|تحریر: حامد علی زادے، حسنا شداد، ترجمہ: ولید خان|
11 اپریل کو سوڈان کے سابق آمر عمر البشیر کا تین دہائیوں پرمحیط تختہ الٹنے کے بعد بھی سوڈانی انقلاب کا ریلا تھما نہیں ہے۔ اس کے برعکس، انقلاب کے بنیادی مطالبات پورے کرنے کے بجائے فوج عوامی فتح کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتی ہے تاکہ عوامی شعور کو پچھاڑا جا سکے۔ لیکن عوام جان توڑ محنت سے جیتی فتح کو اتنی آسانی سے اپنے ہاتھ سے جانے دینے کے لئے تیار نہیں۔
11 اپریل کو افواج اور سیکورٹی ایجنسیوں کی خود ساختہ عبوری فوجی کونسل (TMC) نے اعلان کیا کہ وہ سابق صدر عمر البشیر کو اقتدار سے ہٹا کر سابق نائب صدرِ اول احمد عوض بن عوف کو عبوری صدر بنا کر خود امورِ ریاست سنبھال رہے ہیں۔
to read this article in English, click here
لیکن عوام فوراً عسکری قیادت کی چالبازی کو بھانپتے ہوئے سڑکوں پر امڈ آئی، نئے کرفیو کی دھجیاں اڑا دی گئیں اور فوری مطالبہ رکھا گیا کہ فوج پیچھے ہٹے اور ابن عوف کو برطرف کیا جائے۔ بے پناہ عوامی دباؤ اور خاص طور پر تحریک کی سپاہیوں کے ساتھ بڑھتی جڑت نے TMC کو مجبور کیا کہ وہ نامزدگی کے محض 24 گھنٹوں میں عوف کو برطرف کر یں۔ لیفٹیننٹ جنرل عبدل فتح ال برہان کی نامزدگی کے بعد عوف محض تین دنوں میں برطرف ہونے والا دوسرا سربراہِ ریاست ہے۔
’’ہم پورا نظام اکھاڑ پھینکیں گے!‘‘
اقتدار پر فوجی قبضے کے بعد عوامی احتجاج مستقل جاری ہے جس کا ہدف خرطوم میں وزارتِ دفاع بن چکی ہے۔ مطالبات واشگاف اور واضح ہیں کہ ایک عوامی جمہوری حکومت، فوج کی بیرکوں میں واپسی، سابقہ حکومت کے افسران کی فوری گرفتاری اور مقدمات کا اندراج جو دہائیوں عوام کو تباہ و برباد کرتے رہے اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی مسلط کردہ پالیسیوں کا مکمل خاتمہ۔ ایندھن اور گندم کی سبسڈیوں کے خاتمے کی کوشش اور یہ مطالبات وہ چنگاری تھے جس نے حکومت کے خلاف عوامی غصے کو جوالا مکھی بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
اقتدار پر فوجی قبضے کے بعد عوامی احتجاج مستقل جاری ہے جس کا ہدف خرطوم میں وزارتِ دفاع بن چکی ہے۔ مطالبات واشگاف اور واضح ہیں کہ ایک عوامی جمہوری حکومت، فوج کی بیرکوں میں واپسی، سابقہ حکومت کے افسران کی فوری گرفتاری اور مقدمات کا اندراج جو دہائیوں عوام کو تباہ و برباد کرتے رہے اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی مسلط کردہ پالیسیوں کا مکمل خاتمہ۔ ایندھن اور گندم کی سبسڈیوں کے خاتمے کی کوشش اور یہ مطالبات وہ چنگاری تھے جس نے حکومت کے خلاف عوامی غصے کو جوالا مکھی بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
