|تحریر: نکلس البن سوینسن، ترجمہ: اختر منیر|
سنگاپور میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے لیڈر کم جونگ اُن کے درمیان ہونے والی ملاقات بنا کسی گرما گرمی کے اپنے انجام کو پہنچ گئی۔ مسکراہٹوں کا تبادلہ بھی ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے، جو کم از کم G7 سے تو بڑھ کر ہی تھا۔ لیکن درحقیقت وہ بمشکل ہی کسی چیز پر متفق ہوئے۔
یہ ایک سال سے کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ٹرمپ ’’لٹل راکٹ مین‘‘ کا حوالہ دے کر شمالی کوریا کے لیڈر کے ساتھ بٹن کے سائز کا مقابلہ کیا کرتا تھا (’’میرا بٹن تم سے بڑا ہے‘‘)۔ اب لہجے میں کافی تبدیلی آچکی ہے۔ جیسا کہ ہم نے بار بار واضح کیا (مثال کے طور پر اسی آرٹیکل کو لے لیں) کہ ان دونوں ملکوں کے درمیان کبھی جنگ نہیں ہونے والی اور تو اور اس جھگڑے کو طول دینے میں کوئی بھی دلچسپی نہیں رکھتا۔
ٹرمپ اور اس کے غیر روایتی اندازِ سفارت کے لیے بہت کچھ داؤ پر لگا تھا۔ پچھلے کچھ دنوں سے وہ امیدوں پر پورا نہیں اتر رہا تھا، لیکن اسے کِم سے بدلے میں کچھ نہ کچھ تو چاہیے تھا جسے وہ مذاکرات پر راضی ہونے کے خلاف آنے والی تنقید کے مقابلے میں اپنی لاج رکھنے کے لیے استعمال کر سکتا۔ معاہدہ کسی بھی طور ’’جامع‘‘ نہیں تھا جیسا کہ ٹرمپ نے اسے بنا کر پیش کیا ہے۔ یہ محض ایک صفحے پر مشتمل تھا۔ لیکن یہ بہت مایوس کن بھی نہیں تھا۔
کِم نے جوہری ہتھیاروں سے پاک جزیرہ نما کوریا کے لیے کام کرنے کا وعدہ کیا مگر یہ نہیں بتایا کہ ایسا کب ہو گا۔ اس نے تجربات روکنے پر رضا مندی کا بھی اظہار کیا مگر وہ اس پر پہلے ہی رضا مند تھا اور یہ بات بھی غیر یقینی ہے کہ وہ اس سے باز رہتے بھی یا نہیں۔ وہ ایک میزائل تجربات کرنے کی جگہ بند کرنے پر بھی راضی ہوا مگر یہ کوئی بہت تہلکہ انگیز خبر نہیں ہے۔
بدلے میں امریکہ جنوبی کوریا کے ساتھ جنگی مشقیں روکنے پر رضامند ہو گیا جنہیں وہ جب چاہے فوراً دوبارہ شروع کر سکتا ہے۔ امریکہ نے ’’تحفظ کی ضمانت‘‘ بھی دی جس کا پتہ نہیں کیا مطلب ہے، کوئی بھی سامراجی طاقت اس کی حکومت کا تختہ الٹنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔
سوال یہ ہے کہ دونوں فریقین کن شرائط پر متفق ہو سکتے ہیں۔ یہ ڈیل جس پر یہ متفق ہوئے ہیں سب سے اہم نکتے جوہری ہتھیاروں کے انسداد پر بہت کم روشنی ڈالتی ہے۔ اس معاہدے کی اہمیت یہی ہے کہ اس سے مستقبل میں بات چیت کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ جیسا کہ ٹرمپ نے کہا کہ وہ ’’پھر ملیں گے۔۔۔ کئی بار‘‘۔
سب سے بڑی رکاوٹ بلاشبہ جوہری ہتھیاروں کا سوال ہی ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ کِم اپنی موجودہ طاقتور حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس پر کسی قسم کی ڈیل کرنا چاہتا ہے۔ ایک اور بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ سامراجی طاقتیں اپنے اپنے مقام کے لیے جوج رہی ہیں۔ سب کو اپنا اپنا حصہ درکار ہے۔
غالباً یہ چینی ہی دو ہفتے پہلے ہونے والی گرما گرمی کے ذمہ دار تھے جس کی وجہ سے ملاقات تقریباً معطل ہو چلی تھی۔ چینی یہ دکھانا چاہ رہے تھے کہ شمالی کوریا سے معاہدہ کرنے کے لیے امریکہ کو ان کے ساتھ نرم رویہ اختیار پڑے گا۔ جنوبی کورین کشیدگی مٹانے فوراً شمالی کوریا کی جانب لپکے اور سنگاپور والی ملاقات کو بحال کروانے میں کامیاب رہے۔ آخر میں شمالی کوریا کا وفد علامتی طور پر چینی حکومت کے طیارے پر سوار ہو کر سنگاپور پہنچا۔
جزیرہ نما کوریا پر ایک معاہدہ سامراج کے لیے آگے کا قدم ہو گا۔ یہ کوریا کے شمالی حصے کو سرمایہ داری کی راہ پر گامزن کرتے ہوئے بیرونی سرمایہ کاری کی راہ ہموار کرے گا تاکہ شمالی کوریا کے محنت کش طبقے کا استحصال کیا جاسکے۔ اس عمل کی رفتار اور تفصیلات ابھی طے ہونا باقی ہیں۔