|تحریر: زلمی پاسون|
عید الاضحی کے چوتھے دن خیبر پختونخواہ کے ساتھ بلوچستان کے سرحدی ضلع شیرانی کے علاقے ”دانہ سر“ میں فرنٹیئر کور (ایف سی) کی چیک پوسٹ کے ساتھ متصل لیویز چیک پوسٹ پر حملے کے نتیجے میں تین لیویز اہلکار کی ہلاکتوں کا واقعہ رونما ہوا۔ جس کے بعدعلاقے کے مکینوں نے خیبر پختونخواہ سے ملانے والی مین شاہراہ کو بند کرتے ہوئے دھرنا دیا۔ جبکہ اس کے بعد ژوب شہر میں کمشنر آفس کے سامنے گزشتہ 11 دنوں سے احتجاجی دھرنا جاری ہے۔ اس احتجاجی دھرنے کے مطالبات مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ 109 ونگ کرنل اور چیک پوسٹ انچارج اور دیگر اہلکاروں پر FIR درج کی جائے۔
2۔ FC چیک پوسٹ کا خاتمہ کیا جائے۔
3۔ دہشتگردوں کی نشاندہی کی جائے۔
احتجاجی دھرنے کے دسویں دن یعنی 12 جولائی کی رات ڈھائی بجے کے قریب شہر میں اندھا دھند فائرنگ کی آوازیں سنی گئیں، جس کی وجہ سے پورے علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ مختلف جریدوں پر چلنے والی خبروں میں یہ کہا گیا کہ ژوب شہر میں موجود فوجی چھاؤنی پر حملہ ہوا ہے۔ جس کی ذمہ داری بعد میں نام نہاد کالعدم دہشت گرد تنظیم تحریک جہاد پاکستان نے قبول کر لی۔ جس میں چار سیکورٹی اہلکاروں کے ساتھ تین دہشت گرد اور ایک سویلین خاتون کی ہلاکت سمیت چار افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ اس سے پہلے عید الفطر کے موقع پر اسی تنظیم نے قلعہ سیف اللہ کی تحصیل مسلم باغ میں موجود ایف سی کی چھاؤنی پر حملہ کیا تھا۔ تھنک ٹینک پاکستان انسٹیٹیوٹ فار کنفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی سٹڈیز کی جانب سے رواں ماہ جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں سال کی پہلی ششماہی میں دہشت گردی اور خودکش حملوں میں مسلسل اور تشویشناک اضافہ دیکھنے میں آیاہے، جس سے پاکستان بھر میں 389 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
دہشت گردی کے ان واقعات کیے خلاف جاری احتجاجی دھرنے کے دوران 15 جولائی کو ژوب شیرانی گرینڈ جرگہ کے نام سے جرگے کا اعلان ہوا۔ اس جرگے کا انعقاد آل پارٹیز، پی ٹی ایم، علماء اور قبائلی عمائدین کے زیر اہتمام ہوا۔ جرگے میں ژوب شیرانی سمیت شمالی بلوچستان (پشتون اضلاع) کے دیگر علاقوں سے عوام نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ جرگے میں شرکاء کا قابلِ ذکر حصہ نوجوانوں پر مشتمل تھا۔ انتہائی قابلِ غور بات یہ تھی کہ جرگے کے تمام شرکاء دہشت گردی کے خاتمے کے لیے انتہائی سنجیدہ تھے، اور اس بنیاد پر اُنہوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی تھی۔
شرکاء کی دلچسپی، معاملے کی سنجیدگی اور جرگے سے توقعات کی وابستگی کی وجہ سے 15 جولائی کو ہونے والے گرینڈ جرگے کا مختصر تجزیہ پیش کرنا ناگزیر ہے۔ سب سے پہلے جرگہ تاریخی طور پر کوئی سیاسی ادارہ نہیں رہا ہے، بلکہ جرگہ محض قبائلی تنازعات کے حل کے لیے ایک قبائلی ادارے سے بڑھ کر کچھ نہیں، اور تاریخی طور پر یہ ادارہ زوال پذیر ہوتے ہوئے اب متروک ہوچکا ہے۔ مگر سیاسی پارٹیاں بالخصوص پشتون قوم پرست رجحانات نظریاتی دیوالیہ پن کی وجہ سے عوام میں اپنی بنیادیں کھو چکے ہیں، اور اس زوال پذیری کے نتیجے میں انہیں لوگوں کے اعتماد کو اپنے ساتھ جوڑنے کے لیے قبائلیت کا سہارا لینا پڑرہا ہے۔ اور قبائلیت کا زوال پذیر ادارہ جرگہ ہے، جس کے ذریعے انہوں نے لوگوں کو اکٹھا تو کرلیا، مگر وہ ژوب میں جاری احتجاجی دھرنے سے متبادل پروگرام یا حل پیش کرنے میں ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکے۔ دوسری بات جرگے کا انتظام سیاسی پارٹیوں کی جانب سے کیا گیا تھا، مگر جرگے کا کریکٹر سیاسی کم قبائلی زیادہ تھا۔ جس سے جرگے میں کوئی سیاسی نمائندگی ناپید تھی۔ جرگے کی صرف ایک بات مثبت ہے،کہ اس زوال پذیر قبائلی ادارے سے عوام بالخصوص نوجوانوں کی توقعات کا جلد خاتمہ ہو جائے گا۔ کیونکہ جرگہ ہمارے عہد میں کسی بھی صورت میں سیاسی مسائل کا حل نہیں ہوسکتا۔ جبکہ عمومی طور پر یہ کہنا درست ہوگا، کہ جرگہ اب انتہائی رجعتی ادارہ بن چکا ہے، جس کی اب عوامی سطح پر کوئی وقعت نہیں ہے، اور نہ ہی عوام ان جرگوں میں روایتی ادارہ ہونے پر شرکت کرتے ہیں، بلکہ عوام کے پاس متبادل کی بھرپور تلاش موجود ہے، جس کے لیے وہ ہر دروازے پر دستک دیتے پھر رہے ہیں۔
