[تحریر: ناصرہ وائیں]
اس وقت ہمیں پاکستان میں ایسی بہت سی تنظیمیں نظر آتی ہیں جو کہ عورتوں کے حقوق کے لئے آواز بلند کرتی ہیں۔ یہ عورت کے عالمی دن کے موقع پر خوب ہلا گلا کریں گی۔ پروگرام منعقد کئے جائیں گے۔ تقریریں ہوں گی۔ عورت کو مظلوم اور مجبور کہا جائے گا اور اس کی آزادی کی بات کی جائے گی۔ عورت کا آزاد ہونا اچھی بات ہے۔ لیکن آزادی ہے کیا یہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ان تنظیموں میں شامل لوگ عورت کی آزادی کے بارے میں نہایت ہی تنگ نظر ہیں۔ ان کے آزادی کے بارے میں خیالات خود ایک چھوٹے سے دائرے میں قید ہیں۔ یہ دائرہ عورت کے کم کپڑوں اور اس کے مردوں سے آزادانہ میل جول ہی کو آزادی قرار دیتا ہے۔ اگر ذرا سا اور کریدا جائے تو یہ عورت کو اپنے جسم کو بیچنے کا ’’حق‘‘ دلوانے کی بات بھی کرتے پائے جاتے ہیں۔ یہ جسم کی اس صلاحیت کو بطور ایک شے کے، بیچنے کی حیثیت سے منڈی میں رکھنے کی بات کرتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ جو کہ سرمایہ دارانہ میڈیا اور ان کے سماج کے دیئے گئے معیار کی وجہ سے اس کے چلائے گئے اشتہارات، اس کے فیشن شوز، کیٹ واکس، فلموں‘ ڈراموں اور فلیکس بورڈز وغیرہ پر عورت کے جسم کے خاص حصوں کی نمائش کی وجہ سے۔ ۔ ۔ ۔ مرد کے لئے پہلے سے کہیں زیادہ پر کشش ہو گئی ہے۔
اب سرمایہ دار کے پاس موقع ہے کہ ایک طرف تو اس کشش کو استعمال کرتے ہوئے اپنی پراڈکٹس بنائے، بیچے اور خریداروں کو ان عورتوں کا جسم دکھا دکھا کر ان مصنوعات کو خریدنے کی طرف راغب کرے جو کہ اس جنسی کشش کی تسکین سے متعلق بنائی جاتی ہیں۔ اس میں پرفیومز، بال اتارنا، بالوں کی وِگیں، بال لگانا، قد لمبا کرنا، وزن کم کرنا، وزن زیادہ کرنا، جسم کے چند مخصوص حصوں کو بڑا کرنے کی مصنوعات، پھر انہی کو چھوٹا کرنے یا دکھانے کی مصنوعات، رنگ گورا کرنے کی اور گورے رنگ کو Tan کرنے کی مصنوعات، ہر طرح کے رنگ کے اپنے میک اپ، اور ہر رنگ کو تبدیل کرنے کی مصنوعات، گھنگریالے بالوں کو سیدھا کرنے کی اور سیدھے بال ہوں تو ان کو گھنگریالا بنانے کی برقی اور کریمی مصنوعات، انہی کو لے کر چلتے جائیں، سوچتے جائیں؛ کھانے کی گولیاں، پینے کے طرح طرح کے جوشاندے اور قہوے، پہننے کو طرح طرح کے گیجٹ، انجکشن اور جانے کیا کیا شامل ہے جو کہ منافعے دے رہا ہے۔ دوسرے وہ اپنے سے نچلے طبقے کو ہمیشہ اس احساس میں مبتلا رکھتا ہے کہ وہ کمتر ہیں، پیدا ہی محکوم رہنے کے لئے ہوئے ہیں اور ایک طرف تو ہم غریب ہیں، دوسرے بدصورت بھی، اس لئے حکمران طبقے کا یہ خداداد حق ہے کہ وہ حکومت کرے۔