حالیہ واقعات کے تسلسل نے سوڈان میں موجودہ اور سابقہ تحریکوں میں معیاری فرق کو بھی واضح کیا ہے۔ ماضی میں تحریکوں کی قیادت دارالحکومت کے درمیانے طبقے کے پاس ہوتی تھی۔ لیکن اس تحریک میں دیہی اور شہری غرباء متحد اور متحرک ہیں، تحریک 18 میں سے 15 ریاستوں میں فعال ہے اور ہر جگہ مطالبہ سیاسی نظام کی انقلابی تبدیلی ہے۔
ایک احتجاجی نے AFP سے بات کرتے ہوئے کہا کہ
’’ہم یہاں پورے نظام کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں، ایک ایسا نظام جو برابری کی سطح پر عوام کی خدمت کرنے کے قابل نہیں۔ ایک ایسا نظام جو عوام کو غربت میں رہنے پر مجبور کرتا ہے۔ ایک ایسا نظام جو افرادی اور قدرتی وسائل سے مالامال سوڈان جیسے ملک کو دنیا کے کسی بھی اور ملک کی طرح جینے کا حق نہیں دیتا‘‘۔
اگرچہ فوج نے اپنے آپ کو عبوری حکومت ہونے کا اعلان کر دیا ہے لیکن اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ حقیقی طاقت گلیوں میں بکھری پڑی ہے۔ رائٹرز کی سابق صحافی اوفیرا میک ڈوم نے عوامی موڈ کے حوالے سے کہا کہ
’’ملک سے باہر رہنے والوں کو زمینی حقائق سے کچھ آگاہی کے لئے کچھ حقائق پیش نظر ہیں:
اس وقت سوڈان کسی حکومت کے بغیر چل رہا ہے۔
جیسے ہی آپ خرطوم کے اس علاقے میں داخل ہوتے ہیں جو نوجوان ’انقلابیوں‘ کے قبضے میں ہے تو فرق واضح ہوجاتا ہے۔
قبضے سے باہر گلیاں کوڑے کرکٹ سے بھری پڑی ہیں جبکہ قبضے میں موجود گلیاں صاف ستھری ہیں، کوڑے کرکٹ کے لئے جگہ جگہ تھیلے موجود ہیں، لمبے بالوں والے جینز میں ملبوس نوجوان گھومتے پھرتے صفائی کر رہے ہیں اور دیگر کو بھی صفائی کی تلقین کر رہے ہیں۔
رات کو جب عوامی رش کم ہو جاتا ہے تو وہ ٹیمیں بنا کر سڑکیں صاف کرتے ہیں۔
لوگ عبادت کے لئے جگہوں کا تعین کرتے ہوئے خلوت کو یقینی بناتے ہیں۔
رضاکاروں نے ہر چند میٹر پر چیک پوائنٹ بنا رکھے ہیں تاکہ کوئی شخص ہتھیار لے کر نہ گزرے۔ خواتین، خواتین کی اور مرد، مردوں کی تلاشی لیتے ہیں۔
جو بھی ان چیک پوائنٹ سے گزرتا ہے اسے کہا جاتا ہے کہ ’بہنوں اور بھائیوں! ہم اس تلاشی کے لئے معذرت خواہ ہیں۔ یہ آپ اور آپ کے بہن بھائیوں کی حفاظت کے لئے ضروری ہے‘۔
نوجوان رضا کار فارماسسٹ ایک فارمیسی چلا رہے ہیں جہاں سے مریضوں کو دوائیاں دی جاتی ہیں۔ کمپنیاں اور افراد مفت دوائیاں فراہم کر رہے ہیں۔
مظاہروں میں زخمی ہونے والوں کے لئے دو ٹرک خون کے عطیات اکٹھے کر رہے ہیں۔
لوگ چندہ اکٹھا کر رہے ہیں اور پیسوں سے بھرے بیگ سڑک کنارے پڑے ہوئے ہیں تاکہ ضرورت مند گھر پہنچنے کے لئے یہ پیسے استعمال کر سکیں۔
منظم شفٹوں میں ’دن کے انقلابی‘ شام کو گھر چلے جاتے ہیں جبکہ ’رات کے انقلابی‘ ذمہ داریاں سنبھال لیتے ہیں۔
رضاکاروں نے پیسے، پانی اور کھانوں کے عطیات کے لئے خیمے لگائے ہوئے ہیں۔
