|رپورٹ: مرکزی بیورو، ریڈ ورکرز فرنٹ|
بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے اور بلوں میں لگنے والے کمر توڑ بالواسطہ ٹیکسوں کے خلاف کشمیر سے شروع ہونے والی عوامی احتجاجی تحریک اب پورے ملک میں پھیل رہی ہے۔ راولپنڈی، لاہور، پشاور، بٹ خیلہ، گوجرانوالہ، فیصل آباد، ملتان، صادق آباد، کوہاٹ اور کراچی سمیت بے شمار شہروں میں بجلی کے ظالمانہ بلوں کے خلاف عوامی غم و غصہ اُبل کر سڑکوں پر نکلا آیا ہے اور احتجاجی تحریک کا دائرہ کار روز بروز وسیع ہو رہا ہے۔ لوگ سڑکوں پر آ کر بجلی کے بلوں کو نظر آتش کر رہے ہیں اور سماج کی وسیع پرتوں کی جانب سے بل ادائیگی کا بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ سامنے آ رہا ہے۔ کشمیر کو چھوڑ کر باقی جگہوں پر اگرچہ ابھی احتجاجوں میں عملی طور پر لوگوں کی موجودگی کوئی بہت زیادہ نہیں ہے لیکن احتجاجی تحریک کا پھیلتا دائرہ کار، سماج کی بھاری اکثریت میں موجود اس کی حمایت اور سوشل میڈیا پر اس کو ملنے والی پذیرائی نے حکومت کے اوسان خطا کر دیے ہیں اور وہ مختلف سطحی اقدامات اور کاسمیٹک اعلانات کے ذریعے تحریک کو دھوکا دینے اور اسے زائل کرنے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔
اگرچہ تحریک کو محنت کش عوام کی خاموش حمایت حاصل ہے لیکن فی الحال اکثریت شہروں میں تحریک کے عملی شرکاء کی ایک بڑی تعداد پیٹی بورژوا زی اور انٹیلی جنشیہ پر ہی مشتمل ہے۔ زیادہ تر شہروں میں احتجاج کی کال مختلف بازاروں کی انجمن تاجران کی جانب سے دی گئی جب کہ کئی ایک جگہوں پر وکلاء کی ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشنز نے یہ قدم اٹھایا ہے۔ کچھ شہروں میں بننے والی عوامی ایکشن کمیٹیوں میں بھی زیادہ تعداد انہی پرتوں کے نمائندوں کی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ پیٹی بورژوازی اور انٹیلی جنشیہ روایتی طور پر ریاست، سرمایہ دارانہ نظام اور حکمران طبقے کی حمایتی رہی ہے اور ان کو سماجی بنیاد فراہم کرتی آئی ہے لیکن اب معاشی بربادی کے ہاتھوں مجبور ہو کر یہ پرتیں بھی ریاست اور حکمرانوں کے خلاف احتجاج پر اتر آئی ہیں۔ لیکن حکمران طبقے کو اصل خوف ان پرتوں سے نہیں ہے۔ ان کا اصل ڈر یہ ہے کہ اگر محنت کش عوام اور بالخصوص محنت کش طبقے کی وسیع اکثریت بھی عملاً اس احتجاجی تحریک میں متحرک ہو گئی تو پورا سرمایہ دارانہ معاشی و سماجی نظام، ریاست اور نجی ملکیت خطرے میں پڑ جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سطحی اقدامات اور مختلف مقامی قیادتوں کے ساتھ سودے بازی کے ذریعے جلد از جلد اس تحریک کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں۔ یاد رہے کہ حکمران تحریک کے خلاف ریاستی جبر کا آپشن بھی استعمال کر سکتے ہیں لیکن ایسا کرنے سے تحریک میں مزید شدت ہی آئے گی اور یہی وجہ ہے کہ حکومت فی الحال ایسا کرنے سے گریزاں ہے۔
حکمرانوں کی جانب سے چلی جانے والی ایک اور خطرناک چال بجلی بلوں میں اضافے کا سارا ملبہ واپڈا کے محنت کشوں پر ڈال دینا اور انہیں ساری صورتحال کا ذمہ دار قرار دینا ہے۔ حکومت یہاں ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایک تو وہ سارے عوامی غصے کا رُخ واپڈا ورکرز کی طرف موڑ رہی ہے اور دوسرا عوام کو واپڈا محنت کشوں کے خلاف مشتعل کر کے واپڈا کی مزید نجکاری کی راہ ہموار کر رہی ہے جس کا آغاز بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) کی صوبوں کو منتقلی کی تجویز سے کر دیا گیا ہے۔ لیکن یہاں واپڈا کے محنت کشوں اور یونینز کا بھی اولین فریضہ ہے کہ وہ عوامی احتجاجوں کی بھر پور حمایت کا اعلان کریں، ان میں شرکت کریں اور عوام کو بتائیں کہ ان ظالمانہ بلوں کے اصل ذمہ دار ریاست، سرمایہ دار حکمران طبقہ، آئی ایم ایف اور بجلی کی نجی کمپنیاں (آئی پی پیز) ہیں جن کی تجوریاں بھرنے کی خاطر ایک طرف تو بجلی کے ٹیرف میں بے تحاشہ اضافہ کیا گیا ہے تو دوسری طرف بلوں میں بالواسطہ ٹیکسوں کی بھر مار کر دی گئی ہے۔ مزید برآں صنعتکاروں، بڑے زمینداروں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ، سول افسر شاہی، عدلیہ جیسے ریاستی اداروں کی جانب سے بڑے پیمانے پر بجلی چوری اور بلوں کی عدم ادائیگی بھی صورتحال کو بد تر بنا رہی ہے۔ اسی طرح واپڈا محنت کشوں کو یہ بھی واضح موقف رکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ بلوں کی عدم ادائیگی پر عوام کے میٹر کاٹنے اور پورے علاقوں کی بجلی بند کرنے جیسے عوام دشمن اقدامات کا ہر گز حصہ نہیں بنیں گے اور اگر انہیں اس پر مجبور کیا گیا تو وہ احتجاجاً امراء کے پوش علاقوں، نادہندہ ریاستی افسرشاہی اور بڑے صنعتکاروں کی بجلی کاٹ دیں گے۔ واپڈا کے محنت کشوں کے پاس سوشل میڈیا سے لے کر احتجاجوں میں شرکت کے ذریعے اپنا موقف عوام تک پہنچانے کے بے شمار مواقع موجود ہیں جنہیں برؤے کار لانے کی ضرورت ہے۔ اگر ایک واپڈا ورکر کے ذریعے بجلی کا بل ہر ماہ ہر گھر میں پہنچ سکتا ہے تو واپڈا ورکرز کے موقف پر مبنی ایک لیفلٹ کیوں نہیں؟ یقیناً واپڈا ورکرز کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ واپڈا یونینز کی گماشتہ قیادتیں ہی ہیں جو انہیں یہ سب کرنے سے روک رہی ہیں بلکہ سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہی ہیں۔ لیکن یہی وقت ہے کہ واپڈا کے محنت کش ان رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے نہ صرف اپنا موقف عوام تک لے جا کر ان کی حمایت جیت سکتے ہیں بلکہ اپنی گماشتہ یونین قیادتوں سے بھی جان چھڑا سکتے ہیں۔ اسی طرح دیگر عوامی اداروں، سرکاری محکموں اور نجی صنعتوں کے ملازمین و محنت کشوں، ان کی یونینز اور ایسوسی ایشنز کو بھی ان احتجاجوں کی بھرپور حمایت کرنے اور ان میں بڑھ چڑھ کر شریک ہونے کی ضرورت ہے تا کہ اس احتجاجی تحریک کی قیادت درست ہاتھوں یعنی پاکستان کے محنت کش طبقے کے پاس آ سکے۔ یاد رہے کہ صرف محنت کش طبقہ ہی ہے جو اس بکھری ہوئی عوامی احتجاجی تحریک کو ایک منظم اظہار دے سکتا ہے اور خاص کر بڑی آبادی والے شہروں میں فعال عوامی ایکشن کمیٹیاں صرف محنت کش طبقے کی یونینز، ایسوسی ایشنز، کمیٹیوں اور انجمنوں کے گرد ہی تخلیق ہو سکتی ہیں۔
ریڈ ورکرز فرنٹ بجلی کے ظالمانہ بلوں کے بائیکاٹ کی ملک گیر عوامی احتجاجی تحریک کی بھر پور حمایت کرتا ہے اور اسے منظم کرنے میں اپنا ہر ممکن کردار ادا کرے گا۔ مہنگی بجلی اور ظالمانہ بلوں کے خلاف عوامی موقف کو ہی آگے بڑھاتے ہوئے ہم حکومت سے درج ذیل مطالبات کرتے ہیں:
1۔ بجلی کی نجی کمپنیوں (آئی پی پیز) کے ساتھ کئے جانے والے تمام عوام دشمن معاہدوں کو منسوخ کرتے ہوئے انہیں فی الفور ریاستی ملکیت میں لیا جائے اور انہیں وہاں پر کام کرنے والے محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں چلایا جائے تا کہ تمام عوام کو سستی بجلی مہیا کی جا سکے۔
2۔ 700 یونٹ سے کم بلوں پر عائد تمام بالواسطہ ٹیکسوں کا خاتمہ کیا جائے اور یہ سارا ٹیکس بوجھ سرمایہ دار طبقے پر ڈالا جائے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک جیسے سامراجی مالیاتی اداروں سے قرضے نہ عوام نے لئے اور نہ ہی ان پر خرچ ہوئے۔ یہ قرضے سرمایہ دار حکمران طبقے نے لئے ہیں اور ان سے انہوں نے اپنی تجوریاں ہی بھری ہیں لہٰذا ان کی واپسی بھی ان کی ذمہ داری ہے۔
3۔ 300 یونٹ تک استعمال کرنے والے گھروں کو بجلی مفت فراہم کی جائے۔
4۔ پانچ ایکڑ تک زرعی ملکیت رکھنے والے چھوٹے کسانوں کو بجلی مفت فراہم کی جائے۔
5۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ اور صنعتکاروں سمیت تمام بڑے نا دہندگان سے فوری وصولی کی جائے، بصورت دیگر انہیں بجلی کی ترسیل فوری منقطع کی جائے۔ مزید برآں تمام ریاستی افسر شاہی کو مفت بجلی کی فراہمی کا فوری خاتمہ کیا جائے۔
6۔ واپڈا سمیت کسی بھی عوامی ادارے کی نجکاری نہ کی جائے۔ واپڈا میں ورک فورس کی شدید کمی کو فوراً پورا کیا جائے۔ واپڈا ورکرز کو کام کے لئے حفاظتی لباس اور دیگر آلات فوراً فراہم کئے جائیں۔