اس کی نہ صرف ایک مخصوص شکل اور انداز سننے والے کے تصور میں ابھر کر سامنے آتا ہے بلکہ اس کا کردار بھی بالکل شفاف انداز میں واضح ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ طبلے کی تال پر بول رقص کر رہے ہیں اور ہر بول کی الگ الگ شخصیت سننے والے سے گفتگو میں محو ہے۔ یہ جادوئی انداز کئی دہائیوں کے ریاض کے علاوہ اپنے فن کے ساتھ سچائی اور ایمانداری کے ساتھ وابستہ رہنے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔
احمد جان کا تعلق طبلے کے فرخ آباد گھرانے سے تھا لیکن انہوں نے دیگر گھرانوں کو بھی اپنایا اور ہر انداز کا طبلہ بجانے میں مہارت رکھتے تھے۔ ان کے مطابق طبلے کے چار ہی بنیادی گھرانے ہیں جن میں دہلی گھرانہ، اجردا، لکھنؤ اور فرخ آباد گھرانہ شامل ہیں۔ ان میں فرق صرف طبلے کو بجانے کے انداز میں ہے۔ کون سی (درمیان والی یا دوسری) اور کتنی انگلیوں سے طبلہ بجانا ہے اور خاص کر کنارے کو کیسے استعمال کرنا ہے، یہ ہر گھرانے کے انداز کو دوسرے سے جدا کرتا ہے۔ ذاکر حسین نے بھی احمد جان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تمام گھرانوں کا انگ سیکھا تھا اور سب میں مہارت رکھتے تھے۔
احمد جان تھرکوا روایتی قاعدے اور طریقوں پر سختی سے کاربند رہے اور اس سے روگردانی کی سرزنش کرتے رہے۔ ان سے جب رائے لی گئی اور پوچھا گیا کہ نئے لوگ پرانی روایات سے ہٹ رہے ہیں اور نئے انداز اپنا رہے ہیں اس پر آپ کیا کہیں گے تو انہوں نے بس اتنا کہا کہ ”جن کو سبق ہے وہ قاعدے سے ہی بجاتے ہیں“۔ لیکن پرانی روایت پر کاربند رہنے کا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ اس فن کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ وقت کی ضرورت بن جاتا ہے لیکن اس عمل میں اگر فن کا جمالیاتی پہلو ہی قربان کر دیا جائے تو پھر پیچھے کیا بچے گا۔
احمد جان نے ممبئی کے بعد پونے میں مستند گائیک وی ڈی پلوسکر کے شاگرد وینائک راؤ پٹ وردھن کے ساتھ بھی سنگت کی اور بعد میں آنے والے دیگر گلوکاروں اور سازندوں کے ساتھ بھی۔ احمد جان کے طبلے کی بسم اللہ خان کی شہنائی اور استاد ولایت خان کے ستار کے ساتھ ایک جگل بندی آج بھی سننے والوں کو مسحور کر دیتی ہے۔
طبلہ اور اس کے بول
طبلے کا جنم پکھاوج کے بطن سے ہوا ہے جو ڈھولک کی طرح کا قدیم ساز ہے۔ قدیم دور میں پکھاوج کا ساز ہی تال کے لیے استعمال ہوتا تھا اور آج بھی دھرپد گائیکی گانے والے کھماج کے ساتھ سنگت کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ چند صدی قبل ایک موسیقار نے کھماج کو کاٹ کر دو حصوں میں تقسیم کر دیا اور طبلے کے ساز کو ایجاد کیا جبکہ کچھ اس کا موجد بارہویں صدی کے مشہور شاعر اور موسیقار امیر خسرو کوٹھہراتے ہیں۔ گو کہ قدیم دور میں اس طرز کے مختلف ساز موجود رہے ہیں خواہ وہ پتھر کے بنے ہوئے ہی کیوں نہ ہوں اور ان کی ساخت بھی طبلے سے ملتی جلتی تھی لیکن ان پر موجود جلد کے مرکز میں سیاہی نہیں ہوتی تھی جس کے باعث ہی طبلے کی مخصوص آواز ابھرتی ہے۔
