|تحریر: ایسائس یاواری، ترجمہ: ولید خان|
اس ایک مہینے میں 230 سے زائد ہڑتالوں اور احتجاجوں نے ایران کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ نمایاں 11-13 دسمبر کو منظم ہونے والی اساتذہ کی ہڑتال تھی جس میں پورے ملک کے کئی سو شہروں میں بیسیوں ہزاروں اساتذہ نے شرکت کی۔ ملا ریاست نے ردِ عمل میں 200 سے زیادہ اساتذہ اور ٹریڈ یونین ممبران کو گرفتار کر لیا ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کیرں
اس دوران کان کنوں کی وقتاً فوقتاً ہڑتالیں بھی جاری ہیں اور یہاں تک کہ وارزاقان کاونٹی کی سانگون تانبا کانوں کے محنت کشوں نے کئی مہینوں مالکان کے لیت و لعل کے بعد بالآخر کانوں پر قبضہ کر لیا۔
یہ واقعات سال 2018ء سے جاری ہڑتالوں اور احتجاجوں کا ہی تسلسل ہیں۔ ملا ریاست کے جبر سے ڈرنے کے بجائے محنت کش مسلسل زیادہ بے باک اور نڈر ہو رہے ہیں جبکہ ریاست کا بحران مسلسل شدت اختیار کر رہا ہے۔
اساتذہ کی ملک گیر ہڑتال
موسمِ خزاں کے آغاز سے اب تک مخصوص مدتِ ملازمت پر اساتذہ اب تک کم از کم چھ ملک گیر ہڑتالیں منظم کر چکے ہیں۔ یہ ہڑتالیں خودرو تھیں جن کے مطالبات کم از کم معیاری اجرت، مستقل روزگار، کورونا وباء کے حوالے سے حفاظتی اقدامات اور مفت تعلیم تھے۔
https://www.instagram.com/p/CXa7LmiKH-2/?utm_source=ig_embed&ig_rid=9c523039-94f7-47b8-9dd3-5d02960373ae
آخر کار یہ احتجاج کوآرڈینیشن کونسل آف ایرانی ٹیچرز ٹریڈ یونین کی کنفیڈریشن کی قیادت میں متحد ہو گئے جس نے عام اساتذہ اور سب سے زیادہ سرگرم ٹریڈ یونین ممبران کو منظم کیا جن میں ریاستی آشیرباد میں موجود ٹریڈ یونینز کے بھی کچھ ممبران شامل تھے اور مطالبات کا ایک مشترکہ پروگرام تشکیل دیا۔
1۔ تنخواہیں ایک یونیورسٹی لکچرار کی تنخواہ کا 80 فیصد۔
2۔ تمام اساتذہ کے لئے یکساں تنخواہ اور تمام نئے اساتذہ کے لئے کم از کم معیاری اجرت۔
3۔ تمام اشیائے ضرورت کی فراہمی، جن میں تمام اساتذہ اور طلبہ کے لئے موبائل فون، کمپیوٹر اور مفت انٹرنیٹ شامل ہیں۔
4۔ غیر ادا شدہ پنشن کی افراطِ زر کی مناسبت سے فوری ادائیگی۔
5۔ تعلیم کی نجکاری کا خاتمہ۔
6۔ تمام قید اساتذہ کی رہائی اور بلیک لسٹ کئے گئے اساتذہ کی نوکریوں پر دوبارہ واپسی۔
حکومت نے ان تمام مطالبات کو نظر انداز کرتے ہوئے اگلے سال کے لئے خوفناک جبری کٹوتیوں سے بھرا بجٹ پیش کیا ہے اور اس کے ردِ عمل میں کوآرڈینیشن کونسل نے پارلیمنٹ کے اگلے سیشن کے دوران ایک ہڑتال کی کال دی۔ ان کی ریلیوں اور دھرنوں میں ”اساتذہ جاگ رہے ہیں اور امتیاز سے نفرت کرتے ہیں“ اور ”کم از کم معیاری اجرت، ہڑتال، اکٹھ اور منظم ہونا آفاقی حقوق ہیں!“ نمایاں نعرے تھے۔
