|تحریر: جارج مارٹن؛ ترجمہ: ولید خان|
14 اکتوبر کو سانتیاگو دی چلی میں 10 لاکھ سے زیادہ افراد نے احتجاجی مظاہرہ کیا جسے چلی کی تاریخ کا سب سے بڑا احتجاج کہا گیا ہے۔ اور یہ درست ہے کہ یہ ریلی 1988ء میں ”NO“ مہم کی اختتامی ریلی جس میں دس لاکھ لوگ اکٹھے ہوئے تھے، سے زیادہ بڑی تھی۔ 24 اکتوبر جمعہ کے دن پورے ملک میں مختلف شہروں اور علاقوں میں ہونے والی ریلیاں ایمرجنسی نافذ ہونے، سڑکوں پر فوج اتارنے اور پینیرا حکومت کی طرف سے کرفیو لاگو ہونے کے ایک ہفتہ بعد منعقد ہوئیں۔ پورے ملک میں حکومت کے خلاف 20 لاکھ سے زائد افراد سڑکوں پر احتجاج کے لئے نکلے۔
خوفناک جبر، ٹارچر، کرفیو اور جھوٹے وعدے سب ناکام ہو چکے ہیں۔ یہ سب اقدامات ایک ایسی تحریک کو روکنے میں ناکام رہے جس کا آغاز سانتیاگو میں میٹرو بسوں کے کرائیوں میں اضافے پر کالج طلبہ کے احتجاجوں سے ہوا تھا اور اب فوری طور پر یہ حکومت کے خلاف قومی تحریک میں تبدیل ہو چکی ہے۔۔۔30 سالوں کی کٹوتیوں، ہوشربا عدم مساوات، نجکاری، محنت کش طبقے پر بے رحم حملوں اور ڈی ریگولیشن وغیرہ کے خلاف۔
تحریک نے پچھلے پیر کو عام ہڑتال کی خودرو کال دے دی تھی اور یونینز کی سرکاری قیادت کو مجبوراً 22-23اکتوبر کی تاریخوں میں دو دن کی عام ہڑتال کا اعلان کرنا پڑا۔ لیکن حقیقت میں روایتی قیادت کے قدم اکھڑ چکے ہیں اور وہ نہ تو قیادت فراہم کر سکتے ہیں اور نہ ہی تحریک کو کوئی راستہ دے سکتے ہیں۔ سماج کی نچلی سطحوں سے خودرو منظم ہونے کا وسیع عمل شروع ہو چکا ہے۔۔”کابیلتوس ابیرتوس“ (عوامی کونسلیں) اور علاقائی اسمبلیاں جو والپاریسو (جس کی جنگجو تاریخ ہے) جیسے علاقوں میں رابطے میں آ رہی ہیں۔ یہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔
پینیرا کو نکال باہر کرو!
”یا کائیو، یا کائیو“ (وہ ختم ہو چکا ہے، وہ ختم ہو چکا ہے) کے نعروں سے جمعہ کے دن سانتیاگو میں منعقد ہونے والا دیو ہیکل احتجاج گونج اٹھا۔ اور یہ ممکنہ نتیجہ ہو سکتا ہے۔ جبر کی قوتیں جرأت مند اور بے خوف عوام کے سامنے پسپا ہو چکی ہیں۔ فوجیوں میں حکم عدولی کی خبریں مل رہی ہیں (آنتوفاگاستا میں ایک کیس رپورٹ ہوا ہے)۔ حکومت کے پاس محدود آپشن رہ گئے ہیں اور اگر وہ انقلابی ریلے کے ہاتھوں حکومت کی مکمل تباہی کا راستہ روکنا چاہتے ہیں تو انہیں جرأت مند اور تیز تر اقدامات کرنا ہوں گے۔
جمعہ کے دن دیو ہیکل احتجاج کا فوری جواب دیتے ہوئے صدر پینیرا نے نافذ العمل ایمرجنسی، کرفیو کے خاتمے اور تمام کابینہ میں شامل وزراء کی مکمل تبدیلی کا اعلان کر دیا۔ درحقیقت یہ سب سطحی اقدامات تھے تاکہ عوام کو مطمئن کیا جا سکے اور یہ تاثر دیا جائے کہ حکومت عوام کی بات ”سنتی“ ہے اور معاملات کو ”معمول پر واپس“ لانا چاہتی ہے۔ ہر چال ناکارہ گئی۔ اتوار اور پیر کے دن پھر دوبارہ دیو ہیکل احتجاج ہوئے اور پورا ملک ”معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا“ کے نعروں سے گونج اٹھا جبکہ جبر و ستم کی نئی داستانیں رقم کی گئیں۔ ایک نئی اور اہم صورتحال یہ ہے کہ عوام اب ان عمارتوں کی طرف مارچ کر رہی ہے جو طاقت اور اقتدار کی علامات ہیں، والپاریسو میں ہزاروں نے کانگریس کی طرف مارچ کیا (جسے خالی کرنا پڑا) اور سانتیاگو میں عوام نے لا مونیدا محل کی طرف مارچ کیا جسے شدید جبر کے ذریعے بڑی مشکلوں سے روکا گیا۔