طبلے کے دو حصے ہیں جنہیں دایاں اور بایاں کہا جاتا ہے۔ ان دونوں حصوں پر ہاتھوں اور بالخصوص انگلیوں کے استعمال سے مختلف آوازیں ابھرتی ہیں جن کے مختلف نام رکھے گئے ہیں۔ ان میں دائیں حصے سے ابھرنے والی آوازوں کے نام نا، تا، تِن، تے، تی، تُن، وغیرہ ہیں جبکہ بائیں حصے کی آوازوں کے نام گھے، گا، کا ہیں۔ اسی طرح دونوں حصوں کو ترتیب سے بجانے سے بھی آوازیں ابھرتی ہیں جنہیں دھادِھن، تِرے کی تا، تا کے وغیرہ کے نام دیے جاتے ہیں۔ اس لیے استاد جب ان حروف تہجی سے مل کر بننے والے بول شاگرد کوبتاتے ہیں تو وہ طبلے کا ٹھیکہ بجا کر پرفارم کرتا ہے اور اپنا فن سیکھتا ہے۔
اسی طرح تال کے لیے بنیادی پیمانہ ماترا کہلاتا ہے۔ یہ در حقیقت وقت کا پیمانہ ہے۔ جس طرح عام زندگی کے وقت کو ماپنے کے لیے سیکنڈ، منٹ اور گھنٹوں کا پیمانہ استعمال کیا جاتا ہے یا پھر ہفتے، مہینے، سال اور دہائی کا پیمانہ لمبے عرصے کے لیے استعمال ہوتا ہے اسی طرح موسیقی میں وقت کا پیمانہ ماترا ہے، جسے انگریزی میں Beat (بیٹ) کہا جاتا ہے۔
جس طرح گائیکی کی بنیاد پر سات سُر موجود ہیں اور ان سُروں کی خاص انداز میں ترتیب اور ادائیگی سے ہی دھن بنتی ہے، اسی طرح تال کی بنیاد میں آٹھ بِیٹ ہیں، جنہیں نصف کر کے چار بھی کر دیا جاتا ہے۔ اسی لیے اکثر موسیقار آپ کو تال دینے کے لیے مخصوص انداز میں تالی بجاتے ہوئے ایک، دو، تین چار۔۔۔ ایک، دو، تین، چار کہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ تال یا رِدھم در حقیقت آوازوں کی ایک مخصوص ترتیب ہوتی ہے جسے ایک خاص وقفے سے مسلسل دہرایا جاتا ہے۔ طبلے میں تال کے انہی اصولوں پر کاربند ہوتے ہوئے اس کی آوازوں کی ترتیب کے مخصوص پیٹرن بنا دیے گئے ہیں جنہیں ہر طبلہ بجانے والا سیکھتا ہے اور پرفارمنس کے دوران بجاتا ہے۔
ان میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی اور انتہائی خوبصورت تین تال ہے جو سولہ ماترے یا Beats پر مشتمل ہے۔ اس میں سولہ ماترے کو چار چار کے مزید چھوٹے حصوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ اس کے ٹھیکے کا پہلا حصہ دھا دِھن دِھن دھا ہے۔ کسی بھی ٹھیکے کی پہلی بیٹ کو ”سَم“ کہا جاتا ہے جسے گانے والا سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے اور اسی رِدھم پر اپنی گائیکی کے سُر بکھیرتا ہے۔ تین تال کے علاوہ مشہور تالوں میں جھمرا (14 ماترے)، دھمار (14 ماترے)، ایک تال (12 ماترے)، قہروا (8 ماترے)، روپک (7 ماترے) اور دادرا (6 ماترے) قابل ذکر ہیں جن کا اکثر استعمال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ چند نایاب تالوں میں فرودست (14 ماترے) اور سول تال (10 ماترے) شامل ہیں لیکن انہیں بہت کم استعمال کیا جاتا ہے۔
