|تحریر: نیلسن وان، ترجمہ: ولید خان|
کورونا وباء کی تباہی کے دوران بھی معیشت کے کچھ حصے نہال ہیں۔ سٹے باز سرمایہ کاری دیوانہ وار جاری ہے۔ مشہور شخصیات کے ہر لمحہ تبدیل ہوتے وقتی فیشن، NFTs اور SPACs اس دیوانہ وار سٹہ بازی کے حالیہ اظہار ہیں۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس وقت سرمایہ داری اپنی تاریخ کے سب سے بھیانک ترین بحران میں پھنسی ہوئی ہے۔ کورنا وباء اور اس کی وجہ سے پوری دنیا میں لگنے والے لاک ڈاؤن نے پوری دنیا میں معاشی تباہی پھیلا رکھی ہے۔ پیش گوئی کی جا رہی ہے کہ معیشت اب مستقل طور پر بربادی کا شکار رہے گی اور اکثریتی رائے یہی ہے کہ قبل از وباء دور میں واپسی ناممکن ہے۔
لیکن اس معاشی ابتری کے دوران معیشت کے کچھ حصے بڑی تیزی سے پھل پھول رہے ہیں۔
سال 2020ء میں وباء کی پہلی لہر میں برباد ہونے کے بعد اس سال سٹاک مارکیٹ نئی بلند تر سطح پر پہنچ چکی ہے جبکہ بِٹ کوائن کی قدر میں بھی تاریخی اضافہ ہوا ہے۔ برطانیہ میں پراپرٹی کی قیمتوں نے بھی بحران کے اثرات کو جھٹک کر جنوری 2021ء تک اپنی قدر میں 7.5 فیصد اضافہ کیا۔ دوسرے الفاظ میں حقیقی معیشت بحران کے تھپڑوں سے نڈھال ہو چکی ہے جبکہ سٹہ باز سرمایہ کاری نئے عروج پر پہنچ چکی ہے۔
یہ ساری صورتحال ایک ایسے انحطاط پذیر نظام کا اظہار ہے جو کسی قسم کی منطق یا سمجھ بوجھ سے ماورا ہو چکا ہے۔ عالمی سرمایہ داری اپنی تاریخ کے بھیانک ترین بحران کے باوجود ابھی تک اس وجہ سے زندہ ہے کیونکہ پوری دنیا کے مرکزی بینکوں نے کھربوں ڈالر معیشت میں جھونکے ہیں۔ بحران کے لگائے گئے کاری زخموں پر مرہم رکھنے کے برعکس سرمایہ دار اس پیسے کو ہر قسم کے مضحکہ خیز سٹے بازی کے بلبلے میں جھونک رہے ہیں۔
پچھلے چند مہینوں میں سوشل میڈیا اور مشہور شخصیات کے زور پر NFTs اور SPACs نامی ایک نئے پاگل پن کا جنم ہوا ہے جس میں کچھ عام سرمایہ کار بھی دیوانہ وار سرمایہ کاری کر رہے ہیں تاکہ فوری طور پر آسان پیسہ کمایا جا سکے۔
Non Fungible Tokens
NFT ایک ایسا منفرد ”Non Fungible Token“ ہے جو بلاک چین پر ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ ان کو کاپی نہیں کیا جا سکتا اور انہیں ڈیجیٹل اثاثوں جیسے تصاویر اور ڈیجیٹل فن پاروں کے لئے بنایا گیا ہے۔ اس کا مقصد خریدار کو منفرد ملکیت کے لئے ایک مستند سند فراہم کرنا ہے۔
مارچ میں ڈیجیٹل فنکار بیپل نے ایک آن لائن کولاج بنایا جسے کرسٹی میں 69.3 ملین ڈالر میں بیچا گیا۔ اس کی فروخت سے ان ٹوکنز کے لئے مانگ دیوانہ وار بڑھ چکی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ بیپل کے آن لائن کولاج جیسے ڈیجیٹل اثاثوں کے لئے ایک NFT بنانا مصنوعی قلت پیدا کرنے کی کوشش ہے جبکہ قلت سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ کوئی بھی شخص کسی ڈیجیٹل اثاثے کے لئے ایک NFT بنا سکتا ہے چاہے اس کے پیچھے کوئی ایک اثاثہ بھی موجود نہ ہو! NFT کا مالک یہ دعویٰ تو کر سکتا ہے کہ وہ اثاثے کے ”اصلی“ ٹوکن کا مالک ہے لیکن اثاثے کو NFT کسی طرح بھی کنٹرول نہیں کرتا۔
NFT کی نام نہاد قدر کی بنیاد یہ ہے کہ ملکیت کی یہ منفرد ڈیجیٹل سند اپنے آپ میں قیمتی ہے۔ لیکن اصل ڈیجیٹل اثاثے، چاہے وہ.jpeg تصویر ہو یا ڈیجیٹل میڈیا کا کوئی بھی حصہ ہو، مفت میں اور آسانی سے انٹرنیٹ پر کاپی کر کے کسی کو بھی دیئے جا سکتے ہیں۔ اور کسی بھی ٹھوس اثاثے کے برعکس، جیسے کوئی مصوری، ایک ڈیجیٹل فن پارے کی کاپی مکمل طور پر اصلی کی حقیقی کاپی ہو گی! حتمی تجزیئے میں یہ فن پارے محض ڈیٹا اور انفارمیشن ہیں جنہیں ایک بٹن دبا کر نقل کیا جا سکتا ہے۔ درحقیقت کئی مبصرین نے نشاندہی کی ہے کہ NFTs مروجہ جملہ حقوق کے علاوہ اور کوئی اضافی حقوق فراہم نہیں کرتے!