فوری طور پر 43 مزدور تنظیموں نے اساتذہ کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کی۔ ریاست کوآرڈینیشن کونسل کو پہلے برداشت کر رہی تھی لیکن اس مرتبہ اس نے تیزی کے ساتھ کریک ڈاؤن کرتے ہوئے نمایاں کارکنوں کو گرفتار کر لیا۔ ہڑتال کے دوران 100 سے زیادہ گرفتاریوں کی مستند اطلاعات موصول ہوئی ہیں اور ان پر نقصِ عامہ کا الزام لگایا گیا ہے۔
ان اقدامات سے اساتذہ اور بھی زیادہ مشتعل ہو گئے اور کونسل نے ہڑتال کو 13 تاریخ تک جاری رکھنے کی کال دے دی۔ تمام اساتذہ اس کال پر متحرک ہو گئے۔ صرف اصفہان کی ایک ریلی میں 10 ہزار سے زیادہ اساتذہ نے شرکت کی۔ ریلی کے نعرے ”گرفتار اساتذہ کو رہا کرو“ اور”اساتذہ کی جگہ جیل نہیں ہے“ تھے۔ تہران میں پارلیمنٹ کے باہر ہزاروں اساتذہ نے ریلی کی جن کا راستہ سیکورٹی فورسز نے روک لیا۔ احتجاجی ”بے شرم! بے شرم! بے شرم!“ کے نعرے لگا رہے تھے۔
ملا ریاست درست طور پر کوآرڈینیشن کونسل سے ڈر رہی ہے۔ حالیہ ہڑتال سال 2018ء سے جاری طبقاتی جدوجہد کی سب سے بہترین منظم ملک گیر ہڑتال تھی۔ جولائی-اگست 2021ء میں پیٹرلیم کے محنت کشوں کی ہونے والی ملک گیر ہڑتال خودرو پھیلی اور اس کے برعکس اساتذہ کی کوآرڈینیشن کونسل نے پورے ملک میں پہلے کمپئین کر کے اساتذہ کی حمایت کو جیتا اور ان میں ریاستی آشیرباد میں موجود محنت کش تنظیموں کے ممبران بھی شامل تھے۔
https://www.instagram.com/p/CXanDG3qeqN/?utm_source=ig_embed&ig_rid=a4334ae3-757d-4363-9823-a8eba1351fb3
بڑھتی ایرانی محنت کش تحریک کے لئے آگے بڑھنے کا یہی راستہ ہے۔ مستقبل کی تمام جدوجہد کو کامیاب کرنے کے لئے پورے محنت کش طبقے کو منظم کرتے ہوئے ملا ریاست کے خلاف متحرک ہونا ہو گا۔ تنہائی میں ملا ریاست ہمیشہ آزاد محنت کش تنظیموں پر جبر کرتی رہے گی اور نمایاں قیادت کو گرفتار کرتی رہے گی۔
اگرچہ کوآرڈینیشن کونسل مسلسل دعویٰ کر رہی ہے کہ وہ غیر سیاسی ہیں اور سیاسی مطالبات کی ان کی ریلیوں میں کوئی جگہ نہیں ہے، اس سے اسلامی جمہوریہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جہاں تک ملا ریاست کا معاملہ ہے، صرف معاشی جدوجہد بھی ان کی بقاء کے لئے خطرہ ہے۔
سانگون وارزاقان کانوں پر قبضہ
ایران کی سب سے بڑی تانبا کان مشرقی آزربائیجان صوبے کی وارزاقان کاونٹی میں سانگون کی جگہ پر واقع ہے۔ 4 دسمبر کو ہڑتال پر جانے والی یہ کان ملک کی تانبا پیداوار کا 20 فیصد حصہ ہے۔ 5-8 اکتوبر اور 13-20 نومبر کی ہڑتالوں میں کئے گئے ریاستی وعدوں پر کئی مہینے عمل درآمد کا انتظار کرنے کے بعد یہ ہڑتال منظم کی گئی۔