طبلے کے استاد ایک ماترے کو مزید چار یا زیادہ حصوں (جیسے ایک سیکنڈ کو ملی سیکنڈز میں تقسیم کر دیا جائے) میں بھی تقسیم کر کے طبلہ بجاتے ہیں جس سے ان کے فن کی مہارت اور خوبصورتی مزید نکھر کر سامنے آتی ہے۔ اس میں ایک مثال سواری کی بھی ہے جس میں پنچم کی سواری یا پندرہ ماتر ے کے ٹھیکے کی پرفارمنس قابل تحسین سمجھی جاتی ہے۔ سولہ میں سے ایک ماترہ کم کر دینے سے اس ٹھیکے کا ایک چوتھائی چار کی بجائے پونے چار ماترے کا بنتا ہے جسے نبھانا منجھے ہوئے فنکار کا ہی کام ہے۔اسی طرح پرفارمنس کے دوران ریلا اور پلٹا بجا کربھی داد بٹوری جاتی ہے۔
یہ سب کچھ بہت حسابی کتابی دکھائی دیتا ہے اور لگتا ہے کہ طبلہ سیکھنے والا کسی فن سے وابستہ ہونے کی بجائے ریاضی کی کلاس میں داخل ہو گیا ہے۔ لیکن در حقیقت جب ان اصولوں کے تحت ٹھیکہ بجایا جاتا ہے تو ایک خاص قسم کی خوشگواریت کا احساس جنم لیتا ہے اور جمالیاتی تسکین بیدار ہوتی ہے۔
تال یا رِدھم کیا ہے؟
تال یا رِدھم انسان اور اس کے سماج کا بنیادی خاصہ ہے اور اس کے بغیر انسانی زندگی کا تصور بھی محال ہے۔ تال کا لفظ تالی سے نکلا ہے اور انسان سماج اور فطرت میں مسلسل ایک خاص ردھم کی نہ صرف تلاش میں رہتا ہے بلکہ اس میں سکون بھی محسوس کرتا ہے۔ زمین کی سورج کے گرد حرکت ہو یا دن اور رات کا ابھرنا، موسموں کی تبدیلی ہو یا فطرت کے دیگر مظاہر، انسان ہر جگہ ایک توازن، ایک ترتیب اور ایک رِدھم کو تلاش کرتا ہے۔ اسی طرح خوشگوار آوازوں کو ایک خاص ترتیب کے ساتھ مسلسل دہرایا جانا انسان کو نہ صرف دلکش لگتا ہے بلکہ وہ بنیاد بنتا ہے جس پر سُروں کا جادو بکھیرا جا سکے۔ شاعری کی بنیاد بھی آوازوں کا رِدھم ہی ہے جسے وزن کہا جاتا ہے۔
تال یا رِدھم کا احساس اور اس کی سمجھ انسان کے علاوہ کسی بھی دوسرے جاندار، چرند یا پرند میں موجود نہیں۔ ڈھول کی تھاپ پر ناچتے ہوئے گھوڑے یا سرکس میں موجود جانوروں کے کرتب دیکھ کر کوئی کہہ سکتا ہے کہ ان میں رِدھم کی سمجھ موجود ہے لیکن ابھی تک یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ یہ حرکات و سکنات وہ رِدھم کے باعث کر رہے ہیں یا پھر یہ مخصوص اشاروں کی مسلسل تربیت کا نتیجہ ہے۔
لاکھوں سال سے انسان کی نشو ونما کے دوران یہ احساس اجاگر ہوتے ہوئے اب اس کی جبلت اور اعصابی نظام کا ایسا حصہ بن چکا ہے جسے الگ کیا ہی نہیں جا سکتا۔ انسانی جسم کے تمام اعضا بھی ایک مخصوص رِدھم میں ہی چلتے ہیں اور یہ بگڑ جائے تو زندہ رہنا ممکن نہیں رہتا۔ دل کی دھڑکن، سانسوں کا چلنا اور پیدل چلنے سے لے کر ہر حرکت ایک مخصوص رِدھم اور تال کی ہی مرہون منت ہے۔ اسی طرح انسانی سماج کی حرکت بھی ایک مخصوص رِدھم اور تال کے تحت ہی جاری ہے۔