سرمایہ دار عورت کی آزادی کو بھی استعمال کرتا ہے۔ وہ اس طرح بے شمار مصنوعات بیچنے کے قابل بھی ہو جاتا ہے دوسری طرف اس کی وہ بیگمات جو کہ اپنے جسموں پر منوں کے حساب سے چربی کی تہیں چڑھائے بیٹھی ہیں سوشل ہو جاتی ہیں انہیں کچھ کرنے کو بھی مل جاتا ہے اور انہیں اپنا بھدا پن دکھانے، بیگانگی دور کرنے اورکتھارسس کرنے کاموقع بھی مل جاتا ہے۔ تیسری طرف ان کے اس خیال کے عام کرنے سے کہ عورت کو ’’آزاد‘‘ ہونا چاہیئے، اسے حق ملنا چاہیئے کہ وہ اپنے جسم کی نمائش کر سکے، اور جب اسے ضرورت ہو اسے بطور ایک ’’باعزت‘‘ کاروباربیچ سکے، سرمایہ دار کو اپنی ہوس مٹانے کے لئے آسان شکار مل جاتے ہیں۔ کیوں کہ اگر غریب طبقے کی عورت کو یہ سمجھا دیا جائے کہ جسم فروشی ان کا حق ہے اور یہ ایک نہایت ہی آسان اور باعزت کاروبار ہے تو بھی ان کی جوانیوں سے لطف اندوز ہونے کا ’’حق‘‘ خود اسی کو مل سکے گا جس کے پاس دولت ہے۔ یعنی گھوم پھر کر بات پھر وہیں آجائے گی کہ سرمایہ دار کے بچے سڑکوں سے محنت کشوں کی بچیوں کو گاڑیوں میں بٹھا کر لے جاتے رہیں گے اور ان کے چاہنے والے غریب محنت کشوں کے بچے خود کشیاں کرتے رہیں گے۔
ظاہر ہے کہ سرمایہ داری کے نظام میں محنت کش بچیوں کے آئیڈیل حکمران طبقے کے بچے ہی ہو سکتے ہیں، ان کے اپنے طبقے کے جوان کسی قابل ہوں گے بھی تو بھی ان کو اس قابل ہونے میں بہت زیادہ وقت لگ جاتا ہے، اور جب وہ کسی ’’قابل‘‘ ہو جاتے ہیں تو پھر ان کی نظریں بھی حکمران طبقے کی لڑکیوں پر ہی جاتی ہیں۔ اپنا طبقہ ان کو اس سے بھی زیادہ حقیر نظر آنے لگتا ہے جتنا کہ حکمران طبقے والوں کو نظر آتا ہے۔
ہمیں اس بات میں کوئی حیرت نہیں ہوتی کہ یہ لوگ عورت کی آزادی کے اس قدر خواہاں کیوں ہیں۔ ہمیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ یہ تنظیمیں عورت پر ہونے والے مظالم کی بات کرتی ہیں۔ یہ سو میں سے ایک عورت کے مسئلے کو اچھال کر میڈیا کی توجہ حاصل کرتی ہیں۔ یہ غیر سرکاری تنظیمیں، جو خود کو’’ سول سوسائٹی‘‘ سمجھتی ہیں، کی پالیسی بظاہر تو یہی نظر آتی ہے کہ ظلم کی شکار چند عورتوں کو علاج یا انصاف فراہم کیا جائے تو باقی مسائل اسی جادو کے زور سے حل ہو جائیں گے۔ اگر ذرا سا ان کے قریب جا کر دیکھا جائے تو ان کو کسی بھی مسئلے کے حل سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ ان لوگوں کو تو باہر سے اور دیگر ’’مخیر‘‘ لوگوں سے ملنے والی بھیک اور خیرات کو اپنے پیٹ میں اتارنے کا رستہ چاہیئے ہوتا ہے، جو کہ ظلم کے موجود ہونے کے کارن ان کو باآسانی دستیاب ہو جاتا ہے۔ اس ظلم کو اجاگر کرتے ہوئے ایک طرف تو یہ لوگ اس خیرات کا بڑا حصہ ہڑپ کر جاتے ہیں کہ ہم نے یہ کام کیا ہے، اور دوسری طرف عوام کی توجہ حکمران طبقے کی عیاشیوں اور بدقماشیوں کی طرف سے ہٹا دیتے ہیں، آخر یہ این جی اوز بھی تو حکمران طبقے ہی کے لوگ بناتے ہیں۔ یقین نہیں آتا تو ذرا غور سے ان لوگوں کی شکلیں اور ان کے لباس دیکھیں سمجھ آجائے گی کہ ان کا تعلق کس طبقے سے ہے۔