روایتی سوڈانی مہمان نوازی قائم و دائم ہے، یعنی جو شخص بھی آئے گا وہ ضرور پانی یا چائے پیے گا۔
پانی، مشروبات اور کھانے کے عطیات سے لدی گاڑیوں کے علاوہ کسی کو اندر آنے کی اجازت نہیں۔اس حوالے سے کسی کے لئے رعایت نہیں، یہاں تک کہ غیر ملکی سفارت کاروں کے لئے بھی نہیں۔۔امریکی ناظم الامور کو بھی دورے کے دوران باہر ہی روک دیا گیا تھا۔
اس نئے سماج میں سڑکوں پر موجود لاوارث بچوں کی دیکھ بھال اور خوراک کا خیال رکھا جا رہا ہے۔
لوگ گروہوں کی شکل میں ہر گلی کوچے میں سوڈانی قومی نغمے گا رہے ہیں اور روایتی رقص کر رہے ہیں۔
سیکیورٹی؟ کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ احتجاج کو منتشر کرنے کے لئے راتوں میں کئے گئے ناکام حملوں کے بعد
رات کے اندھیرے میں حملوں کو روکنے کے لیے اینٹوں اور خاردار تاروں سے خود ساختہ رکاوٹیں تعمیر کی گئی ہیں ، خاص طور پر اس واقعے کے بعد جب ایک رات بزور طاقت دھرنا ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔
فٹ بال کی یاد آ رہی ہے؟ حامیوں نے ایک دیو ہیکل سکرین بھیجی ہوئی ہے جس پر بارسلونا کا پچھلا میچ دیکھا گیا۔
سوڈان میں سڑکیں عام طور پر شدید پر انتشار ہوتی ہیں اور بجلی بندش کے دوران ٹریفک پولیس (اگر وہ موقع پر پہنچ جائے) مدد سے زیادہ انتشار پھیلانے کا سبب بنتی ہے۔ لیکن فوجی ہیڈکوارٹر جانے والی سڑکوں پر ان لوگوں کا قبضہ ہے جو خوشی سے بے پناہ رش کو منظم کرتے ہوئے ٹریفک چلا بھی رہے ہیں اور سینکڑوں گاڑیوں کی پارکنگ بھی کروا رہے ہیں۔
بچوں کو جھنڈے اور بسکٹ دیے جا رہے ہیں اور انہیں کندھوں پر اٹھایا جا رہا ہے تاکہ وہ عوام کے ہجوم میں بہتر دیکھ سکیں۔ سالگرہ کی دعوتیں، شادیاں۔۔جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ سڑکوں پر ہو رہا ہے۔
سوڈانی نصرانی شدید گرمی میں نماز کی ادائیگی کے دوران اپنے مسلمان بھائیوں کے سروں پر کپڑوں سے سایہ کیے کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔
کسی بھی قسم کے ’لیڈران‘ کے بغیر نوجوان سوڈانی انتہائی کامیابی سے اس دھرنے کو منظم کر رہے ہیں، یہ دارالحکومت میں ایک ننھی ’ریاست‘ ہے جس کا انتظام کسی لڑائی، انایا اشتعال انگیزی کے بغیر خوش اخلاقی سے ہو رہا ہے۔
ان سب کے بجائے اس انتظام میں مزاح، تعاون، اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
سوڈانی عوام کی پرامن تبدیلی کی طویل اور شاندار تاریخ ہے‘‘۔
جذبات اور حقائق کی مندرجہ بالا ترجمانی محنت کش عوام کی بے انتہا تخلیقی قوت اور وسائل کی محض ایک جھلک ہیں جو خون آشام طبقے سے زیادہ کسی بھی سماج کو چلانے کے لئے زیادہ باصلاحیت ہیں۔
عوام کا بڑھتا اعتماد
