|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ|
نئے پاکستان کے ممکنہ وزیر خزانہ اسد عمر نے آج فنانشل ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے اقتدار کے پہلے100 دنوں میں دو سو سرکاری اداروں کی نجکاری کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس کے مطابق حکومت میں آتے ہی وہ ایک ویلتھ فنڈ قائم کریں گے جس کا کنٹرول حکومت کے بجائے نجی شعبے کے افراد کے پاس ہو گا اور دو سو سرکاری اداروں کو اس ویلتھ فنڈ کے حوالے کر دیا جائے گا۔ اپنی گفتگومیں اسد عمر نے پی آئی اے کا حوالہ بھی دیا اور کہا کہ یہ بوجھ بھی ہلکا کرنا ہے۔ اسد عمر نے آئی ایم ایف سے بھیک مانگنے کے مضبوط ارادے کا بھی کھل کر اظہار کیا۔ انتخابات جیتنے کے بعد پہلی دفعہ تحریک انصاف کے کسی راہنما نے اپنے معاشی منصوبے کے بارے میں گفتگو کی ہے۔
اس گفتگو سے واضح نظر آتا ہے کہ آنے والی حکومت کی معاشی پالیسی بھی ماضی کی تمام حکومتوں جیسی ہی مزدور دشمنی پر مبنی ہو گی۔ 200اداروں کی نجکاری کا مطلب ہے کہ ان اداروں کے لاکھوں ملازمین کو جبری طور پر برطرف کیا جائے گا جس کے باعث مزید لاکھوں گھرانے یا کروڑں افرادغربت اور ذلت کی زندگی میں دھکیل دیے جائیں گے۔ گزشتہ تین دہائیوں کا نام نہاد جمہوری دور ہو یا مشرف آمریت نجکاری کی پالیسی سمیت دیگر مزدور دشمن پالیسیوں کے ذریعے ہی یہاں کا حکمران طبقہ اپنی لوٹ مار کرتا رہا ہے اور آئی ایم ایف سمیت مختلف سامراجی طاقتوں کے تلوے چاٹ کر اپنی تجوریاں بھرتا رہا ہے۔ ان تجوریوں میں پڑا ہوا پیسہ درحقیقت اس ملک کے محنت کش افراد کے گوشت اور ہڈیوں سے نچوڑا گیا ہے اور اس میں سے عوام کے خون کی بو آتی ہے۔
نجکاری کی پالیسی پہلے ہی تین دہائیوں سے جاری ہے اور بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔اس پالیسی کے تحت پہلے ہی بہت سے اہم ادارے نجی اداروں کو دئیے جا چکے ہیں لیکن اس کے باوجود ملک پر قرضوں کا بوجھ کم ہونے کی بجائے کئی گنا زیادہ ہوا ہے۔صرف پی ٹی سی ایل کی نجکاری کے بعد 70ہزار سے زائد افراد کو جبری طور پر بیروزگار کیا گیا۔ اسی طرح بینکوں کے ملازمین سے لے کر ریلوے، واپڈا ، کے الیکٹرک اور دیگر اہم اداروں میں یہ پالیسی مسلط کی گئی جس کا نتیجہ بڑے پیمانے پر بیروزگاری اور ملکی معیشت کی تباہی اور بربادی ہی نکلا۔جہاں لاکھوں افراد کو بیروزگار کیا گیا وہاں ان اداروں کی کارکردگی بھی بہتر ہونے کی بجائے کئی گنا بد تر ہو گئی اور عوام اب مسلسل اذیت سے گزر رہے ہیں۔ ملک میں لوڈ شیدنگ کے عذاب کی بنیاد بھی نجکاری ہے جس میں نجی کمپنیوں کو بجلی بنانے کا اختیار دیا گیا۔ آج سرکلر قرضہ ایک ہزار ارب سے بھی زائد ہو چکا ہے لیکن لوڈ شیڈنگ کا عذاب ختم نہیں ہو رہا جبکہ اس سے ملکی صنعت بھی تباہ ہوئی ہے۔ پی ٹی سی ایل سے لے کر بینکوں اور ریلوے اور واساتک یہی کہانی ہے جہاں سروس کا معیار انتہائی گراوٹ کا شکار ہے۔ بینکوں میں کھاتہ داروں کی بد ترین لوٹ مار کی جاتی ہے، نجی ریلوے کمپنیوں کا معیار انتہائی کم تر ہے جبکہ کے الیکٹرک کی ناقص کارکردگی کے باعث ہر سال کراچی میں گرمی کے موسم میں سینکڑوں افراد گرمی کی شدت کے باعث ہلاک ہو جاتے ہیں۔ نجکاری کے یہی عوام دشمن ثمرات نجی ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں میں بھی محسو س کیے جا سکتے ہیں جہاں علاج اور تعلیم جیسی بنیادی سہولتیں عوام کی بہت بڑی اکثریت سے چھینی جا چکی ہیں۔