یہ NFTs جلد از جلد امیر ہونے کی ایک اور ترکیب ہیں جسے سٹہ بازی اور سوشل میڈیا پر شور نے آسمان تک پہنچا دیا ہے۔ NFTs کے اپنے اندر کوئی حقیقی قدر موجود نہیں اور ان کا بلبلہ محض سرمایہ دارانہ نظام کے غیر منطقی پاگل پن کا اظہار ہے۔
اس کے علاوہ NFTs ماحولیات کے لئے انتہائی مہلک ہیں کیونکہ فن پاروں کو بلاک چین میں سمونے کے لئے پیچیدہ کمپیوٹنگ کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لئے دیو ہیکل توانائی درکار ہوتی ہے۔ ایک کرپٹو فنکار کے ایک NFT نے اتنی ہی توانائی خرچ کی جتنی یورپی یونین کے ایک عام شہری کو 77 سال میں درکار ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ماحولیات پر اس کے تباہ کن اثرات پڑیں گے۔
یہ مسئلہ عمومی طور پر بلاک چین ٹیکنالوجی کو لاحق ہے۔ مثال کے طور پر پہلی کرپٹو بِٹ کوائن کی سالانہ توانائی کھپت پوری دنیا میں پیدا کی جانے والی بجلی کا 0.45 فیصد بنتا ہے۔
یہ ضیاع گلی سڑی سرمایہ داری کا ایک اور اظہار ہے جو پہلے ہی پورے سیارے کو قیامت خیز ماحولیاتی تباہی کی جانب دھکیل رہا ہے۔
SPACs
NFTs کا اتنا چرچا بھی درحقیقت سرمایہ دارانہ معیشت میں پنپنے والے کئی بلبلوں میں سے محض ایک بلبلہ ہی ہے۔ سرمایہ کار دیو ہیکل پیسہ SPACs میں بھی لگا رہے ہیں۔ ان سے مراد ”Special Purpose Acquisition Companies“ ہیں جن کا سرمایہ کاروں نے ”خالی چیک“نام رکھا ہوا ہے۔
ان کمپنیوں کے کوئی اثاثے ہیں اور نہ کوئی کاروباری سرگرمیاں بلکہ ان کا مقصد 10 ڈالر فی حصص بیچ کر ایک IPO (Initial Public Offering) کے ذریعے صرف سرمایہ اکٹھا کرنا ہے۔ SPAC بنانے والے پھر اپنے سرمایہ کاروں سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم ایک نجی کمپنی تلاش کر کے خرید لیں گے جسے سرمایہ کار جاری رکھنا چاہیں یا بیچنا چاہیں ان کی منشاء ہے تاکہ منافع بنایا جا سکے۔
ان بے کار کمپنیوں کو حاصل کرنے کی دوڑ کا دیوانہ پن اس وقت عروج کو پہنچ چکا ہے۔ سال 2021ء کی پہلی سہ ماہی میں SPACs سال 2020ء کے مقابلے میں دیو ہیکل سرمایہ اکٹھا کر چکے ہیں اور مارچ تک عالمی طور پر یہ ہندسہ 79.4 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ NFTs کی طرح SPACs بھی سرمایہ کاروں کو لالچ دے رہی ہیں کہ کم تر یا بغیر کسی سرگرمی کے قابلِ ذکر منافع کمایا جا سکتا ہے۔
SPACs کے لئے طویل المعیاد سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی شازونادر ہی کی جاتی ہے۔ درحقیقت عمومی طور پر کوئی بھی کمپنی خریدنے کے بعد ایک SPAC کی قیمت میں اوسطاً 10 فیصد کمی ہو جاتی ہے جبکہ مٹھی بھر ہی اپنے سرمایہ کاروں کے لئے کوئی منافع کما پاتی ہیں!
