|تحریر: آدم پال|
نواز شریف کو ملنے والی سزا پر بہت سا شوروغل مچ رہا ہے۔ کچھ لوگ اسے عدالتوں اور ان کی پشت پر موجود جرنیلوں کی انتقامی کاروائی قرار دے رہے ہیں اور کچھ اسے طاقتور کا احتساب قرار دیتے ہوئے قبل ازوقت فتح کا جشن منا رہے ہیں۔لیکن محنت کش طبقہ اس عمل میں محض تماشائی ہے اور حکمران طبقے کی اس باہمی لڑائی سے بالکل الگ تھلگ کھڑاہے۔نہ ہی نواز شریف کے حق میں لاکھوں افراد سڑکوں پر نکلے اور نہ ہی اس کی مخالفت کرنے والوں کی سماجی حمایت میں اضافہ ہوا۔اس تمام تر دھینگا مشتی سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستانی ریاست کا بحران شدت اختیارکرتا جا رہا ہے اور حکمران طبقے کی لڑائی تمام حدود پھلانگتی جا رہی ہے۔
نواز شریف کو ملنے والی سزا کے بعد بہت سے کرائے کے دانشور اس سے ہمدردی کا اظہار کر رہے ہیں اور اس کی بیوی کی بیماری کو ساتھ جوڑتے ہوئے اس کی بے بسی پر آنسو بہا رہے ہیں۔لیکن درحقیقت نواز شریف آج بھی حکمران طبقے کا ایک کلیدی حصہ ہے اور اسٹیبلشمنٹ کے ایک حصے کا نمائندہ ہے۔بہت سے لوگ اسے اینٹی اسٹیبلشمنٹ قرار دیتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ آج کی اسٹیبلشمنٹ مختلف حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے اور یہ دھڑے ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں۔اس لیے جہاں نواز شریف اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہے وہاں وہ اسٹیبشلمنٹ کا حصہ بھی ہے۔حکمران طبقے کی یہ باہمی لڑائی تمام دھڑوں کو کمزور کرنے کا باعث بنتے ہوئے ریاست کے بحران میں اضافہ کر رہی ہے۔اسی لیے اس طبقے کے سنجیدہ خواتین و حضرات دونوں کو اپنی حدود میں رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں تاکہ معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کیا جا سکے ۔ لیکن ریاست کے بحران اور بکھرتے ہوئے ورلڈ آرڈرمیں اب پر امن بقائے باہمی ممکن نہیں اور تمام دھڑے دوسرے کو شکست فاش دینے پر تلے ہوئے ہیں۔
نواز شریف کو بظاہر اس کی کرپشن اور لوٹ مار پر سزا دی گئی لیکن یہ حقیقت ہر کسی کو معلوم ہے کہ اس سزا کی وجہ اس کی فوج اور ریاست کے مختلف حصوں کے ساتھ کشیدگی ہے۔نواز شریف کی کرپشن میں کچھ بھی نیا نہیں۔ضیا الباطل کے زیر سایہ پنجاب کے وزیر خزانہ اور وزیر اعلیٰ بننے سے لے کر تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے تک نواز شریف کرپشن کی گنگا میں ہر روز بلا ناغہ نہاتا رہا ہے۔اتنے بڑے پیمانے پر لوٹ مار کر کے پیسہ باہر منتقل کرنا ریاستی اداروں کی آشیر باد اور کھلی حمایت کے بغیر ممکن ہی نہیں۔اس وقت بھی عدالتوں میں ایسے مقدمے زیر التوا ہیں جن میں ریاستی اداروں کی جانب سے نواز شریف کو وزیر اعظم بنوانے کے لیے کالے دھن کو استعمال کیے جانے کے الزامات ہیں۔اس کے علاوہ نواز شریف کے کار خاص شہباز شریف پر بھی کرپشن اور لوٹ مار کے متعدد مقدمے ہیں لیکن وہ کھلے عام پریس کانفرنسیں کر رہا ہے۔اس لیے اگر اس فیصلے کو کوئی بھی شخص کرپشن اور بد عنوانی کیخلاف انصاف کی جیت قرار دیتا ہے تو اسے ذہنی امراض کے ہسپتال میں داخل کروانے کی ضرورت ہے۔
