|منجانب: لال سلام|
اتوار، 26 مئی کو شمالی وزیرستان میں ہونے والے واقعہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق اس میں آٹھ لوگوں کے قتل کی تصدیق سامنے آ رہی ہے جبکہ تیس کے قریب زخمی بھی ہیں۔ اس کے علاوہ ممبر قومی اسمبلی علی وزیر کو زیر حراست لے لیا گیا ہے اور ان پر مقدمہ قائم کرتے ہوئے آٹھ دن کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
پاکستان کے میڈیا کی جانب سے اس واقعے پر یکطرفہ پراپیگنڈہ سامنے آ رہا ہے جس میں حقائق کو پوری قوت کے ساتھ مسخ کیا جا رہا ہے۔ اس وقت اطلاعات کا ایک اہم ذریعہ سوشل میڈیا ہے جہاں سے اس واقعہ کی بہت سی ویڈیوز بھی گردش کر رہی ہیں جو میڈیا کے مؤقف کی نفی کرتی ہیں۔ لیکن اس عمل کو روکنے کے لیے اس علاقے میں فون اور موبائل کی سروس کو بند کر دیا گیا ہے جبکہ علاقے میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ پرامن احتجاج کسی بھی شخص کا بنیادی جمہوری حق ہے اور اس کو سلب کرنا بد ترین ریاستی جبر کا اظہار ہے۔ اسی طرح پر امن مظاہرین پر گولیاں چلا کر ان کو قتل کرنا ظلم اور نا انصافی کی انتہا ہے جس کی کوئی بھی وضاحت ناقابل قبول ہے اور اس کی آزادانہ تحقیقات کرواتے ہوئے مجرموں کو قانون کے مطابق سزادینی چاہیے۔
درحقیقت قبائلی علاقہ جات کے عوام کی ابھرنے والی پشتون تحفظ تحریک کی وجہ بھی ریاست کا ایک طویل عرصے تک ان علاقوں میں بدترین جبر تھا جس کیخلاف اب وہاں سے آواز بلند ہورہی ہے۔ اس تمام تر جبر کی ذمہ داری پاکستانی ریاست اور اس کے اداروں کے ساتھ ساتھ امریکی سامراج اور اس کے تمام تر گماشتوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ اسی امریکی سامراج کی پالیسیوں کے تحت اس پورے خطے کو آگ اور خون کی دلدل میں دھکیل دیا گیا اور خون کی یہ ہولی آج بھی جاری ہے۔ پاکستان کی ریاست اور اس کے تمام حکمران امریکی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے اس علاقے کے لوگوں کی بلی چڑھاتے رہے۔ اسی طرح اسی سامراج کے زیر اثر عالمی مالیاتی اداروں کے سودی قرضوں کے ذریعے یہاں کی عوام کا خون اور پسینہ نچوڑ اجاتا رہا۔ اس تمام تر عمل میں جہاں کرائے کی جنگوں میں ایک طرف خون کی ندیاں بہائی گئیں وہاں دوسری طرف بھوک، بیماری اور غربت کے ہاتھوں کروڑوں لوگ ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔ جبکہ یہاں کے حکمران نہ صرف پر تعیش زندگیاں گزار رہے ہیں بلکہ ان کے تمام تر اثاثے بھی مغربی ممالک میں محفوظ ہیں۔ صرف یہاں کے محنت کش عوام کو اس جہنم میں زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا ہے۔
شمالی وزیرستان کے واقعہ سے نظر آتا ہے کہ ریاستی جبر انتہاؤ ں تک پہنچ چکا ہے اور کسی بھی قسم کی تنقید، احتجاج یا مطالبے کو قبول نہیں کیا جاتا۔ لیکن آج تک ننگے جبر کے ذریعے کہیں بھی پائیدار امن قائم نہیں کیا جا سکا اور نہ ہی کسی بھی خطے کی عوام کو لا امتناعی طور محکوم رکھا جا سکتا ہے۔ اس تمام تر جبر کیخلاف تحریکیں ابھرنا ناگزیر ہے۔ لیکن ان تحریکوں کو خطے کے دیگر حصوں کے ساتھ طبقاتی بنیادوں پر جوڑنے کی ضرورت ہے اور امریکی سامراج اور اس کے تمام گماشتوں کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے قومی جبر کے ساتھ ساتھ مہنگائی، بیروزگاری، لاعلاجی اور ناخواندگی کے خلاف بھی آواز بلند کرنی ہوگی۔ ان تمام مسائل کا حل کسی بھی صورت طبقاتی بنیادوں پر قائم سرمایہ دارانہ نظام میں موجود نہیں۔