|تحریر: یاسر ارشاد|
اس ملک کی صورتحال ایک جانب حکمران طبقات کی حد سے زیادہ مضحکہ خیز نا اہلی و بے حسی جبکہ دوسری جانب بڑے پیمانے پر عوام کی المناک بربادی کا ملغوبہ بن چکی ہے۔ حکمران طبقات کے زیادہ تر نمائندوں کے عوامی مسائل پر بیانات میں، درحقیقت، اس نظام کی مکمل نا کامی اور حکمران طبقات کی تاریخی نااہلی سے جنم لینے والی سفاکی جھلکتی ہے۔ معاشی مسائل کے بد ترین ہونے کا ملبہ گزشتہ حکومتوں کے سر تھوپنے کا وطیرہ نیا تو نہیں لیکن موجودہ حکومت کا المیہ یہ ہے کہ قریباً دو سالہ اقتدار کے دوران ہی اس حکومت نے ان میں بے انتہا اضافہ کر دیا ہے۔ پاکستانی سیاست کی ریت رہی ہے کہ ہر نئی حکومت مسائل کا ملبہ اپنے سے پچھلی حکومت پر ڈال کر اپنے دور حکومت میں معمولی سی بہتری کو بھی اپنا بہت بڑا کارنامہ بنا کر پیش کرتی ہے۔ موجودہ حکمرانوں کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ ان کے دورِ اقتدار میں مسائل اس قدر گھمبیر ہو چکے ہیں کہ لوگوں کو اس سے پہلے کا دورِ حکومت قدرے پر آسائش لگنا شروع ہوچکا ہے۔ ایک نیا پاکستان بنانے کے بلند و بانگ دعوے اس حکومت کے سب سے بڑے دشمن ثابت ہوئے ہیں اور اسی لیے اب نئے پاکستان کے منصوبہ ساز اور معمار اپنے ماضی کی یادوں کو دفنانے کے درپے ہیں اور اس کے ساتھ ان کی یہ بھی کوشش ہے کہ اس ملک کے عوام، محنت کش اور نوجوان بھی اپنی یادداشت سے محروم ہو جائیں۔ منصوبہ سازوں نے اپنے نئے’معمار‘ کو ایک موقع دلوانے کے لیے جس ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اس کی بھی کوئی مثال نہیں ملتی۔ سبھی سیاسی پارٹیوں کی بد عنوانی پر ان کو بلیک میل کر کے اس حکومت کا اعلانیہ یا غیر اعلانیہ اتحادی بنا دیا گیا جبکہ اظہار رائے و تنقید کے ہر ذریعے کو بھیانک ریاستی جبر کے ذریعے کچل دیا گیا تا کہ اس حکومت کو چلایا جا سکے۔ تمام ذرائع ابلاغ کو مثبت رپورٹنگ کے نام پر ہر قسم کی تنقید کرنے سے باز رکھا گیا جبکہ خان صاحب اپنی ہر تقریر میں اتراتے رہے کہ فوج اور حکومت ایک پیج پرہیں۔
گزشتہ ڈیڑھ سال سے زائد عرصے کے دوران معاشی بربادی کے ایک طوفان نے اس ملک کے غریبوں کو ادھ موا کر دیا لیکن نہ تو آزادیٔ اظہارِ رائے کے علمبردار ذرائع ابلاغ نے غریبوں کی کوئی خبر نشر کی اور نہ ہی پارلیمان میں بیٹھی کسی سیاسی پارٹی نے کوئی آواز اٹھائی اور نہ ہی انصاف کی ٹھیکیدار عدالتوں نے کوئی سو موٹو ایکشن لیا۔ یہ تمام ادارے پہلے ہی عوام کی نظروں میں بے نقاب ہو چکے تھے لیکن موجودہ حکومت کو چلانے کے عمل میں یہ مکمل ننگے ہو گئے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے کارپوریٹ میڈیا کس قدر غیر ضروری ہو گیا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بیشتر اینکر پرسن، جو ہمیشہ ہی حکمران طبقات کے ایک یا دوسرے دھڑے کے مفادات کی نمائندگی کرتے آئے ہیں اور اب بھی وہی فریضہ سر انجام دے رہے ہیں، نیوز چینلز سے علیحدہ ہو کر اپنے ویب چینلز بنا چکے ہیں۔ ایک جانب تو ایک نام نہاد سرمایہ دارانہ جمہوریت کو چلانے کے لیے ذرائع ابلاغ کو تنقید کی جتنی اجازت ہونی چاہیے اس حکومت کے دوران وہ بھی باقی نہیں رہی لیکن دوسری جانب سوشل میڈیا عام لوگوں کے مسائل کی تشہیر اور اس حکومت پر تنقید کا ایک متبادل ذریعہ بن چکا ہے، اسی لیے یہ اینکر اس نظام پر ضروری تنقید کے ذریعے اس کا دفاع کرنے کا فریضہ ادا کرنے کے لیے اب سوشل میڈیا اور ویب چینلز کا ذریعہ استعمال کر نے پر مجبور ہیں۔ حکمران طبقات سوشل میڈیا پر تنقید کرنے والوں کو جبر اور سزاؤں کے ذریعے کنٹرول کرنے میں ناکامی کے بعد نئے جابرانہ قوانین کے ذریعے ان کمپنیوں کو مجبور کر رہے ہیں کہ وہ سوشل میڈیا کو پاکستانی حکمران طبقات کی پالیسی کے مطابق چلائیں۔ چند دن قبل سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے انتہائی سخت قانون سازی کی گئی ہے جس پر عملدرآمد کی صورت میں حکمران ہر خبر یا تبصرے کو اپنی مرضی سے کنٹرول کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ فیس بک اور ٹویٹر پر ہر ایک کمنٹ کو بھی حکمرانوں کی مرضی سے پوسٹ یا ڈیلیٹ کیا جا سکے گااور ان قوانین کا نفاذ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں پر بھی ہو گا۔ ان قوانین کا مقصد حکمران طبقات کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبادینا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت حزب مخالف کی تمام پارٹیوں کے خصی پن اور ذرائع ابلاغ اور تمام ریاستی اداروں کی مکمل حمایت کے باوجود خود اپنی ناکامی اور نااہلی کے بوجھ تلے دب کرٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی ہے۔ موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے برباد ہونے والے عوام کے مصائب کو ایک طرف رکھ کر محض ان کے مطلوبہ نتائج کا بھی جائزہ لیا جائے تو بھی ہمیں ایک شرمناک ناکامی نظر آتی ہے۔ پاکستانی سرمایہ داری کے بحران کا تمام تر بوجھ محنت کش طبقے پر منتقل کرنے کے باوجود معیشت کی ترقی کا عمل آگے نہیں بڑھ پا رہا اور رواں مالی سال میں معیشت کی شرحِ نمو آئی ایم ایف کے تخمینوں کے مطابق محض 2.4 فیصد تک رہے گی۔ مہنگائی کی شرح 14 فیصد سے زیادہ ہے جبکہ اشیائے خوردونوش میں یہ شرح بعض تخمینوں کے مطابق 24 فیصد تک ہے۔ مہنگائی کی شرح میں یہ تیز ترین اضافہ غریبوں اور محنت کشوں کے ساتھ درمیانے طبقے کو بھی بڑے پیمانے پر متاثر کر رہا ہے۔ گزشتہ عرصے کے دوران گاڑیاں بنانے کی صنعت کو ایک شدید بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ گاڑیوں کی فروخت میں چالیس سے ساٹھ فیصد گراوٹ دیکھنے میں آئی ہے جس کے باعث اس شعبے سے وابستہ ہزاروں محنت کشوں کو روزگار سے محروم کر دیا گیا ہے۔ ماہر معیشت ڈاکٹر حفیظ پاشا کی 8 فروری 2020ء کو انگریزی اخبار دی نیوز میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق حکومت معیشت کی شرحِ ترقی کے اعداد و شمار میں بھی ہیرا پھیری کر رہی ہے جو ڈاکٹر پاشا کے تخمینوں کے مطابق 1.9 فیصد سے زیادہ نہیں ہے اور اگلے سال یہ 1.4 فیصد رہے گی۔ اسی رپورٹ کے مطابق موجودہ حکومت کے دور اقتدار میں 22 لاکھ لوگ روزگار سے محروم ہو چکے ہیں جبکہ رواں سال میں مزید 12 لاکھ لوگوں کو بیروزگار کیا جائے گاجبکہ پہلے ہی تقریباً بیس لا کھ لوگ ہر سال روزگار کی منڈی میں نئے آتے ہیں۔ موجودہ حکومت دو سال سے کم عرصے میں تقریباً گیارہ ہزار ارب روپے سے زائد کے نئے قرض لے چکی ہے لیکن اس کے باوجود معیشت میں بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ ایک جانب معاشی نمو تیزی سے گر رہی ہے جبکہ مہنگائی آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ عمومی طور پر سرمایہ دارانہ معیشت میں افراط زر میں اضافہ شرحِ نمو میں بڑھوتری سے منسلک ہوتا ہے اور دونوں کی حرکت اوپر یا نیچے کی جانب تقریباً متوازی طور پر ہوتی ہے۔ شرحِ نمو میں کمی کی کیفیت میں افراط ِزر کی شرح میں اضافہ سرمایہ دارانہ معیشت میں ایک خطرناک رحجان کی عکاسی کرتا ہے جس کو سٹیگ فلیشن کہا جاتا ہے جو معاشی گراوٹ اور افراطِ زر کا ملغوبہ ہوتا ہے۔ پاکستانی معیشت میں اس وقت جاری رحجان تیزی سے اس کو افراط زر اور معاشی گراوٹ کے ملغوبے پر مبنی اس خاص بیماری کی جانب لے جا رہا ہے جس سے نکلنا پاکستان جیسی پسماندہ معیشت کے لیے بہت ہی دشوار ہو گا۔ یہ تمام معاشی پالیسیاں جن کے باعث لاکھوں لوگ بیروزگاری کی کھائی میں گر تے جارہے ہیں، بے تحاشا مہنگائی کے باعث لوگ فاقوں اور بھوک مری کا شکار ہو رہے ہیں لیکن اس کے باوجود معاشی ترقی کا پہیہ آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے کی جانب سرکتا جا رہا ہے۔ معیشت کے زوال کی جانب گامزن رہنے کا مطلب ہے کہ آنے والے مالی سال میں مہنگائی اور بیروزگاری کا نیا طوفان آئے گا جو مزید کروڑوں لوگوں غربت اور بربادی کی کھائی میں دھکیلے گا۔
دوسری جانب معاشی زوال حکمران طبقات کے کچھ حصوں کے منافعوں میں بھی گراوٹ کا باعث بن رہا ہے جس کے سبب خود حکمران طبقات کی باہمی لڑائیوں میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور موجودہ حکومت کی نا اہلی کو اس سب کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے حکمران طبقات کے کئی حصے اس حکومت سے جان چھڑانے کے لیے ان کو لانے والوں پر دباؤ بڑھا رہے ہیں۔ حکمران طبقات کے مختلف حلقوں سے موجودہ حکومت کے جلد خاتمے کی افواہیں بھی زور پکڑتی جا رہی ہیں۔ اس حکومت کی ناکامی صرف معاشی پالیسیوں میں ہی عیاں نہیں ہے بلکہ انتظامی حوالے سے بھی اس کو بد ترین حکومت قرار دیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ دو ماہ کے دوران پہلے آٹے اور اس کے بعد چینی کے بحران نے اس حکومت کی محض انتظامی معاملات کو چلانے میں بھی مکمل نااہلی اور اس کے گرد موجود مافیاکے آگے بے بسی کا بھی اظہار ہو رہا ہے۔ جن ڈاکوؤں کی مدد سے اس حکومت کو لایا گیا تھا وہ اس کی ڈولتی کشتی کو دیکھ کر کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لوٹ مار کرنے میں مصروف ہیں اور غریب لوگوں کو دو وقت کی روٹی سے محروم کرتے جا رہے ہیں لیکن ریاست مدینہ کے دعویدار انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ ان چوروں کا دفاع کرنے پر مجبور ہیں۔ اتحادی بھی حکومت کی کمزوری کو بھانپتے ہوئے ناراضگی کے ذریعے پہلے سے زیادہ مال کا مطالبہ کر رہے ہیں اور یوں عوام کے خون پسینے کو نچوڑ کر حاصل ہونے والی دولت کی بندر بانٹ اور لوٹ مار کا سلسلہ زیادہ زور و شور سے جاری ہے۔ معاشی ماہرین کی ٹیم کا ایک اہم کھلاڑی سامنے نظر آتی ناکامی کے داغ سے خود کو بچانے کے لیے طویل چھٹیوں کا بہانہ بنا کر بھاگ نکلا ہے جب کچھ ابھی تک بے شرمی سے کھڑے ہیں اور مستقبل کے جھوٹے خواب بیچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کا چیئر مین شبر زیدی بھی جان چھڑوا کر بھاگ چکا ہے جبکہ اس کی جگہ نئے چیئر مین کی تلاش جاری ہے۔ یہ خبر بھی گردش میں ہے کہ سابقہ وزیر تجارت ڈاکٹر زبیر خان نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں وزیر خزانہ حفیظ شیخ اور اسٹیٹ بینک کے چیئرمین رضا باقر کے خلاف ایک پٹیشن دائر کر رکھی ہے کہ ان دونوں کی پالیسیاں ملکی معیشت ڈبو رہی ہیں لہٰذا ان کو کام کرنے سے روکا جائے۔
معاشی اور انتظامی معاملات کے ساتھ خارجہ پالیسی میں بھی مسلسل بے سمتی اور ادھر سے ادھر چھلانگوں کا سلسلہ دکھائی دے رہا ہے۔ سعودی حکمرانوں کے دباؤ پر ترکی اور ملائیشیا کی سربراہی میں بلائی جانے والی اسلامی ممالک کی کانفرنس میں شرکت سے معذرت کے چند ہفتے بعد ملائیشیا کے دورے میں پھر اپنی اس غلامی کا برملا اظہار کر کے پرلے درجے کے احمقانہ پن کی ریت کو بھی برقرار رکھا گیا۔ ترک صدر کے دورہئ پاکستان کے موقع پر بھی اس نئے آقا کو لبھانے اور اپنی مکمل غلامی کا یقین دلانے کے لیے ویسے ہی کرتب دکھائے گئے جو سعودی آقاؤں کے سامنے دکھائے جاتے تھے۔ پہلے ہی امریکی اور چینی سامراج کی باہمی کشمکش اس ریاست میں دراڑیں ڈالنے کا سبب بن رہی ہے جبکہ اب سعودیوں کے ساتھ ترکوں کی غلامی کا طوق بھی گلے میں ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان مختلف ریاستوں کے باہمی تضادات اور تصادموں کے کھیل سے مال بنانے کی کوششیں خود اس ریاست کے وجود کے لیے ہی خطرہ بنتی جا رہی ہیں۔ مسئلہ کشمیر پر امریکہ، سعودی عرب اور اتحادیوں کی حمایت سے محروم ہونے کے بعد ترکی اور ملائیشیا کی حمایت کے پیش نظر حالیہ قلابازی لگائی گئی لیکن ہندوستان کو جس بڑے پیمانے پر سفارتی حمایت اس وقت میسر ہے اس کے مقابلے میں اس قسم کی چھوٹی موٹی حمایت زیادہ کارگر ثابت نہیں ہو سکتی۔ اس کے ساتھ ایف اے ٹی ایف کے 21 فروری کو ہونے والے اجلاس میں بھی پاکستان کو گرے لسٹ یعنی زیر نگرانی برقرار رکھے جانے کا فیصلہ کیا گیا جس کو موجودہ حکمران اپنی کامیابی بنا کر پیش کررہے ہیں۔ گرے لسٹ میں یا زیر نگرانی فہرست میں برقرار رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ امریکی سامراج کا دباؤ مختلف سفارتی پالیسیوں اور ناپسندیدہ دہشت گردوں کی پشت پناہی ختم کرنے کے حوالے سے آنے والے عرصے میں برقرار رکھا جائے گا۔ دہشت گردوں کی پشت پناہی کو ختم کرنے کا عمل بھی تضادات کا شکار ہے۔ جہاں ایک جانب امریکی سامراج اور اس کے اتحادیوں کو مطمئن کرنے کے لیے حافظ سعید کو سزائیں سنائی گئیں وہیں اے پی ایس پشاور میں معصوم بچوں کے قاتل احسان اللہ احسان کو تین سال تک سرکار ی مہمان رکھنے کے بعد فرار کروا دیا گیا۔ اس کے فرار کو پہلے تو ظاہر ہی نہیں کیا گیا اور اس کے آڈیو بیان جاری ہونے کے بعد وزیر داخلہ نے محض اس کے فرار کی تصدیق کی ہے جبکہ کسی بھی قسم کی وضاحت سے ’اجتناب‘ کیا ہے۔ بلوچستان میں آئے روز کسی بم دھماکے میں درجنوں معصوموں کی شہادت ہو جاتی ہے جبکہ حکمران دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے کھوکھلے عزم کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ ان ریاستی اثاثوں کے مکمل خاتمے کی نہ تو کوئی پالیسی ہے اور نہ ہی ایسا کرنا اس ریاست کے لیے ممکن ہے۔ خارجہ پالیسی کے اوزار کے ساتھ ساتھ داخلی طور پر بھی محنت کشوں اور انقلابیوں کے قتل عام کا یہ ایک کار آمد ہتھیار ہیں جس سے ریاست کی رضاکارانہ دستبرداری کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس نظام کو بر قرار رکھنے اور اپنی تجوریاں بھرنے کا یہ خونی کھیل حکمران طبقات اس وقت تک جاری رکھنے کی کوشش کرتے رہیں گے جب تک کہ محنت کش طبقہ اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر نہیں پھینکتا۔
بڑھتے ہوئے معاشی بحران اور خطے میں طاقتوں کے بدلے ہوئے توازن کے ساتھ مطابقت نہ پیدا کرسکنے کے باعث خود ریاستی اداروں کے مابین لڑائی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے اور ریاست کی ٹوٹ پھوٹ کا عمل تیز تر ہوتا جا رہاہے۔ عدلیہ کے ساتھ حکومتی لڑائی میں ایک اٹارنی جنرل کو عہدہ چھوڑنا پڑا جبکہ نئے اٹارنی جنرل نے فائز عیسیٰ کیس میں حکومت کی نمائندگی کرنے سے معذرت کر لی ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس میں حکومت کا ایک اہلکار مستعفی ہو گیا جبکہ دوسرے نے حکومت کی نمائندگی سے معذوری کا اظہار کر کے اس سارے معاملے میں حکومتی موقف کی کمزوری اور جھوٹ کو عیاں کر دیا ہے۔ اس حکومت کی معاشی پالیسیوں کو لاگو کرنے سے لے کر اپنی ہی گماشتہ عدالتوں کے سامنے حکومتی موقف کا دفاع کرنے میں بے بس نمائندے صرف حکومت کے لاغر پن کو ہی ظاہر نہیں کرتے بلکہ یہ اس پورے ڈھانچے کے گل سڑ جانے کی عکاسی ہے۔مولانا فضل الرحمان نے بھی اپنے دھرنے کے خاتمے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہونے والے خفیہ معاہدے کی شرائط کو بے نقاب کر دیا ہے اور اس معاہدے کے ضامن نے بھی مولانا کے دعووں کی تصدیق کر دی ہے جس نے اس تمام سیاسی ناٹک کے پس پردہ مبینہ خفیہ طاقتوں کو بھرے بازار رسوا کر دیا ہے۔
