میانمار: انقلابی امکانات سے بھرپور تحریک

|تحریر: فریڈ ویسٹن، ترجمہ: ولید خان|

میانما ر میں فوجی کو کے بعد انقلابی امکانات سے بھرپور عوامی تحریک پھوٹ پڑی ہے۔ ہڑتالوں اور احتجاجوں کا ایک سلسلہ چل پڑا ہے جو فوجی تسلط کے خلاف عوامی جدوجہد کا عزم ظاہر کرتا ہے۔ یہ واضح ہو چکا ہے کہ عسکری قیادت نے اپنی مخالفت میں اٹھنے والی مزاحمت کے حوالے سے غلط اندازے لگائے تھے۔

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

سول نافرمانی کی تحریک مسلسل بڑھ رہی ہے اور عسکری قیادت کے لئے سب سے زیادہ پریشان کن امر یہ ہے کہ احتجاج صرف سڑکوں پر ہی نہیں ہو رہے بلکہ ایک وسیع ہڑتالی تحریک کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔

نیو یارک ٹائمز کے مطابق:

”سول نافرمانی تحریک (CDM) کو پورے ملک میں حمایت حاصل ہے۔ اس کا ہدف فوج کا وسیع کاروبار اور فوج کی حکمرانی کے لیے ضروری حکومتی ادارے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ سڑکوں پر احتجاج اور ہر شام برتن دیگچیاں بجا کر شور مچانا شامل ہے۔ جس انداز میں فوج نے 1988ء اور 2007ء میں جمہوریت کے حق میں ہونے والے مظاہروں کوخون میں ڈبو دیا، اس کو مدنظر رکھتے ہوئے حالیہ تحریک کو ملنے والی وسیع حمایت اور بھی متاثر کن معلوم ہوتی ہے۔ حکومتی سول سروس سسٹم کے ایک ماہر کے اندازے کے مطابق ملک میں 10 لاکھ سول ملازمین ہیں اور ان میں سے دو تہائی ہڑتال میں شامل ہیں۔ ان میں سے کئی ملک کے نظم و نسق کے لئے ناگزیر ہیں“(نیو یارک ٹائمز، 15 فروری 2021ء)۔

وسیع ہڑتالی تحریک

طلبہ کا احتجاج یا انسانی حقوق کے لئے احتجاج ایک معاملہ ہے لیکن جب محنت کش طبقہ مداخلت کرنا شروع کر دے تو لڑائی کا کردار تبدیل ہو جاتا ہے۔ محنت کش طبقہ ہی وہ قوت ہے جو سماج کو تبدیل کر سکتا ہے، پورے ملک کو مفلوج کر سکتا ہے اور اگر اس کی کوئی قیادت موجود ہو تی تو وہ آبادی کی تمام پرتوں کو اپنے ساتھ جوڑ لیتا یعنی طلبہ، درمیانہ طبقہ، کسان اور قومی اقلیتیں اور نہ صرف عسکری حکومت کو خس و خاشاک کی مانند بہا لے جاتابلکہ موجودہ بحران کی بنیاد میانمار کی سرمایہ داری کو بھی جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیتا۔

میانمار کی بدقسمتی یہ ہے کہ محنت کش طبقے کے پاس وہ قیادت موجود نہیں جو محدود جمہوری مطالبات کی حدود کو توڑ کر آگے بڑھ جائے۔ لیکن اس کے باوجود محنت کش فطری طور پر درست راستے پر گامزن ہیں جس میں ہڑتالیں اور دھرنے منظم کرنا، ہڑتالی کمیٹیاں منتخب کرنا وغیرہ شامل ہے۔ اس کا ثبوت اس تحریک میں محنت کشوں کی پہل گامی ہے اورفوجی کو کے آغاز سے اب تک جن 400 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے ان میں بھی کئی مزدور شامل ہیں۔

رنگون میں عوامی تحریک کا آغاز FGWM نے کیا۔۔ سابقہ فیڈریشن آف گارمنٹس ورکرز میانمار جو اب ایک عمومی مزدور یونین میں تبدیل ہو چکی ہے۔۔ جس کے ہزاروں ممبران ہیں۔ FGWM کی قائد مو ساندر مائی ینت احتجاجی تحریک میں ایک ممتاز شخصیت بن کر ابھری ہے۔ تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن کے ساتھ ایک انٹرویو میں اس نے کہا کہ ”محنت کش پہلے ہی بہت غصے میں تھے اور متحرک تھے۔ آلام و مصائب کامانوس احساس پھر سے ہونے لگا اور وہ خاموش نہیں رہ سکتے تھے۔ ان کو ایک قائد کی ضرورت تھی اور اس وجہ سے میں نے ہڑتال کا آغاز کرنے کی ہمت کی“۔