TMC نے چند ایک اعلان کئے جن میں فوج اور پولیس کے نئے سربراہان، طاقتور نیشنل انٹیلی جنس اور سیکورٹی سروس(NISS) کا نیا سربراہ، سابق حکمران پارٹی کی تفتیش اور کرپشن کی روک تھام کے لئے کمیٹیوں کی تشکیل، تمام میڈیا پابندیوں اور سنسر شپ کا خاتمہ، مظاہرین کی حمایت کرنے پر گرفتار ہونے والے پولیس اور سیکیورٹی اہلکاروں کی رہائی، سفارتی عملوں کا از سر نو جائزہ اور امریکہ اور اقوام متحدہ میں تعینات سفیروں کی برخاستگی شامل ہیں۔
دو سربراہانِ مملکت کی برخاستگی سے انقلاب کا اپنی قوتوں پر بے پناہ اعتماد بڑھا ہے۔ عوام کو ادراک ہے کہ انہوں نے بشیر اور ابن ووف کا تختہ الٹ دیا ہے۔ ہر روز اپنی توانائیوں پر ان کا اعتماد بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ TMC انتہائی پریشانی میں اس عمل کو روکنے کے لئے پورا زور لگا رہی ہے اور یہ غلط فہمی پھیلانے کی سرتوڑ کوشش کر رہی ہے کہ حکمران طبقے (اور ریاستی اداروں)کے بغیر انتشار پھیل جائے گا۔
ظاہر ہے کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ مندرجہ بالا مراعات کے اعلان سے TMC یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ یہ تمام مطالبات TMC نے خود دان کئے ہیں۔ ان کی پوری کوشش ہے کہ اس حقیقت کو کسی بھی طرح سے مسخ کر دیا جائے کہ آج سوڈانی عوام کو حاصل کردہ تمام آزادیاں ان کی اپنی ثابت قدم جدوجہد کا نتیجہ ہیں جس کی مخالفت حکمران طبقے کی تمام پرتوں نے کی۔
اسی دوران TMC کی کوشش ہے کہ بظاہر ایسا نظر آئے کہ وہ انقلاب کی حمایت میں کھڑے ہیں۔ انقلاب کی دیو ہیکل قوتوں نے فوج کی نچلی پرتوں کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تمام تر خواہشات اور کوششوں کے باوجود فوجی قیادت انقلاب کا مقابلہ نہیں کر سکی۔ الجزائر کی طرح انہوں نے بھی فیصلہ کیا کہ بہتر ہو گا کہ آگے بڑھ کر کچھ چھوٹی موٹی اصلاحات کر دی جائیں تاکہ نیچے سے پھٹنے والے انقلاب کو روکتے ہوئے حکمران طبقے کی مراعت یافتہ حیثیت کو برقرار رکھا جا سکے جس کا فوجی اور سیکورٹی سروسز اشرافیہ خود اہم حصہ ہیں۔
سربراہِ ریاست بننے کے بعد عبدل فتح ال برہان نے بے باک رویہ اپناتے ہوئے عوامی خواہشات کا احترام، سابقہ ریاست میں سے کرپٹ عناصر کا خاتمہ اور انقلاب کی روح کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن اسی دوران اشرافیہ میں سے کسی ایک شخص کی گرفتاری کا نہ اعلان ہوا ہے اور نہ ہی ایسی کوئی خبر آئی۔
کسی کو نہیں معلوم کہ بشیر کہاں ہے اور TMC نے اسے عالمی کریمنل کورٹ (ICC) یا کسی بھی اور ادارے کو دینے سے صاف انکار کر دیا ہے جبکہ اس کی سپردگی کا بھی کوئی ارادہ نہیں۔ اشارے مل رہے ہیں کہ کچھ افریقی ممالک کے ساتھ بشیر کو جلاوطن کرنے کے حوالے سے مذاکرات ہو رہے ہیں۔