اس دوران یونین قیادتوں اور پارلیمانی لیفٹ کے پاس کوئی حکمتِ عملی موجود نہیں کہ کرنا کیا ہے اور درحقیقت وہ حکومت کے انقلابی خاتمے کی راہ میں سب سے بڑی دیوار بنے کھڑے ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی پینیرا اور چاڈویک کے خلاف سیاسی مقدمہ (مواخذہ) کا مطالبہ کر رہی ہے یعنی ایک آئینی طریقہ کار جس کے آگے چلنے کے امکانات شدید محدود ہیں جبکہ سڑکوں پر اس وقت حکومت کے خاتمے کے لئے درکار سے زیادہ قوت موجود ہے۔ سوشل یونٹی (ٹریڈ یونینز اور کٹوتیوں مخالف گروہوں کا کثیر رکنی الحاق) کے قائدین نے 30 تاریخ بدھ کے دن عام ہڑتال کی کال دی ہے جو پچھلے ہفتہ کی 48 گھنٹہ عام ہڑتال سے ایک قدم پیچھے ہٹنے کی علامت ہے اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب تحریک انتہائی قوت کے ساتھ روزانہ مارچوں کی بنا پر غیر معینہ مدت ہڑتال کی جانب بڑھ رہی ہے۔
یہ سب ”تشدد کی مذمت“ کرتے ہوئے بورژوا ہتھکنڈوں کا شکار ہو رہے ہیں جس کے مطابق ”پر تشدد فسادیوں“ اور ”پرامن مظاہرین“ کے درمیان فرق کا پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک ہی تحریک ہے جو اب بغاوت میں تبدیل ہو رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ مارکس وادی کبھی بھی حکمت عملی کے طور پر املاک کی توڑ پھوڑ کی حمایت نہیں کرتے۔ لیکن ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا کہ ہم بورژوا حکومت کی حمایت کر دیں جو تشدد پر تنقید تو کرتی ہے لیکن تحریک کو کچلنے کے لئے خوفناک تشدد کا گھناؤنا ہتھیار استعمال کر رہی ہے۔ تشدد کا سدِ باب کرنے کا سب سے بہترین طریقہ (خاص طور پر ریاستی قوتوں کا) تحریک کو ایک منظم اور جمہوری کردار سے لیس کرنا ہے جس میں مزدوروں کی دفاعی کمیٹیوں کا قیام بھی شامل ہے۔ اس حوالے سے کچھ اقدامات بھی کئے گئے ہیں جن میں آنتوفاگوستا میں ایمرجنسی اور حفاظتی کمیٹی کا قیام ہے۔
ان حالات میں بورژوازی کی پوری کوشش ہو گی کہ کسی متبادل کو سامنے لاتے ہوئے کچھ مہرے قربان کر دیے جائیں۔ حکومتی وزراء کے ردوبدل کا خاطر خواہ نتیجہ حاصل نہیں ہوا۔ یہ ممکن ہے کہ وہ سوشلسٹ پارٹی، کمیونسٹ پارٹی، براڈ فرنٹ اور یونینز کو استعمال کرتے ہوئے کوئی لائحہ عمل بنائیں۔ سامراجی برطانوی بورژوازی کے ترجمان فنانشل ٹائمز نے مطالبہ کیا ہے کہ دوررس اور مہنگی مراعات دی جائیں جن میں نئی کابینہ بھی شامل ہو جبکہ صدر کو برقرار رکھا جائے۔ لیکن یہ مضمون 22 اکتوبر کو شائع ہوا تھا اور آج ان اقدامات کو کرنا محال ہے۔ پینیرا کی قربانی دینی پڑے گی۔