وہ فوجی کو کے بعد کئی دن محنت کشوں کو متحرک کرنے کی تگ و دو میں لگی رہی اور عوام کو ”فوجی آمریت کے خلاف آخری وقت تک لڑنے“ کی تلقین کرتی رہی۔ فوجی اشرافیہ نے اس کے گھر پر چھاپہ پڑوا کر اسے چپ کرانے کی کوشش کی لیکن وہ بچ نکلی۔ اسی انٹرویو میں اس کا مزید کہنا ہے کہ ”رات کے وقت میں لائحہ عمل پر کام کرتی ہوں۔۔ کیسے ہڑتال کرنی ہے، کہاں احتجاج کرنا ہے۔۔ اور پھر محنت کشوں کو دعوت نامے بھیجنا کہ کب، کہاں اور کیسے اس فوجی آمریت کے خلاف لڑنا ہے۔ میں شدید خطرے میں ہوں۔۔ لیکن میں خاموش نہیں ہوں گی“۔

بدقسمتی سے جب اس نے دیگر یونینز کو متحرک ہونے کے لئے اپیل کی تو اسے خاطر خواہ ردِ عمل نہیں ملا اور یونین اشرافیہ نے پر امن رہنے کی اپیل کی۔ لیکن نیچے سے دباؤ بڑھتا چلا جا رہا تھا اور شعبہئ صحت اور سرکاری ملازمین کی ہڑتالیں شروع ہونے کے بعد مختلف یونینز کا ایک متحدہ فرنٹ تشکیل دے دیا گیا۔ مو ساندر مائی ینت نے موجودہ موڈ کے حوالے سے کہا کہ ”محنت کش اس لڑائی کے لئے تیار ہیں۔ ہمیں پتہ ہے کہ فوجی آمریت کے تحت حالات مزید خراب ہوں گے اس لئے ہم ایکتا اور اتحاد کے ساتھ آخری حد تک لڑیں گے“۔

عام ممبران اور دیگر شعبوں میں مقامی قائدین نے تحریک میں شمولیت اختیار کر لی۔ سرکاری ملازمین، ڈاکٹر اور اساتذہ یہاں تک کہ کچھ پولیس افسران بھی ہڑتالیں کر رہے ہیں۔ وکلاء، انجینئر، کسان اور فیکٹری مزدور بھی تحریک کا حصہ ہیں۔ ریل مزدور ہڑتالی تحریک میں سرگرم ہیں اور ریلوے کی تمام سروسز اس وقت بند ہیں۔ ہسپتال بند ہیں اور دارالحکومت نیپیڈاؤ میں وزارتیں جیسے سرمایہ کاری، ٹرانسپورٹ، توانائی اور عوامی فلاح و بہبود، کام چلانے کی شدید تگ و دو کر رہی ہیں کیونکہ بیشتر عملہ کام چھوڑ چکا ہے۔
ہڑتالیں فوجی ملکیت میں چلنے والی کمپنیوں کو بھی متاثر کر رہی ہیں۔ شمالی ساگینگ علاقے میں ایک تانبے کی کان میں۔۔ جس کی مشترکہ ملکیت عسکری افسران کے کنٹرول میں موجود MEHC اور چینی ریاستی کمپنی یانت سی کاپر کے پاس ہے۔۔ اس وقت 2 ہزار کان کنوں کے کام چھوڑنے کے بعد مکمل طور پر مفلوج ہے۔ جزوی طور پر فوجی ملکیت میں موجود ٹیلی کام کمپنی مائی ٹیل کے کئی سو انجینئرز اور اور دیگر ملازمین بھی ہڑتال پر ہیں۔ رنگون کے ایک صنعتی علاقے ہلینگ تھاریار میں 5 ہزار محنت کش ہڑتالی تحریک میں شامل ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ جب تک فوجی آمریت رہے گی اس وقت تک ہڑتال جاری رہے گی۔

بینک ملازمین بھی بڑی تعداد میں اس ہڑتالی تحریک میں حصہ لے رہے ہیں اور سول نافرمانی کا حصہ بن چکے ہیں۔ KBZ بڑے نجی بینکوں میں سے ایک ہے اور اس وقت بند پڑا ہے۔ حکومتی تنخواہیں دینے والا ریاستی بینک میانمار اکنامک بینک بھی متاثر ہوا ہے۔ کام کی جگہوں کی ایک طویل اور نہ ختم ہونے والی فہرست ہے جہاں ہڑتالیں جاری ہیں۔

2007ء کے ”زعفرانی انقلاب“ کے دوران چوکوں چوراہوں پر احتجاج ہوئے تھے لیکن آج کی طرز پر کوئی ایسی وسیع ہڑتالی تحریک موجود نہیں تھی جس کا مقصد فوج کے معاشی مفادات کو نقصان پہنچانا ہو۔ موجودہ ہڑتالی تحریک عوامی شعور میں دیو ہیکل جست کا اظہار ہے اور یہ واضح ہے کہ سابقہ تجربات نے دوررس اثرات مرتب کئے ہیں۔

پچھلی دہائی کے دوران فوج سے عوام کو اقتدار کی منتقلی اور ٹریڈ یونینز پر پابندیاں ختم ہونے کے بعد میانمار میں ایک نوخیز اور جنگجو ٹریڈ یونین تحریک کا جنم ہوا۔ اور یہی نئی، جوان اور تازہ دم پرت فوجی کو کے خلاف طلبہ کے ساتھ مل کر پہل قدمی کرنے میں پیش پیش تھی۔ سرگرم محنت کشوں کی اس نئی نسل کی پہل قدمی نے دیگر پرتوں کو بھی تحرک دیا۔ محنت کش بھولے نہیں کہ پچھلی فوجی آمریتوں میں ان کے پاس منظم ہونے کا کوئی حق نہیں تھا اور اب وہ کسی صورت ان المناک دنوں کی طرف لوٹنے کو تیار نہیں۔