نواز شریف کو کرپشن اور مزدور دشمن اقدامات کیخلاف اگر کوئی سزادے سکتا ہے تو وہ یہاں کا مزدور طبقہ ہے جس کے خون سے نواز شریف سمیت اس ملک کے تمام حکمرانوں کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔نواز شریف سے ہمدردی جتانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ نواز شریف کے حالیہ دور حکمرانی میں بھی مزدور کی کم از کم اجرت سرکاری طور پر صرف پندرہ ہزار روپے ماہانہ تک ہی محدود تھی جبکہ حقیقت میں مزدور آٹھ سے دس ہزار روپے ماہانہ پر کام کرنے پر مجبور تھا۔ کام کے اوقات کار بھی آٹھ گھنٹے سے بڑھ کر سولہ اور اٹھارہ گھنٹے تک پہنچ چکے تھے اور ہفتہ وار چھٹی کا تصور ختم ہو چکا ہے۔مزدوروں کی یونین ساز ی پر اسی طرح پابندی عائد تھی جیسے پہلے موجود تھی اور صنعتوں اور اداروں میں محنت کشوں پر بد ترین مظالم ڈھائے جاتے رہے۔اس دوران سرمایہ داروں کے منافعوں میں نہ صرف ہوشربا اضافہ ہوا بلکہ نواز شریف کی حکومت نے کارپوریٹ ٹیکس میں بھی بڑے پیمانے پر کمی کی تھی۔ بجلی کے بلوں سے لے کر اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے باوجود مزدوروں کی اجرتوں میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ نواز شریف اور اس کا خاندان بیرون ملک علاج کروا رہاہے لیکن یہاں کروڑوں محنت کش بغیر علاج کے ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر مر رہے ہیں۔پی آئی اے سمیت اہم اداروں کی نجکاری کے باعث لاکھوں افراد بیروزگار ہوئے جبکہ روزگار کے مواقع بڑھنے کی بجائے کم ہوتے چلے گئے۔ اس کے ذمہ دار نواز شریف اور اس کے اتحادی ہیں جو یہاں کے محنت کش طبقے کے مجرم ہیں اور وہی انہیں کیفر کردار تک پہنچائے گا۔
دوسری جانب کٹھ پتلی عدالتیں ہیں جو تھوتھا چنا باجے گھنا کے مصداق انصاف کا شور مچا رہی ہیں۔ان عدالتوں کی مزدور دشمنی کی ایک طویل تاریخ ہے جو آج بھی پوری فرعونیت کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ان عدالتوں نے فوجی آمروں کی کاسہ لیسی کرنے کے ساتھ ساتھ اس ملک کے محنت کشوں پر ظلم اور جبر کے پہاڑ گرائے ہیں۔اپنے حق کے لیے احتجاج اور ہڑتال کرنے پر مزدور راہنماؤں کو دہشت گرد قرار دیا ہے اور انہیں سخت سزائیں سنائی ہیں۔ان عدالتوں نے ہمیشہ سرمایہ داروں کی دلالی کی ہے اور مزدوروں سے ان کے حقوق غصب کیے ہیں۔آج بھی ان عدالتوں میں ہزاروں ایسے مقدمات زیر التوا ہیں جن میں مزدوروں نے اپنے حقوق کے لیے درخواستیں دائر کر رکھی ہیں لیکن ان کی سنوائی نہیں ہوتی۔نجکاری کے بد ترین حملوں کی حمایت کرنے سے لے کر یونین سازی میں مشکلات پیدا کرنے تک ان سر سے پیر تک کرپشن میں اٹی عدالتوں کا مقصد صرف اور صرف حکمران طبقے کے مفادات کا تحفظ ہے جس کے لیے محنت کش طبقے کو جج اپنے پیروں تلے روندتے آئے ہیں۔ خواتین پر ہونے والے مظالم ہوں یا بیگناہوں کے ہونے والے قتل ،ان عدالتوں اور ان میں بیٹھے عوام دشمن اہلکاروں نے ظالموں کے سامنے ہمیشہ گھٹنے ٹیکے ہیں۔ان مظالم کی ہزاروں مثالیں آج اس ملک کے ہر شخص کو زبانی یاد ہیں اس لیے انہیں یہاں دہرانا ضروری نہیں۔آج بھی یہ عدالتیں واضح طور پر اسٹیبلشمنٹ کے ایک حصے کی کٹھ پتلی کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ اس لیے اس فیصلے سے نہ تو عوام کا عدالتوں پر اعتماد بڑھے گا اور نہ ہی یہاں پر انصاف کی فراہمی کے حوالے سے کسی کو یقین ہو گا۔بلکہ حالیہ عرصے میں چیف جسٹس کی پھرتیوں نے عدالتوں کے گلے سڑے ادارے کے تعفن کو مزید ننگا کیا ہے اور اس کی بدبو پورے سماج میں پھیل چکی ہے۔