ہمارے اس طبقاتی سماج میں جہاں انسانوں کو طبقات میں تقسیم کر دیا گیا ہے وہاں عورتیں بھی انہی طبقات میں جی رہی ہیں۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمارے معاشرے کی ہر عورت ظلم و استحصال کا شکار ہے۔ بلکہ استحصال کا تعلق طبقے کے ساتھ ہے۔ عورت اگر حکمران طبقے سے تعلق رکھتی ہے تو اس کی حیثیت استحصال زدہ ہونے کے بجائے ان میں سے ہو گی جو کہ دوسروں کا استحصال کرتے ہیں۔ اگر یہ عورت یہاں کے سب سے بڑے سرمایہ دار کی بیٹی ہے تو وہ محنت کش طبقے کے کسی بھی شخص کو (جو کہ پہلے ہی استحصال کا شکار ہے) ظلم کا نشانہ بنا سکتی ہے۔ وہ اپنے باپ کی دولت کا سہارا لے کر میڈیکل کالج میں داخلہ لیتی ہے اور پھر اس ایڈونچر کا مزا لے کر اس سیٹ کو ضائع کر تے ہوئے چھوڑ دیتی ہے جو کہ محنت کش طبقے کی کسی عورت کے لئے زندگی اور موت کامسئلہ ہو سکتا تھا۔ وہ آدھی رات کو کسی بیکری میں جا کرمحنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے اس ملازم کو خود مارنے کے بعد بھی تسلی نہ ہونے پر، اپنے باڈی گارڈوں کے ہاتھوں پٹوا سکتی ہے جو کہ پہلے ہی پندرہ سولہ گھنٹے ڈیوٹی کر کے اپنے ’’ہونے‘‘ کو کوس رہا ہو گا۔ اس کے سامنے تمام قوانین ہیچ ہیں۔ وہ بغیر کسی تعلیم کے، بغیر کسی کوالیفِکیشن کے اربوں روپے کے قومی پروگرام کی سربراہ بن سکتی ہے۔ کیوں کہ اس کی سب سے بڑی کوالیفکیشن تو اس کا طبقہ ہے۔
یہ سرمایہ دار طبقہ دولت کمانے کے ذرائع پر قابض ہونے کی وجہ سے حکمران طبقہ ہے۔ اس طبقے کی عورت صرف یہ قانون بتانے پر بس کی کنڈیکٹر عورت کو جس کا تعلق محنت کش طبقے سے ہے، تھپڑوں سے مارتی اور گالیاں دیتی ہے کہ ڈھلان اترتے وقت پانی دینا قانون کے خلاف ہے۔ اس نے تھپڑ اس لئے مارے کہ اس تنخواہ دار محنت کش طبقے کو معلوم ہو جائے، کہ قانون صرف حکمران طبقے کی حفاظت کے لئے ہے۔ اس کنڈیکٹر عورت کا قصور یہ تھا کہ اس نے حکمران طبقے کی ’’عورت‘‘ کو قانون بتانے کی کوشش کی۔ دوسری طرف محنت کش طبقے کی ایک عورت اسی پاکستان میں محض اسی بنا پر اذیتیں دے کر قتل کر دی جاتی ہے کہ اس نے اپنے پر ہونے والی اجتماعی زیادتی کی رپورٹ درج کروائی تھی۔ کیوں کہ طبقاتی نظام میں انصاف ایسا ہی ہو سکتا ہے۔
دوسری طرف سرمایہ دار اپنے قبضے میں موجود پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کو بروئے کار لاتے ہوئے عورت کو محض ایک کموڈیٹی بنا دینے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ وہ ایک نمائشی گڑیا ہے جس کے جسم کے تمام اعضا کی پیمائش کر دی گئی ہے کہ اس کے جسم کے فلاں فلاں حصے کی پیمائش اگرفلاں فلاں اعداد کے مطابق ہے تو وہ حسین ہے وگرنہ وہ بدصورت ہے، لہٰذا اب اس کو سرمایہ دار کی بنائی گئی فلاں فلاں کموڈیٹی استعمال کرنا پڑے گی۔
یہ حسن کے مقابلے جیتنے والی ’’حسین‘‘ عورتیں کس طرح سے حسین بنتی ہیں۔ یہ کوئی ان سے ہی پوچھے۔ ان کو کیا کیا کھانا پڑتا ہے اور کیا کیا ان کو منع ہوتا ہے۔ دن میں کتنے گھنٹے، کون کون سی ورزش کرتی ہیں، کون سا پانی، کتنی مقدار میں پیتی ہیں، کتنے بجے سوتی ہیں اور کتنے بجے اٹھتی ہیں، کون کون سی گولی کھاتی ہیں کہ غریب محنت کش طبقے کی عورت کو ’’گولی کرا‘‘ سکیں کہ جس پراڈکٹ کا اشتہار ہم دے رہی ہیں ہمارا پیٹ محض اسی کے استعمال سے ایسا فِٹ اور ’’خوبصورت‘‘ نظر آرہا ہے۔