جبر کارگر ثابت نہیں ہورہا

فوج محنت کشوں اور نوجوانوں کی اس بڑھتی تحریک سے نمٹنے کے لئے وہی طریقہ استعمال کر رہی ہے جو اس کی جبلت ہے یعنی جبر۔ انہوں نے کئی بار رات کو انٹرنیٹ بند کر دیا تاکہ سب سے زیادہ نمایاں اور سرگرم افراد کو رات کی تاریکی میں اغواء کیا جا سکے۔ اس طریقے سے کئی نامور افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

انہوں نے سڑکوں پر جبر بھی بے تحاشہ بڑھا دیا ہے۔ واٹر کینن اور ربڑ کی گولیوں کا بے دریغ استعمال کیاجا رہا ہے اور ہجوم پر کئی مرتبہ فائرنگ بھی کی جا چکی ہے جس کے نتیجے میں ایک نوجوان خاتون سر میں گولی لگنے کے بعد تشویشناک حالت میں ہے، چار افراد زخمی حالت میں دارالحکومت کے ایک ہسپتال میں پڑے ہوئے ہیں جبکہ پورے ملک میں متعدد افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ شمالی شہر میت کینا میں بجلی کی سپلائی معطل کرنے کی غرض سے اکٹھے ہونے والے مجمع پر فوجیوں نے گولیاں چلا دیں۔

ہر جگہ فوجی گاڑیوں اور اسپیشل فورسز کی بھاری نفری موجود ہے جس کا مقصد عوام کو ڈرانا اور سڑکوں سے ہٹنے پر مجبور کرنا ہے۔ لیکن ابھی تک جبر کا نتیجہ عوامی غم و غصے میں مسلسل اضافے کی شکل میں نکل رہا ہے۔ حالیہ احتجاج ابھی تک منعقد ہونے والے احتجاجوں میں سب سے بڑاتھا اور یہ فوجی اشرافیہ کی اس پریس کانفرنس کا جواب تھا جس میں انہوں نے اعلان کیا کہ انہوں نے تو کوئی کُو کیا ہی نہیں!

فوجی حکومت نے متعدد بار انٹرنیٹ سروس کو معطل کردیا تاکہ مظاہرین کے ہاتھوں سے ایک اہم اوزار چھین لیا جائے۔ میانمار فوج عوامی نظروں سے چھپ کر کام کرنے کی عادی ہے لیکن یہ 1998ء یا 2007ء نہیں ہے۔ سوشل میڈیا کو بند کرنے کی تمام کوششوں کے باوجود ان پر یہ حقیقت منکشف ہو رہی ہے کہ تحریک پھر سے ابھر آتی ہے۔

سوموار کی رات انٹرنیٹ بندش کے باوجود میانمار کے مرکزی شہر رنگون میں پہلے سے بھی زیادہ احتجاج ہوئے، اگرچہ بھاری بھرکم بکتر بند عسکری گاڑیاں اور اسپیشل فورسز سڑکوں پر تھیں، جیسے 77 لائٹ انفنٹری ڈویژن جو جنگی تجربے سے لیس اور نسلی اقلیتوں پر جبر میں بدنامِ زمانہ ہے۔ یہ سڑکوں پر موجود عوام کو واضح پیغام ہے کہ اگر وہ اپنی روش جاری رکھیں گے تو انہیں قتلِ عام کے لئے تیار رہنا چاہیے۔ میانمار کی فوج کی تاریخ 1988 ء جیسے سفاک جبر اور کشت و خون کے واقعات سے بھری پڑی ہے جب فوج نے ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

لیکن عوام پر عزم ہیں اور وہ سڑکوں پر رہتے ہوئے فوج کو چیلنج کر رہے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ اب تک کئے گئے تمام اقدامات میں سے کوئی ایک بھی کارآمد ثابت نہیں ہوا۔ اتنی وسیع مخالفت کے سامنے فوج بے بس ہوتی جا رہی ہے۔ اس نے ایک نیا قانون متعارف کرایا ہے جس کے مطابق اگر کوئی شخص سڑکوں پر سپاہیوں کے کام میں رکاوٹ ڈالتا ہے تو اسے 20 سال قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔

فوجی سربراہان کو حکم چلانے کی عادت ہے۔ ان کی فوجی نفسیات ہے، دہائیوں سے ان کا مکمل کنٹرول رہا ہے اور ان کا خیال تھا کہ وہ آرام سے کنٹرول واپس حاصل کر لیں گے۔ یہ بہت بڑی بھول تھی۔ صورتحال واضح ہو چکی ہے کہ ان کی سماجی بنیادیں انتہائی محدود ہیں اور وہ صرف اپنی جبری فوجی مشینری اور معاشرے کی پچھڑی پرتوں پر انحصار کر سکتے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ عوام کو خوفزدہ کرنے کی کوششوں میں انہوں نے 23 ہزار مجرموں کو اس لئے رہا کر دیا تاکہ عوام میں دہشت پھیلائی جا سکے۔ لیکن انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ ایک باغی آبادی کو فوجی احکامات جاری نہیں کئے جا سکتے۔