مطالبات میں غیر ادا شدہ تنخواہوں کی ادائیگی، انشورنس کا دوبارہ اجراء، کنٹریکٹ اور براہِ راست برسرِ روزگار مزدوروں کے درمیان امتیاز کا خاتمہ اور تمام جبری برطرفیوں کا خاتمہ شامل ہیں۔ اس کے برعکس مالکان کا تعلق پاسدارانِ انقلاب سے ہے اور انہوں نے مطالبات پر عمل کرنے کے بجائے ان چند مہینوں میں 60 سرگرم محنت کشوں کو بلیک لسٹ کر دیا ہے اور تین کو ”نقصِ امن“ میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔
2 دسمبر کو محنت کشوں نے منیجروں کو آفس میں آنے سے روک دیا اور احتجاج کئے۔ حالات گھمبیر ہوتے چلے گئے اور ایک وقت آنے پر جب واضح ہو گیا کہ کوئی ایک کیا گیا وعدہ پورا نہیں ہو گا تو ہڑتال دوبارہ شروع کر دی گئی۔
4 دسمبر کو 2 ہزار کان کنوں نے۔۔تقریباً نصف سے زیادہ فورس۔۔کانوں تک مارچ کرتے ہوئے سڑکوں کو ٹرکوں اور مشینری سے بلاک کر دیا۔ فوری طور پر کان کنوں نے اپنی ہڑتالی کمیٹی دوبارہ سے منظم کر لی کیونکہ انہیں اسلامی ورکرز کونسل پر کوئی اعتبار نہیں تھا۔ ہڑتالی کمیٹی نے 1 ہزار محنت کشوں کو کانوں پر قبضہ کرنے کی کال دی کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ دیگر حالیہ ہڑتالوں کی طرح اس ہڑتال کو توڑنے کے لئے بھی سیکورٹی فورسز کو طلب کر لیا جائے گا۔ کان کن درست ثابت ہوئے۔ 10 دسمبر کو بغاوت کش فورسز نے کانوں کا گھیراؤ کر کے عملی طور پر ناکہ بندی شروع کر دی۔
https://www.instagram.com/p/CXD26fEqIyT/?utm_source=ig_embed&ig_rid=20847cb0-b3e4-46c0-87a9-847ab84c1f41
اسلامی ٹریڈ یونین نے قبضے کو ”شدید ردِ عمل“ قرار دیا اور ”صبر“ کی اپیل کرتے ہوئے سیکورٹی فورسز اور محنت کشوں کے درمیان مذاکرات کا مطالبہ کر دیا۔ ہڑتالی کمیٹی نے جواب دیا کہ ”ریاست اور امراء متحد ہیں، اسلامی ٹریڈ یونین ان کی ملازم ہے۔ جب تک ہم سے کئے گئے وعدے پورے نہیں کئے جاتے، مذاکرات نہیں ہوں گے“۔
چند مہینوں میں سانگون کے کان کنوں کا شعور معیاری جستوں سے آگے بڑھا ہے! اکتوبر ہڑتال پر اسلامی محنت کش کونسل حاوی تھی لیکن دو مہینوں بعد محنت کشوں نے اس کونسل کو رد کر دیا ہے۔
اس جنگجوانہ سرگرمی کے باوجود تنہائی کا شکارکان کنوں کا قبضہ 12 دسمبر کو ختم کرنا پڑ گیا۔ اس کے بعد گرفتاریوں اور جبری برطرفیوں کا ایک طوفان برپاء کر دیا گیا۔ اب تک متاثر ہونے والے محنت کشوں کی تعداد کا کچھ اندازہ نہیں ہے۔
خوزیستان پیٹرولیم کے محنت کش
جولائی-اگست میں منظم ہونے والی ملک گیر ہڑتال کے خاتمے کے بعد پیٹرولیم کے محنت کشوں کی ہڑتالیں اور احتجاج مسلسل ہو رہے ہیں۔ اس ہڑتال کی قیادت محنت کش کونسل منظم کر رہی تھی جس نے ایک ہڑتالی کمیٹی منظم کرنے کی کال دی تاکہ ریاستی سرپرستی میں منظم محنت کش تنظیموں سے آزادی حاصل کی جا سکے۔
