|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ،بلوچستان|
نیشنل بینک آف پاکستان جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے زیراہتمام کوئٹہ پریس کلب کے سامنے نیشنل بینک کی مجوزہ نجکاری کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین نے بینرز اور پلے کارڈ اٹھارکھے تھے جن پر مختلف نعرے اور مطالبات درج تھے۔
مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے محمد اسلم ترین،منان آغا اور محمد علی خجک نے کہا کہ منافع بخش نیشنل بینک آف پاکستان کو بھی اسٹیل ملز اور پی آئی اے کی طرح تباہ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں جس کی نیشنل بینک آف پاکستان جوائنٹ ایکشن کمیٹی کسی بھی صورت میں اجازت نہیں دے گی۔ انہوں نے کہا کہ تبدیلی سرکار کی جانب سے نیشنل بینک میں سیاسی بنیادوں پر لوگوں کو بھرتی کیا جارہا ہے جو بنک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں جس کی ہم مذمت کرتے ہیں۔
تبدیلی سرکار نے اقتدار میں آنے سے قبل عوام سے جو وعدے کیے تھے انہیں پورا کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ نیشنل بینک آف پاکستان میں کنٹریکٹ اور آؤٹ سورس ملازمین کافی عرصے سے کام کررہے ہیں جنہیں مستقل نہیں کیا جارہا ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ کنٹریکٹ اور آؤٹ سورس ملازمین کو فوری طور پر مستقل کیا جائے۔ مزید برآں، ان کا کہنا تھا کہ سینیارٹی کی بنیاد پر پروموشن اور پے پیکج کا اعلان،2019ء اپریزل دیا جائے اور ایم ٹی او اور نان ایم ٹی اوکو فوری طور پر عدالت عالیہ کے فیصلے کے مطابق انکریز دیا جائے۔ صدر نیشنل بینک آف پاکستان خصوصی توجہ دیتے ہوئے پنشنرز کے دیرینہ مسائل کے حل کیلئے فوری اقدامات کریں اور 70فیصد پنشن کو بحال کرنے کے احکامات جاری کریں۔ پے پیکج کا اعلان، پروموشن پالیسی اور پرافٹ بونس کا جلد از جلد اجراء کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ نیشنل بنک آف پاکستان ایک منافع بخش ادارہ ہے جس کی تبدیلی سرکار آئی ایم ایف کے کہنے پر نجکاری کرنے کی طرف جارہی ہے اور دانستہ طور پر ادارے کو خسارے میں دکھایا جارہا ہے۔ ملازمین ادارے کو تباہ کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دیں گے۔ اگر ملازمین کے مسائل حل کرنے کیلئے فوری اقدامات نہیں کیے گئے تو ہم مزید سخت احتجاج پر مجبورہونگے۔
ریڈ ورکرز فرنٹ نیشنل بینک آف پاکستان کے ملازمین کے مطالبات کی غیر مشروط حمایت کرتا ہے اور مذکورہ ادارے کی سامراجی اداروں کے احکامات پر غلام تبدیلی سرکار کی جانب سے نجکاری کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے، اور ہم سمجھتے ہیں کہ نجکاری کیخلاف ملک بھر کے محنت کشوں کو ایک منظم لڑائی لڑنا ہوگی جس کا آغاز ایک ملک گیر عام ہڑتال سے کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