اس ردھم کو جب فطرت اور سماج سے تجرید کر کے موسیقی کے آلات کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے تو انسان میں ایک خاص جمالیاتی احساس اجاگر ہوتا ہے۔ تال در حقیقت آواز اور خاموشی کے تضاد سے ہی وجود میں آتی ہے۔ طبلے کی تالوں میں اس کا اظہار موجود ہے اور استاد اس امر پر خصوصی توجہ بھی دیتے ہیں۔ تین تال ہو یا کوئی بھی دوسری تال اس میں خالی Beats یا ماترے بھی ہوتے ہیں۔ اگر چند ماترے دھا دِھن یا تا تِن کے ہیں تو پھر کچھ خالی بھی ہیں جو مسلسل دہرائے جاتے ہیں۔ یعنی آواز کا ہونا اور نہ ہونا ایک تضاد میں موجود ہوتے ہیں اور ان کا جدلیاتی تعلق اس رِدھم کو جنم دیتا ہے جو سننے والوں کے لیے حظ کا باعث بنتا ہے۔
تال کے بول اور ان کے تمام بنیادی اصولوں کو قدیم دور میں ہی طے کر لیا گیا تھا۔ اس کے لیے سب سے پہلے وقت اور اس کی حرکت کو سمجھنا ضروری تھا کیونکہ تال یا رِدھم در حقیقت آواز اور خاموشی کے تضاد کی مسلسل حرکت میں ہی وجود میں آ سکتی ہے جو وقت کے دھارے میں بہہ رہے ہوتے ہیں۔ا س حوالے سے تال کے جو دس پرآن یا پہلو ترتیب دیے گئے تھے ان میں سب سے پہلا سمے یا وقت ہی تھا۔ وقت کو ہی ماتروں یا اس سے بھی کم حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے اور اس تقسیم کا گھڑی یا دیگر فطری مظاہر سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کے بعد مارگ یا رستہ آتا ہے جس کے مطابق اس تال کو آغاز سے انجام تک لے جانے کی ترتیب ہوتی ہے۔ اس کے بعد کرِیا یا ایکشن ہوتا ہے اور پھر انگ آتا ہے اور پھر دیگر۔ ان میں سے لے یا Tempo (ٹیمپو) اہمیت کی حامل ہے جس کو بڑھانے یا کم کرنے سے تال کا انداز اور شکل تبدیل ہو جاتی ہے۔ اگر دو ماتروں یا Beats کے درمیان فرق کو بڑھا دیا جا ئے، لے کم یا سست ہو جاتی ہے، جسے ولمبت بھی کہا جاتا ہے جبکہ لے تیز کرنے سے تال کی رفتار بڑھ جاتی ہے، جسے درُت بھی کہا جاتا ہے اور طبلہ بجانے والا بجلی کی سی تیزی سے انگلیاں چلاتے ہوئے تال کو اجاگر کرتا ہے۔
تال کے آلات (Percussion Instruments)
انسانی سماج میں قدیم دور سے تال کے لیے ساز کسی نہ کسی شکل میں موجود رہے۔ جنگوں میں بجنے والے نقارے اور طبل اس کی عمدہ مثال ہیں۔ آج بھی دنیا کی تمام فوجوں کو باقاعدگی سے پریڈ کروائی جاتی ہے۔ اس پریڈ میں ایک مخصوص قسم کا رِدھم ابھر کر سامنے آتا ہے جو سپاہیوں کو ڈسپلن کے علاوہ جوش اور جذبہ بھی دیتا ہے۔ قدیم دور میں پریڈ تو نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی منظم فوج کا تصور موجود تھا لیکن اپنی فوج کو ایک خاص رِدھم فراہم کرنے کے لیے اور ان کی حرکت کو ہم آہنگ کرنے کے لیے یہ ساز استعمال کیے جاتے تھے۔
اسی طرح شادی بیاہ اور خوشی کے موقع سے لے کر دیگر تقریبات تک ڈھولک یا اسی قسم کے مختلف آلات استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔ آج بھی یہاں شاید ہی کوئی گھر ہو جہاں شادی کی تقریب ہو اور ڈھولک نہ بجائی جائے۔ جب کسی خوشی میں شریک افراد گیت گانے اور رقص کرنے کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں تو ڈھول یا ڈھولکی کا لازمی اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس پر بجنے والی تال سے قدم خود بخود تھرکنے لگتے ہیں اور بوڑھے اور بیمار، شرمیلے اور باحیا سبھی اٹھ کر ناچنے لگتے ہیں۔