آزاد ہڑتالی کمیٹی کی موجودگی کے باوجود ریاست وزارتِ توانائی اور اسلامی ورکرز تنظیموں کے ذریعے کنفیوژن پھیلانے میں کامیاب رہی اور بلآخر ملک گیر ہڑتال ختم ہو گئی۔ ستمبر تک ہڑتال خوزیستان، ابادان، ماہ شہر، اسالویہ اور بوشہر میں چند ایک کام کی جگہوں تک محدود ہو گئی۔
محنت کشوں کی بڑھتی پرتوں کو احساس ہونا شروع ہو گیا کہ ملا ریاست کے دعوے دھوکہ ہیں۔ خوزیستان میں ایک روزہ احتجاج اور ہڑتالیں جاری ہیں جن کے مطالبات میں غیر ادا شدہ اجرتوں کی ادائیگی، انشورنس کا دوبارہ اجراح، مستقل روزگار، بلیک لسٹ محنت کشوں کی نوکریوں پر واپسی، ہر مہینہ 20 دن کام کے بعد 10 چھٹی اور کم از کم تنخواہ 1 کروڑ 20 لاکھ تومن ہیں۔ یہ تمام مطالبات ملک گیر ہڑتال کے بعد سامنے آئے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابھی بھی منتظم کونسلوں کا بے پناہ اثرورسوخ اور اتھارٹی موجود ہے۔
اس کے ساتھ ریاست نے ملک گیر ہڑتال کے خاتمے کو استعمال کرتے ہوئے ریڈیکل مزدوروں کو بلیک لسٹ اور گرفتار کیا جن میں خاص طور پر منتظم کونسل سے منسلک مزدور شامل تھے۔ منتظم کمیٹی کے اثرورسوخ سے خوفزدہ ریاست نے محنت کشوں پر اسلامی ورکرز کونسل مسلط کرنے کی کوشش کی جس کا جواب بائی کاٹ سے دیا گیا۔ اِلام میں ہزاروں پیٹرولیم محنت کشوں میں سے صرف 113 نے نئی کمیٹی میں شمولیت اختیار کی جس کے بعد ریاست کو شرمناک پسپائی اختیار کرنی پڑی۔
https://www.instagram.com/p/CW-uK6JqS7N/?utm_source=ig_embed&ig_rid=63c2bdff-6f0d-4825-80b9-a7aae82d3595
پیٹرولیم محنت کشوں کی نئی ملک گیر ہڑتال پھوٹنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ انتہائی ضروری ہے کہ پیٹرولیم محنت کش اپنی جدوجہد میں دیگر محنت کش طبقے کے ساتھ منظم ہو کر اپنے مشترکہ دشمن سرمایہ داروں کے خلاف صف آراء ہوں۔
اسلامی جمہوریہ کا دیوالیہ!
پچھلے تین سالوں سے اسلامی جموریہ کو تاریخی ہڑتالوں، احتجاجوں، حتیٰ کہ تین بغاوتوں کا سامنا کر نا پڑا ہے۔ پھر جولائی 2021ء کے صدارتی انتخابات کو دیو ہیکل بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ تمام صورتحال سماج میں تیزی سے پنپنے والی انقلابی قوت کا واضح اظہار ہے۔
لیکن تحریک کو ایک شدید مسئلے کا سامنا ہے۔۔ایک بے باک انقلابی قیادت کا فقدان۔ محنت کشوں کی آزاد ملک گیر تنظیموں کی عدم موجودگی میں ان انقلابی تحریکوں کا تنہاء رہ جانا ناگزیر تھا اور انہیں تیزی کے ساتھ دبا دیا گیا۔
ریاست انقلابی قیادت کی کمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے محنت کشوں میں کنفیوژن پھیلانے میں کامیاب رہی ہے جس کے لئے خاص طور پر ریاستی ورکرز تنظیموں کو استعمال کیا گیا ہے۔