بدنام زمانہ اور انتہائی قابل نفرت سابق انٹیلی جنس چیف صلاح گوش کو جنگی جرائم کی بنا پر گرفتار کرنے کے بجائے خاموشی سے مستعفی ہونے دیا گیا۔ ایسی ہی کچھ صورتحال ملک کے سابق سرکاری وکیل اور سابق سرکاری ٹی وی اورریڈیو کے سربراہ کی بھی ہے۔ بشیر کی NCP کے ممبران کے ساتھ ساتھ یہ سب سکون سے آزاد پھر رہے ہیں۔ نہ ان کے کوئی وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے ہیں اور نہ ہی ان کوکوئی تنگ کر رہا ہے۔ سڑکوں پر NCP کو ختم کرکے بشیر حکومت کی پوری اشرافیہ کی گرفتاری اور مقدمات کے اندراج کا مطالبہ گردش کر رہا ہے۔ لیکن یہ واضح ہے کہ برہان اور TMC کاایسا کوئی ارادہ نہیں۔
اسی دوران دارفوریوں سمیت کئی سیاسی قیدی ابھی بھی پابندِ سلاسل ہیں۔ انقلاب کے اوائل دنوں میں بشیر نے دارفوریوں پر بغاوت اکسانے کا الزام لگایا لیکن عوامی جواب ’’ہم سب دارفوریس ہیں!‘‘ کے نعرے میں آیا۔
جیسا کہ مارکس نے دہائیاں پہلے بیان کیا تھا کہ ریاستی مشینری، بیوروکریسی اور فوجی اشرافیہ کا کام حکمران طبقے کے تحفظ کے سوا اور کچھ نہیں۔ TMC بذاتِ خود سابقہ ریاستی اہلکاروں کا ٹولہ ہے جو ایک ہزار تانے بانوں سے اشرافیہ، سرمایہ داروں، زمینداروں اور بشیر حکومت سے جڑے ہوئے ہیں۔ اگرچہ کونسل شدید اندرونی اختلافات، دھڑے بندیوں اور تضادات کا شکار ہے لیکن یہ واضح ہے کہ سوڈانی سرمایہ داری اور زمینداری کے تحفظ کے لئے کونسل متحد ہے۔
عوام عملی تجربے سے ہی سیکھتے ہیں
یہ تمام حقیقتیں عوام پر تیزی کے ساتھ آشکار ہو رہی ہیں جو دہائیوں کا سفر دنوں میں طے کر رہے ہیں۔ عوام کے TMC پر شدید تحفظات ہیں اور وہ درست طور پر اسے ال برہان کے حوالے سے ہی دیکھتے ہیں۔ ال برہان، بشیر حکومت کا ایک کلیدی رکن تھا جس نے یمن میں سعودی عرب کی تباہ کن جنگ اور دارفور میں بشیر کی ہولناک خانہ جنگی میں بھرپور حصہ لیا۔ کل جب برہان ایک انقلابی ہونے کا ڈھونگ رچا رہا تھا تو اسی دوران سکیورٹی فورسز نے وزارتِ دفاع کے ارد گرد قائم رکاوٹیں ہٹانے کی کوشش کی۔ سوڈان پروفیشنل ایسوسی ایشن کی کال پر اس کا دفاع کیا گیا۔ یہی وہ تنظیم ہے جو اس وقت احتجاجوں کی قیادت اور دھرنے کا دفاع کر رہی ہے۔ جب فوجی قیادت نے دیکھا کہ سپاہی کھلے عام مظاہرین کے ساتھ گھل مل رہے ہیں تو انہوں نے فوراً اس اقدام سے پسپائی اختیار کی۔
یہ واضح ہے کہ TMC انقلاب کے خلاف ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔ نام نہاد مراعات اور اعلامیوں کے پسِ پردہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا رہی ہے تاکہ رجعتی قوتوں کو منظم ہو کر حملہ کرنے کا موقع ملے۔ ال برہان نے بڑی نخوت سے اعلان کیا ہے کہ وہ سوڈانی عوام کو ’’دو سال سے کم‘‘ عرصے کا عبوری دور عطا کرے گا! پس یہ سب رد انقلابی قوتوں کی ہولناک سازش ہے کہ کسی طرح سے بھی صورتحال پر کنٹرول دوبارہ بحال کیا جا سکے۔