حقیقت میں یہ ’’حسینائیں‘‘ حقیقت اور زندگی سے بہت دور کہیں جادو کی دنیا میں ایک بھوت کی سی زندگی گزار رہی ہوتی ہیں جن کا حقیقی انسانی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ان کی روبوٹ نما زندگی ان کو سرمایہ دار کی ایک پیسہ کمانے کی مشین بنا دیتی ہے۔ ان کا کام بس ایک پراڈکٹ کو پکڑ کے اپنے دانتوں کی نمائش کرنے تک کا رہ جاتا ہے۔ باقی نتیجے لوگ خود ہی ان کا ’’خوبصورت‘‘ فگر دیکھ کر لگا لیتے ہیں۔ شاید اس نے یہ کریم لگائی ہے تو یہ سمارٹ ہو گئی ہے۔ ایشوریا رائے نے یہ والا شیمپو لگایا ہے شاید اسی لئے یہ اتنی سمارٹ اور خوبصورت ہے۔ حالاں کہ اسی ایشوریا کو جب اپنی بچی پیدا کرنے کے لئے چند ماہ تک ’’زندگی کے قریب ‘‘رہ کر زندگی گزارنا پڑی تو اس کی جو تصاویر منظر عام پر آئیں وہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان تصاویر میں یہ ملکہ ’’حسن‘‘ سرمایہ دار کے قائم کئے ہوئے معیار کے مطابق جنوبی ہندوستان کے کسی گاؤں کا مقابلہ حسن بھی نہ جیت سکتی۔ لیکن یہ لوگ دھوکا ہمارے محنت کش طبقے کی سیدھی سادی لڑکیوں اور عورتوں کو دیتے ہیں کہ آپ یہ والی جرابیں پہن لو تو آپ اس ’’ملکہ حسن‘‘ یا سپر ماڈل جیسی ہو جاؤ گی۔ یہ کوئی نہیں دیکھے گا کہ اس ملکہ ’’حسن‘‘ کے چوبیس گھنٹے کے دن میں سے چوبیس ہی اس کے ’’حسن‘‘ پر صرف ہوتے ہیں۔ اور اس کے باوجود اس کو حسین ’’نظر آنے‘‘ کے لئے بھی گھنٹوں کا میک اپ چاہیے ہوتا ہے، جس میں درجنوں میک اپ کے ماہرین کی ’’محنت‘‘ اسے حسین ’’دکھا‘‘ رہی ہوتی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ یہ ’’حسن‘‘صرف ظاہر تک ہی محدود ہے۔ اس کے اندر کی ماہیت اپنے اندر سرمایہ داری کی تمام تر گندگی چھپائے ہوئے ہے۔ اگر ظاہر کو دیکھتے ہوئے اس مظہر کے اندر جھانک کر اس کے جوہر پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہو گا کہ محنت کش طبقے کی بہت سی محرومیاں آج کے دور میں اسی ایک مظہر سے جڑی ہیں، جس کو یہ ’’خوبصورت‘‘ بطور خوبصورتی پیش کر رہے ہیں۔ اس ’’خوبصورتی‘‘ کو ’’کامیابی کا راز‘‘بتا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ محنت کش طبقے کی عورتوں کی بیشتر آمدنی اسی ’’کامیابی‘‘ کے حصول پر خرچ بھی ہوتی ہے، اور ان کے آمدنی کے حصول کی وجہ بھی یہی ہے، اور آج کے دور میں ہماری تنخواہ دار عورتوں کے عمومی اور جنسی استحصال کی ایک وجہ اس ’’کامیابی‘‘ کا حصول بھی ہے۔ دوسری طرف حکمران طبقے سے تعلق رکھنے والی ’’بد صورت‘‘ عورت کا تمام’’ بھدا پن‘‘ اس کے باپ وغیرہ کی دولت کی آڑ میں چھپ جاتا ہے اور معیار حسن کا پیمانہ اس کے باپ کی دولت ہی ہوتا ہے۔