لیکن ریاست کو امریکی قیادت میں لگی عالمی معاشی و سیاسی پابندیوں نے دیوار سے لگا رکھا ہے اور مذاکرات کا کوئی فوری نتیجہ بھی نکلتا دکھائی نہیں دے رہا۔ قومی یکجہتی اور اسلام کی اپیلیں عرضہ دراز سے بے معنی اور بے اثر ہو چکی ہیں۔ پھر ریاست مسلسل کرنسی چھاپ کر بجٹ خسارہ بھی پورا نہیں کر سکتی جبکہ افراطِ زر 60 فیصد سے زیادہ ہو چکا ہے۔
حکومت نے اگلے ایرانی سال (مارچ 2021ء-مارچ 2022ء) کے لئے جبری کٹوتیوں سے بھرپور بجٹ پیش کیا ہے جس میں پچھلے بجٹ کے مقابلے میں 18 فیصد کمی کی گئی ہے۔ ریاست کے پاس غیر ملکی کرنسی تیزی سے ختم ہو رہی ہے، بنیادی اشیائے ضرورت کی درآمدات پر سبسڈی آدھی کر دی جائے گی اور افراطِ زر کے مزید نئے ریکارڈ بننے کے امکانات واضح ہیں۔ دیہی علاقوں میں کم از کم اجرت ختم کر دی جائے گی۔ یہ واضح ہے کہ یہ بجٹ محنت کش طبقے پر کاری حملہ ہے۔
جبری کٹوتیوں کے علاوہ حکومتی خسارے کو ٹیکسوں میں 63 فیصد اضافے اور نجکاریوں کے ذریعے ختم کیا جائے گا۔ سرمایہ دار ٹیکس نہیں دیں گے کیونکہ پہلے ہی سالانہ ٹیکس چوری 100 ہزار ارب تومن یعنی ریاستی بجٹ کا ایک تہائی ہے۔ درحقیقت یہ ٹیکس بھی غربت کی چکی میں پستا متوسط طبقہ، محنت کش اور کسان ادا کرے گا۔
ایرانی عوام پہلے ہی دائمی بھوک کے دہانے پر کھڑی ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق بھی دو تہائی عوام خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ابھی سے 30 ٹریڈ یونینز بجٹ کے خلاف ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کر چکی ہیں جس میں انہوں نے الزام لگایا ہے کہ یہ بجٹ ”محنت کو مزید سستا کرنے اور محنت کش طبقے اور دیگر غریب عوام کا مزید خون نچوڑنے کی کوشش ہے تاکہ خون خوار سرمایہ داروں کو خوراک دی جا سکے“۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ”خاموش نہیں رہیں گے (اگر بجٹ منظور ہوتا ہے)“۔
ریاست کو اچھی طرح پتہ ہے کہ اُفق پر سماجی بغاوت کے بادل منڈلا رہے ہیں اور وہ حسب ضرورت تیاریاں کر رہے ہیں۔ پاسدارانِ انقلاب (درحقیقت ردِ انقلاب) کی فنڈنگ میں دگنا اضافہ ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ سویلین پولیس کو از سرِ نو منظم کیا جا رہا ہے اور پاسداران اور بسیج (پیراملٹری فورس) کو پولیس میں شامل کیا جا رہا ہے۔
یہ سب اقدامات ناگزیر طبقاتی جنگ کی تیاری کے لیے کیے جا رہے ہیں کیونکہ ریاست کو پتہ ہے کہ عوام کو سوائے تباہی و بربادی کے اور کچھ نہیں دیا جا سکتا۔
محنت کش طبقے کے لئے بھی اب لازم ہو چکا ہے کہ وہ سیاسی تیاریاں کرتے ہوئے اپنی تنظیموں کو تعمیر کریں۔ ملک گیر اساتذہ کی ہڑتال آغاز ہے۔ مستقبل قریب میں ریاست کے نئے حملوں کا جواب ملک گیر بغاوتوں اور ایک عام ہڑتال کی شکل میں ہو گا۔
ایک قومی ورکرز تنظیم زندہ باد!