اتوار کے دن انکشاف ہوا کہ سوڈانی پروفیشنل ایسوسی ایشن (SPA) اور TMC کے درمیان خفیہ ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ اس خبر سے عوام میں غصے کی لہر دوڑ اٹھی جو SPA قائدین کی ردِ انقلابی قوتوں کے ساتھ پینگوں پر شدید نالاں تھے۔ مندوبین کو کس نے منتخب کیا؟ ایجنڈا کس نے مرتب کیا؟ پورے عمل میں پر اسراریت تھی۔ عوام کا ایک آمرانہ حکومت کی جگہ دوسری آمرانہ حکومت لانے کا کوئی موڈ نہیں۔ اگرچہ SPA قیادت کی بہت زیادہ عزت کی جاتی ہے لیکن اس حرکت نے ان کی ساکھ کو کافی ٹھیس پہنچائی ہے۔
SPA فوج کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے ایک عوامی حکومت، بشیر کی قومی کانگریس پارٹی کا خاتمہ، NCP ملیشیا اور سیکورٹی سیٹ اپ کا خاتمہ، عدالتی اہلکاروں اور جنرل پراسیکیوٹرکی معزولی، TMC کا خاتمہ اور دیگر ایسے مطالبات کر رہی ہے جن کے نتیجے میں پرانی ریاست کا خاتمہ ہو جائے گا۔
یہ تمام مطالبات بہت اچھے ہیں اور ان کوفوری طور پر منظور کرتے ہوئے لاگو کرنا چاہیے۔ لیکن SPA سے سب سے سنگین غلطی یہ سرزد ہو رہی ہے کہ وہ TMC پر اعتماد کر رہی ہے جس کا خمیر ہی سابق ریاست کے سب سے رجعتی عناصر ہیں۔ درحقیقت، TMC کے ساتھ مذاکرات کے بعد تنظیم نے اعلان کیا کہ وہ ایک عبوری عوامی حکومت مقرر کرنا چاہتے ہیں جو ملک پر ’’عسکری قوتوں کی حفاظت میں چار سال حکومت کرے گی!‘‘
یہ انقلاب کی روح کی یکسر نفی ہے جس کا مطالبہ ہی جمہوریت اور جوابدہی ہے۔ اس حکومت کو کون مقرر کرے گا؟ اور جمہوری انتخابات منعقد کرنے میں پانچ سال کیوں لگیں گے؟ پھر ’’فوجی حفاظت‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ انہی لوگوں کی حفاظت میں جو پچھلی کئی دہائیوں سے سوڈانی محنت کشوں، کسانوں اور غریبوں کا قتلِ عام کر رہے ہیں؟ انہی لوگوں کی حفاظت میں جو صرف چند ہفتے پہلے ہی انقلاب پر بھوکے بھیڑیوں کی طرح حملے کر رہے تھے؟
سوڈانی عوام نے کئی مرتبہ ثابت کیا ہے کہ انہیں کسی قسم کے محافظوں کی ضرورت نہیں۔ ریاست (جس کا فوج ایک اہم حصہ ہے)کے برعکس عوام سماج کو کسی خون خرابے اور استحصال کے بغیر زیادہ بہتر انداز سے چلانے کے اہل ہیں۔ درحقیقت، SPA کا اعلامیہ فوج اور ال برہان کی تائید کرتا ہے جن کا دعویٰ ہے کہ وہ کسی بھی حکومت کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ وہ صرف دفاعی اور داخلہ وزارتیں لینا چاہتے ہیں۔ یعنی، وہ دو وزارتیں جن کے ذریعے کسی نگرانی کے بغیر جبر قائم رکھا جائے گا۔ یہ پلان سویلین۔ملٹری آمریت کی ننگی سازش کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اس لئے یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں کہ پوری دنیا کی سب سے زیادہ رجعتی حکومتیں جن میں مصری فوجی آمریت اور مشرقِ وسطی کی بادشاہتیں شامل ہیں، فوج کی حمایت کر رہی ہیں۔