محنت کش طبقے کی عورتوں کو محض گھریلو ملازمہ کے درجے تک رکھنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ تعلیم حاصل نہیں کر سکتیں کیونکہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد سیاسی وسماجی شعور اس میں اپنے حقوق وفرائض کا احساس اجاگر کرتا ہے۔ وہ اپنے فرائض کے بدلے اپنے حقوق کا مطالبہ نہ کردے۔ اس لئے اس کو گھر داری تک محدود کردیا جاتا ہے اور ایسا کرنے میں اس طبقے کی عورت کا بلاشبہ دوہرا استحصال ہوتا ہے۔ حاکم طبقہ بھی نہیں چاہتا کہ یہ عورت ایک حد سے زیادہ تعلیم حاصل کرے، اور خود محنت کش طبقہ بھی اسے تعلیم دلوانے سے گریز کرتا ہی نظر آتا ہے، اور اس استحصال کے کرنے میں صرف مرد ہی نہیں بلکہ عورتیں بھی شامل ہیں جو کہ خود عورت کا استحصال کرتی نظر آتی ہیں۔ اس طرح ہمارے اس سماج میں جہاں بھی دیکھیں عورت زنجیروں میں جکڑی ہی نظر آتی ہے۔ ہمارے امیر ترین آدمیوں کی بیٹیاں بھی ہمیں اس وقت غلام ہی نظر آتی ہیں، جب ان کو اس طرح سے بیاہ دیا جاتا ہے کہ خاندان کے کسی اور امیر تر خاندان سے تعلق جوڑنے کی خاطر اس کو ایک دولت مند کے ایسے حرم میں داخل کر دیا جاتا ہے، جہاں پہلے ہی کئی عورتیں موجود ہوتی ہیں۔
لیکن عورت جس قیدوبند کے ماحول میں رہتی ہے وہ اس کا احساس تک نہیں کر پاتی۔ زمانہ قدیم میں غلام یہی سمجھتے تھے کہ بس سارا کچھ اسی طرح سے ہے۔ وہ پیدا ہی غلام ہوئے ہیں، مرنا بھی غلام ہی ہے یہی قدرت کا لکھا ہے، یہی عدل ہے اور یہی فطری ہے۔ درحقیقت ہم جہاں رہ رہے ہوتے ہیں ہم اسی کے مطابق اپنے شعور کو ڈھال لیتے ہیں۔ شعور اس سماج کے باہر جا کر نہیں سوچ سکتاجہاں وہ متعین ہوا ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ عورت میں یہ’’سُپر ایگو‘‘ پیدا ہو جاتی ہے۔ ہمارا موجودہ سماج عورت کو دبا کر رکھنا چاہتا ہے۔ کہیں لڑکیوں کو تعلیم سے روکنے کے لئے تعلیمی اداروں کو مسمار کر دیا جاتا ہے تو کہیں غیرت کے نام پر اس کا سودا کیا جاتا ہے اور کہیں قتل کر دیا جاتا ہے۔ کہیں اس پر تیزاب پھینکا جاتا ہے، بازاروں میں برہنہ گھمایا جاتا ہے اور کہیں اجتماعی زیادتی کا نشانہ سماجی انصاف کے ایک ادارے، یعنی پنچائیت کے حکم پر بنایا جاتا ہے۔ اس نظام میں عورت کے ساتھ یہی کچھ ہو تا رہے گا۔ سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے عورت کے لئے آزادی محض ایک سپنا ہے جسے وہ پینی لوپؔ کی طرح روز بُنتی ہے اور پھر اسے خود ہی ادھیڑ دیتی ہے۔
عورت کی نجات صرف اور صرف ایسے نظام معیشت ہی میں ہو سکتی ہے، جس میں اس کو معاشی برابری حاصل ہو، جہاں اس کو یکساں روزگار کے مواقع حاصل ہوں، جہاں وہ بغیر کسی روک ٹوک کے پڑھ سکے، لکھ سکے، اپنی شخصیت کو اور اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھا سکے۔ جہاں اس کو انسان کا درجہ حاصل ہو، جہاں اس کو عورت، جنس یا شئے کی بجائے انسان سمجھا جائے، اور ایسا صرف سوشلزم میں ہی ممکن ہو سکے گا۔
متعلقہ:
عورت کی برابری، مگر کس معیار پر؟
Pingback: Lal Salaam | لال سلام – سوشلزم: عورت کی نجات