|تحریر: آدم پال|
پاکستان کی سماجی و معاشی بدحالی تاریخ کے تمام ریکارڈ توڑتے چلی جا رہی ہے اور پورا سماج وحشت اور بربریت کی گہرائیوں میں لڑھکتا جا رہا ہے۔ آٹے کے حصول کے لیے لمبی لمبی لائنوں سے لے کر مہنگائی، بیروزگاری اور لاعلاجی تک تمام عذاب اکٹھے مسلط ہو چکے ہیں اور ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کا کوئی رستہ دور دور تک دکھائی نہیں دے رہا۔ ایسا لگتا ہے کہ پورا سماج ایک ایسی گہری کھائی میں گر چکا ہے جہاں ہر جانب تاریکی ہے اور کہیں بھی روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دے رہی۔ اس تمام صورتحال میں سیاسی افق پر حکمرانوں کی آپسی دھینگا مشتی اور ایک دوسرے پر حملے انتہائی مضحکہ خیز شکل اختیار کر چکے ہیں اور ریاستی ادارے عوام کے سامنے ایک مذاق بن گئے ہیں۔
گزشتہ چند ماہ قبل تک آرمی چیف کے عہدے کے حوالے سے لڑائی چل رہی تھی اور حکمران طبقے کے مختلف دھڑے ایک دوسرے کو شکست دینے کے لیے ہر حربہ استعمال کر رہے تھے۔ اس تمام عمل میں جرنیلوں کی کرپشن کے بہت سے قصے بھی سامنے آئے اور پھر ریٹائرمنٹ کے بعد سابق آرمی چیف کے بیانات کے ذریعے سیاست میں مداخلت کے مختلف بیہودہ ہتھکنڈے اور دیگر تفصیلات بھی منظر عام پر آ چکی ہیں۔ اس کے علاوہ ذاتی معاملات کی ویڈیوز اور آڈیوز کے منظر عام پر آنے سے بھی ان حکمرانوں کے انتہائی گھٹیا ذاتی کردار کی حقیقت بھی سامنے آ چکی ہے۔ اس تمام کشمکش نے جرنیلوں سمیت تمام ریاستی اداروں کو کمزور کردیا ہے اور ان کے عوام دشمن کردار کو بھی بے نقاب کر دیا ہے۔ آج کل حکمرانوں کے مختلف دھڑوں کی کشمکش کا اکھاڑا عدلیہ بنی ہوئی ہے اور اس ادارے کے بالا ترین اہلکاروں کی کرپشن، لوٹ مار اورذاتی مفادات کے لیے سیاسی وابستگی بحث کا موضوع ہے۔ اس تمام عمل میں بھی واضح ہو چکا ہے کہ اس ادارے کا حقیقی کردار عوام دشمن قوتوں کا تحفظ ہی ہے اور حکمران طبقات قانون اور آئین کو موم کی ناک کی طرح اپنے مفادات کے لیے توڑتے اور مروڑتے رہتے ہیں۔ اس ملک کی تاریخ سے واقفیت رکھنے والے اس غلیظ کردار سے پہلے بھی واقف ہیں جب سپریم کورٹ کے ججوں نے نہ صرف آمروں کی کئی دفعہ بیعت کی بلکہ انتہائی عیاری اور مکاری سے انہیں اپنا جبر مسلط کرنے کے لیے ”قانونی“ اور ”آئینی“ تحفظ بھی دیا۔ اسی طرح مختلف ڈکٹیٹروں کے حکم پر ان کی مرضی کے ظالمانہ فیصلے مسلط کرنے کی بھی ایک طویل تاریخ اس ملک میں موجود ہے۔ یہ عمل ملک کی اعلیٰ ترین سطح سے ہوتا ہوا نچلی ترین سطح تک سرایت کر چکا ہے اور برطانوی سامراج کے بنائے گئے کالونیل دور کے قوانین اور ریاستی ادارے آج بھی عوام کو حکمران طبقے کا غلام بنائے رکھنے کے لیے مسلسل استعمال ہو رہے ہیں۔ اسی طرح مزدور تحریکوں کو کچلنے اور عوامی امنگوں کا قتل کرنے کے لیے بھی عدلیہ کے بظاہر غیر جانبدار کردار کو حکمرانوں نے ہمیشہ انتہائی سفاکی کے ساتھ استعمال کیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔
یہی صورتحال ریاست کے دیگر اداروں کی بھی ہے جن میں پارلیمنٹ سر فہرست ہے۔ اس وقت تمام تر بحث کا مرکز آنے والے عام انتخابات ہیں اور حکمران طبقے کی باہمی کشمکش اسی نکتے کے گرد جاری ہے۔ عام انتخابات کی شفافیت کے بارے میں اس ملک کے محنت کش عوام میں کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں پایا جاتا اور وہ واضح طور پر جانتے ہیں کہ موجودہ نظام میں انتخابات کے ذریعے انہیں کسی بھی قسم کا کوئی ریلیف حاصل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی مہنگائی اور بیروزگاری سمیت کوئی بھی مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ اسی طرح محنت کش عوام یہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ ان انتخابات میں حکمران طبقے کے ہی مختلف افراد حصہ لے سکتے ہیں اور اقتدار کی ہڈی کے لیے ان کی آپسی لڑائی اس عمل میں زیادہ کھل کر اپنا اظہار کرتی ہے۔ محنت کش عوام کے نمائندے نہ تو ان الیکشنوں میں امیدوار بن سکتے ہیں اور نہ ان کے ووٹ پہلے سے طے شدہ نتائج کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ اس لیے آنے والے عام انتخابات کے لیے محنت کشوں میں کوئی گرمجوشی یا امید کی کوئی کرن موجود نہیں۔ اس پارلیمنٹ کی موجودگی محنت کش طبقے کو آج تک آٹا، بجلی، پانی اور علاج جیسی بنیادی ضروریات بھی مہیا نہیں کر سکی یہی وجہ ہے کہ عوام کی نظروں میں اس کی حیثیت ختم ہو چکی ہے۔
الیکشنوں کے حوالے سے اگر کوئی سب سے زیادہ سنجیدہ یا پھر اتاولا ہے تو وہ عمران خان کی قیادت میں موجود حکمران طبقے اور ریاستی اشرافیہ کا ہی ایک دھڑا ہے جو اقتدار میں واپسی کے لیے ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہا ہے۔اس دھڑے نے پچھلے دور میں اپنے چار سالہ اقتدار میں تاریخ کی بدترین لوٹ مار کی تھی اور کرپشن کی گنگا میں کھل کر اشنان کیا تھا جبکہ مزدور طبقے پر مظالم کی ایک نئی تاریخ بھی رقم کی تھی۔ اب ان کی جگہ پی ڈی ایم والا دوسرا دھڑا لے چکا ہے جو مزدور دشمن اقدامات کے نئے ریکارڈ بنانے کے ساتھ ساتھ پچھلے ایک سال میں کئی سالوں کی کرپشن اور لوٹ مار کر چکا ہے اور اس عمل کو جاری و ساری رکھنا چاہتا ہے۔ لیکن اس تمام عمل میں یہ دونوں دھڑے عوام میں اپنی بنیادیں کھو چکے ہیں اور سیاسی افق پر ہوا میں معلق ہیں۔ آئندہ الیکشنوں میں بھی کامیابی کے لیے یہ دونوں دھڑے عوام کی طاقت پر انحصار کرنے کی بجائے ریاستی اداروں کی پشت پناہی، انتخابی فراڈ اور دھونس اور دھاندلی جیسے روایتی حربوں کے ذریعے ہی میدان میں اترنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور اسی لیے یہ لڑائی عدالتوں سے لے کر آرمی چیف کے عہدے تک ہر جگہ پھیلتی نظر آتی ہے۔ اپنے من پسند ججوں اور جرنیلوں کے تحت الیکشن کروانے کا خواب دونوں دھڑوں کا ہی پورا ہوتا دکھائی نہیں دیتا اور نہ ہی یہ لڑائی ختم ہوگی بلکہ حکمرانوں کی لڑائی آنے والے عرصے میں مزید زہریلی اور خوفناک ہوتی ہوئی مزید انتشار اور افراتفری کا باعث بن سکتی ہے۔