فروری میں بہت زیادہ شہرت پانے والی امریکی کار ساز کمپنی Lucid Motors نے ایک SPAC معاہدہ بغیر ایک گاڑی بنائے پورا کر لیا! لیکن سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز مشہوری نے ایک حصص کی قیمت 60 ڈالر تک پہنچا دی جس کے بعد یہ منہدم ہو کر 30 ڈالر ہو گئی۔ Lucid کا موجودہ سب سے بڑا سرمایہ کار سعودی عرب کا پبلک انوسٹمنٹ فنڈ ہے جس نے بڑا مناسب منافع کمایا ہے کیونکہ اندازاً حقیقی قیمت 12 ارب ڈالر ہونے کے باوجود اس کی مالیت 64 ارب ڈالر تک جا پہنچی ہے!
اس پاگل پن کو مزید ہوا دینے کے لئے سرینا ولیمز اور جے زی جیسے ستاروں کو بھی تشہیر کرنے کے لئے شامل کیا جا رہا ہے۔
یہاں تک کہ برباد شدہ پراپرٹی کمپنی We Work بھی ایک SPAC کے ساتھ انضمام میں 9 ارب ڈالر مالیت کے ساتھ پبلک ٹریڈنگ کی امیدیں لگائے بیٹھی ہے۔ حالانکہ یہ کمپنی ایک مرتبہ پہلے سال 2019ء میں بھی IPO کی کوشش میں ناکام ہوئی تھی اور اس سال 3.5 ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا جس کے بعد سال 2020ء میں 3.2 ارب ڈالر کا نقصان ہوا!
لیکن We Work اس وقت BowX Acquisition Corp نامی ایک SPAC کے ساتھ مزاکرات کر رہی ہے جو سابق باسکٹ بال کھلاڑی شکیل او نیل کو بطور مشیر استعمال کر رہی ہے۔ اس منڈی نے تمام منطق کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں۔
ستاروں کو عام سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے کے لئے استعمال کرنا ایک سفاک چال ہے جس کے ذریعے پہلے ہی موجودہ وباء اور معاشی بحران کے ستم زدہ معصوم متوسط اور محنت کش طبقے کے لوگوں کو متوجہ کر کے منافعوں کا جھانسا دیا جا رہا ہے۔
پوری دنیا میں کروڑوں افراد بے روزگار ہو رہے ہیں اور جن کے پاس فی الحال روزگار موجود ہے وہ کم سے کم اجرتوں میں زیادہ سے زیادہ کام کرنے پر مجبور ہیں۔ اس صورتحال میں کچھ لوگوں کے لئے سرمایہ کاری کے ذریعے دولت اور معاشی تحفظ کا وعدہ بہت دلفریب ہے، خاص طور پر جب مشہور ستارے اشتہاروں کے ذریعے وعدہ کر رہے ہوں کہ منافع یقینی ہے۔
اس تمام کیفیت سے صرف دو لوگ ہی فیض یاب ہوں گے۔ ایک وہ جو SPAC کے موجد ہیں اور دوسرے خریدی گئی کمپنیوں کے پہلے سے موجود سرمایہ کار جنہیں یہ امید ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائے گئے ہیجان کے نتیجے میں ان کے حصص کی مالیت میں بے تحاشہ اضافہ ہو گا۔
اس دیوانے پن سے سترہویں صدی میں ڈچ ٹیولپ بلبلے سے لے کر 1990ء کی دہائی کے اختتام اور 2000ء کی دہائی کے آغاز میں ڈاٹ کام بلبلے تک، سرمایہ دارانہ تاریخ کا ہر سٹہ باز بلبلہ یاد آ جاتا ہے۔ ان بلبلوں کے تباہ کن نتائج ہوتے ہیں۔ سال 2000ء میں اندازاً سرمایہ کاروں کے 4-6 ٹریلین ڈالر بخارات بن کر اڑ گئے تھے۔
فرضی سرمایہ
منڈی میں حقیقی پیداوار کی عدم موجودگی میں حصص کی مسلسل خریدو فروخت کے ذریعے ”قدر“ پیدا کر کے حصص کی قیمتوں میں اضافے کی مارکس نے تشریح کی تھی کہ یہ سب ”فرضی سرمایہ“ ہے۔
سٹاک مارکیٹ میں حصص کا تبادلہ درحقیقت اشیاء کا تبادلہ (یعنی قدروں کا تبادلہ) نہیں ہے۔ درحقیقت حصص مستقبل میں پیدا کی جانے والی قدر یا منافعوں کا وعدہ ہیں جنہوں نے وجود میں آنا ہے۔ اس لئے سٹاک مارکیٹ میں حصص کی قدر میں اتار چڑھاؤ ہمیشہ حقیقی کمپنیوں یا پوری معیشت کی صحت کی درست عکاسی نہیں کرتا۔
اس کی سب سے واضح مثال حالیہ Gamestop حصص کی قدر میں بے پناہ اضافہ ہے۔ WallStreetBets کے سرمایہ کاروں نے کمپنی کے حصص کی قیمت آسمان پر پہنچا دی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ کمپنی بھی اسی انداز میں منافع کما رہی تھی!
