نیا لیبر کوڈ، پرانے ظلم و ستم کی نئی داستان

|تحریر: پارس جان|

پنجاب اور سندھ کی صوبائی حکومتوں نے رواں برس نئے لیبر کوڈ 2024ء کے اطلاق کا فیصلہ کیا ہے۔ اس لیبر کوڈ کا مسودہ جب سے ٹریڈ یونین اشرافیہ کے ہاتھ لگا ہے، تب سے اس پر شدید شور و غل مچایا جا رہا ہے اور آئے روز مختلف قسم کے اجلاس منعقد کیے جا رہے ہیں تاکہ اس نئے لیبر کوڈ کے اطلاق کا تدارک کیا جا سکے۔ اگر اس لیبر کوڈ کے متن پر بات کی جائے تو اس کا حتمی مغز دراصل ٹھیکیداری نظام کو مکمل آئینی اور قانونی لبادہ پہنانا اور ساتھ ہی ساتھ محنت کشوں کے یونین سازی اور احتجاج کے جمہوری حق میں حتی الوسع رکاوٹیں اور مشکلات پیدا کرنا ہی ہے۔

تکنیکی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس مقصد کے حصول کے لیے آج کل عالمی سطح پر حکمران طبقے کا پسندیدہ اور مروجہ طریقہ ہی استعمال کیا گیا ہے۔ یعنی نئی سے نئی اصطلاحات کو استعمال کیا جائے۔ یہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اشیا اور سماجی و سیاسی مظاہر کے ناموں میں رد و بدل کر کے یا ان کی نئی سے نئی تعریف و توضیح کر کے ان کے اصل لب لباب کو بدلا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر زیر بحث لیبر کوڈ میں مزدور، ملازم کی تعریف کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے اور اسے ٹھیکیدار اور ذیلی ٹھیکیدار کی تعریف کے ساتھ گڈ مڈ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ گویا تھرڈ پارٹی اور ٹھیکیداری پہلے سے طے شدہ، معینہ اور لازمی طرزِ پیداوار اور صنعت کے ڈھانچے کا جزوِ لاینفک ہو۔ اسی طرح سرمایہ دار اور صنعتکار کی معاشی وظائف کے ضمن میں آکوپائر، پرنسپل اور مالک کی الگ الگ تشریحات کر کے معاملات کو جان بوجھ کر پیچیدہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ کسی بھی صنعتی تنازعے کی صورت میں مالکان اور انتظامیہ کو تاخیری حربے استعمال کرنے اور معاملات کو طول دینے کے زیادہ سے زیادہ مواقع میسر آ سکیں۔

اسی طرح نئی یونینوں کی تشکیل کے عمل کو بھی پہلے سے زیادہ مشکل اور پیچیدہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ساتھ ہی محنت کشوں کے منتخب نمائندگان یعنی سی بی اے کے اختیارات کو غیر مؤثر کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے۔ اسی طرح کسی ٹریڈ یونین رہنما کو دو سے زیادہ اداروں میں محنت کشوں کی نمائندگی کرنے کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے اس کا مقصد بھی مختلف اداروں کے محنت کشوں کے باہمی سیاسی تعلقات کو محدود سے محدود تر رکھنا ہی ہے۔ مزید ماضی کے روایتی قوانین ہی کی طرز پر خواتین کے ساتھ جنسی ہراسانی جیسے مسائل پر محنت کشوں کے منتخب نمائندوں اور اداروں کو مکمل با اختیار بنانے کی بجائے اعلیٰ انتظامیہ کے نمائندے کی سربراہی میں ہی کمیٹیوں کی تشکیل کا طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔

سب سے بڑھ کر ہڑتال کے حق کو نشانہ بنایا گیا ہے اور نوٹس دینے کے دورانیے کو بڑھا دیا گیا ہے یعنی اب دو ماہ تک محنت کشوں کو کسی بھی صنعتی تنازعے کی صورت میں ہڑتال کرنے کے لیے انتظار کرنا ہو گا، بصورتِ دیگر اس ہڑتال کو غیر قانونی ہڑتال ہی تصور کیے جائے گا جس میں مالکان ہڑتالی محنت کشوں کی ملازمتوں سے برطرفی سمیت دیگر فوجداری کاروائی تک سب کچھ کرنے کے قانونی مجاز ہوں گے اور اگر اس تمام تر پل صراط سے گزر کر بھی اگر محنت کش کسی ہڑتال کے انعقاد میں معجزاتی طور پر کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر بھی وہ کام کو مکمل طور پر بند نہیں کریں گے بلکہ انہیں یقینی بنانا ہو گا کہ تیس فیصد تک پیداواری عمل تعطل کا شکار نہ ہو۔ اگر ہڑتال طول پکڑتی ہے اور کام مکمل بند ہونے کی صورت میں مالک کو بہت زیادہ نقصان کا اندیشہ ہو تو اسے یہ حق قانونی طور پر تفویض کر دیا گیا ہے کہ وہ یعنی مالک دورانِ ہڑتال باہر سے نئے مزدور بھرتی کر کے کام کو جاری رکھ سکتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ نئے مزدور بھرتی کرنے والی ایجنسیاں اور ادارے بدرجہ اتم موجود ہیں اور اس ذریعے سے بھرتی کے طریقہ کار کو مکمل آئینی و قانونی تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔ یوں مزدوروں کے لیے سوشل سیکیورٹی، مستقل روزگار اور دیگر قانونی مراعات قصہ پارینہ بن کر رہ جائیں گی۔ اس کے علاوہ لیبر ڈیپارٹمنٹ کی بیوروکریسی کے اختیارات بے پناہ بڑھائے جا رہے ہیں۔ اس لیبر کوڈ میں انسپکٹر کا لفظ اتنی بار استعمال ہوا ہے کہ یہ لیبر کوڈ کم اور کوئی پولیس سے متعلق دستاویز زیادہ لگتی ہے۔ یہ حقیقت اب روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ لیبر ڈیپارٹمنٹ اور بالخصوص اس کی افسر شاہی ہمیشہ مالکان کی جیب میں ہوتی ہے، یوں محنت کشوں کے ہاتھ پاؤں مکمل طور پر باندھ کر ان کو معاشی اور سیاسی طور پر ذبح کرنے کی حکمت عملی تیار کر لی گئی ہے۔

کیا لیبر کوڈ ہی اصل مسئلہ ہے؟

جب سے یہ لیبر کوڈ سامنے آیا ہے مزدور فیڈریشنوں اور اشرافیہ کی طرف سے اس پر بے حد شور مچایا جا رہا ہے۔ کبھی بڑے بڑے ہوٹلوں میں ساری ٹریڈ یونین اشرافیہ کے اہم اجلاس منعقد ہو رہے ہیں، کبھی پریس کانفرنسوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے، کہیں احتجاجی کیمپ لگائے جا رہے ہیں اور کہیں ملک بھر میں لیبر کانفرنسوں کے انعقاد کے اعلانات کیے جا رہے ہیں۔ تو کیا یہ غلط ہے؟ ہرگز نہیں۔ ظاہر ہے ہر مزدور دشمن اقدام کے خلاف ہر سطح پر مزاحمت کی جانی چاہیے۔ مگر ٹریڈ یونین اشرافیہ کے اس رد عمل سے تو یہ تاثر مل رہا ہے کہ جیسے اس لیبر کوڈ سے قبل مزدوروں کے تمام سیاسی معاملات بالکل درست طریقے سے رواں دواں تھے۔ صنعتی علاقوں میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں، مالکان کی محنت کشوں پرنظرِ عنایت تھی اور لیبر ڈیپارٹمنٹ کی افسر شاہی دل کی اتھاہ گہرائیوں سے محنت کش طبقے کے لیے خدمات سر انجام دینے میں مگن تھی۔ اب اچانک ایسا کچھ ہوا ہے کہ گویا اگر اس مزدور دشمن قانون کا اطلاق ہو جاتا ہے تو محنت کش کہیں کے نہیں رہیں گے۔

صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے، مزدور طبقے کی زندگیاں پہلے ہی جہنم سے بھی بدتر بن چکی ہیں۔ ٹریڈ یونین سرگرمیاں عملاً ناپید ہو چکی ہیں۔ مستقل ملازمت لگ بھگ ختم ہی ہو چکی ہے اور عملاً ٹھیکیداری نظام پہلے ہی مکمل طور پر نافذ العمل ہے۔ اس سے بھی کڑوی سچائی یہ ہے کہ یہ شور و غوغا کرنے والی ٹریڈ یونین اشرافیہ محنت کشوں پر ہونے والے ان تمام مظالم کی براہ راست ذمہ دار ہے۔ کیونکہ یہ سب کچھ ایک دم نہیں ہو گا بلکہ بتدریج محنت کشوں کی یہ حالت کی گئی ہے اور یہ ٹریڈ یونین اشرافیہ محض تماشائی نہیں تھی بلکہ مالکان اور حکمرانوں کی سہولت کار تھی۔ بے شمار فیڈریشنیں بنائی گئیں۔ فیڈریشن کا اصل مقصد تو مزدور اداروں کی تحریکوں کو ایک دوسرے سے جوڑنا ہوتا ہے لیکن یہاں فیڈریشنوں نے شعوری طور پر اس کے بالکل برعکس کردار ادا کیا۔ فیڈریشنیں در حقیقت دکانیں تھیں جن سے کما کر ان کے مالکان حکمران اشرافیہ کا حصہ بنتے رہے یا بننے کی کوشش میں لگے رہے۔ یا پھر خود فیکٹریوں میں ٹھیکیدار بن گئے۔