عوام مزاحمت کے لیے اس قدر پر عز م ہیں کہ ملک کے کچھ علاقوں میں محلہ جاتی نگران بریگیڈز بنا دی گئی ہیں تاکہ اپنی کمیونٹیوں کے لئے تحفظ کویقینی بناتے ہوئے مقامی سول نافرمانی کارکنوں کو گرفتار کرنے کی فوجی کوششوں کو ناکام کیا جائے۔


قومی سوال کا استحصال

میانمار کی فوج احتجاجیوں پر شدید جبر کرنے کے حوالے سے بدنامِ زمانہ ہے لیکن قومی اقلیتوں کے حوالے سے ان کا ماضی خاص طور پر سیاہ ہے۔ اب ستم ظریفی یہ ہے کہ ہیجان میں وہ مختلف نسلی اقلیتوں کے قائدین کو ساتھ ملانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ کچھ جگہوں پر انہوں نے ایسے کئی قائدین کو رہا بھی کر یا ہے جو جیلوں میں قید تھے۔

چونکہ فوج کی عمومی طور پر پورے سماج میں انتہائی محدود حمایت ہے اس لئے وہ ”تقسیم کرو اور حکمرانی کرو“ کا کھیل کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن پورا کھیل الٹ ہو چکا ہے۔ ان کی عمومی پالیسی بامار/ بدھ مت شاونزم کو ابھار کر اقلیتوں کے خلاف استعمال کرنا ہے۔ روہنگیا اس کی حالیہ مثال ہیں۔ اب وہ کوشش کر رہے ہیں کہ نسلی اقلیتوں کے غم و غصے کو بامار محنت کشوں اور نوجوانوں کے خلاف استعمال کیا جائے جو سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔

فوجی لیڈران آنگ سان سوچی (ASSK) اور نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (NLD) کے خلاف اقلیتوں میں موجود جائز غم وغصے کواپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کی تگ و دو میں ہیں۔ یہ کام وہ اقلیتوں کی سیاسی پارٹیوں کو اپنی فوجی انتظامیہ میں شامل کر کے کر رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال کائن پیپلز پارٹی کا ماہن نے ین ماؤنگ ہے۔ وہ نومبر 2020ء کا الیکشن ہار گیا تھا لیکن اب اس کے پاس فوجی حکومت میں ایک عہدہ حاصل کرچکا ہے۔

اقتدار میں آنے سے پہلے سوچی نے اقلیتوں سے کئی وعدے کئے تھے۔ اس وجہ سے 2015ء انتخابات میں میانمار کی کئی نسلی اقلیتوں نے سوچی اور NLD کی اس امید پر حمایت کی تھی کہ ان کے حقِ خود ارادیت کی جدوجہد ایک وفاقی نظام میں آگے بڑھے گی۔ اس وقت NLD نے وعدہ کیا تھا کہ وہ امن کے لئے کوششیں کرتے ہوئے مختلف نسلی لڑائیوں کو ختم کرے گی جن میں کچھ مسلح بھی ہیں اور 2008ء کے آئین میں تبدیلیاں کی جائیں گی تاکہ اقلیتوں کے مسائل حل کئے جا سکیں۔ لیکن ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا اور منصب پر براجمان ہونے کے بعد سوچی نے فوج سے مفاہمت کرتے ہوئے ان کے ظلم و جبر کی نہ صرف حمایت کی بلکہ اس کے لئے جواز تراشنے کی کوشش بھی کی۔

اراکان کا مسئلہ (نیا نام راخائن) موجود تضادات کو واضح کرنے کے لیے ایک اہم مثال ہے۔ یہ ملک کے جنوب میں خلیج بنگال کے مشرقی ساحل کے ساتھ لمبی پٹی والا ایک علاقہ ہے۔ یہاں کے باشندوں میں سے ایک روہنگیا بھی ہیں جن پر فوج نے خوفناک ظلم ڈھائے ہیں۔ حکومت تبت۔برمن اراکین کو راخائنی تسلیم کرتی ہے لیکن مسلم روہنگیا کو ماننے سے انکاری ہے۔

اگرچہ راخائنی باغیوں کو فوج نے نشانہ بنایالیکن اس کے احکامات 2019ء کے اوائل میں NLD کی طرف سے جاری ہوئے اور ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اس نے بھی موجود صورتحال کی طرح اُس سال کے آخر میں اس ریاست کے بیشتر علاقوں میں انٹرنیٹ بند کر دیا۔اور نومبر انتخابات میں ریاست کے تقریباً تین چوتھائی ووٹروں کو ووٹر لسٹ سے باہر کر دیا گیا۔ باآسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ اس ریاست کے عوام NLD پر اعتماد کیوں نہیں کرتے!