اسی طرح نجکاری کے حملوں کے نتیجوں میں ملک بھر میں محنت کشوں کے استحصال میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ یونین سازی کو ایک جرم بنا دیا گیا ہے اور مزدور کے حق میں آواز اٹھانا اس ملک میں غداری کے مترادف ہے۔ کام کے اوقات کار بارہ سے سولہ گھنٹے تک پہنچ چکے ہیں جبکہ اجرتیں بڑھنے کی بجائے تیزی سے کم ہو رہی ہیں۔ابھی گزشتہ سات ماہ میں روپے کی قدر میں بیس فیصد کے قریب گراوٹ آئی ہے لیکن اس تناسب سے اجرتوں میں ایک پیسے کا بھی اضافہ نہیں کیا گیا۔ گزشتہ ایک لمبے عرصے سے یہی صورتحال ہے اور اجرتیں تیزی سے کم ہوئی ہیں جو نجی اداروں کے بڑھتے ہوئے ہوشربامنافعوں کی بنیاد ہے۔ نجکاری کے اتنے بڑے پیمانے پر مزید حملوں سے ملک میں موجود رہی سہی مزدور تنظیمیں بھی ختم ہو جائیں گی جس کا عندیہ چیف جسٹس آف پاکستان پہلے ہی دے چکا ہے۔ اپنے ایک ریمارکس میں اس نے کہا تھا کہ اس کا بس چلے تو تمام مزدور تنظیموں کو ختم کر دے۔ نئے پاکستان میں ایسے اقدامات کی توقع کی جا سکتی ہے جس میں مزدور کو غلام سے بھی بدتر درجے پر پہنچانے کے اقدامات کیے جائیں گے۔
نام نہاد اپوزیشن پارٹیوں کی پالیسی بھی کچھ مختلف نہیں اور پیپلز پارٹی، ن لیگ اور دیگر تمام جماعتیں اپنے دور اقتدار میں یہی پالیسی مسلط کرتی رہی ہیں۔ آمریت کے ادوار میں جرنیل بھی آئی ایم ایف کی کاسہ لیسی میں فخر محسوس کرتے ہیں اور پوری طاقت سے نجکاری کو مسلط کرتے ہیں خواہ اس کے لیے مزدوروں پر گولی ہی کیوں نہ چلانی پڑے۔ دو سال قبل کراچی ائر پورٹ پر پی آئی اے کے ملازمین کے ساتھ یہی سلوک کیا گیا جس کے نتیجے میں دو مزدور شہید ہو گئے۔اس سے واضح نظر آتا ہے کہ نئے پاکستان میں کچھ بھی نیا نہیں بلکہ ظلم کی نئی داستان لکھنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔منافقت کی انتہا کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ دیگر پارٹیوں کے بر عکس تحریک انصاف نے اپنے پارٹی منشور میں اس قسم کے کسی بھی ارادے کا اظہار نہیں کیا تھا اور نہ ہی اپنے پہلے 100دنوں کے پروگرام کی تقریب رونمائی میں ان مزدور دشمن حملوں کے منصوبے کے متعلق بتایا تھا۔الیکشن جیتتے ہی انہوں نے اپنے دانت دکھانے شروع کر دئیے ہیں جن سے مزدوروں کا رہا سہا خون بھی چوسا جائے گا۔