NFTs کے حوالے سے دیوانہ پن اور کمپنیوں کی خرید کے لئے SPACs کا قیام محض ایک مثال ہے کہ سرمایہ دار کسی جوا خانے میں موجود نشے میں دھت جواری کی طرح پاگل ہو چکے ہیں۔ کوئی حقیقی قدر اور پیداوار اس وقت موجود نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ ابتدائی سرمایہ کاری مسلسل بڑھتی رہے گی۔
SPACs اور عمومی سٹہ باز سرمایہ کاری میں سرمایہ دار کھوتا ریڑھی کے پیچھے باندھے کھڑا ہے۔ یعنی حقیقی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرنے یا پیداوار کو بڑھانے کی بجائے سرمایہ کار SPACs میں اس امید پر پیسہ جھونکی جا رہے ہیں کہ وقت آنے پر منافع حاصل ہو گا۔ مارکس نے بیان کیا تھا کہ سرمایہ دار کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ حقیقی پیداوار کی الجھنوں سے آزاد ہو کر صرف پیسے سے پیسہ بنایا جائے۔
حتمی تجزیئے میں سٹہ بازی کی جانب یہ رجحان سرمایہ داری کے نامیاتی بحران کا عکس ہے۔ کیونکہ پیداواری معیشت میں منافع بخش سرمایہ کاری کے امکانات نہیں ہیں اس لئے سرمایہ دار پیداوار سے ہی جان چھڑا کر سٹاک مارکیٹ اور دیگر سٹہ باز سکیموں میں پیسہ پھینک رہے ہیں۔
اس وقت سرمایہ داری کو سہارا دینے کے لئے ریاست کی طرف سے جاری کردہ دیو ہیکل مالیاتی امدادی منصوبوں کے نتیجے میں منڈیاں پیسوں سے چھلک رہی ہیں جو منافع بخش سرمایہ کاری تلاش کر رہے ہیں۔ نتیجتاً اس وقت پوری دنیا دیوانہ وار سٹہ باز بلبلوں کا ایک جوا خانہ بن چکی ہے۔
بڑے بینکوں کو قومیانے کی ضرورت ہے
اگرچہ محنت کش طبقہ ایک دہائی سے جبری کٹوتیاں اور معیارِ زندگی میں گراوٹ برداشت کر رہا ہے اور کورونا وباء کا ناقابلِ برداشت بوجھ اس کے کندھوں پر لادا جا رہا ہے، سرمایہ دار طبقہ اپنے منافعوں اور دولت میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے۔
عام عوام کو SPACs اور NFTs کے ذریعے امیر ہونے کا خواب دکھانا جھوٹ اور دھوکہ ہے کیونکہ حقیقی منافع وہی کمائیں گے جو پہلے ہی سماج پر قبضہ کئے بیٹھے ہیں۔
محنت کش طبقے کے پاس اپنی مجموعی بدحالی سے جان چھڑانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اس گلے سڑے غلیظ نظام سے جان چھڑائی جائے۔ اس کا مطلب بڑے بینکوں اور سرمایہ کار اداروں کو قومیانا ہے تاکہ غیر پیداواری اور جونک سرمائے کے جوا خانے سے جان چھڑائی جائے اور بلا معاوضہ تمام بڑی سٹاک مارکیٹوں کو اجتماعی قبضے میں لے لیا جائے تاکہ پوری انسانیت کی دولت کو سماج کی بہتری کے لئے استعمال کیا جا سکے۔