اب فوج کوشش کر رہی ہے کہ راخائنی عوام کے ساتھ ہمدردی کا ڈھونگ رچایا جائے۔ اور پورے ملک میں انٹرنیٹ پر پابندیاں لگانے کی تیاریاں کرنے کے ساتھ 2 فروری کو انہوں نے راخائن میں انٹر نیٹ پر عائد پابندی ختم کر دی اور پھر 12 تاریخ کو مشہور اراکین سیاسی قیدیوں کو دیگر ہزاروں سمیت جیل سے رہا بھی کر دیا گیا۔

انہی وجوہات کی بنا پر، سوچی کی حمایت بامار عوام میں تو اب بھی موجود ہے مگر کئی اقلیتوں میں اس کی ساکھ مجروح ہو چکی ہے۔ لیکن یہ بدقسمتی ہے کہ نام نہاد اقلیتی ”قائدین“ فوج کے ساتھ جا کھڑے ہو رہے ہیں۔ فوجی چالبازیوں میں ان کی اوقات شطرنج کے پیادوں سے زیادہ نہیں۔ جس طرح سوچی اور NLD نے انہیں دھوکہ دیا ہے اسی طرح فوج بھی انہیں استعمال کرنے کے بعد بے یارومددگار چھوڑ دے گی۔
لیکن ان اقلیتی قائدین کی اطاعت خود اپنی قوموں کی قابلِ ذکر پرتوں کی مرضی کے خلاف ہے۔ ان میں سے کچھ نے احتجاجوں میں حصہ لیا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ نئی فوجی حکومت میانمار کی پوری آبادی کے لئے وبالِ جان ہے چاہے بامار ہو یا نسلی اقلیتیں۔ وہ جانتے ہیں کہ فوج انہیں صرف مجبوری کے تحت استعمال کر رہی ہے۔

مختلف نسلی اقلیتوں کے حقوق موجودہ فوجی حکومت یا سوچی اور NLD کی پشت پناہی کرنے والی لبرل بورژوازی کے ساتھ الحاق کر کے نہیں جیتے جا سکتے۔ میانمار کے محنت کشوں کو اپنی ایک خودمختار پارٹی کی ضرورت ہے جس کا ایک مرکزی نعرہ وفاق میں موجود تمام افراد کے لیے حقِ خودارادیت کا ہو گا۔ لیکن یہ کام سرمایہ دارانہ بنیادوں پر نہیں کیا جاسکتا اور اس کے لئے میانمار کی ایک سوشلسٹ فیڈریشن درکار ہے۔

تحریک کیا رخ اختیار کرے گی؟

اس وقت تحریک مسلسل آگے بڑھ رہی ہے۔ نائپیڈاؤ، رنگون، منڈالے، ماگوے اور دیگر شہروں میں عوام پر فوجی تشدد کا الٹ نتیجہ نکلا ہے اور تحریک آگے بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ خالص فوجی اصطلاح میں ریاست کے پاس تحریک کو جبراً کچلنے کے کئی ذرائع ہیں۔ لیکن یہ صرف ایک عسکری سوال نہیں ہے۔ بنیادی طور پر یہ سوال طبقاتی قوتوں کے توازن اور قیادت کا ہے۔

ہم نے دیکھا ہے کہ احتجاجی تحریک کو بڑھاوا دینے میں محنت کشوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ بدقسمتی سے تحریک کی سیاسی قیادت کا ایجنڈا اور ہے یعنی تحریک کو محدود کر تے ہوئے سوچی کو بحال کرانا۔ کچھ آمریت کے ساتھ ”مذاکرات“ کا راستہ اپنا رہے ہیں۔ لیکن کہاوت ہے کہ ”کمزوری محض جارحیت کو دعوت دیتی ہے“۔ ایک مکمل عام ہڑتال کی کال وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے جس میں ہر سیکٹر، ہر کام کی جگہ پر دھرنے شامل ہوں۔ اس کے ساتھ کام کی جگہوں اور محلوں کی کمیٹیوں کے کنٹرول میں دفاعی گروہ فعال ہوں۔

اس کے ساتھ یونیورسٹی اور سکول کے طلبہ کو کال دینی چاہیے کہ وہ تمام سکولوں اور یونیورسٹیوں پر قبضے کر لیں۔ کسانوں کو تحریک میں شمولیت کی دعوت دینی چاہیے۔ تحریک کو قومی اقلیتوں کو واضح پیغام دینا چاہیے کہ ان کی ضروریات مدِ نظر ہیں اور تحریک ان کے حقوق کی جدوجہد کے لئے تیار ہے۔

لیکن یہاں ایک مسئلہ ہے۔ تحریک کا اعلان کردہ ہدف حقیقی طبقاتی بنیادوں کو نظر انداز کرتے ہوئے سوچی کی بحالی ہے۔ سوچی عالمی سرمائے کی آلہ کار ہے اور اس کا میانمار کے عوامی مفادات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ بات قابلِ فہم ہے کہ میانمار کے عوام جمہوریت کا دفاع کر رہے ہیں۔ مارکس وادی بھی جمہوری حقوق کا دفاع کرتے ہیں۔ ہم ٹریڈ یونینز اور سیاسی پارٹیوں کو منظم کرنے کے حق، اظہارِ رائے کے حق، ہڑتال کرنے کے حق وغیرہ کی حمایت کرتے ہیں۔ اس حوالے سے مارکس وادی فوجی آمریت کے خلاف ہیں لیکن کیا ہم سوچی اور NLD کی حمایت کر سکتے ہیں؟ یہاں ہماری اور لبرل بورژوازی کی راہیں جدا ہیں۔ ہم محنت کش طبقے کی آزاد تنظیم کے حامی ہیں اور ہاں، ہم فوج کے خلاف ہیں لیکن ہم ابھرتی لبرل بورژوازی کے بھی خلاف ہیں۔