اپنے پروگرام میں ایک کروڑ روزگار فراہم کرنے کا دعویٰ کرنے والی تحریک انصاف بھی اسی عوام دشمن پالیسی پر گامزن ہے اور زور و شور سے آئی ایم ایف سے بھیک مانگنے کی تیاری کر رہی ہے۔ابھی تک 12ارب ڈالر کے پیکج کے لیے درخواست جمع کروانے کی خبریں سامنے آ رہی ہیں جو ماضی میں کسی بھی حکومت کی جانب سے لیے جانے والے پیکج سے زیادہ ہے۔ اس سے واضح نظر آتا ہے کہ ’’تبدیلی‘‘ کا نعرہ اور روزگار کے وعدے صرف منافقت اور عیاری کے سوا کچھ بھی نہیں تھے۔ سیاسی میدان میں ’’تبدیلی‘‘ کا یہ منافقانہ نعرہ پہلے ہی بے نقاب ہو چکا ہے جب نون لیگ سمیت دیگر مخالف سیاسی جماعتوں کے کرپٹ افراد کو ریاستی اداروں کے دباؤ پر تحریک انصاف میں شامل کروایا گیا۔ اب معاشی میدان میں بھی اس ناٹک کی قلعی کھل رہی ہے اور عوام پر بیروزگاری، مہنگائی، غربت، لاعلاجی اور جہالت کے اندھیرے مسلط کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔
اس اعلان سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ سی پیک کے ذریعے دودھ اور شہد کی نہروں کی آمد بھی ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں تھی۔ کہا جا رہا تھا کہ 60ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری سے ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔ لیکن آج معیشت پر قرضوں کا بوجھ کئی گنا زیادہ ہے، کرنسی کی قدر تیزی سے گر رہی ہے، بیروزگاری اور غربت میں اضافہ ہوا ہے جبکہ بجٹ خسارے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور تجارتی خسارے انتہاؤں کو چھو رہے ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ بیرونی سرمایہ کاری کسی مسئلے کا حل نہیں ۔ دوسری جانب چینی سامراج اپنے پنجے گاڑ رہا ہے اور نجی صنعتیں تباہ ہو رہی ہیں جس کے باعث بیروزگاری میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ نجکاری کی پالیسی کو جاری رکھنے کا مطلب ہے کہ سی پیک کا منصوبہ ناکام ہو چکا ہے اور اس کا مقصد صرف حکمرانوں کی کمیشنوں کے ذریعے لوٹ مار اور چینی سامراج کی گماشتگی ہی ہے۔
ملک کی تمام مزدور تنظیموں کو ان حملوں کیخلاف متحد ہو کر ایک منظم تحریک چلانے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے تمام سرکاری اداروں کے ملازمین کو یکجا کرنے کی ضرورت ہے۔ بد عنوان اور بکاؤ ٹریڈ یونین لیڈروں سے چھٹکارا حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور این جی اوز کی کھال میں چھپے مزدور دشمن بھیڑیوں کو بھی بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔
اس لڑائی کو جیتنے کا واحد حل ایک ملک گیر عام ہڑتال ہے جو پورے ملک کا پہیہ جام کر دے۔ مختلف اداروں کے ملازمین پہلے ہی الگ الگ سراپا احتجاج ہیں انہیں ایک پلیٹ فارم پر منظم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایک فیصلہ کن لڑائی کا آغاز کیا جا سکے۔ نئے پاکستان کا منافقانہ دعویٰ کرنے والے ہوںیا عوام دشمن اپوزیشن پارٹیاں، مزدور دشمن عدالتیں ہوں یا جرنیل محنت کش طبقے کو سب طاقتوں کیخلاف محاذ کھولنا پڑے گا۔ اس لڑائی میں تمام سامراجی طاقتوں کو بھی للکارنا ہو گا جبکہ دنیا بھر کے محنت کشوں سے یکجہتی کی اپیل کرنی ہو گی۔ صرف یہی ایک رستہ ہے جس کے ذریعے غربت اور ذلت کی زندگی سے نا صرف چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے بلکہ آنے والے مزید حملوں کیخلاف سیسہ پلائی دیوار بنا جا سکتا ہے۔سچے جذبوں کی قسم جیت محنت کش طبقے کی ہی ہو گی!