دہشت گردی کی حالیہ لہر
خیبر پختونخواہ سمیت بلوچستان کے شمالی اضلاع یا باالفاظ دیگر پشتون علاقوں میں گزشتہ ایک عرصے سے ریاستی پشت پناہی میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر کو پروان چڑھایا جا رہا ہے جہاں پر روزانہ کی بنیاد پر نہتے عوام کو ان دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑا گیا ہے۔ دہشت گردی کی اس آڑ میں روزانہ نت نئے ڈرامے جنم لیتے ہیں، جہاں پر ریاستی اداروں کے پاس ان تمام تر حملوں کے حوالے سے کوئی واضح دلیل اور منطق نہیں ہوتی کہ یہ تمام تر حملے کون اور کیوں کر رہا ہے۔ جبکہ ان تمام تر حملوں کی آڑ میں نام نہاد کالعدم دہشت گرد جتھہ ٹی ٹی پی یا پھر نئی فلم تحریک جہاد پاکستان کا نام استعمال کیا جاتا ہے۔ گزشتہ دو مہینوں سے پشین، چمن، مسلم باغ، ژوب، ہرنائی اور بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ جیسے علاقوں میں دہشت گردی کے ایک جیسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جہاں پر ان حملوں کی ذمہ داری بھی اوپر مذکورہ دہشت گرد جتھے قبول کرتے آرہے ہیں۔ ریاستی مشینری بھی ان دہشت گرد جتھوں کی قبولیت کے بعد مجرمانہ خاموشی اختیار کرتے ہوئے اگلے ہونے والے حملے کا انتظار کرتی رہتی ہے۔ جبکہ اسی دورانیے میں یہی ریاستی مشینری اپنے مفادات اور پیسے بٹورنے کی اپنی مجرمانہ فعالیت کو مزید تیز تر کر دیتی ہے۔ اس بحث کو مزید آگے بڑھانے کے لیے ہم دہشت گردی کے حالیہ واقعات کی وجوہات کا تجزیہ کریں گے اور حقائق کو سامنے لانے کی کوشش کریں گے۔
دہشتگردی کا کاروبار اور ریاستی پالیسی
1978ء میں افغانستان میں برپا ہونے والے انقلابِ ثور کو کاؤنٹر کرنے کے لیے پہلی بار اس سامراجی ریاست نے اپنے آقا امریکی سامراج اور سعودی عرب کے ایماء پر پیٹروڈالر جہاد کی بنیادیں ڈالتے ہوئے یہاں پر دہشت گردی کے کاروبار کا باقاعدہ آغاز کیا۔ اس ضمن میں سابقہ فاٹا سمیت خیبر پختونخواہ کے افغانستان سے متصل سرحدی علاقے اور بلوچستان کے شمالی پشتون علاقہ جات کو دہشت گردوں کے فروغ کے لیے بروئے کار لاتے ہوئے دہشت گردی کا دھندہ شروع کیا۔ دہشت گردی کے اس کاروبار کی آڑ میں ریاست پاکستان کی جرنیل شاہی اور دیگر اشرافیہ نے خوب ڈالر بٹورے اور بیرون ملک جائیدادیں بنانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں مگن ہونے لگے۔ گوکہ خلق پارٹی کے انقلابیوں نے ثور انقلاب کا ان دہشت گردوں کے سامنے بھرپور دفاع کیا، مگر اپنی اندرونی کمزوریوں اور سوویت یونین کی بے جا مداخلت نے ثور انقلاب کا گلا گھونٹ دیا اور ببرک کارمل جیسے سوویت یونین کے وظیفہ خور طفیلیے کو اقتدار پر بٹھا دیاگیا، مگر دہشت گردی کا یہ کاروبار ہنوز جاری رہا جس کا بظاہر 1992ء میں شہید ڈاکٹر نجیب اللہ کی موت پر رد انقلابی قوتوں کے برسرِ اقتدار آنے سے اختتام ہونے لگا، مگر ریاست پاکستان اور ان کے سامراجی آقاؤں نے دہشت گردوں کی تنظیمِ نو کرتے ہوئے 1996ء میں افغانستان پر قابض ہونے والے اور موجودہ نام نہاد حکمران طالبان تک کا سفر جاری رکھا۔
مگر 2001ء کے بعد اس لڑائی میں ایک تبدیلی آئی، اور یہ تبدیلی نام نہاد ”وار آن ٹیرر“ کے خلاف ایک بار پھر امریکی سامراج کے ساتھ کرائے کے قاتل کے طور پر کام کرتے ہوئے اس ریاست نے ایک نئی جنگ مول لی۔ ایک طرف ”وار آن ٹیرر“ کی بنیاد پر انہیں ڈالر ملنے لگے جبکہ دوسری جانب وہ افغانستان سے بے دخل کیے جانے والے طالبان کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے لگے جس کی بنیاد پر ڈبل گیم کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان الزامات سے چھٹکارا پانے، امریکی سامراج کی نظروں میں اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرنے اور جرنیل شاہی کے لیے ڈالر بٹورنے کے لیے جرنیل شاہی نے 2004ء میں سابقہ فاٹا میں پہلی بار بیرونی مجاہدین سے سابقہ فاٹا کو صاف کرنے کے نام پر فوجی آپریشنز کا اغاز کیا۔ اس آپریشن سے مسئلہ حل ہونے کی بجائے بگڑنے لگا، لاکھوں کی تعداد میں عوام دربدر ہونے لگے۔ اور مشرف نے دہشت گردوں کی ڈالروں کے عوض نیلامی کے لیے عام نہتے اور معصوم عوام کو قربانی کا بکرا بنانا شروع کیا۔ جبکہ عوام کی زندگیاں تاراج ہوتی گئیں۔ مگر نتیجتاً نام نہاد تحریک طالبان پاکستان کے نام سے دہشت گرد تنظیم کا وجود عمل میں لایا گیا، اور اس دہشت گرد جتھے نے پاکستان میں بالعموم اور خیبر پختونخواہ و بلوچستان میں بالخصوص اپنی دہشت گردانہ کاروائیوں کا آغاز کیا۔