اگر سوچی کامیابی سے واپس بحال ہو جاتی ہے تو پھر وہ اپنی اسی پرانی روش پر کاربند ہو گی۔ وہ قومی اقلیتوں کو دھوکہ دے گی لیکن وہ بامار اکثریت کو بھی دھوکہ دے گی۔ وہ میانمار کے محنت کشوں اور نوجوانوں کا دفاع نہیں کرے گی بلکہ سرمایہ دار طبقے کے مفادات میں حکومت کرے گی۔ فوری طور پر محنت کش طبقے کی بنیاد پر سوچی اور NLD کا متبادل تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔

میانمار اس وقت طبقاتی صف بندی کے ابتدائی مراحل میں ہے۔ محنت کش طبقے کے پاس اس وقت ایک انقلابی قیادت موجود نہیں ہے اور اس وجہ سے رونما ہونے والے واقعات کا موجودہ دھارا ہمارے سامنے ہے۔ تحریک کے عام مزدور کارکن عمومی طور پر ٹریڈ یونین قیادت سے کوسوں آگے کھڑے ہیں لیکن ایک پارٹی موجود نہیں جو ان تمام بکھرے اجزاء کو اکٹھا کرے اور ایک سیاسی قوت بن کر صورتحال میں مداخلت کرے۔

ہڑتال اور دھرنوں کا آغاز نیچے سے محنت کشوں نے کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی سوچ سمجھ اور فطری عمل درست ہیں۔ کچھ افراد کی سوچ کے برعکس محنت کش ایک بلند شعور کا اظہار کر رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ سرکاری ٹریڈ یونین قائدین احتجاجوں کی قیادت کرنے کے باوجود عمومی طور پر سوچی اور NLD کی حمایت کر رہے ہیں اور محنت کشوں کی ایک خود مختار آواز کو ابھرنے نہیں دے رہے۔
کچھ ایسے یونین قائدین موجود ہیں جو اپنے جنگجو رویوں کی وجہ سے ممتاز ہیں لیکن عمومی طور پر یونینز اصلاح پسند قائدین سے بھری پڑی ہیں جن پر کئی این جی اوز کے اثرات ہیں جن میں سے کچھ کو ILO (انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن) نے فروغ دیا ہے۔ ان کا مقصد ٹریڈ یونین قیادت پر محنت کش تحریک کو محدود کرنے کے لئے دباؤ ڈالتے ہوئے خاص طور پر سیاسی افق پر طبقاتی مفاہمت کے لئے مجبور کرنا ہے۔ سرمایہ دار طبقہ سمجھ چکا ہے کہ صرف عسکری جبر کے ذریعے عوام کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا اور محنت کشوں کے قائدین میں حامیوں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ مزدور تحریک کو قانونی حدود میں مقید رکھا جا سکے اور اس لئے ٹریڈ یونین قائدین بورژوا لبرلز کے پیچھے لائن لگا کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔

”کم تر برائی“ نامنظور

محنت کش نیچے سے مسلسل دباؤ بڑھا رہے ہیں کیونکہ وہ لڑنا چاہتے ہیں اور اس وجہ سے قائدین کو بھی کچھ اقدامات اٹھانے پڑ رہے ہیں۔ لیکن ان کا طریقہ کار تحریک کو محدود کر رہا ہے اور وہ NLD کے ساتھ بندھے بیٹھے ہیں اور محنت کشوں کو بھی لبرل بورژوازی کی حمایت کرنے پر مجبور کر رہے ہیں جس کا مطلب سرمایہ دار طبقے کے ایک دھڑے کی حمایت کرنا ہے۔

اس لئے جو سیاسی خلاء پیدا ہوا ہے اسے سوچی اور NLD پُر کر رہے ہیں۔ تحریک کے اندر تفریق پیدا ہونے میں وقت لگے گا۔ اس وقت عوام میں حاوی سوچ یہ ہے کہ کُو کا راستہ روکتے ہوئے جمہوریت کو بحال کرنا ہے۔ وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ کُو کے خلاف مزاحمت شدید ہے اور ان کو امید ہے کہ فوج ان کی آواز سنتے ہوئے پسپا ہو جائے گی۔ مارکس وادی اس سوچ کے ساتھ بھرپور ہمدردی رکھتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی وضاحت کرتے ہیں کہ یہ ناکافی ہے۔

فوج کو باہر نکالنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ایک اتنی مضبوط اور وسیع تر عوامی تحریک تعمیر ہو جو ایک معیاری جست لگانے کا خطرہ بنتے ہوئے صرف فوجی آمریت ہی نہیں بلکہ پورے معاشی نظام کے لئے خطرہ بن جائے۔پھر ہی حکمران طبقے میں کوئی زیادہ عقل مند حکمت کار سمجھیں گے کہ بہتر یہی ہو گا کہ فوج کو واپس بیرکوں میں بھیجا جائے اور سوچی کو دوبارہ پرانی تنخواہ پر بحال کر دیا جائے تاکہ عوام کا غم و غصہ ٹھنڈا ہو۔