اس لڑائی میں ریاستی اداروں کا خصی پن، زوال پذیری اور انہدام کی جانب سفر بھی واضح ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور ہر عام و خاص یہ جان چکا ہے کہ ریاستی ادارے ا ور ان پر براجمان سرکاری اہلکار کسی طور بھی عوام کے خیر خواہ نہیں اور نہ ہی ان کو عوام کے مسائل سے کوئی دلچسپی ہے۔ جیسے جیسے ان اداروں کی عوام دشمن حقیقت بے نقاب ہوتی جا رہی ہے اور ان کے خلاف نفرت بڑھتی جا رہی ہے ویسے ہی ان کی سماج میں موجود رٹ بھی ختم ہوتی جا رہی ہے اور عوام دشمن اقدامات کے لیے ان اداروں کے استعمال کی افادیت بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود جب تک یہ ٹوٹتی پھوٹتی اور شکستہ ریاست کسی بھی حالت میں موجود ہے یہ عوام پر مظالم کے لیے سامراجی طاقتوں اور ملکی حکمرانوں کے لیے استعمال ہوتی رہے گی۔ صرف مزدور طبقہ ہی اسے اکھاڑ کر ایک مزدور ریاست سے تبدیل کر سکتا ہے اور اس انسان دشمن سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کر سکتا ہے۔
موجودہ سیاسی اور ریاستی بحران کی بنیاد میں مالیاتی نظام کا بحران بھی موجود ہے جو پھر اس سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخ کے بدترین بحران کا نتیجہ ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں یہ نظام اپنے بحران کے باعث تباہی اور بربادی پھیلا رہا ہے اور ترقی یافتہ ممالک کی سیاست اور معیشت بھی شدید ترین بحرانوں کا شکار ہے۔ عالمی سطح پر موجود نظام کا یہ بحران بھی پاکستان کے بحران میں شدت لا رہا ہے اور پورے سماج کی شکست و ریخت تیز ہو رہی ہے۔ اس وقت معاشی بحران کے تمام تر تانے بانے حتمی طورپر آئی ایم ایف کے قرضے سے جوڑدیے گئے ہیں اور وزیر اعظم اور وزیر خزانہ سمیت تمام وزیر اور مشیر آئی ایم ایف سے 1.1 ارب ڈالر کی قرضے کی قسط کے اجرا کے لیے ترلوں اور منتوں کا ریکارڈ بنا چکے ہیں جبکہ اسی رفتار سے عوام پر ٹیکسوں اور مہنگائی کی بھرمار بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ ماضی میں کسی بھی غلام ملک کے حکمرانوں کا سامراجی آقاؤں کے سامنے ناک رگڑنے، بھیک مانگنے اور ان کی چوکھٹ پر سجدے کرنے کا اگر کوئی ریکارڈ ہو گا تو وہ اب ٹوٹ چکا ہوگا۔ عمران خان کی حکومت کے دوران ہی آئی ایم ایف نے قرضے کا نیا پیکج دینے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد عمران خان نے آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط مان کر اور تاریخ کے بدترین عوام دشمن اقدامات کرنے کے بعد حکمرانوں کی لوٹ مار کے لیے وہ قرضہ حاصل کیا تھا۔ اب اسی قرضے کی نئی قسط کے لیے موجودہ حکمران عمران خان کا ریکارڈ بھی توڑ چکے ہیں لیکن ابھی تک یہ قسط جاری نہیں ہو سکی۔ اس کے علاوہ سعودی عرب، چین، متحدہ عرب امارات جیسے ممالک بھی ماضی کی طرح امداد دینے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ تمام صورتحال اس ملک کے حکمرانوں کے لیے نئی ہے اور وہ ماضی میں با آسانی اپنے سٹریٹجک اثاثوں اور عالمی طاقتوں کی پاور گیم میں مختلف طاقتوں کی گماشتگی کے عوض یہ رقوم حاصل کر لیتے تھے۔ اس دفعہ بھی وہ ایسے ہی یہ رقوم حاصل کرنے کے لیے پر امید تھے اور انہیں لگتا تھا کہ یہ تمام ممالک اور آئی ایم ایف کبھی بھی پاکستان کو دیوالیہ نہیں ہونے دیں گے اور انہیں کسی نہ کسی شکل میں اس ملک پر حکمرانی جاری رکھنے کے لیے سپورٹ کرتے رہیں گے۔ لیکن اس وقت صورتحال جتنی گمبھیر ہو چکی ہے اور آنے والے عرصے میں جس بڑے پیمانے پر مالیاتی بحران کے پھیلنے کے امکانات ہیں وہ اس ملک کی تاریخ میں بھی پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔
خطے میں طاقتوں کے توازن میں تبدیلی
اس حوالے سے عالمی سطح پر طاقتوں کے توازن میں تبدیلی اور خطے میں نئے اتحادوں کا ابھرنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ صورتحال اس حقیقت کو بھی واضح کرتی ہے کہ پوری دنیا ایک نئے عہد میں داخل ہو چکی ہے اور تین دہائیاں قبل سوویت یونین کے انہدام اور چین کے سرمایہ داری کی جانب سفر کے بعد عالمی سطح پر جو ورلڈ آرڈر ابھرا تھا اب وہ مکمل طور پر تبدیل ہو رہا ہے اور اس کے اثرات ناگزیر طور پر پاکستان پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ درحقیقت دوسری عالمی جنگ کے بعد ابھرنے والے اتحادوں کی ٹوٹ پھوٹ بھی واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے بلکہ موجودہ بحران کو مختلف حوالوں سے سرمایہ دارانہ نظام کی چا رسو سالہ تاریخ کا بد ترین بحران بھی قرار دیا جا رہا ہے اور اس کے اثرات پاکستان سمیت پوری دنیا پر مرتب ہو رہے ہیں۔
امریکی سامراج جو گزشتہ صدی میں انسانی تاریخ کی سب سے طاقتور سامراجی طاقت کے طور پر ابھرا تھا اب زوال پذیر ہے اور اس کے مالیاتی بحران نے اس کی ریاست اور سامراجی طاقت کو کمزور کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی پوری دنیا کی سیاست اور عالمی تعلقات پر گرفت نہ صرف کمزور ہو رہی ہے بلکہ اس کی عالمی سطح پر اجارہ داری بھی شدید خطرے میں ہے۔ دوسری جانب ایسی کوئی طاقت بھی موجود نہیں جو عالمی سطح پر اس کی جگہ لے سکے لیکن دوسری جانب مختلف خطوں میں مختلف مقامی طاقتیں امریکی اجارہ داری کو کمزور کرتی چلی جارہی ہیں۔
اس خطے میں امریکی سامراج گزشتہ کئی دہائیوں سے سعودی عرب کے ذریعے اپنی اجارہ داری کو جاری رکھے ہوا تھا اور تمام خلیجی ممالک سمیت پورے مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب کے حکمرانوں کو اپنے گماشتے کے طور پر تعینات کر رکھا تھا۔ 1979ء کے ایران کے انقلاب اور رد انقلاب سے قبل شاہ ایران اس خطے میں امریکہ کا گماشتہ تھا لیکن ان واقعات کے بعد سعودی عرب کو یہ کردار سونپ دیا گیا تھا۔ اس دور میں سوویت یونین اور چین کی منصوبہ بند معیشت اور کسی حد تک انڈیا کی ریاستی سرمایہ داری امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے حریف تھے اور اس کے لیے پاکستان کی ریاست کو امریکہ خطے میں اپنے سامراجی مفادات کے لیے استعمال کرتا تھا۔