پوری دنیا میں تال کے لیے مختلف ساز استعمال ہوتے ہیں۔ مغربی موسیقی میں ڈرم استعمال ہوتا ہے جبکہ افریقہ میں طبل، نقارہ یا اس سے ملتے جلتے آلات استعمال ہوتے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں دربوکا زیادہ مستعمل ہے، اسی طرح جنوبی ہندوستان میں مرندگم، گھٹم یا کنجیرا استعمال ہوتا ہے۔ ان سب آلات کا کام ایک مخصوص Beat یا تال کو ہی ایک مخصوص وقفے سے بجاتے رہنا ہے، جس پر نہ صرف گانا گایا جا سکے بلکہ رقص بھی کیا جا سکے۔ در حقیقت رقص کے لیے بھی تال بنیادی اکائی کا کام کرتی ہے اور ہندوستانی کلاسیکی رقص بالخصوص کتھک میں طبلے کو ایک بنیادی ساز کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ رقاصہ کے پاؤں کا تھرکنا اور اس کے جسم کی حرکت طبلے کی تال کے ساتھ ہی ہم آہنگ ہوتی ہے، جسے دیکھنے والا محظوظ ہوتا ہے۔ تال کی بڑھت کے ساتھ ساتھ رقص بھی آگے بڑھتا ہے اور لے بڑھنے یا کم ہونے سے رقص کی رفتار بھی تبدیل ہوتی ہے۔
وقت کی بدلتی تال
زندگی اور سماج کا رِدھم بھی ایسا ہی ہے۔ انسان ایک مخصوص روٹین کے تحت زندگی گزارنے کی کوشش کرتا ہے۔ روزگار کی تلاش اور بنیادی ضروریات کی فراہمی کی یقین دہانی کے لیے وہ شب و روز صرف کرتا ہے تاکہ زندگی ایک خاص رِدھم کے ساتھ چلتی رہے۔ معمول کے حالات میں سماج ایک مخصوص رِدھم اور توازن حاصل بھی کر لیتا ہے اور زندگی ایک خاص ڈگر پر چلتی رہتی ہے۔ لیکن یہ رفتار کبھی بھی یکساں نہیں رہتی اور وقت کے ساتھ مقداری اور معیاری طور پر تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ طبلے کے پرآنوں میں اسے یاتی کہا جاتا ہے۔ یعنی آغاز میں لے کم ہے یا زیادہ، درمیان میں لے بڑھے گی یا اسی رفتار سے چلتی رہے گی اور پرفارمنس کے آخر میں لے کیسی رہے گی۔ عام طور پر پرفارمنس کا آغاز ولمبت لے یا سست لے سے کیا جاتا ہے اور اختتام کی جانب بڑھتے ہوئے لے بتدریج تیز کرتے ہوئے اسے انتہا پر لے جایا جاتا ہے۔ یہی وہ موقع ہوتا ہے جہاں سب سننے والے جمالیاتی تسکین کے مختلف مراحل عبور کرتے ہوئے اس کی انتہاؤں کو پہنچ رہے ہوتے ہیں اور آخر میں فنکار لے کو تیز تر کرتے ہوئے اسے اپنی انتہا پر لے جاتا ہے اور پوری محفل کو منزل تک پہنچا دیتا ہے۔ یہیں پر سب سننے والے خوشی سے سرشار ہو کر ناچنا شروع کر دیتے ہیں اور فنکار کی تحسین کرنے کے ساتھ ساتھ اس مسرت اور تسکین کے احساس میں لپٹے موسیقی کے سمندر میں سر تا پا ڈوب جاتے ہیں اور ان کے جسم کے تمام اعضا اسی تال کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر رقص کرنے لگتے ہیں۔ دل کی دھڑکن، سانسوں کی رفتار اسی تال کے مطابق چلتی دکھائی دیتی ہے۔ پاؤں اسی تال پر تھرکتے ہیں اور سب سننے والے بازو ہوا میں لہراتے ہوئے انہی مچلتے ہوئے قدموں کے ساتھ ناچتے نظر آتے ہیں۔
