|رپورٹ: نمائندہ ورکرنامہ|
2014ء میں این ٹی ایس پر بھرتی 248آئی ٹی اساتذہ اسمبلی ایکٹ کے باوجود مستقل نہ ہو سکے۔ مستقلی کے لئے در در کی ٹھوکریں کھانے والے اساتذہ بالآخر اسلام آباد پریس کے سامنے احتجاج کرنے پر مجبور ہو گئے۔ 27ستمبر کو پریس کلب کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے ان اساتذہ کا کہنا تھا کہ ہم ڈیوٹی انجام دینے کے باوجود چودہ مہینوں سے تنخواہوں سے محروم ہیں۔
خیبر پختونخواہ کی پچھلی حکومت نے تبدیلی کی سفر کا آغاز سکولز میں آئی ٹی اساتذہ کی تعیناتی اور کمپیوٹر لیبز کے قیام سے کیا۔2014ء میں این ٹی ایس پر بھرتی ڈھائی سو آئی ٹی اساتذہ و لیب انچارج محکمہ جاتی غلطی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ پاکستان تحریک انصاف کے گزشتہ دور حکومت میں صوبے بھر کے 1170 ہائی و ہائر سیکنڈری سکولوں میں آئی ٹی کی تعلیم کے فروغ کے لیے آئی ٹی لیبز قائم کی گئیں جس میں پہلے مرحلے کے تحت 2014ء میں آئی ٹی پراجیکٹ کے تحت پہلے مرحلے میں 170 سکولوں میں آئی ٹی اساتذہ و لیب انچارجوں کو این ٹی ایس کے ذریعے خالص میرٹ پرایک سال کے کنٹریکٹ پر بھرتی کیا گیا۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ان کے کنٹریکٹ میں توسیع کی گئی۔ اسی طرح جب 30 جون 2017ء کو ان کا کنٹریکٹ اختتام کو پہنچا تو مذکورہ اساتذہ نے آئی ٹی پراجیکٹ کو دیگر این ٹی ایس اساتذہ کے ساتھ ساتھ تعلیمی ایکٹ میں شامل کرنے اور تعلیمی ایکٹ کے پاس ہونے تک کنٹریکٹ میں مزید توسیع کا مطالبہ لے کر تحریک کا آغاز کیا تو حکومت نے ان کے ان جائز مطالبات کو تسلیم کر کے آئی ٹی پراجیکٹ کے تمام تینوں فیزز(2014ء، 2016ء اور 2017ء )کے ایک ہزار نو سو آئی ٹی اساتذہ کوتعلیمی ایکٹ میں شامل کر کے اپنا وعدہ پورا کر دیا۔ لیکن بد قسمتی سے 2014ء کے آئی ٹی اساتذہ کو کنٹریکٹ میں توسیع نا مل سکی اور اس دوران تعلیمی ایکٹ صوبائی اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد گورنر کے پی کے نے 4 جنوری کو مذکورہ تعلیمی ایکٹ کی باقاعدہ منظور دے دی۔ پھر محکمہ تعلیم نے 16 فروری کو تمام این ٹی ایس اساتذہ کا باقاعدہ جنرل نوٹیفکیشن کر دیا لیکن بعد ازاں محکمہ تعلیم نے 2014ء کے آئی ٹی اساتذہ کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کرنے سے صاف انکار کرتے ہوئے وضاحت کی کہ چونکہ مذکورہ اساتذہ کا کنٹریکٹ تعلیمی ایکٹ سے پہلے ہی ختم ہو چکا تھا اس لیے ان کو مستقل نہیں کیا جا سکتا۔
اساتذہ نے بتایا کہ 2014ء کے متاثرہ آئی ٹی اساتذہ اپریل کے آخر میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ جناب عمران خان کے پاس فریاد لے کر بنی گالا کا دروازہ کھٹکھٹایا تو جناب عمران خان نے متاثرین سے یہ وعدہ کیا کہ کنٹریکٹ میں توسیع فوری طور پر کی جائے گی جب کہ متاثرہ اساتذہ کو نئی حکومت میں مستقل کیا جائے گا۔ تمام تر فریادوں، وعدوں اور یقین دہانیوں کے باوجود مسئلہ جوں کا توں موجود ہے۔
اساتذہ کے مطابق اس سلسلے میں مئی کے آخر میں گزشتہ حکومت کے کابینہ کے آخری اجلاس میں متاثرہ اساتذہ کے کنٹریکٹ میں فوری توسیع کی منظوری دی گئی۔مگر افسوس کہ بیوروکرسی نے مختلف حیلے بہانوں سے صوبائی کابینہ کے فیصلے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔یوں کنٹریکٹ میں توسیع نہ ہو جانے کی اس محکمہ جاتی غلطی کا ملبہ مذکورہ متاثرہ اساتذہ پرآ گرا اور متاثرہ اساتذہ کو قربانی کا بکرا بنا کر اس سرا سر ظلم و زیادتی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔
اساتذہ پچھلے 14ماہ سے تنخواہوں کی عدم عدائیگیوں کے باعث شدید معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ متاثرہ اساتذہ کے پاس اپنے بیوی بچوں کے بیماری کے اخراجات و دیگر گھریلو ضروریات تو درکنار دو وقت کی روٹی کے پیسے اور سکول آنے جانے کے کرایوں کے پیسے بھی موجود نہیں ہیں۔ نتیجہ کے طور پر متاثرہ اساتذہ اپنے دوست احباب سے قرض لے کر سنگین ترین معاشی حالات سے نبردآزما ہیں۔ ان تمام پریشانیوں کا براہ راست اثر ان اساتذہ کے 50,000 سے زائد شاگردوں کی پڑھائی پر پڑھ رہا ہے۔ متاثرہ اساتذہ کا کہنا تھا کہ ہم ارباب اختیار سے ایک بار پھر یہ درد مندانہ سوال کرتے ہیں کہ آخر ہمیں کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے؟ دیگر این ٹی ایس اساتذہ کے ساتھ ہم بھی خالص میرٹ پر بھرتی ہوئے تھے۔ مگر پھر بھی ہم صوبے بھر کے ہزاروں طلبہ کے مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے ساتھ ساتھ سکولوں میں اپنی ڈیوٹی بھی انجام دے رہے ہیں اور اس دوران ہزاروں طلبہ کو چودہ ماہ سے بغیر تنخواہ کے اپنے وسائل کے بل بوتے پر کمپیوٹر کی تعلیم سے روشناس کر رہے ہیں۔
ریڈ ورکرز فرنٹ کے کارکنان نے احتجاجی اساتذہ کے ساتھ یکجہتی کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا کہ متاثرہ اساتذہ کو فوری مستقل کیا جائے بصورت دیگر اساتذہ کے اس احتجاج کو نہ صرف تعلیم کے شعبے سے وابستہ دیگر محنت کشوں بلکہ پورے پاکستان کے تمام تر اداروں تک لے کر جائیں گے۔