لیکن اب یہ تمام تر صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے اور اس میں سب سے بڑا دھماکہ حال ہی میں ایران اور سعودی عرب کے بیجنگ میں ہونے والے امن مذاکرات نے کیا ہے۔ چین اس وقت عالمی سطح پر دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن چکا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کو مکمل طور پر بحال اور منڈی کی معیشت قائم کرنے کے بعد چین کے حکمران طبقے نے اپنے سامراجی عزائم واضح کر دیے ہیں۔ سی پیک سمیت بیلٹ اینڈ روڈ کے دنیا بھر میں موجود منصوبے انہی سامراجی عزائم کا ہی اظہار ہیں اور اب یہ پاکستان سمیت مختلف خطوں میں امریکی سامراج کے مفادات کے ساتھ ٹکراؤ کی کیفیت میں ہیں۔ دوسری جانب سعودی عرب نے بھی گزشتہ عرصے کے مالیاتی اورریاستی بحرانوں کے بعد امریکہ پر اپنا انحصار مسلسل کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ خاص طور پر بائیڈن نے صدر بنتے وقت سعودی عرب کے حکمرانوں کو سبق سکھانے کی بات کی تھی جس کی وجہ سے اس کے محمد بن سلمان سے اختلافات شدت اختیار کر گئے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ امریکہ کی مرضی کے خلاف اب سعودی عرب روس کے ساتھ مل کر عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں کو سہارا دینے کی خاطر پیداوار میں مسلسل کمی کر رہا ہے جس کے باعث اس کی اپنی آمدن تو بڑھ رہی ہے لیکن مغربی ممالک میں مہنگائی میں اضافے کا بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ پہلے ہی یوکرائن جنگ کے باعث ان ممالک میں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ انہی پالیسیوں کے باعث یہ اختلافات اس نکتے پر پہنچ گئے تھے کہ سعودی عرب نے امریکہ کو ٹھینگا دکھاتے ہوئے چین اور روس کے ساتھ تعلقات استوار کر لیے ہیں جہاں ایران پہلے ہی ایک اہم فریق کے طور پر موجود تھا۔
اس تمام عمل میں ایران کی گزشتہ چند ماہ سے جاری عوامی تحریک نے کلیدی کردار ادا کیا ہے اور ایران کے لاکھوں نوجوانوں اور بالخصوص خواتین نے حکمران طبقے کے ساتھ ساتھ مشرقِ وسطیٰ کے تمام حکمرانوں کو خوفزدہ کر دیا ہے اور انہیں عوامی تحریکوں اور مالیاتی بحرانوں کے باعث اپنا اقتدار اور حاکمیت خطرے میں محسوس ہو رہی ہے۔ دوسری جانب چین بھی ایک بہت بڑے مالیاتی بحران کی جانب بڑھ رہا ہے اور تیل سمیت دیگر خام مال کے حصول کے لیے ہر جگہ منڈیوں پر اپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتا ہے تاکہ امریکہ یا کوئی دوسری طاقت اسے خام مال کے حصول کے حوالے سے بلیک میل نہ کر سکے۔ چین اور روس کے قریبی تعلقات نے بھی امریکہ سمیت مغربی ممالک کے حکمرانوں کی نیندیں اڑا دی ہیں اور جہاں عالمی تعلقات پر ان مغربی ممالک کی گرفت کمزور ہو رہی ہے وہاں ان ممالک کے باہمی تضادات بھی شدت اختیار کر رہے ہیں۔
اس صورتحال نے امریکہ کی سیاست پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور وہاں کی سیاست میں بھی ترقی پذیر ممالک جیسے رجحانات غلبہ پا رہے ہیں۔ پہلے ہی ٹرمپ گزشتہ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگا چکا ہے اور امریکی پارلیمنٹ پر حملہ کروا کر اقتدار چھیننے کی کوشش کر چکا ہے۔ اب بائیڈن کی جانب سے ایک حملہ کیا گیا ہے اور ٹرمپ کو ایک انتہائی معمولی مقدمے میں گرفتاری اور عدالت میں پیشی سے گزرنا پڑا ہے۔ لیکن ٹرمپ نے اس کا بھرپور سیاسی فائدہ اٹھایا ہے اور اگلے سال ہونے والے الیکشنوں میں اس کے دوبارہ صدر بننے کے امکانات اس وقت سب سے زیادہ روشن ہیں۔ ٹرمپ کے جرائم کی فہرست مرتب کی جائے تو اس میں شاید اس مقدمے میں پیش کیے جانے والے جرائم آخری نمبروں پر آئیں۔ افغانستان سمیت عراق، شام، لیبیا اور دوسرے ممالک میں بمباری کرنے سے لے کر سامراجی پالیسیوں کو جاری رکھنے تک بہت سے ایسے جرائم ہیں جن میں بائیڈن سمیت موجودہ اور گزشتہ صدی کے تمام امریکی صدور شامل ہیں لیکن ان جرائم کی سزا کے حوالے سے کوئی مقدمہ نہیں بنایا جاتا۔ اس کے علاوہ خود امریکہ کی سیاست میں عوام کے ساتھ دھوکہ دہی اور فراڈ اور سرمایہ داروں کو نوازنے کے درجنوں واقعات ہیں جن میں یہ صدور ملوث رہے ہیں لیکن کبھی کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ موجودہ صورتحال امریکہ کی ریاست کے بحران کی عکاسی کرتی ہے اور حکمران طبقے کی آپسی لڑائی کی شدت کی وضاحت کرتی ہے جس میں دونوں دھڑے ایک دوسرے کا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں۔ عدالت میں پیشی کے بعد ٹرمپ نے جو تقریر کی اس میں اس نے بائیڈن پرمہنگائی، بیروزگاری سمیت معاشی بحران کی ذمہ داری بھی ڈالی۔ لیکن پاکستان کے حوالے سے جو اہم ہے وہ یہ کہ اس نے افغانستان سے امریکی انخلا کے معاملے میں شکست کا تمام ملبہ بائیڈن پر ڈالا اور واضح طور پر کہا کہ بائیڈن نے پوری دنیا میں امریکہ کی طاقت کی تذلیل کروائی ہے۔
امریکی حکمران طبقے کی باہمی لڑائی میں یہ واضح ہو چکا ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی بیس سالہ سامراجی جنگ کی شکست کا ذمہ دار مسلسل پاکستان کو قرار دیا جا رہا ہے اور یہ تاثر امریکی اسٹیبلشمنٹ میں دونوں جانب موجود ہے کہ یہاں کے جرنیلوں نے اربوں ڈالر لینے کے باوجود امریکہ کو شکست سے دوچار کروایا اور اب انہیں اس کی سزا ملنی چاہیے۔ یہ تاثر درست ہو یا غلط لیکن لازمی طور پر اس کے اثرات آئی ایم ایف سمیت دیگر تمام مالیاتی اداروں کی کڑی شرائط میں واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ اسی طرح گزشتہ عرصے میں سی پیک اور دیگر منصوبوں کے حوالے سے چین کے ساتھ قریبی تعلقات نے بھی پاکستان کے حکمران طبقے کی امریکی سامراج کے سامنے گماشتگی کے کردار کے حوالے سے ضرورت اور اہمیت کم کر دی ہے۔ دوسری جانب بحر ہند کے خطے میں انڈیا ایک اہم فریق بن کر ابھر چکا ہے اور دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکا ہے، گو کہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ہونے والی اس ترقی نے وہاں غربت، بھوک اور بیماری میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ افغانستان میں امریکی انخلا سے قبل انڈیا مکمل طور پر امریکی کیمپ میں شامل تھا لیکن اس ذلت آمیز انخلا کے بعد سے انڈیا نے بھی روس اور چین کے ساتھ تعلقات بہتر کیے ہیں۔ لیکن ابھی تک انڈیا اور امریکہ ایک دوسرے کے ساتھ سٹریٹجک اور دفاعی معاملات میں وسیع تعاون جاری رکھے ہوئے ہیں جس کے باعث بھی پاکستان کے حکمران امریکی نوازشات سے پہلے جیسا لطف اندوز نہیں ہو پا رہے۔