انسانی سماج میں بھی یہی عمل نظر آتا ہے۔ غیر معمولی ادوار روز مرہ کے معمول کو بتدریج تبدیل کرتے ہوئے ایک مخصوص نکتے پر سماج کو معیاری تبدیلی کی جانب لے جاتے ہیں۔ واقعات کی رفتار بڑھنے لگتی ہے، وہ تبدیلیاں جو پہلے دہائیوں اور سالوں میں ہوتی تھیں اب مہینوں اور ہفتوں میں ہونے لگتی ہیں۔ زندگی کی لے تیز ہونے لگتی ہے اور سماج میں طبقاتی جنگ کا طبل بجتا دکھائی دیتا ہے۔ وہی لوگ جو ایک پُر سکون زندگی کے لیے سرگرداں تھے، وہ اب اٹھ کر بغاوت کی تیاری کرنے لگتے ہیں۔ سماج کے ہر حصے کا تال میل ایک نئے انگ اور نئے رنگ میں تبدیل ہونا شروع ہوتا ہے۔ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے اب اس دوڑ کی بساط ہی الٹنے کی تیاری کرتے ہیں۔ طبقاتی کشمکش تیز ہونے لگتی ہے اور متحارب طبقات ایک دوسرے کے خلاف فیصلہ کن جنگ کا آغاز کرتے ہیں۔ یہیں پر ہمیں زندگی کی تال یا رِدھم اپنی انتہاؤں کی جانب بڑھتا ہوا نظر آتا ہے، جسے انقلاب بھی کہا جاتا ہے۔
کسی بھی سماج میں برپا ہونے والا انقلاب بھی وہاں رہنے والی اکثریت کو خوشی اور نجات کا خوشگوار احساس دیتا ہے۔ انقلاب بھی موسیقی کے جمالیاتی حظ کی طرح ایک خوبصورت احساس ہے۔ اس انقلاب میں شامل لاکھوں لوگ جب اپنی طبقاتی جڑت، اپنی یکجہتی اور طاقت دیکھتے ہیں تو سارے غم اور ماضی کے دکھ درد بھلا کر ایک نئی خوشی سے سرشار ہو جاتے ہیں۔ ان میں نئی امنگیں نئی کونپلوں کی طرح پھوٹتی ہیں جن کی آبیاری کرنے کے لیے وہ ہر قربانی دینے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ انقلاب بہار کی آمد طرح ہی ہوتا ہے جس میں نئے پھول کھلتے ہیں، پژمردگی اور اداسی ختم ہو جاتی ہے، نئے گیت گائے جاتے ہیں اور ہر کوئی ایک نئی امید اور نئے امکانات سے بیدار ہو کر خوشی سے چہکنے لگتا ہے۔
آج کے عہد میں ہم یہی کچھ ہوتا دیکھ رہے ہیں اور وقت کی رفتار ایک طویل عرصے بعد پھر سے تبدیل ہو رہی ہے۔ دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام کا زوال چیخ چیخ کر اپنی موت کی جانب سفر کا اعلان کر رہا ہے۔ اس نظام کے تحت نہ صرف سریلی موسیقی گم ہوتی جا رہی ہے بلکہ زندگی کا ہر سُر ہی غلط جگہ پر لگ رہا ہے۔ ہر طرف شور، بے ہنگم پن اور جذبات اور احساسات کا قتلِ عام ہے۔ لیکن اس نظام کی بنیادیں ہل رہی ہیں اور رِدھم تیز ہو رہا ہے۔ واقعات کی رفتار تیز ہو چکی ہے اور ظلم اور استحصال پر مبنی اس نظام کے خلاف کروڑوں دلوں میں بغاوت دھڑک رہی ہے۔ اس میں ایسی فنکارانہ صلاحیت رکھنے والے انقلابیوں کی ضرورت ہے جو اس محفل کو کامیابی سے اپنی منزل تک پہنچا دیں۔ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ داری کے خاتمے کے بعد جو نیا سماج تخلیق ہو گا اس میں طبلے سمیت تمام تر موسیقی اور فنون لطیفہ نئی بلندیوں کو چھوئیں گے اور ایسے شاندار فنکار پیدا ہوں گے کہ آنے والی نسلوں کو استاد ذاکر حسین کی کمی محسوس نہیں ہو گی۔