آئین ساز اسمبلی؟
تحریک کتنی آگے بڑھتی ہے اس حوالے سے یہ امکان رد نہیں کیا جا سکتا کہ کسی قسم کی آئین ساز اسمبلی بنائی جائے اور وقت مانگا جائے تاکہ تحریک کو زائل کیا جا سکے۔ سوشلسٹ اور کمیونسٹ سیاست دان کچھ دائیں بازو کے قائدین کی حمایت کے ساتھ ابھی سے ایک ”آئینی ریفرنڈم“ کی باتیں کر رہے ہیں جسے چند مہینوں میں منعقد کیا جائے گا۔ جال بچھایا جا رہا ہے۔
محنت کشوں اور نوجوانوں کی اس بغاوت میں سماج کی وسیع تر پرتیں شامل ہیں جن میں دہائیوں کا غصہ بھرا ہوا ہے۔ تحریک کو ادراک ہے کہ اسے کیا نہیں چاہیے۔ پینیرا قابلِ قبول نہیں۔۔بہت ہو چکا۔ لیکن تحریک کو واضح طور پر یہ ادراک نہیں کہ وہ کیا چاہتی ہے اور ایسی کوئی قیادت موجود نہیں جو اس حوالے سے رہنمائی کرے۔ لامحالہ طور پر ایک مخصوص موڑ پر تحریک تھکاوٹ کا شکار ہونا شروع ہو جائے گی۔
سوشل یونٹی تنظیمیں آئین ساز اسمبلی کو ”معاشی ماڈل کی تبدیلی“ بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ چلی کے آئین میں کئی غیر جمہوری شقیں موجود ہیں جن کو پنوشے کے ساتھ مل کر بنایا گیا تھا۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ آئین بذات خود کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا کہ کوئی تبدیلی آئے گی۔ ایک آئین کے اندر صحت، تعلیم، رہائش وغیرہ کے حق کی دلفریب لفاظی ہو سکتی ہے۔ لیکن شدید بحران کا شکار سرمایہ داری اس آئین کو لاگو کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں۔
”ماڈل کی تبدیلی“ نہیں بلکہ سرمایہ داری کا خاتمہ آج کی حقیقی ضرورت ہے جس کا اظہار یہ ماڈل ہے۔ نجی پینشنوں، تانبے، پانی، صحت اور بڑی اجارہ داریوں کو دوبارہ سے قومیانے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کی تمام دولت جس کے پیداکار محنت کش ہیں، کو جمہوری اندز میں منظم کرتے ہوئے اکثریت کی ضروریات پوری کی جائیں (صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ، رہائش وغیرہ) نہ کہ ایک مٹھی بھر اقلیت کی عیاشیوں کا سامان پیدا کیا جائے۔ یہ کسی آئین ساز اسمبلی کے ذریعے نہیں ہو گا جو حقیقی معنوں میں ایک بورژوا ادارہ ہی ہے۔ عوام کے ذہنوں میں آئین ساز اسمبلی کا قیام ایک دوررس اور بنیادی تبدیلی ہے۔ اصلاح پسندوں اور بورژوازی کے مطابق یہ محفوظ بورژوازی پارلیمانی طریقہ کار سے تحریک کو زائل کرنے کی حکمتِ عملی ہے۔
سڑکوں پر موجود محنت کشوں نے ابھی سے اپنی قوت کی ترجمان تنظیمیں منظم کرنی شروع کر دی ہیں۔ انتہائی اہم ہے کہ کابیڈوس ابیرتوس اور مقامی اسمبلیوں کے روابط مضبوط تر کئے جائیں اور نمائندگان کے ذریعے ایک بڑی محنت کشوں کی قومی اسمبلی تشکیل دی جائے جو اقتدار پر سیاسی اور معاشی قبضہ کے کلیدی سوال کو آگے لے کر آئے تاکہ اس دیو ہیکل اور خوش آئند انقلابی تحریک میں موجود عوام کے تمام سلگتے مسائل حل کئے جا سکیں۔