اس وقت SPA کے قائدین وہی فاش غلطی کرنے جا رہے رہیں جس کی 2013ء میں مصری انقلاب میں تمرد تحریک مرتکب ہوئی تھی۔ مرسی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد درحقیقت اقتدار تمرد کی مٹھی میں تھا۔ لیکن تمرد اس طاقت کو استعمال کرنے سے قاصر تھی اور اسی لئے یہ طاقت السیسی اور SCAF کو منتقل کر دی گئی جنہوں نے لمحے بھر کا انتظار کئے بغیر عوامی تحریک کو کچلنے کی پوری کوشش کی۔
یہ واضح ہے کہ سوڈانی عوام نے اس واقعے سے اہم نتائج اخذ کئے ہیں اور سڑکوں پر عوامی شعور اچھی طرح جانتا ہے کہ پرانی ریاسی مشینری کے کسی ستون پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ پورا ریاستی ڈھانچہ پرانے دیمک نے چاٹ رکھا ہے۔ وہ کبھی بھی انقلاب کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچائیں گے۔ وزارتِ دفاع کے باہر دھرنا دیتے عوام فوجی اشرافیہ کو خوفزدہ کرکے انقلاب سے براہِ راست ٹکر لینے کے بجائے سازشوں تک محدود رہنے پر مجبور تو کر سکتی ہے لیکن اس طریقہ کار سے ان کے بنیادی مفادات تبدیل نہیں ہوں گے جو کہ عوامی مفادات سے براہِ راست متصادم ہیں۔
انقلاب کو مکمل کرنے کے لئے کسی کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں۔ عوام نے اچھی طرح دکھا دیا ہے کہ وہ سماج کو تبدیل کرنے کی مکمل اہلیت رکھتے ہیں۔ احتجاج کو منظم کرنے والی کمیٹیوں، ہڑتالوں، عوامی حفاظتی کمیٹیوں، دھرنے کی رضاکار ٹیموں وغیرہ میں ہم ان اداروں کے بیج دیکھ سکتے ہیں جو عوامی امنگوں کو کامیابی سے ہمکنار کر سکتے ہیں۔
SPA نے اعلان کیا ہے کہ وہ کوئی سیاسی تنظیم نہیں ہیں اور ان کا سیاست میں حصہ لینے کا کوئی ادارہ نہیں۔ لیکن کیا انقلاب کی قیادت سے بڑا بھی کوئی سیاسی اظہار ہو سکتا ہے؟ پیچھے ہٹنے اور فوج کو طاقت منتقل کرنے کے بجائے SPA قائدین کو ہر کام کی جگہ، سکول، بیرکوں، محلوں اور دیہاتوں میں کمیٹیاں اور کونسلیں منظم کرنی چاہیے جہاں جہاں انقلاب کی تپش موجود ہے۔ ان کو پھر علاقائی اور قومی سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ جوڑتے ہوئے ایک بااختیار اور مربوط آئین ساز اسمبلی کے انتخابات منعقد کرنے چاہیے تاکہ انقلابی عوام کی خواہشات کو حقیقت میں ڈھال دیا جائے۔ کوئی ضرورت نہیں کہ پرانے گلے سڑے ڈھانچے کا انتظارکیا جائے کہ کب وہ عوام کو ان کے حقوق سے نوازتے ہیں۔ ان کی یہ تاریخی ذمہ داری ہے کہ وہ ردِانقلابی قوتوں کو دوبارہ فعال ہونے سے پہلے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے یہ حقوق چھین لیں!
سرمایہ داری مردہ باد!