نیشنل انڈوومنٹ فار ڈیموکریسی کی سرپرستی میں چلنے والا میانمار انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹجی اینڈ پالیسی، جو کہ درحقیقت امریکی سامراج کی آواز ہے، اور دیگر مشہور مصنفین جن میں سابق اقوام متحدہ جنرل سیکرٹری کا نواسا اور ہارورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تاریخ دان تھانت مائی نت یو بھی شامل ہے، انہی خطوط پر سوچ رہے ہیں۔ انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹجی اینڈ پالیسی نے شروع میں ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں ”فوجی جنتا پر زور ڈالا گیا کہ کلیدی حصہ داروں کے ساتھ سیاسی مذاکرات کے ذریعے ایک پرامن حل تلاش کیا جائے تاکہ کو کی وجہ سے جنم لینے والے تمام بحرانات کو حل کیا جاسکے“۔ حکمران طبقے کے زیادہ عقل مند حکمت کار سمجھ رہے ہیں کہ عوام کو برہِ راست اقدامات اٹھاتے ہوئے سیاست میں مداخلت کی اجازت دینا بہت خطرناک ہے کیونکہ ایک مرتبہ متحرک ہونے کے بعد عوام کو احساس ہو جاتا ہے کہ وہ کتنی بڑی قوت ہیں۔ ایک کہاوت ہے کہ ”کھانے سے بھوک بڑھتی جاتی ہے“ اور خاص طور پر سامراج کے حواری سرمائے کے سنجیدہ حکمت کار اس وقت بہت پریشان ہیں۔ اس وقت سب سے بڑاہدف عوام کو واپس ”معمول“ پر لانا ہے جہاں وہ پھر سے غیر فعال کردار میں ڈھل جائیں۔

محنت کشوں اور نوجوانوں کی آزادانہ تحریک سے سوچی اور NLD اتنے ہی خوفزدہ ہیں جتنے جرنیل۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ اقتدار میں سوچی نے جرنیلوں کے ساتھ سمجھوتا کرتے ہوئے ان کے آئین اور مراعات کو قبول کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فوج ملک میں ایک بڑا معاشی کھلاڑی ہے، فوجی آمر خود سرمایہ دار ہیں۔ انہیں حقیقی طور پر اقتدار سے نکالنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ان کی معاشی قوت کو ختم کر دیا جائے اور اس کا مطلب فوجی ملکیت میں موجود تمام کمپنیوں پر عوامی قبضہ ہے۔

بورژوا لبرلز کے لئے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ کام صرف متحرک محنت کش ہی کر سکتے ہیں اور اگر محنت کش فوجی معاشی مفادات پر قابض ہو جاتے ہیں تو یہ معیشت کا نصف حصہ ہے۔ اگر محنت کش طبقے کی ایک تحریک فوج کے اثاثوں پر قابض ہونے کے لئے سرگرم ہو جاتی ہے تو پھر اس کے قدم یہیں پر رکیں گے نہیں بلکہ پورا سرمایہ دارانہ نظام چیلنج ہو جائے گا۔ اس لئے سوچی، NLD اور فوج کا آپس میں تعاون ہے۔

موجودہ تحریک اپنے کردار میں ایک خودرو تحریک ہے۔ عوام کو ابھی بھی بورژوا جمہوریت سے امیدیں ہیں لیکن عوام کے لئے جمہوریت کوئی تجریدی اصول نہیں بلکہ ہدف حاصل کرنے کا طریقہ ہے یعنی اپنی زندگیاں بہتر کرنا، بہتر اجرت اور کام کے حالات، زیادہ نوکریاں، بہتر اور عوامی تعلیم، صحت عامہ وغیرہ۔ بورژوا جمہوریت میں آپ منظم ہو سکتے ہیں، محنت کش یونین اور طلبہ یونینز بنا سکتے ہیں، رائے کا اظہار کر سکتے ہیں اور اپنے مطالبات پیش کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ عوام فوجی آمریت کو بھولے نہیں ہیں۔ وہ جرنیلوں کو بنیادی دشمن سمجھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی پر کھیل کر بھی احتجاج کرنے کو تیار ہیں تاکہ جمہوریت کا دفاع کیا جائے۔ اس لئے عوام عمومی طور پر سوچی کی حمایت کرتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کسی موڑ پر اسے واپس لایا جائے گا تاکہ اس کی اتھارٹی کو استعمال کرتے ہوئے یقینی بنایا جائے کہ عوام بے قابو نہیں ہوں گے۔