ٹریڈ یونین کے کارکنان کو لڑاکا سیاسی ورکرز کی بجائے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت لیبر ڈیپارٹمنٹ سے مراسم بنا کر خود کو علاقائی ٹھیکیدار میں بدلنے کی تربیت دی جاتی رہی۔ ٹھیکیداری نظام کے خلاف کبھی کوئی سنجیدہ لڑائی منظم کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ بھلا کوئی شخص جس شاخ پر خود بیٹھا ہو، اسے کاٹنے کی کوشش کیوں کرے گا اور اب یہ تاثر دیا جا رہا ہے جیسے ٹھیکیداری نظام کوئی نئی شے ہے اور اچانک حکمران اسے لاگو کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ابھی بھی ٹریڈ یونین اشرافیہ کو محنت کشوں کی فکر نہیں بلکہ ان کا مطالبہ ہی یہ ہے کہ محنت کشوں سے مشاورت کی جائے اور انہوں نے ٹریڈ یونین تحریک کی پہلے ہی یہ حالت کر دی ہے کہ یہ بزعم خود ہی تو بچے ہیں جو مزدوروں کی نمائندگی کر سکیں۔ یوں جس میز پر محنت کشوں کے قتلِ عام کے اس نئے مرحلے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے، اس میز کے گرد اپنے لیے کچھ کرسیاں مختص کروانا ہی مقصود ہے۔ یا پھر تھوڑا بہت شور شرابہ کر کے باہر سے مزید فنڈ بٹورنے کی کوشش ہے کیونکہ زیادہ تر فیڈریشنیں اب عملاً این جی اوز بن چکی ہیں اور وہ بخوبی واقف ہیں کہ کمائی کا سیزن پھر شروع ہونے والا ہے۔

کیا کیا جائے؟

پہلے تو یہ ٹریڈ یونین اشرافیہ عالمی اداروں، عالمی قوانین وغیرہ کا بہت ڈھنڈورا پیٹتی تھی اور اسی حوالے سے پوری دنیا کی سیر کرنے والے یہ لیڈر محنت کشوں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے تھے کہ دیکھیں ہم کتنی محنت کر کے یہاں کے محنت کشوں کے مسائل عالمی اداروں اور تنظیموں کے سامنے پیش کر رہے ہیں اور جب یہاں سے کوئی لیڈر آئی ایل او کا ممبر منتخب ہوتا تھا تو اس کا پروٹوکول تو ایسا ہوتا تھا گویا کوئی نجات دہندہ ابھی ابھی آسمان سے اتر کر آیا ہو۔ جس تقریب میں انہوں نے شرکت کرنی ہوتی تھی، ان کو پھولوں کے ہار پہنائے جاتے، ان کے رستے میں پھول نچھاور کیے جاتے وغیرہ وغیرہ۔ اب ان کے نظریات اور سوچ کی حقیقت سب کے سامنے واضح ہو گئی ہے اور لوگوں نے دیکھ لیا ہے کہ یہ مجوزہ کوڈ تو ILO (International Labour Organization)کی مشاورت سے ہی تشکیل دیا گیا ہے بلکہ آئی ایم ایف کے قرضوں یا سرمایہ کاری کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے یہ کوڈ عالمی اداروں نے ہی تو مسلط کیا ہے۔

اگر عالمی ادارے ننگے ہو گئے ہیں تو پھر اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ دراصل بات دو ٹوک اور واشگاف ہے کہ یہ کوئی ایک پالیسی یا اقدام نہیں ہے، یہ سیدھی سیدھی طبقاتی جنگ ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام ایک عالمی نظام ہے جو عالمی سطح پر اپنی تاریخ کے بدترین بحران کا شکار ہے اور اپنے شرح منافع کو برقرار رکھنے کے لیے اس نظام کے پروردگاروں نے دنیا بھر کے محنت کشوں کے خلاف کھلی اور بے دریغ طبقاتی جنگ کا طبل بجا دیا ہے۔ اب اس کے خلاف مزاحمت صرف اور صرف اسی صورت میں ثمر آور ہو سکتی ہے جب مزاحمت کرنے والوں کو علم ہو کہ وہ حالت جنگ میں ہیں۔ ماضی کی طرز پر آنے ٹکے کی لڑائی کی نفسیات اور سوچ سے اب نہ تو اس لیبر کوڈ کے خلاف لڑا جا سکتا ہے اور نہ ہی ٹریڈ یونینوں کی بقا کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔

اصل مسئلہ محنت کشوں کے نظریات ہیں۔ اس وقت مزدور تحریک پر دشمن طبقات کے نظریات کا غلبہ ہے۔ طبقاتی جنگ کے نظریات دہائیاں پہلے غیر ضروری کہہ کر ترک کیے جا چکے ہیں اور مفاد پرستی اور موقع پرستی کو حقیقت پسندی، بصیرت اور عملیت کہہ کر ہر جگہ واحد ممکنہ نظریہ بنا کر پیش کیا گیا۔ اب وہ فوج جنگ کیسے لڑے گی جس کے ہتھیاروں کے ریموٹ اس کے دشمنوں کے پاس ہوں یا ان کے ہتھیاروں کو زنگ لگ چکا ہو۔ اس لیے محنت کشوں کو اس بدعنوان ٹریڈ یونین اشرافیہ کے چنگل سے نکل کر ایک تازہ دم انقلابی جنگ کا آغاز کرنا ہو گا۔

مزدوروں کو شعوری طور پر نسل، قوم اور فرقے وغیرہ کی سیاست کی طرف دھکیل دیا گیا ہے۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ صنعتی علاقوں میں مختلف زبانیں بولنے والے یا مختلف قوموں ہی نہیں بلکہ مختلف برادریوں کے محنت کشوں کی بھی الگ الگ تنظیمیں یا یونینیں یا فیڈریشنیں بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ جب کسی فیکٹری سے محنت کشوں کو برطرف کیا جاتا ہے تو یہ سیاسی ٹھیکیدار آ دھمکتے ہیں کہ ہماری قوم یا زبان کے محنت کشوں کو ہر صورت میں بحال کیا جائے وغیرہ وغیرہ۔ یہ المناک ہی نہیں بلکہ مزدور تحریک کے لیے زہر قاتل ہے۔

محنت کشوں کو ان نظریات کے گرد جمع ہونا ہو گا جو ان کو یہ احساس دلائیں کہ نہ صرف ہر نسل، فرقے، قوم اور مسلک کے محنت کشوں بلکہ تمام اداروں، سیکٹروں اور شہروں، صوبوں اور ملکوں کے محنت کشوں کے مفادات مشترک ہیں اور ان کے خلاف مل کر ہی لڑا اور جیتا جا سکتا ہے۔ یہ صرف اور صرف سوشلزم کے نظریات ہیں۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس لیبر کوڈ یا اسی طرح کے دیگر روز مرہ مسائل کے خلاف جدوجہد غیر ضروری ہے؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ سوشلسٹ نظریات کے تحت اس طرح کی لڑائیاں اور بھی زیادہ ضروری ہو جاتی ہیں۔ یہی نظریات تو ہمیں ایک طبقہ ہونے کا تشخص فراہم کرتے ہیں اور یہ احساس دلاتے ہیں کہ ہم الگ تھلگ نہیں بلکہ ایک مرکزیت مائل نظام کے تحت زندگی گزار رہے ہیں جو مزدوروں کے استحصال پر چلتا ہے، جو قوموں کے وسائل کی لوٹ مار کرتا ہے اور مذہبی سے لے کر ہر طرح کی منافرتیں پھیلا کر انسانوں کا قتلِ عام کرتا ہے۔

 

یہ نظریات محنت کشوں کو مشین کے پرزوں کی سطح سے بلند کر کے جیتا جاگتا اور سیاسی طور پر باشعور انسانوں میں بدلتے ہیں اور انہیں یہ شعور دیتے ہیں کہ کس طرح ہمارے آباؤ اجداد نے مسلسل جدوجہد کے دم پر یہ سب کچھ حاصل کیا تھا جس کی اب اکا دکا باقیات ہی بچی ہیں اور اب اس لیبر کوڈ کی شکل میں ان باقیات کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس لیے پریس کلبوں پر کیمپ لگا کر نہیں بلکہ ہر فیکٹری اور ادارے میں گیٹ میٹنگز منعقد کرتے ہوئے اس لڑائی کو منظم کرنا ہو گا۔ اس لڑائی کو کمیونسٹ محنت کش طبقے کی نئی لڑاکا ہر اول پرتوں کے تعاون سے منظم کریں گے۔ لہٰذا محنت کشوں کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ مایوسی اور رونا پیٹنا تو پہلے ہی ہو چکا بلکہ اب لڑائی کے لیے نئی صف بندی کریں، حوصلہ پکڑیں اس نئی لڑائی کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اب کمیونسٹ آ رہے ہیں۔

Comments are closed.