سال 2018ء سے اب تک چار عوامی بغاوتیں ہو چکی ہیں اور چاروں ناکام ہوئی ہیں۔ حالیہ بغاوت اگست میں خوزیستان میں شروع ہوئی تھی اور پورے ملک میں دیو ہیکل یکجہتی کے باوجود اسے کچل دیا گیا۔ 25-26 نومبر کو اصفہان میں کسانوں کے احتجاج پورے ملک میں محنت کشوں (خاص طور پر نوجوان) اور کئی محنت کش تنظیموں میں بڑھتی حمایت کے ساتھ تیزی سے بغاوت کی جانب بڑھ رہے تھے۔ لیکن احتجاجوں کی قیادت موجود نہیں تھی اور اس لئے ریاست نے تیزی کے ساتھ تحریک کو کچلتے ہوئے 300 سے زیادہ مظاہرین کو گرفتار کر لیا۔
ریاست کو مکمل طور پر ادراک ہے کہ اس کی ساکھ تقریباً ملیا میٹ ہو چکی ہے اور وہ محنت کش قیادت کی عدم موجودگی اور ہولناک جبر کے ذریعے اقتدار پر قابض ہے۔ ظاہر ہے کہ 40 سال کی خونخوار آمریت نے بھی محنت کش قیادت کو پنپنے نہیں دیا لیکن آزاد ورکرز تنظیمیں اور کمپئینز تیزی سے پورے ملک میں پھیل رہی ہیں۔
ایرانی اساتذہ کی کوآرڈینیشن کونسل کی قیادت میں ملک گیر سطح پر پھیلنا اور خوزیستان پیٹرولیم کے محنت کشوں کا ریاستی لیبر تنظیم کو رد کرنا دیو ہیکل تبدیلیاں ہیں۔ اگرچہ کسی بھی قسم کے معاشی مطالبات کے حصول کے لئے یہ تبدیلیاں موجودہ صورتحال میں اہم ہیں لیکن ملا ریاست کے خلاف ایک منظم سیاسی جدوجہد کے لئے پورے محنت کش طبقے کی متحد تحریک اس وقت لازم ہو چکی ہے۔
ابھی سے پورے ملک میں بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔ ایران میں اس انقلابی امکان کو مکمل ہونے کے لئے لازم ہے کہ بکھری ہڑتالوں اور احتجاجوں سے ایک قیادت تخلیق کی جائے جو ایک عمومی مطالبات کے پروگرام پر پورے ملک کے محنت کشوں کو ایک عوامی تحریک میں متحد کر ے۔
ایسے پروگرام میں عمومی معاشی مطالبات ہوں گے جیسے تمام جبری کٹوتیوں کا خاتمہ، افراطِ زر کی مناسبت سے کم از کم اجرت اور پنشن، ملک کے تباہ حال انفراسٹرکچر کی از سرِ نو تعمیر اور مرمت کے لئے ایک وسیع تر عوامی پروگرام، تمام نجی ملکیت میں بیچے گئے عوامی اثاثوں کی محنت کش طبقے کے کنٹرول میں بحالی اور محنت کشوں کے کنٹرول میں مرکزیت پر مبنی منصوبہ بند معیشت کا آغاز وغیرہ۔ اس میں ساتھ ہی سیاسی مطالبات بھی شامل ہونے چاہئیں جن میں ہڑتال، احتجاج اور اکٹھ کا حق اور اسلامی جمہوریہ کا خاتمہ شامل ہو۔
اس پروگرام کی جدوجہد کے لئے ایک قیادت کے تخلیق ہونے تک ہڑتالیں اور احتجاج ایسے ہی کھوکھلے وعدوں کے دھوکے میں یا جبر کا شکار ہو کر ختم ہوتے رہیں گے لیکن یہ ہر بار پہلے سے زیادہ بڑے اور تندوتیز ہو کر ابھریں گے۔
ایرانی محنت کش طبقے نے بارہا اپنی تنظیمیں تعمیر کی ہیں اور آج وہ ایک مرتبہ پھر یہ تاریخی فریضہ سرانجام دے رہا ہے۔ مستقبل میں ایک حقیقی ایرانی انقلاب کی قیادت کے لئے ایک قومی قیادت کی تخلیق ہی ایرانی سرمایہ داری اور اس کی ریاست، اسلامی جمہوریہ، کی اینٹ سے اینٹ بجا سکتی ہے۔