ساتھ ہی ساتھ عوام کے شدت اختیار کرتے مسائل پر بھی اشد توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ عوام کا خونخوار استحصال اور ملکی قدرتی وسائل کی بے دریغ لوٹ مار کر کے اشرافیہ تو دنیا میں ہی جنت کے مزے لوٹ رہی ہے لیکن عوام کے حالات دگرگوں ہیں۔ حالیہ اعدادوشمار نامکمل ہیں لیکن 2009ء میں ایک رپورٹ آئی تھی کہ 46 فیصد عوام قومی غربت کی لکیر سے نیچے رہ رہے ہیں، 70 فیصد آبادی یومیہ 5 ڈالر سے کم پر زندہ ہے اور 17 فیصد عوام یومیہ 1 ڈالر سے کم پر زندہ رہنے پر مجبور ہے۔ 50 لاکھ سے زائد افراد اور 32 فیصد سوڈانی بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ 20 فیصد مرد اور 40 خواتین ناخواندگی کا شکار ہیں۔ صرف 5فیصد قومی بجٹ صحت پر خرچ ہوتا ہے جبکہ 70 فیصد بجٹ فوج پر خرچ ہوتا ہے۔ صحت کا شعبہ کم اخراجات کر کے خود تباہ و برباد کیا گیا ہے کیونکہ بجٹ کا کثیر حصہ فوجی اشرافیہ اور سیکیورٹی پر خرچ ہوتا ہے تاکہ ریاست کا تحفظ قائم رہے۔ ڈاکٹروں کی ماہانہ تنخواہ 45پونڈ ہے! اس تباہ و برباد سماجی صورتحال نے پیٹی بورژوازی کی قابلِ ذکر پرتوں کو عوامی جدوجہد کی طرف راغب کیا ہے۔
فوری طور پر محنت کشوں کو منظم کر کے معدنی کانوں، فیکٹریوں اور تیل کی تنصیبات پر قبضہ کر کے جبکہ زمینوں پر غریب کسانوں کا قبضہ یقینی بنا کر ہی ان تمام مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ ان تمام وسائل کو جمہوری بنیادوں پر ایک منصوبہ بند قومی معیشت میں منظم کر کے اور تمام منافعوں کو سماج کی جدید بنیادوں پر تعمیر و ترقی اور معیار زندگی کو بلند کرنے پر خرچ کر ہی تمام عوامی مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔
محض چند ماہ کے عرصے میں سوڈان کی انقلابی عوام نے دیو ہیکل رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ وہ کسی بھی مخالفت کو تہس نہس کرکے آگے بڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کسی بھی تیاری یا لائحہ عمل کی عدم موجودگی میں عوام نے کامیابی کے ساتھ آمریت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے۔ وہی افراد جو نخوت اور تکبر سے حکمرانی کر رہے تھے، آج عوام کے سامنے سر جھکانے پر مجبور ہیں۔ درحقیقت اس وقت صورتحال یہ ہے کہ عوام جب چاہیے اقتدار پر قبضہ کر سکتی ہے لیکن فی الحال نہ وہ اتنی منظم ہے اور نہ ہی اس کے پاس ایسا کوئی پروگرام موجود ہے۔
دوسری طرف جرنیل، ملکی اور غیر ملکی سفارت کار وزارتوں اور سفارت خانوں کے دن رات چکر لگا رہے ہیں اور مغرب میں عوامی فتح کو لوٹنے کی سازشیں کر رہے ہیں۔انقلاب کو تقسیم کرنے، منتشر کرنے اور دھوکہ دینے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے تاکہ انقلاب برباد ہو جائے۔انقلاب کو ان لوگوں پر رتی برابر اعتماد نہیں ہونا چاہیے۔ انقلاب صرف اپنی قوتوں پر ہی اعتبار کر سکتا ہے جس نے ہر رکاوٹ کو پیروں تلے روند ڈالا ہے۔ بشیر کی گلی سڑی ریاست کو فوری طور پر اکھاڑ پھینک کر محنت کشوں، کسانوں اور غریبوں کی ریاست قائم کرنی چاہیے۔ سب سے اہم، سوڈانی سرمایہ داری کا قلع قمع کرنا چاہیے جس نے اس ملک کی غیور عوام کو تکلیف، آہوں اور سسکیوں کے علاوہ اور کچھ نہیں دیا۔
جرنیلوں پر عدم اعتماد!
عبوری فوجی کونسل مردہ باد!
بشیر اور ریاست کے تمام مجرم اہلکاروں کی فوری گرفتاری!
NCP اور اس کی تمام جابر قوتوں کو فوراً تحلیل کیا جائے!
مقامی اور قومی کمیٹیاں فوراً اقتدار پر قبضہ کریں!
یونینز اور انقلابی کمیٹیاں فوراً ایک آئین ساز اسمبلی منعقد کریں!
سوڈانی سرمایہ داری مردہ باد!
سوڈان اور پوری دنیا میں سوشلسٹ انقلاب زندہ باد!