|تحریر: صدیق جان|
عمران خان نے حکومت میں آنے سے پہلے بہت بڑے بڑے وعدے کیے تھے۔ ان میں ایک وعدہ یہ تھا کہ حکومت میں آنے کے بعد وہ ایک کروڑ نوکریاں دیں گے اور بے روزگاری کا خاتمہ کریں گے۔ پی ٹی آئی کو نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کا ووٹ بھی اسی وجہ سے ملا تھا کیونکہ نوجوانوں کو لگ رہا تھا کہ شاید ان کے مسائل حل ہو جائیں گے، لیکن عمران خان کی حکومت کو دو سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے اور اس عرصے میں عمران خان کی حکومت نے جتنے بھی وعدے کئے تھے سب سے یو ٹرن لے لیا ہے۔ ایک کروڑ نوکریاں دینے کی بجائے کروڑوں نوکریاں ختم کر دی گئیں اور مزید لوگوں کو بے روزگار کر دیا گیا۔ قرضہ لینے کیلئے آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط لاگو کی جارہی ہیں جن میں سرکاری اداروں کی نجکاری کی پالیسی سر فہرست ہے۔ اس کے نتیجے میں لاکھوں لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف کورونا وباء کے دوران حکومت کی نا اہلی کی وجہ سے بھی پاکستان میں دو کروڑ سے زائد لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔
پچھلے چند سالوں کے دوران یونیورسٹی اور کالجوں کی فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ کیا گیا ہے۔ جس کے نتیجے میں تعلیم، جو محنت کش طبقے کی پہنچ سے تو پہلے ہی دور ہو چکی تھی، اب مڈل کلاس کی دسترس سے بھی دور ہو چکی ہے۔ اس عرصے میں مہنگائی میں بے پناہ اضافہ ہو ا ہے جبکہ دوسری طرف تنخواہوں اور اجرتوں میں اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے اکثریت خاندانوں کی معاشی تنگدستی میں بھی بے انتہا اضافہ ہوا ہے اور پہلے اگر کسی خاندان کے دو یا تین بچے یونیورسٹیوں میں پڑھتے تھے وہ اب ایک بچے کی فیس بھی پوری نہیں کر سکتے۔
ایسے میں اگر کوئی شخص اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچے کو تعلیم دلواتا ہے تو اسے یہ امید ہوتی ہے کہ اس کا بچہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد نوکری کرے گا اور کچھ کما کر حالات بہتر کرے گا۔ لیکن جب نوجوان یونیورسٹیوں سے فارغ ہوتے ہیں تو محنت کی منڈی میں ان کے لیے کوئی نوکری دستیاب نہیں ہوتی اور بے روزگاری کا عفریت ان کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ اس طرح خاندان اور معاشرے کے لوگ بھی ان کی تذلیل کرتے ہیں اور انہیں ہر طرف سے طعنوں کی بوچھاڑ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح نوجوانوں کا اپنے آپ سے اعتماد اٹھ جاتا ہے اور انہیں یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ وہ کسی کام کے نہیں۔لہٰذا اکثریتی بے روزگار نوجوان ذہنی دباؤ اور ذہنی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں وہ خودکشی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
سرکاری آسامیوں میں بہت بڑے پیمانے پر کرپشن اور اقرباء پروری کی جاتی ہے اور بڑے افسروں، منسٹروں، حکومتی عہدیداروں اور بیوروکریٹس کے رشتہ دار اور دوست ان آسامیوں سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے پبلک سروس کمیشنوں میں اس طرح کے سکینڈل سامنے آئے ہیں۔ مثلا حال ہی میں خیبرپختونخواہ حکومت نے محکمہ تعلیم میں مرد اور خواتین اساتذہ کو NTS پر بھرتی کرنے کا اشتہار جاری کیا تھا۔ NTS ایک نجی ادارہ ہے جو کہ ایک مافیا ہے۔ ہر سال یہ روزگار کے نام پر اربوں روپے لوٹتا ہے۔ خیبر پختونخواہ کے تقریبا ہر ضلع میں پندرہ سو سے دو ہزار آسامیوں پر بیس سے تیس ہزار لوگ اپلائی کرتے ہیں۔ بالفرض کوئی شخص پانچ نشستوں پر اپلائی کرتا ہے تو اسے پندرہ سو روپے جمع کرنے پڑتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صرف ایک ضلع سے NTS کروڑوں روپے کماتا ہے۔ اور دوسری طرف اس بار NTS پر اپلائی کرنے کا طریقہ کار بھی انتہائی پیچیدہ اور غلط تھا۔ اکثر اضلاع میں پورے ضلع میں صرف ایک یا دو بینکوں میں ہی پیسے جمع کئے جا سکتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ اپلائی کرنے کا دورانیہ بھی بہت کم تھا۔ مرد و خواتین دور دراز سے صبح سویرے بینک کے سامنے پہنچ جاتے تھے اور اکثر شام تک بھی ان کی باری نہیں آپاتی تھی اور اسی طرح وہ واپس گھر کو لوٹ جاتے تھے۔ نوجوانوں کو شدید زلیل و خوار کیا گیا اور کچھ بینکوں کے عملے نے تو اپلائی کرنے کے نام پر لوگوں سے تین سو کی بجائے پانچ سو اور ایک ہزاور روپے تک بھی اینٹھے۔
23 اور 24 جنوری کو این ٹی ایس نے ان آسامیوں پر ٹیسٹ منعقد کروائے جن میں بڑی سطح پر دھاندلی ہوئی۔ پرچوں کو مقررہ وقت سے پہلے نکالا گیا اور لاکھوں میں بیچا گیا، جس کے تصاویر اور ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں۔ اس طرح پہلی شفٹ کے پرچوں کو آسان جبکہ دوسری شفٹ کے پرچوں کو بہت مشکل بنایا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انتہائی گھٹیا مینجمنٹ تھی کہ اگر کسی بندے کا پہلا ٹیسٹ صبح آٹھ بجے ضلع کے ایک کونے میں تھا تو دوسرا ٹیسٹ جو گیارہ بجے تھا، وہ ضلع کے دوسرے کونے میں۔ جس کی وجہ سے سارا دن ٹریفک جام رہی اور اکثر امیدوار تو دونوں ہی ٹیسٹوں میں شامل نہ ہو سکے۔
خواتین کیلئے تو یہ سارا عمل اور بھی زیادہ مشکل اور ذلالت والا کام ہوتا ہے۔ اگر کسی کے پاس گاڑی نہیں ہے تو اسے چار، پانچ ہزار روپے میں گاڑی بک کرنی پڑتی ہے۔ جن خواتین کے ساتھ چھوٹے بچے ہوتے ہیں ان بچوں کو امتحانی ہال سے باہر دو سے تین گھنٹے ماں سے الگ اور بھوکا رہنا پڑتا ہے۔ لیکن اتنا ذلیل ہونے کے بعد پتا چلتا ہے کہ پرچہ آوٹ ہوگیا تھا اور اتنے روپے میں بک گیا ہے اور پھر ٹیسٹ کینسل کر دیا جا تا ہے۔ اس تمام تر عمل کے دوران این ٹی ایس کے مالکان خوب مال بناتے ہیں۔
ویسے تو تمام شہریوں کو روزگار دینا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے مگر آج پوری دنیا کی سرمایہ دارانہ ریاستیں سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کا سارا بوجھ محنت کش طبقے پر ڈال رہی ہیں اور نجکاری کی پالیسی کے تحت اپنے آپ کو تمام تر ذمہ داریوں سے بری الذمہ کر رہی ہیں۔ پاکستانی ریاست بھی اس عمل میں بڑھ چڑھ کر مزدور دشمن کردار ادا کر رہی ہے۔
ریاست کی ان مزدور دشمن پالیسیوں کے خلاف اس وقت پورے پاکستان کے مختلف سرکاری اداروں کے محنت کش سراپا احتجاج ہیں۔ اسی طرح پورے ملک میں مختلف یونیورسٹیوں کے طلبہ آن کیمپس امتحانات کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کا موجودہ بحران کوئی عارضی بحران نہیں ہے بلکہ یہ اس کا نامیاتی بحران ہے اور اس بحران میں مزید شدت آتی جائے گی۔ چونکہ ریاست بحران کا سارا بوجھ محنت کشوں پر ڈال رہی ہے اور سرمایہ داروں کو ہر ممکن ریلیف دینے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے، لہٰذا ریاست کی مزدور دشمن پالیسیوں میں بھی مزید شدت آتی جائے گی۔ اس کے خلاف پورے ملک کے محنت کشوں اور طلبہ کو منظم ہو کر جدوجہد کرنا ہوگی اور موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینک کر ایک سوشلسٹ نظام لانا ہوگا۔ اسی صورت میں بے روزگاری، مہنگائی، غربت، لاعلاجی، جہالت، دہشت گردی اور دیگر تمام محنت کش دشمن روایات اور پالیسیوں کا مکمل خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