عوام اپنے تجربات سے سیکھتے ہیں اور سوچی کے حوالے سے ان کی امیدوں کو بخارات بن کر اڑنے میں وقت لگے گا۔ جب معیشت ترقی کر رہی ہوتی ہے اور نظام نوکریاں، گھر وغیرہ فراہم کر رہا ہوتا ہے تو لوگ کرپشن اور مراعات کو بھی برداشت کر لیتے ہیں۔ سوچی کے اقتدار میں آنے کے بعد چند سال تک یہی صورتحال تھی۔ لیکن جب نظام ایک مہذب زندگی کے لئے درکار کم سے کم سہولیات بھی فراہم کرنے سے قاصر ہو جائے تو پھر عوام سماج کی بلندیوں پر بیٹھے افراد پر سوالات اٹھانا شروع کر دیتے ہیں۔ ایک مخصوص وقت پر یہ ہو گا اور محنت کش اور نوجوان سوچی جیسے لبرل بورژوا کی حقیقت کو جان جائیں گے۔

لیکن تحریک میں مختلف پرتیں موجود ہیں۔ ”فوجی آمریت مردہ باد، سوچی اور صدر کو رہا کرو“ جیسے نعرے لگائے جا رہے ہیں۔ اگرچہ عمومی طور پر عوام کو ابھی بھی NLD سے امیدیں ہیں اور وہ اسے حکومت میں دیکھنا چاہتے ہیں، سب سے زیادہ شعور یافتہ پرتیں سوچی اور NLD کی محدودیت سے واقف ہیں۔ ”2008ء کا آئین ختم کرو۔۔ ایک وفاقی جمہوریت تعمیر کرو“ جیسے نعرے بھی لگائے جا رہے ہیں جو براہِ راست فوجی قوت کے خلاف ہیں اور قومی اقلیتوں کے لئے راستے بھی کھولتے ہیں۔ یہ NLD حکومت کی پوزیشن سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں۔

تجربہ سب سے زیادہ شعور یافتہ محنت کشوں اور نوجوانوں کو سکھا رہا ہے کہ لبرل بورژوازی بند گلی ہے۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ سوچی فوج کے مقابلے میں ”کم تر برائی“ ہے اس لئے اس کی حمایت کرنی چاہیے۔ اصل وضاحت تو یہ کرنی چاہیے کہ جمہوریت کے لئے جدوجہد کا مطلب یہ نہیں کہ سوچی سے امیدیں وابستہ کر لی جائیں۔ آپ فوج سے لڑنے کے ساتھ ساتھ عوام کو لبرل بورژوازی کی محدودیت کے حوالے سے خبردار بھی کر سکتے ہیں۔

میانمار میں عوامی تحریک جمہوری مطالبات سے شروع ہوئی ہے لیکن اپنے اہداف کو حاصل کرنے کے لئے انہیں انقلاب کو آخری حد تک پہنچانا ہو گا جس کا ایک ہی مطلب ہے کہ میانمار کی ایک سوشلسٹ فیڈریشن کی جدوجہد کی جائے جو پورے خطے کے مزدوروں کے لئے مشعلِ راہ بن جائے۔ ہم انڈیا اور تھائی لینڈ میں دیو ہیکل تحریکیں دیکھ رہے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ میانمار کے محنت کشوں کی پہل گامی تیزی کے ساتھ عالمی سطح تک پھیل سکتی ہے۔

اگر تمام بحث کو سمیٹا جائے تو وقت کی اہم ترین ضرورت مکمل عام ہڑتال ہے جس کا مقصد آمریت کا خاتمہ ہو۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہڑتالی کمیٹیوں کو تمام کام کی جگہوں، محلوں اور دیہات میں پھیلا دیا جائے اور ان کو علاقائی اور قومی سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا جائے۔ اس طرح تحریک کی ایک قومی قیادت ہو گی۔ اس کے ساتھ ساتھ فوری طور پر کام کی جگہوں اور محلوں میں دفاعی گروہوں کو تشکیل دینا انتہائی اہم ہے۔

2008ء کا آئین ختم کرنے کی کال دیتے ہوئے ایک انقلابی آئین ساز اسمبلی منظم کرنی ہوگی جو حقیقی طور پر عوام کی آواز ہو۔ فوج کے لیے مخصوص نشستوں کا خاتمہ! اس کے ساتھ ساتھ ٹریڈ یونینز میں منظم،محنت کشوں کو محنت کش طبقے کی ایک خود مختار سیاسی پارٹی کی تعمیر کے عمل کے آغاز کی جانب بڑھنا ہوگا۔ اپنی آواز کے بغیر محنت کش لبرل بورژوازی پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں جو اقتدار میں واپس آتے ہی انہیں دھوکہ دیں گے۔

میانمار کی عوام، محنت کشوں، نوجوانوں، کسانوں، قومی اقلیتوں، تمام کو درپیش مسائل کی جڑ عالمی سرمایہ دارانہ بحران ہے۔ آج جاری انقلابی تحریک اپنے آپ کو جمہوری مطالبات تک ہی محدود نہیں رکھ سکتی بلکہ اسے آگے بڑھتے ہوئے اپنے مطالبات پیش کرنے ہوں گے۔ موجودہ بحران سرمایہ دارانہ بنیادوں پر حل نہیں کیا جا سکتا۔ آج وقت کی سب سے اہم ضرورت بڑے سرمایہ داروں، فوجی آمروں اور غیر ملکی کمپنیوں کے اثاثے ضبط کرنا اور انہیں محنت کشوں کے جمہور ی کنٹرول میں منظم کرنا ہے۔

Comments are closed.