ایسی صورتحال میں اس ملک کے حکمران پاکستان کی جس سٹریٹجک لوکیشن کو عالمی سطح پر بیچتے رہے ہیں اور اس کے عوض پوری دنیا سے بھیک وصول کرتے رہے ہیں وہ اب پہلے جیسی اہمیت کی حامل نہیں رہی۔ اس دوران اس حکمران طبقے کی لوٹ مار اور ہوس کے باعث مقامی سطح پر صنعت و زراعت سے لے کر زندگی کا ہر شعبہ تاراج ہو چکا ہے اور ہر روز سینکڑوں لوگ بھوک اور بیماری سے مر رہے ہیں۔ گزشتہ دو دہائی سے تو پوری معیشت صرف افغانستان کی سامراجی جنگ کے ساتھ ہی منسلک کر دی گئی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کا بلیک اکانومی پر انحصار بڑھتا چلا گیا تھا۔ اسی کالی معیشت کے گرد ہی دہشت گرد تنظیمیں، طالبان اور دیگر بنیاد پرست گروہ پروان چڑھے تھے جنہیں اب ختم کرنے کے کھوکھلے دعوے ایک دفعہ پھر سننے کو مل رہے ہیں۔ لیکن اس بحران زدہ نظام میں نہ تو اس کالی معیشت کے پھوڑے کو جسم سے کاٹ کے الگ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی یہاں پر سرمایہ دارانہ بنیادوں پر صنعت و زراعت کو ترقی دی جا سکتی ہے۔ سامراجی مالیاتی اداروں کی جانب سے اگر تھوڑی بہت بھیک مل بھی جاتی ہے تو وہ بحران کو ختم نہیں کر سکتی۔ چین اور روس کے سامراجی کیمپ میں بھی اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ اتنے بڑے بوجھ کو مستقل بنیادوں پر کوئی سہارا فراہم کر سکیں خاص طور پر ایسے وقت میں جب ان معیشتوں کا اپنا بحران سر پر منڈلا رہا ہو۔
یہ واضح ہو چکا ہے کہ اب اس ملک کو ان طریقوں سے نہیں چلایا جا سکتا جس طرح اسے ماضی میں چلایا جاتا رہا ہے جبکہ موجودہ حکمران ہر صورت ماضی کا اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کو یہاں پر بحث میں نہیں لایا جاتا اور نہ ہی اہم تحریکوں اور انقلابات کی خبریں یہاں میڈیا پر آنے دی جاتی ہیں۔ لیکن اپنے تمام تر حربوں کے باوجود یہ حکمران اس سماج کی بنیادوں میں موجود تضادات کو ختم نہیں کر سکتے جو اب بارود کا ڈھیر بنتے جا رہے ہیں اور کوئی بھی ایک واقعہ اس کو آگ لگا سکتا ہے۔
اس تمام تر ظلم و بربریت کا خاتمہ صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے اور آنے والے عرصے میں یہاں ایک بہت بڑی انقلابی تحریک ابھرنے کے بھرپور امکانات موجود ہیں جس میں محنت کش طبقہ قائدانہ کردار ادا کرے گا۔ آج انقلابیوں کا فریضہ ہے کہ وہ اس انقلابی تحریک کی تیاری کریں اور خود کو سوشلزم کے نظریات سے لیس کرتے ہوئے منظم ہوں اور سماج کی وسیع تر پرتوں تک اپنا پیغام پہنچائیں۔ اگر موجودہ حالات میں سوشلسٹ نظریات سے لیس ایک کیڈر تنظیم تیار ہو جاتی ہے تو وہ آنے والے عرصے کے طوفانی واقعات میں لاکھوں مزدوروں کے احتجاجوں اور ہڑتالوں میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ یہاں پر نہ صرف آئی ایم ایف سمیت تمام سامراجی طاقتوں کی حاکمیت کا خاتمہ کرے گا بلکہ سوشلزم کے تحت ہر شخص کو روٹی، کپڑا، مکان، علاج اور تعلیم بھی مزدور ریاست کی جانب سے اس کی دہلیز پر فراہم کی جائے گی۔