اس فیصلے کے بعد اور حالیہ عدالتی پھرتیوں کے باعث الیکشن کے دھوکے اور فراڈ کی قلعی بھی مکمل طور پر کھل چکی ہے۔پاکستان میں پہلے بھی تمام انتخابات کے نتائج کا تعین جی ایچ کیو اور امریکی سفارت خانے کی ملی بھگت سے ہی کیا جاتا تھا لیکن اس کے باوجود آبادی کاایک حصہ انتخابی عمل کو کسی قدر سنجیدہ لیتا تھا ۔ میڈیا پر بیٹھے مکاروں کے منافقانہ تجزیوں پر بھی لوگوں میں رائے زنی ہوتی تھی جو انتخابی عمل کو ’’سچا‘‘ قرار دینے میں اہمیت کا حامل تھا۔ لیکن آج واضح ہو چکا ہے کہ انتخابات محض ایک دھوکہ اور فریب ہے جس میں حکمران طبقہ انتہائی عیاری سے اپنے نمائندوں کو عوام پر مسلط کرتا ہے اور انہیں یہ یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ درحقیقت عوامی نمائندے ہیں۔آج ریاست کا اہم ستون جسے مقننہ یا پارلیمنٹ کہا جاتا ہے اپنی بنیادیں کھو چکا ہے اورماضی میں انتخابی عمل میں جاری پس پردہ کاروائیاں آج منظر عام پر آ چکی ہیں۔
ایسے میں 25جولائی کو ہونے والے انتخابات محض ایک رسم کے علاوہ کچھ بھی نہیں جس پر سماج کے کسی بھی حصے کا کوئی اعتماد نہیں۔نواز شریف کی پارٹی ان انتخابات میں حصہ لے یا نہ لے اس سے اس عمل کی بوسیدگی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
ایسے میں عمران خان کی کامیابی وقت سے پہلے ہی ثبت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس کی حالیہ تقریروں سے بھی لگتا ہے کہ وہ بطور وزیر اعظم ہی تقریر کر رہا ہے۔کرپشن کیخلاف تحریک کی قیادت کرنے والا خود کرپشن کے ہی الزامات کی زد میں ہے اور اس کی پارٹی کے اکثر لیڈر نوازشریف کی ہی ڈوبتی کشتی سے بھاگنے والے چوہے ہیں۔ جرنیلوں کی نئی کٹھ پتلی کے روپ میں وہ خوشی سے پھولا نہیں سما رہا لیکن اس کو شاید اندازہ نہیں کہ ان تانبے کے تمغوں سے سجے کندھوں پر سوار وہ خود ایک گہری کھائی کے دہانے پرکھڑا ہے۔ جس تیزی سے آج کل واقعات رونما ہو رہے ہیں اس میں یہ امکان بھی موجود ہے کہ کچھ ہی عرصے میں عمران خان اور اس کے حواری ملک بدر ہوں یا عدالتوں کی پیشیاں بھگت رہے ہوں جبکہ نواز شریف اقتدار کی چوکھٹ پر بیٹھا ہو۔
لیکن اس سارے عمل میں اس ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں مکمل طور پر بے نقاب ہوئی ہیں اور سیاسی بحران کی شدت انتہاؤں کو پہنچ رہی ہے۔اتنا بڑا فیصلہ بھی عمران خان کی سماجی حمایت میں اضافہ نہیں کر سکا۔ ریاستی اداروں کی تمام تر سرپرستی کے باوجو د عمران خان عوام کے کسی بھی بڑے حصے کو اپنی جانب متوجہ نہیں کر سکا او ر ابھی تک اس کی کامیابی کا کسی کو یقین نہیں۔ دوسری جانب نواز شریف اور اس کی بیٹی بھی مظلومیت کے تمام تر ناٹک کے باوجود عوام کے کسی بڑے حصے کی ہمدردی نہیں جیت سکے۔ مقامی اور عالمی بورژوا تجزیہ نگار اور دانشور ابھی تک نواز شریف کو آنے والے انتخابات میں فیورٹ قرار دے رہے ہیں اور بتایا جا رہا ہے کہ اس کی بہت بڑی حمایت موجود ہے۔لیکن اس فیصلے کے بعد وہ حمایت کہیں پر بھی نظر نہیں آ سکی۔جس طرح باپ بیٹی نے اس فیصلے کی تیاری کی تھی اور ملک کے طول و عرض میں جلسے منعقد کیے تھے اور ان میں لوگوں سے وعدے لیے تھے کہ وہ ان کے حق میں باہر نکلیں گے اس طرح کا کچھ بھی نہیں ہوا۔ وہ جلسے سرکاری ملازمین کی حاضریاں لگا کر بھر تو لیے گئے یا پھر کچھ لوگوں کو پیسے یا ایک وقت کے کھانے کا لالچ دے کر جمع تو کر لیا گیا لیکن ان کو قائل نہیں کیا جا سکا۔لاہور سمیت وسطی پنجاب کی سنسان سڑکیں نواز شریف اور اس کے حامی ریاستی دھڑے کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔نواز شریف کو ایک سال کا موقع دیا گیا کہ وہ اس فیصلے کے خلاف رد عمل کی تیاری کرے اور اسے میڈیا سمیت ہر جگہ پر کوریج بھی ملی لیکن اس کے باوجود یہ ناکامی پاکستان کی مروجہ سیاست سے عوام کی مکمل بیزاری کا چیختا ثبوت ہے۔اس وقت کسی بھی پارٹی کی سماجی حمایت موجود نہیں اور سیاسی بحران بڑھتا جارہا ہے لیکن اس بحران کی بنیادیں اس ملک کے معاشی اور ریاستی بحران کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔
پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر تیزی سے گرتے جا رہے ہیں اور صرف ڈیڑھ ماہ تک ملک کو چلانے کے لیے کافی ہیں۔اس کے بعد اگلے ایک سال میں پاکستانی معیشت کے بیرونی شعبے کو تقریباً 27ارب ڈالر سے زائد کا زر مبادلہ درکارہے اور اگر اس کا بندوبست نہیں ہوتا تو پاکستان دیوالیہ ہو جائے گا۔اس کے لیے اگرآنے والے دنوں میں آئی ایم ایف سے بھیک مانگنے جائیں گے تو انتہائی سخت شرائط کا سامنا کرنا پڑے گا جس میں سی پیک منصوبوں کو بھی روکا جا سکتا ہے۔ اس سے بچنے کی دوسری آپشن چین پر مکمل انحصار ہے لیکن اس کے لیے جہاں امریکہ سے ناطہ توڑنا پڑے گا وہاں پوری دنیا میں موجود مالیاتی وسفارتی نظام سے بھی ناطہ ٹوٹنے کاخدشہ موجود ہے۔حکمران کسی بھی طرح درمیانہ رستہ اختیار کرنے کی کوشش کررہے ہیں جس کی گنجائش کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔آنے والے دنوں میں امریکہ اور چین کی جاری تجارتی جنگ میں بھی شدت آئے گی اور پاکستان پر بھی دباؤ میں اضافہ ہوگا۔ایسے میں دیوالیہ پن کے خطرات زیادہ شدت سے سر پر منڈلائیں گے جس کے ناگزیر اثرات ملکی سیاست اور ریاستی بحران پر بھی پڑیں گے۔
اسی معاشی بحران کو حل کرنے کی کوششیں مزید سیاسی و ریاستی عدم استحکام کو جنم دیں گی۔ جہاں سعودی عرب اور ترکی سے باندھی جانے والی امیدیں ایران اور دیگر ممالک سے تنازعات میں اضافہ کریں گی وہاں یہ ملک مختلف سامراجی طاقتوں کا اکھاڑہ بننے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔معاشی بحران پہلے ہی تمام ریاستی اداروں کو چاٹ چاٹ کر ختم کر رہا ہے اس پر سامراجی طاقتوں کی باہمی کشمکش اس ریاستی بحران کو انتہاؤں تک لے جائے گی۔عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں آنے والے نئے بحران اور مالیاتی انہدام اس ریاست کے مستقبل پر سوالیہ نشان ثبت کریں گے۔
اس تمام تر کشمکش کا واحد حل اس سرمایہ دارانہ نظام کا مکمل خاتمہ ہے اور یہاں ایک مزدور ریاست کا قیام ہے۔ اس مزدور ریاست میں جہاں حکمران طبقے کے تمام مظالم اور استحصال کا خاتمہ ہو گا وہاں عوام کو درپیش تمام مسائل حل ہوں گے اور روٹی، کپڑا، مکان، علاج، تعلیم جیسی تمام بنیادی سہولیات بھی ہرشخص کو ریاست کی جانب سے مفت فراہم کی جائیں گی۔صرف اسی ریاست میں انصاف کے تمام تقاضے بھی پورے کیے جا سکیں گے جب امیر اور غریب پر مبنی غیر منصفانہ نظام ختم ہو چکا ہوگا۔