تحریک طالبان پاکستان نے 2008ء اور 2009ء میں خیبر پختونخواہ کے ملاکنڈ ڈویژن میں باقاعدہ اپنی رٹ قائم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے وہاں پر شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔ پھر 2009ء میں اس نام نہاد دہشت گرد جتھے کے خلاف خیبر پختون خواہ کے وسیع و عریض علاقوں بالخصوص ملاکنڈ ڈویژن میں ”آپریشن راہ نجات“ کے نام پر فوجی آپریشنز کا آغاز ہونے لگا جس کی وجہ سے پورے ملاکنڈ ڈویژن کے عوام دربدر ہونے لگے اور ان کو خیبر پختون خواہ کے دیگر علاقوں میں IDP’S کی زندگی گزارنی پڑی۔ جبکہ انہی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ قوم پرست پارٹیوں کی حکومت نے مذاکرات کا ڈھونگ رچایا جو کہ مکمل طور پر ناکام رہا اور یہ لڑائی اس وقت شدت اختیار کرتی چلی گئی جب ان دہشت گرد وں نے ایک مخصوص قوم پرست پارٹی کے سیاسی کارکنان اور کیڈرز کو نشانہ بنایا۔ جس میں روزانہ کی بنیاد پر پورے خیبر پختون خواہ میں درجنوں کی تعداد میں لوگوں کی اموات واقع ہونے لگیں۔ مختصراً یہ کہ اس دہشت گرد جتھے کو مٹانے کے لیے پاکستانی جرنیل شاہی نے جتنا پیسہ بٹورا اور ان تمام تر آپریشنز کی آڑ میں وہاں کے وسائل کی بے دردی سے لوٹ مار کی اور لوگوں کو جتنی اذیتیں دیں شایدہی پاکستان بننے سے پہلے یا اس کے بعد ان مخصوص علاقوں کے لوگوں نے اتنے ظلم سہے ہوں۔ بالخصوص 16 دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک سکول میں جیسا اندوہناک اور دل دہلا دینے والا انتہائی غیر انسانی واقعہ بھی اسی دہشت گرد جتھے کا کام تھا۔ اس کے بعد اس دہشت گرد جتھے کے اہم کمانڈر احسان اللہ کو گرفتار کیا گیا مگر کچھ عرصے بعد یہی دہشت گرد ان کے محفوظ گھر سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوا جوکہ درحقیقت ایک اہم سوال ہے۔
2018ء میں سابقہ فاٹا میں ایک اہم سیاسی موڑ اس وقت آیا جب پشتون تحفظ موومنٹ کا ابھار ہوا۔ اور اس تحریک کا ابھار ان تمام تر سامراجی عزائم پر مبنی ”وار آن ٹیرر“، ریاستی دہشت گردی اور بالعموم قومی جبر کے خلاف پرانی روایتی پشتون قوم پرست سیاست کی زوال پذیری کے نتیجے میں ایک اہم سنگِ میل ثابت ہوا۔ گو کہ اس تحریک کی قیادت نے انتہائی جرات کے ساتھ ان تمام تر سامراجی عزائم اور ریاستی دہشت گردی کے خلاف سینہ سپر ہوتے ہوئے ہر فورم پر آواز اٹھائی۔ مگر قیادت کے پاس نظریاتی اور پروگرامیٹک لائن کی عدم موجودگی سے تحریک کا دم گھونٹا جارہا ہے، جوکہ جلد یا بدیر اپنی اُلٹ میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ مگر تحریک کی قیادت اس ضمن میں سنجیدگی دکھانے سے اب تک محروم دکھائی دیتی ہے، جوکہ آنے والے وقت میں ان کے لیے بڑا چیلنج بنے گا۔
جبکہ دوسری جانب انہی دہشت گرد قوتوں کو ایندھن فراہم کرنے والی تمام دائیں بازو کی سیاسی و مذہبی جماعتیں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پشتون تحفظ موومنٹ کی تمام تر عوامی قوت کو اپنی پارلیمانی موقع پرستی کے لیے استعمال کرنے کی کوششوں میں لگی ہیں۔ کیونکہ پشتون عوام اب ان تمام تر مذہبی جماعتوں کے اصل کردار کو بہت پہلے جان چکے ہیں۔ مگر سیاسی متبادل کی عدم موجودگی بھی ان کو واپس کسی ایک یا دوسری پارٹی کے ساتھ جڑنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اور یہ جڑنا بھی نظریاتی یا سیاسی جڑت کے برعکس محض نام نہاد پارلیمانی سیاست کے ذریعے ملنے والی مراعات اور مفادات کی حد تک محدود ہوتا ہے۔ جبکہ دیگر پشتون قوم پرست سیاسی پارٹیاں بھی ان مذہبی پارٹیوں سے پیچھے نہیں ہیں۔ جن کی اکثریت اس وقت پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی گود میں بیٹھ چکی ہے۔