اس نظام اور پورے ریاستی ڈھانچے کے بحران کا بوجھ اس ملک کے محنت کشوں کے لیے ناقابل برداشت ہو چکا ہے اور تقریباً تمام اداروں کے محنت کشوں میں ایک نئی بیداری کا عمل اب سطح پر اپنا اظہار شروع کر چکا ہے۔ نجی صنعتوں میں محنت کشوں پر ڈھائے جانے والے مظالم، جن کو پہلے محنت کش خاموشی سے برداشت کر لیتے تھے یا انفرادی طور پر احتجاج کرتے تھے، اب ان کے خلاف اجتماعی احتجاج کا راستہ اپنانے کے عمل کا بھی آغاز ہو رہا ہے۔ طلبہ میں بھی مختلف مسائل کو حل کرنے کے لیے احتجاج معمول بنتے جا رہے ہیں۔ اس نظام کا بحران محنت کشوں اور غریب عوام کی زیادہ بڑی پرتوں کو بتدریج جدوجہد کا راستہ اپنانے پر مجبور کر رہا ہے۔ آئے روز صنعتوں اور کانوں میں ہونے والے حادثات میں محنت کشوں کی شہادتیں ایک معمول بنتی جا رہی ہیں لیکن اس کے باوجود ان حادثات کو روکنے کے لیے کسی قسم کے اقدامات تو درکنار ان کی سنجیدہ تحقیقات تک نہیں کرائی جاتیں۔ کراچی میں کیماڑی بندرگاہ پر کسی پر اسرار زہریلی گیس کے لیک ہونے کے باعث درجنوں محنت کشوں کی شہادت کو بھی ایک معمہ بنا دیا گیا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ وہاں ہونے والی ہلاکتوں کے اسباب کو جانا نہ جا سکے لیکن اس کو دانستہ چھپائے جانے کی ایک ہی وجہ ہوسکتی ہے کہ کوئی ایسی چیز خفیہ طور پر لائی جا رہی تھی جس کو ملوث لوگ سامنے نہیں لانا چاہتے۔ بلوچستان میں کوئلے کی کانوں میں حادثات معمول بن چکے ہیں اور اس کے ساتھ خیبر پختونخوا میں سنگ مرمر کی کانوں میں بھی حادثات کا سلسلہ جاری ہے۔ منافع خوری کی ہوس کے اس نظام کی زوال پذیری صنعتوں اور کانوں میں کام کے حالات کو اس کے کم سے کم معیار پر برقرار رکھنے سے بھی قاصر ہوچکی ہے۔ صنعتوں کے مالکان اور کانوں کے ٹھیکیدار ضروری مرمت کے کا موں پر بھی پیسہ خرچ کرنے سے اجتناب کرتے ہوئے بس منافع کمانے میں مصروف ہیں اور دوسری جانب اس ملک کے حکمران طبقات اور تمام ادارے از خود اس حد تک گل سڑ چکے ہیں کہ سیفٹی کے بنیادی معیار پر عملدرآمد کرانے کی صلاحیت سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔
یہ درست ہے کہ موجودہ حکومت نا اہلی میں اپنی مثال آپ ہے لیکن یہ محض اس حکمران ٹولے کی نااہلی کا ہی مسئلہ نہیں ہے جس طرح اس حکومت کے زیادہ تر مخالفین شور شرابا کر رہے ہیں۔ اس شور شرابے سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ عمران خان کی جگہ کوئی اور تجربہ کار سیاست دان اس وقت وزیر اعظم ہوتا تو شاید ملک کی یہ صورتحال نہ ہوتی۔ اس بات کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس حکومت کا خاتمہ ہو جائے اور اس کی جگہ پرانے ٹھگوں میں سے کسی کو حکومت میں لایا جائے تو سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ درحقیقت، پاکستان کی موجودہ بدتر صورتحال پہلے سے چلے آنے والے مسائل اور بحران کا ہی تسلسل ہے جس کو موجودہ حکمرانوں کی نااہلی نے اپنی استطاعت کے مطابق بگاڑ دیا ہے۔ اگر موجودہ حکومت کی نااہلی کے عوامل کو اس سارے عمل سے نکال دیا جائے تو بھی صورتحال میں کوئی معیاری فرق نہیں پڑے گا۔ موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیاں بھی سابقہ حکومتوں کا ہی تسلسل ہیں اور وہی عالمی ادارے اس ملک کی معاشی پالیسیوں کو کنٹرول کر رہے ہیں جو ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں۔ موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کے دباؤ پر ریاستی اخراجات میں کٹوتیوں کے ساتھ کچھ ایسی پالیسیوں پر عملدرآمد کرنے کی کوشش کی ہے جن پر سابقہ حکومتیں پس و پیش سے کام لیتی رہی ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت واقعی اس غلط فہمی کا شکار تھی کہ عالمی مالیاتی اداروں کی ہدایات پر عمل کرنے سے اس ملک کی معیشت کے ڈھانچے کو درست اور ترقی یافتہ ممالک کی طرح جدید بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن اس حکومت کے ساتھ المیہ یہ ہوا ہے کہ بتدریج بڑھتے ہوئے معاشی تضادات اور سابقہ حکومتوں کے پیدا کردہ مسائل ایک معیاری نہج پر پہنچ چکے تھے جن کو شاید کسی اور پارٹی کی حکومت میں بھی زیادہ دیر تک ٹالا نہیں جا سکتا تھا۔ موجودہ حکومت نے ایسے نظام کی اپنے تئیں اصلاح کرنے کی کوشش کی جو ایک ایسی بوسیدہ عمارت کی طرح تھا جس کی مرمت کی کوشش اس کے انہدام کے عمل کو تیز تر کر دیتی ہے۔
موجودہ حکومت ان تمام معاشی، سیاسی، سماجی اور ریاستی بحرانوں کے بوجھ تلے دب کر مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی جارہی ہے اور اس کے منصوبہ سازوں کے لیے تمام دھونس اور دھاندلی کے ذریعے بھی اس کو طویل عرصے تک چلانا نا ممکن ہو تا جا رہا ہے۔ اس ملک کو سفارتی اور علاقائی سطح پر تبدیل شدہ حالات کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت کے منکر حکمران دھڑے کی ہٹ دھرمی نے پہلے سے چلے آنے مسائل کو حد سے زیادہ گھمبیر کر دیا ہے۔ معیشت کے بحران میں اضافے کی ایک بڑی وجہ اس ریاست کے حقیقی حکمرانوں کا اپنے سامراجی آقاؤں سے تصادم کی پالیسی اختیار کرنا ہے لیکن اب یہی معاشی بحران ان کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ اپنی اس پالیسی کو تبدیل کریں۔ اسی لیے حکمران طبقے کے ایک دھڑے کی جانب سے ہمیں سخت چیخ و پکار نظر آرہی ہے لیکن غالب دھڑا ابھی تک مکمل طور پر قائل ہوتا نظر نہیں آتا۔ امریکی سامراج کی مکمل غلامی اختیار کرنے سے آغاز کرتے ہوئے اس ریاست کے حکمران طبقات نے جب بھی اس غلامی کو کم تر کرنے کی کوشش کی تو اس کا انت ہمیشہ پہلے سے بھیانک غلامی اختیار کرنے پر ہوا۔ اس وقت بھی اس ریاست کے امریکی غلامی سے نکلنے یا پرانی مراعات بحال کرانے کے لیے گزشتہ عرصے میں کی جانے والی تگ و دو کی ناکامی کے بعد دوبارہ امریکی سامراج کے ساتھ ہی پرانی غلامی کو نئی سخت شرائط پر جاری رکھنے کے تکلیف دہ مراحل سے گزرنے کا عمل جاری ہے۔ جس شرمناک انداز میں نئے پاکستان کے منصوبہ سازوں کا یہ تجربہ ناکام ہوا ہے اس نے پوری ریاست کے ڈھانچے کو اس کی بنیادوں سے ہلا نا شروع کر دیا ہے۔ اس عمل کو اب حکومت کی تبدیلی سے دوبارہ استحکام فراہم نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی کوئی نیا آنے والا اس بحران کو مکمل طور پر ختم کر سکتا ہے۔ اگر آنے والے دنوں میں کسی ان ہاؤس تبدیلی یا نئے انتخابات کے ذریعے کسی اور کو حکومت میں لایا بھی جاتا ہے تو سماجی، سیاسی، سفارتی، ریاستی اور معاشی بحران کا جاری عمل ختم نہیں ہو جائے گا بلکہ شدت اختیار کرے گا۔ حکمران طبقے کے زیادہ تر حصوں کی کوتاہ بینی کی حالت یہ ہے کہ اس تما م بحران کا سبب خالصتاً موجودہ حکومت کی نااہلی اور ناتجربہ کاری کو قرار دیا جا رہا ہے۔ وہ یہ دیکھنے سے ہی قاصر ہیں کہ یہ نظام اپنی بنیادوں تک کھوکھلا ہو چکا ہے اور صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ اپنی مغربی جنم بھومی سمیت تمام ترقی یافتہ ممالک میں بھی روبہ زوال اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ جلد ہی اس حکمران طبقے کا سر اس بند گلی کی دیواروں سے ٹکرائے گا جس میں یہ نظام داخل ہو چکا ہے جس کے بعد اس نظام کی تاریخی متروکیت کی اصلیت ان پر آشکار ہوگی اور اس کے ساتھ ہی ان کو یہ بھی احساس ہو گا کہ محض حکومت کی نا اہلی ہی سبھی مسائل کی اصل وجہ نہیں تھی۔ اگر تھوڑا سا بھی غور کیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت اس بحران کی کتنی ذمہ دار ہے، چونکہ معیشت سے لے کر خارجہ پالیسی تک کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں ہے جس کو عالمی سامراجی اداروں یا اس ملک کے حقیقی حکمرانوں کے اپنے نمائندے کنٹرول نہ کر رہے ہوں۔ پہلے ہی سیاسی افق پر موجود تمام پارٹیاں محنت کشوں اور عوام کی معمولی سی حمایت سے بھی مکمل طور پر محروم ہو چکی ہیں۔ ایک بحران زدہ نظام کو محنت کش طبقے پر مسلط رکھنے کی کوشش نے ان پارٹیوں سمیت تمام ریاستی اداروں کو محنت کش طبقے کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے۔ دوسری جانب تمام پارٹیاں اور ٹریڈ یونین قیادتوں کے زیادہ تر حصے طویل عرصے سے محنت کش طبقے کی نئی ابھرتی ہو ئی تحریک کے راستے کی ایک رکاوٹ میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ محنت کش طبقے اور نوجوانوں کی ایک نو خیز تحریک ان تما م رکاوٹوں کو چیر کر اپنے اظہار کا راستہ بنانا شروع ہو چکی ہے اور اس عمل میں انقلابیوں کی پر جوش مداخلت اس سفرکو تیز تر کرے گی۔ محنت کشوں اور نوجوانوں کی اپنے مسائل کے حل کی جاری لڑائیاں شدت اختیار کریں گی اور انہی جدوجہدوں کو سوشلزم کے انقلابی نظریے کی بنیاد پر تنظیمی ڈھانچوں میں منظم کرکے ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اس بحران زدہ نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے ہی اس ظلم و بربریت سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