افغانستان سے امریکی سامراج کا ذلت آمیز انخلاء اور ٹی ٹی پی کا اُبھار
افغانستان میں امریکی سامراج کی 20 سالہ سامراجی مداخلت کا نتیجہ انتہائی شرمناک شکست کی شکل میں اس وقت سامنے آیا جب امریکی سامراج نے 2018ء میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغانستان کے موجودہ نام نہاد حکمرانوں کے ساتھ بلاواسطہ مذاکرات کرنے کا اعلان کیا۔ اور 29 فروری 2020ء میں ان مذاکرات کا نتیجہ ”دوحہ معاہدہ“ کی شکل میں اختتام کو پہنچا، جس کا حتمی نتیجہ 15 اگست 2021ء کو افغانستان پر امریکی سامراج کی پشت پناہی سے لبرلوں کی حکومت کو اقتدار سے بے دخل کرتے ہوئے ان کی جگہ پر اپنے بنائے گئے آزمودہ اور پرانے دہشت گرد ملاؤں کو اقتدار کی رسی سونپ دی گئی۔ اس واقعے کے بعد نام نہاد دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ہزاروں کی تعداد میں قیدیوں کو افغانستان کی جیلوں سے رہا کر دیا گیا جنہوں نے واپس پاکستان آ کر اپنے آپ کو منظم کرنے کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ دوبارہ دھماکے شروع کیے۔ اسی دوران حکومت پاکستان نے اس دہشت گرد تنظیم کے ساتھ مذاکرات کیے اور سیز فائر کرنے کا معاہدہ کیا۔ مگر نومبر 2022ء میں معاہدہ ٹوٹنے کے بعد اس دہشت گرد گروہ نے دوبارہ سے اپنی دہشت گردانہ کاروائیوں کا آغاز کیا، اور اب تک ان کی دہشت گرد کاروائیاں چل رہی ہیں۔ اس طرح کی خبریں آپ کو پاکستان سمیت دنیا بھر کے جریدوں کے اندر دیکھنے، سننے اور پڑھنے کو ملیں گی۔ مگر حقیقت کیا ہے اس کے لیے ہم نے پاکستانی ریاست کے معاشی دیوالیہ پن، اندرونی تضادات، امریکی سامراج کی آشیرباد کا خاتمہ، خطے میں اتھل پُتھل اور بالعموم سرمایہ دارانہ نظام کی زوال پذیری کو بہر کیف ملحوظِ نظر رکھنا ہوگا، بصورتِ دیگر ہمارا تجزیہ محض ایک بورژوا جریدے کی رپورٹ کی مانند ہوگا۔
پاکستان کے موجودہ معاشی دیوالیہ پن کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو محض ایک ہی جملے میں اس کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان اپنے آغاز سے لے کر آج تک سامراجی ممالک کی بیساکھیوں کے اوپر لڑھکتے ہوئے کھڑا رہا ہے۔ جن کی اپنی کوئی سنجیدہ معاشی بنیادیں نہیں ہیں آج بھی اگر امریکی سامراج یا دیگر سامراجی ممالک ان کو قرضے دینا بند کر دے تو پاکستان کا دیوالیہ پن گھنٹوں کے اندر ہوگا۔ موجودہ حالات کے اندر ہم محض اتنا ہی کہنے کے مجاز ہوں گے کہ پاکستان کے ممکنہ دیوالیہ پن کے اثرات کا 50 فیصد اس وقت پوری محنت کش عوام بھگت چکی ہے۔ جبکہ مزید 50 فیصد کا خمیازہ اس وقت بھگتنا پڑے گا جب ریاست پاکستان اعلانیہ طور پر دیگر سامراجی ممالک کے قرضے دینے سے قاصر ہوتے ہوئے دیوالیہ پن کا اعلان کرے، اسے مستقبل میں خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ معاشی دیوالیہ پن کی تمام تر صورتحال عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی زوال پذیری کے ساتھ جڑا ہوا ہے جوکہ اس وقت امریکہ سے لے کر آسٹریلیا اور پھر روس اور چین تک مختلف شکلوں میں پھیلا ہوا ہے۔ لیکن اس اہم موضوع پر بات کرتے وقت ہم امریکی سامراج کے آشیرباد کو کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کر سکتے۔ کیونکہ اب بھی اگر امریکی سامراج چاہے تو وہ پاکستانی ریاست کو اپنی پرانی تنخواہ کے بل بوتے پر ایک گماشتہ ریاست کے طور پر رکھ سکتا ہے۔ لیکن امریکی ریاست کے افغانستان سے ذلت آمیز انخلاء کے بعد پاکستانی ریاست کی اتنی ضرورت نہیں رہی جتنا کہ پہلے تھی، اب اس خطے کے اندر امریکی سامراج کو چین کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے انڈیا جیسی دیو قامت معیشت کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ اور اس ضمن میں مختلف اتحاد بن بھی چکے ہیں اور مزید اتحادوں کے بننے کے امکانات بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ امریکی سامراج کا افغانستان کے اندر اہم مورچہ اب بذاتِ خود طالبان ہیں، جن کو اقتدار کی مسند پر بڑی بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ بٹھا دیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستانی ریاست کوامریکی آشیرباد کی کمی کا اظہار ہم عالمی سامراجی مالیاتی ادارے ”آئی ایم ایف“ کے قرضوں کی مد میں انتہائی سخت اور کڑی شرائط کی شکل میں بھی دیکھ چکے ہیں۔ مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی واضح ہے کہ پاکستانی ریاست کسی بھی شکل میں امریکی شکنجے سے مکمل طور پر خود کو آزاد نہیں کر سکتی اسی وجہ سے پاکستانی ریاست کے اندر اندرونی طور پر ایسے تضادات جنم لے چکے ہیں جس کا نتیجہ ریاست کے بحران کی شدت میں ہمارے سامنے ہے۔ اور عالمی و علاقائی سامراجی ممالک کے لیے اس ریاست کا وجود اب کوئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ یہ ریاست ان تمام تر علاقائی و عالمی سامراجی ممالک کے لیے بوجھ بنتی جا رہی ہے۔
ریاستی تضادات اور دہشت گردی کا شاخسانہ
15 اگست 2021ء کے بعد طالبان کو افغانستان کے اقتدار پر بٹھائے جانے کے بعد پاکستانی خفیہ ایجنسی کے سابقہ سربراہ جنرل ”فیض حمید“ کے ریمارکس امریکی سامراج کے لیے انتہائی دردناک گزرے اور انہوں نے اپنی تمام تر ناکامی کا ملبہ پاکستانی ریاست کے اوپر ڈالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اسی وجہ سے پاکستانی ریاست کے اندر اقتدار کی تبدیلی بھی ان تمام تر چیزوں کا شاخسانہ رہا۔ گو کے امریکی سامراج کو پاکستان کے اندر حکومتوں کی تبدیلی میں اتنی دلچسپی نہیں ہوتی کیونکہ یہ سب پارٹیاں ہی ان کی گماشتگی کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی ہیں مگر آرمی کے چیف کا سوال امریکی سامراج کے لیے انتہائی اہم ہوتا ہے۔ پاکستانی خفیہ ایجنسی کے سابقہ چیف جنرل”حمید گل“ کے بقول پاکستانی فوج کے جرنیل کا انتخاب امریکی سامراج کی آشیرباد کے بغیر ناممکن ہے، اسی لیے پاکستان میں اقتدار کو الٹا نے کی سب سے اہم وجہ یہی تھی۔ ریاست پاکستان کے اندرونی تضادات اس وقت بنیادی ریاستی اداروں کے درمیان مختلف شکلوں میں اتنے گہرے ہو چکے ہیں جوکہ اب سڑکوں، چوکوں اور چوراہوں پر ہر کسی عام و خاص کے زبان زد عام ہیں۔
دہشت گردی کو کاروبار کے طور پر استعمال کرنے اور ڈالر بٹورنے کے لیے جرنیل شاہی کا دنیا بھر میں کوئی ثانی نہیں ہے، مگر اس بار ریاستی تضادات اتنے تیز ہو چکے ہیں کہ ان دہشت گردوں کو بھی کسی حد تک ایک دوسرے کے مفادات کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مگر ایک اہم چیز یہاں پر واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ جرنیل شاہی سمیت سویلین اشرافیہ محض ایک ایشو پر بیک وقت ایک پیج پر آسکتے ہیں، اور وہ صورتحال اس وقت بن سکتی ہے جب جرنیل شاہی اور سویلین اشرافیہ کو یہ محسوس ہو کہ اب ہماری تمام تر جرائم پر مبنی پالیسیوں کے خلاف عوامی بغاوتیں اٹھ سکتی ہیں، اور پاکستان میں یہ حالات اب بن چکے ہیں کیونکہ اس وقت سماج کی کوئی بھی پرت معاشی دیوالیہ پن کے اثرات سے محفوظ نہیں ہے۔ اور لوگوں کے اندر اپنے حقوق چھیننے کے لیے ارتعاش بھی پیدا ہو چکا ہے جس کا اظہار بہت جلد ہونے کو ممکن ہے مگر ایک بات کی وضاحت از حد ضروری ہے کہ سماجی حرکیات سیدھی لکیر میں نہیں چلتی، بلکہ سماج کے بنیادی قوانین ہوتے ہیں جوکہ اپنا اظہار جدلیاتی طور پر کرتے ہیں۔
تحریک طالبان پاکستان کے حوالے سے ریاستی تضادات بھی آشکار ہو چکے ہیں۔ ریاست کا ایک دھڑا ٹی ٹی پی سے مکمل طور پر جان چھڑانا چاہ رہا ہے جبکہ دوسرا دھڑا پسِ پردہ ان دہشت گرد جتھوں کو تمام تر سپورٹ دے رہا ہے۔ افغانستان میں اگر ٹی ٹی پی کے خلاف کاروائی کی بات کی جائے تو اس ضمن میں بھی ریاست پاکستان کے اندرونی تضادات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ عمومی طور پر اگر دیکھا جائے تو افغانستان پر مسلط کالی وحشت (طالبان) کے درمیان اندرونی تضادات کی وجہ سے وہ تحریک طالبان پاکستان کے خلاف کوئی واضح کاروائی کرنے سے گریزاں ہیں۔ اور افغان طالبان اس وقت ٹی ٹی پی کو بطور بارگیننگ چپ بھی استعمال کر رہی ہے۔ جس میں طالبان کا کابل دھڑا سرفہرست ہے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ افغان طالبان کے ساتھ ریاست پاکستان کے کمزور ہوتے ہوئے تعلقات بھی اس ضمن میں قابلِ ذکر ہیں۔ لیکن اس مد میں پاکستان کے حقانی نیٹ ورک اور طالبان کے قندھار دھڑے کے باہمی تعلقات قدرِ بہتر ہیں، جس کی کئی مثالیں ہیں۔ اور یہ دونوں ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنا چاہتی ہیں، مگر طالبان کا کابل یا دوحہ والا دھڑا اس کاروائی کے حق میں نہیں ہیں، اور نہ ہی وہ ٹی ٹی پی کی افغانستان کی سرزمین پر موجودگی کو درست سمجھتے ہیں۔ اور افغان طالبان وقتی طور پر اس مدعے پر مٹی ڈالنے سے ہی کام لے رہے ہیں۔ لیکن یہ شواہد بھی جامد نہیں ہو سکتے اس میں کسی بھی وقت تبدیلی آ سکتی ہے۔ افغان طالبان کے ساتھ بھی ریاست پاکستان کے اندرونی تضادات تعلقات کے حوالے سے اہم ہیں۔اور ان تعلقات میں ڈیورنڈ لائن کا مدعا قابلِ ذکر حیثیت رکھتا ہے۔
دہشت گردی کا نشانہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کیوں؟
پاکستان کے اندر بالعموم اور بلوچستان و خیبر پختونخواہ کے اندر بالخصوص سیاسی حلقوں میں یہ بحث عام ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کی کاروائیاں صرف بلوچستان اور خیبر پختون خواہ تک محدود کیوں ہیں؟ اس پر بہرحال بحث کی جا سکتی ہے مگر دہشت گردانہ کاروائیاں بلوچستان اور خیبر پختو خواہ سے ہٹ کر پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی ہو چکی ہیں مگر دہشت گردی کے واقعات زیادہ تر بلوچستان اور پختونخواہ میں ہو رہے ہیں، جس کی وجوہات جاننے اور سمجھنے کے لیے اس ریاست کا تجزیہ کرنا ناگزیر ہے۔
بطور مارکس وادی ہم اس بحث میں کسی بھی ہچکچاہٹ کے شکار نہیں ہیں کہ ریاست پاکستان برطانوی سامراج کی سامراجی جرائم میں سے ایک جرم ہے، جنہوں نے یہاں پر مصنوعی طور پر لکیریں کھینچتے ہوئے ایک مصنوعی ریاست کو بنانے کے جرم کا ارتکاب کیا۔ اپنے آغاز سے لے کر آج تک اس ریاست کی بنیادیں پنجاب ہی میں مرکوز رہی ہیں۔ ریاستی اداروں میں مرکزیت سے لے کر معاشی حوالے سے بھی پنجاب کا حکمران طبقہ اس پورے ملک کے اندر بالا دست رہا ہے۔ بالخصوص اگر فوجی اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے بات کی جائے تو اس کی اکثریت اور بالادستی پنجاب ہی سے رہی ہے۔ 1971ء میں بنگال کی آزادی سے لے کر آج تک دیگر مظلوم قومیتوں کو بزور طاقت اپنے ساتھ جوڑنے کی پالیسی میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کا کردار سب سے عیاں رہا ہے۔ مگر اس ضمن میں اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستانی ریاست نے دیگر قوموں کی زبان، ثقافت اور شناخت کو ملیامیٹ کرنے کے ساتھ ساتھ پنجابی کلچر اور ثقافت کو بھی روند ڈالا ہے جس کی واضح مثال اس وقت پنجاب کے اندر پنجابی کلچر کی زوال پذیری ہے۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ ہم پاکستان کے اندر پنجابی اشرافیہ و فوجی اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو”انڈرمائن“ کر رہے ہیں، جبکہ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ پنجابی اشرافیہ اور فوجی اسٹیبلشمنٹ پاکستان بھر کے دیگر خطوں سے وسائل کی بے دردی سے لوٹ مار کرتے ہوئے پنجاب کے اندر اپنی پکڑ کو مضبوط کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ جس طرح ہم نے پہلے واضح کیا ہے کہ اس ریاست بالخصوص اسٹیبلشمنٹ اور پنجابی اشرافیہ کی بنیادیں پنجاب ہی میں مرکوز ہیں اس وجہ سے وہ وہاں پر کسی بھی شکل میں دہشت گردی کروانے سے ہچکچا رہی ہیں جبکہ اب یہ تمام تر صورتحال اپنی الٹ میں تبدیل ہو رہی ہے۔کیونکہ معاشی دیوالیہ پن اور عالمی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کی زوال پذیری کی وجہ سے پنجاب کے اندر طبقاتی کشکمکش زور پکڑتی جا رہی ہے جس کا اظہار نہ صرف پنجاب کے عام محنت کش عوام بلکہ ریاستی اداروں بالخصوص فوج کے رینک اینڈ فائل کے اندر بھی ہونے لگا ہے۔ ممکنہ طور پر عوامی تحریکوں کی اٹھان کے خوف سے پنجاب میں تحریک لبیک پاکستان کو بالخصوص اور دیگر جہادی تنظیموں کو مختلف ناموں سے دوبارہ موبیلائز کیا جا رہا ہے۔ یوں دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی بجائے دیگر طریقوں سے پنجاب میں محنت کش عوام کو خوف و ہراساں کیا جاسکتا ہے۔ لیکن بلوچستان اور پختونخواہ جیسے حالات کا بنانا نہ صرف اُن کے لیے مشکل ہے، بلکہ جرنیل شاہی اور سویلین اشرافیہ کے لیے اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوگا۔
سکے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ جب دہشت گردی، مذہبی بنیاد پرستی، فرقہ پرستی یا بالعموم قومی جبر کی بات کی جاتی ہے، توزیادہ تر قوم پرست حلقوں کے اندر یہ بحث اب بھی سیاسی طور پر موجود ہے کہ ہم پاکستان کو کسی بھی صورت میں توڑنا نہیں چاہتے بلکہ وہ پاکستان کے تمام تر ریاستی اداروں کو اپنے ریاستی ادارے سمجھتے ہوئے ان کو آئین کا واسطہ دیتے ہوئے ان سے اپنے آئینی حدود کے اندر رہنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ جبکہ بعض اوقات نوبت یہاں تک ا ٓجاتی ہے کہ وہ افغان طالبان سمیت ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گردوں کو پشتون سمجھتے ہوئے اپنی قوم کا اٹوٹ حصہ سمجھتے ہیں۔ اور اُن کے ساتھ تعلقات رکھنے کو کوئی قباحت نہیں سمجھتے۔ جوکہ روایتی پشتون قوم پرست سیاسی پارٹیوں کی نظریاتی وسیاسی زوال پذیری کا واضح ثبوت ہے۔حتیٰ کہ پشتون تحفظ موومنٹ کے اندر بھی ایسے رجحانات موجود ہیں جو ان رجعتی عناصر کے ساتھ پشتون ہونے کے ناطے عملی گٹھ جوڑھ کو غلط نہیں سمجھتے۔ دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے خلاف خیبرپختونخواہ سے لے کر شمالی بلوچستان کے پشتون علاقہ جات تک عوامی غم و غصے کے اظہار کو دہشت گردوں کی حمایت یافتہ مذہبی پارٹیوں کو ساتھ ملانے سے زائل کرنے کی ایک سنجیدہ کاوش کی جارہی ہے، جوکہ قابلِ مذمت ہے۔
دہشت گردی کے خلاف کیسے لڑا جا سکتا ہے؟
دہشت گردی کے ان تمام تر واقعات کے خلاف کیسے لڑا جا سکتا ہے۔ جس کے حوالے سے یہاں پر چند اہم سوالات ہر بندے کی زبان پر ہیں۔ کیا دہشت گردی کا مقابلہ ریاستی اداروں کو اپنی آئینی حدود کے اندر رکھنے سے کیا جا سکتا ہے؟ کیا ریاستی مشینری بالخصوص اگر ہم سیکورٹی اداروں کی بات کریں جس میں بالخصوص قوم پرست سیاسی حلقوں کے اندر یہ بحث پائی جاتی ہے، کہ فوج اور ایف سی (فرنٹیئر کور) کے متبادل کے طور پر سویلین سیکورٹی اداروں لیویز اور پولیس کو رکھنے سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہے؟ ان سوالات کے جوابات کے لیے ہم چند سطحی مثالوں پر اکتفاء کرتے ہوئے بحث کو آگے بڑھائیں گے، جبکہ اس کے ساتھ اہم بحث ریاست اور ریاستی اداروں پر ایک درست اور سنجیدہ تجزیے کی ضرورت ہے۔ کہ بنیادی طور پر ریاست کیا ہے، اور موجودہ سماج میں جدیدریاستوں کا کردار کیا ہے؟ ریاست کے سوال کو سمجھے بغیر ہم کسی بھی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے۔ اور ریاست کا مارکسی تجزیہ ہی ہمیں اس نتیجے پر پہنچا سکتا ہے کہ ہم ریاستی اداروں کی کسی بھی شکل کو محض حکمران طبقہ کی نمائندہ ادارے قرار دے سکتے ہیں، جس سے عوام کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا، بلکہ یہی ریاستی ادارے عوام کو زیرِ دست رکھنے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ اور آپشنز کے طور پر انہیں وقتاً فوقتاً زیرِ استعمال لایا جاتا ہے۔
اوپر مذکورہ سولات کے جوابات کے لیے ہم ان مثالوں کے ذریعے سویلین اداروں کے کردار کو واضح کرسکتے ہیں۔ کراچی میں بدنام زمانہ پولیس کی وردی میں ملبوس ٹارگٹ کلر اور سندھ کے موجودہ حکمران جماعت کا اثاثہ ”راؤ انوار“ نے کم و بیش 450 کے آس پاس معصوم لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کیا، جس میں نقیب محسود کے قتل پر پی ٹی ایم جیسی تحریک کا ابھار بھی ہوا۔ اب کراچی میں رینجرز کے بنائے گئے وحشت کے خلاء کو پُر کرتے ہوئے اسی نام نہاد سویلین ادارے نے تما م تر سرحدیں پھلانگتے ہوئے پورے سندھ میں لوگوں کا جینا دوبھر کر دیاہے۔ اس کے علاوہ ساہیوال واقعہ سمیت پنجاب میں پولیس کے ریاستی تھانوں اور جیلوں سے ہٹ کر ذاتی ٹارچر سیلز کا قیام بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ پی ٹی ایم کے مرکزی کمیٹی کے ممبر پروفیسر ارمان لونی کی قاتل پولیس ہی ہے، مگر آج تک اُن کو ریاست نے سزا دینا تو درکنار، بلکہ اُن کو دوبارہ اعزازات سے نوازا جارہا ہے۔ ان مثالوں سے ہٹ کر پورے پاکستان میں عوامی مزاحمتوں میں ریڈیکل عناصر کی گرفتاری، جھوٹے ایف آئی آر، سیاسی کارکنان کو ہراساں کرنا اور تشدد کرنا اسی ریاستی ادارے کا معمول ہے۔ جبکہ شہری علاقوں سے باہر لیویز کا بھی اسی طرح کردار ہے، جس کی درجن بھر مثالیں موجودہیں۔ ہم اس تحریر کا خاتمہ چند سال قبل لکھی گئیں کامریڈ آدم پال کی مندرجہ ذیل سطور پر کرنا چاہیں گے:
”ایسی صورت میں عوام کو دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے خود منظم ہونا ہو گا اور محلے کی سطح پر ایسی کمیٹیاں تشکیل دینی ہوں گی جو مختلف جرائم اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوں۔ مقامی کونسلروں یا نام نہاد نمائندوں پر انحصار کرنے کی بجائے ان کمیٹیوں کو جمہوری انداز میں چلانے کی ضرورت ہے۔ تحریکوں کی عدم موجودگی کی کیفیت میں خود جرائم پیشہ افراد ان کمیٹیوں کے سربراہ بن کر انہیں اپنے مفاد کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ اس لیے ان کمیٹیوں میں جمہوری اندازمیں سب کے سامنے اور فوری فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی ان میں محنت کشوں کی بڑی تعداد کو شامل کرنے کی ضرورت ہے جن کی رائے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ پاکستان کے مختلف حصوں میں جرگے، پنچایتیں یا ایسے ہی رجعتی ادارے موجود ہیں جو علاقے کے مختلف امور پر فیصلے صادر کرتے ہیں۔ ان جرگوں میں دولت مند اور حکمران طبقے کے افراد ہی فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ جرگے اور پنچایتیں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہی ہیں بلکہ اکثر دہشت گردی کے معاون رہے ہیں۔ اس لیے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کیے بنائی جانے والی کمیٹیوں میں حکمران طبقے کے افراد اور ریاستی اہلکاروں کی شمولیت پر پابندی لگانی ہو گی۔ اسی طرح ایسے تمام افراد بالخصوص تاجر اور کاروباری جو دہشت گردتنظیموں کی مالی معاونت کرتے رہے ہیں، ان پر بھی سخت پابندی لگانی ہوگی۔
ریاست اور یہاں موجود حکمران طبقات ان تمام اقدامات کی مخالفت کرے گی اور اس کے رستے میں رکاوٹیں کھڑی کرے گی۔ اس کے علاوہ ان کوششوں کو مسخ کرنے کی بھی کوشش کی جائے گی اور اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ان اداروں کو بدنام کروانے کی سازش بھی کی جا ئے گی۔ اس کے علاو ہ آغاز میں دیگر ساتھیوں کا اعتماد جیتنے اور خوف توڑنے میں بھی دقت ہو گی لیکن اگر یہ سار اعمل ایک تحریک کی شکل اختیار کر لیتا ہے تو یہ ادارے زیادہ فعال اور واضح شکل میں ابھر کر سامنے آئیں گے۔ طلبہ اور مزدوروں کی بڑھتی ہوئی تحریکیں ان اداروں کے کردار کو وسعت دیتے ہوئے انہیں ریاستی اداروں کی جگہ لینے کی طرف بھی دھکیل سکتی ہیں۔ ایک ملک گیر عوامی تحریک جہاں اس بوسیدہ ریاست کو دفن کرنے کی جانب بڑھے گی وہاں اس کی جگہ ایک نئی ریاست کا خلا بھی پیدا کرے گی۔ اس موقع پر اگر ایک انقلابی پارٹی موجود ہوتی ہے تو وہ مزدور ریاست کی تعمیر کا آغاز انہی ادارو ں کو بنیاد بناتے ہوئے کر سکتی ہے۔ لیکن اس پورے عمل میں عوام کی براہ راست شمولیت کلیدی کردار ادا کریگی اور انقلابی پارٹی کو اس سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کا نادر موقع فراہم کرے گی۔ آخری تجزیے میں دہشت گردی کی تمام تر جڑیں اسی سرمایہ دارانہ نظام میں پیوست ہیں اس لیے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کرنے کے لیے اس سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ضروری ہے۔ اس لیے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے والے تمام افراد اور تنظیموں کو اپنی حتمی منزل سوشلسٹ انقلاب کو بنانا ہو گا۔ اس کے بعد ہی دہشت گردی کا نہ صرف ڈٹ کر مقابلہ کیا جا سکتا ہے بلکہ اس کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ بھی ہو سکتا ہے۔“