انقلابی اسٹریٹ تھیٹر میں کام کرتے ہوئے میرے تجربات

|تحریر: ثاقب اسماعیل، لاہور|

 

ہم نے پچھلے سال مزدوروں کے عالمی دن یوم مئی کے حوالے سے مزدور کی زندگی پر بنایا گیا اسٹریٹ تھیٹر ”مشین“ تیار کیا، جو کہ انڈیا کے عظیم انقلابی تھیٹر آرٹسٹ صفدر ہاشمی نے لکھا تھا۔ اسٹریٹ تھیٹر ایک ڈرامہ ہوتا ہے جو گلیوں میں، محلوں میں، فیکٹری ایریاز میں اور دیگر عوامی جگہوں پر کیا جاتا ہے۔ اس میں روزمرہ کے عوامی مسائل کی نمائندگی کی جاتی ہے۔ یعنی کہ یہ عام لوگوں کی زندگیوں سے جڑا ہوتا ہے۔

ہم نے لاہور میں دس سے زائد جگہوں پر ”مشین“ نامی تھیٹر کیا۔ اس تھیٹر میں مزدوروں کو فیکٹری مشین کا حصہ بن کر بڑی محنت سے کام کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے لیکن اس کے باوجود ان کی دو وقت کی روٹی بھی پوری نہیں ہوتی، جبکہ فیکٹری کا سیکیورٹی گارڈ مالک کے حکم پر مزدوروں کو دبا کے رکھتا ہے اور فیکٹری مالک مزدوروں کی محنت لوٹ کر منافع کماتے ہوئے نئے سے نئے محلات بنا رہا ہوتا ہے۔

مزدور بغاوت کرتے ہوئے مشین بند کر دیتے ہیں اور کام چھوڑ دیتے ہیں۔ پھر سب مزدور مل کر سیکیورٹی گارڈ و مالک کو شکست دے دیتے ہیں۔

ہم لاہور میں ریلوے کے مزدوروں سے لے کر گجومتہ انڈسٹریل ایریا کے مزدوروں تک گئے، اس کے علاہ شہر کے مختلف محلوں میں، ناصر باغ، انار کلی، برکت مارکیٹ اور مسلم ٹاؤن میں بھی ہم نے یہ اسٹریٹ تھیٹر پرفارم کیا۔ کیا کمال داد ملی ہمیں، تھیٹر کے دوران سے لے کر آخر تک سب تالیاں بجاتے، آوازیں لگاتے، نعرے لگاتے۔ اس کے علاوہ انقلابی ترانے بھی ہم اداکاروں کے ساتھ مل کر گاتے۔

تھیٹر کے اختتام پہ انقلاب زندہ باد کے نعرے آتے ہیں۔ اس نعرے کا جواب دینے والوں میں پورا مجمع ہوتا تھا۔ ان میں سے میرے لیے سب سے کمال تجربہ گجومتہ انڈسٹریل ایریا کے پاس ہونے والی پرفارمنس تھی۔ اتوار کے دن ہم نے گجومتہ کے پاس ایک پارک میں تھیٹر کیا جہاں مزدور آ کے بیٹھتے ہیں۔

تھیٹر شروع ہوتے ہی دیکھتے ہی دیکھتے سو سے زائد مزدور دائرہ بنا کر ہمارے گرد اکھٹے ہو گئے۔ تھیٹر میں ایک سین آتا ہے کہ سیکیورٹی گارڈ مزدوروں پر تشدد کرتا ہے۔ جیسے ہی یہ سین آتا ہے تو مزدوروں کے چہروں پر غصہ واضح نظر آتا ہے، یہاں تک ہجوم سے ’تشدد مت کرو!‘ کی آوازیں بھی آ رہی تھیں۔

جیسے ہی تھیٹر ختم ہوا مزدور ہمارے پاس آئے اور ہمیں گلے لگایا۔ ہمارا انقلابی اخبار بڑی تعداد میں خریدا اور ہمارے انقلابی کام کے لیے ان مزدوروں نے اپنی کم اجرتوں کے باوجود جیبوں سے سو، دو سو روپے دیے جو کہ ہمارے لیے ایک اعزاز سے کم نہیں تھا۔

تمام مزدوروں کا تھیٹر کی ایک ایک حرکت توجہ سے دیکھنا اور ایک ایک ڈائیلاگ کو غور سے سننا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ واقعی یہ تھیٹر ان کی زندگیوں سے جڑا ہوا ہے۔ ہم نے جہاں جہاں بھی پرفارم کیا یہی رسپانس ملا۔

اس سے ہٹ کر کراچی میں بھی ہم نے دو جگہوں پر یہی تھیٹر پرفارم کیا۔ ایک کورنگی انڈسٹریل ایریا کی لیبر کالونی میں جہاں ایک ایک ڈائیلاگ اور حرکت پر تالیاں اور نعرے لگ رہے تھے۔ پرفارمنس کے بعد ہماری آوازوں کو ہو بہو کاپی کیا گیا۔ دوسری پرفارمنس ہم نے لانڈھی میں منعقدہ مزدوروں کے دو روزہ مرکزی ”سوشلسٹ سکول“ میں کی، اس سکول میں ملک بھر سے محنت کش اور نوجوان شامل تھے۔

یہ تھیٹر مزدوروں کے لیے محض تفریح نہیں تھا بلکہ ان میں ایک نئی روح پھونک دیتا تھا۔ تھیٹر سے پہلے جہاں سب لوگ الگ الگ بیٹھے ہوتے ہیں پرفارمنس کے دوران سب اکھٹے ہوتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں، تالیاں بجاتے ہیں، گانے گاتے اور رقص کرتے ہیں اور صرف محظوظ نہیں ہوتے بلکہ ہم سے پارٹی کا لائحہ عمل پوچھتے اور ساتھ جڑنے کا اعادہ کرتے ہیں۔

فیکٹری مالکان کے استحصال کا شکار بیس ہزار پر نوکری کر کے دس ہزار تک بجلی کا بِل ادا کرنے والے، لا علاجی، بھوک سے تنگ اور اس سب کے ذمہ دار سرمایہ دار مالکان اور حکمرانوں سے نفرت کرنے والے مزدوروں کے دل کی تاروں کو یہ تھیٹر چھوتا ہے۔ کسی نے صحیح کہا تھا کہ تھیٹر ”پاگل“ لوگوں کی جرات ہے جو اپنے مسائل کو، خوشی کو، غم کو لوگوں کے سامنے لے جا کے پیش کرتے ہیں۔

محنت کش عوام ایک ایک اداکار اور اس کی اداکاری میں اپنی روزمرہ کی مشکلات و مصائب کو دیکھتے ہیں اور ان کے خلاف لڑنے کا حوصلہ پاتے ہیں۔ مختصراً اسٹریٹ تھیٹر نے مجھے صحیح معنوں میں ایک جیتا جاگتا انسان بنا دیا۔ میں اعادہ کرتا ہوں کہ اس کو ہم مزید پھیلائیں گے، نئے سرے سے طلبہ میں، مزدوروں میں اسٹریٹ تھیٹر کی ختم ہوئی روایت کو زندہ کریں گے اور بذریعہ تھیٹر انقلابی کمیونسٹ پارٹی کا مؤقف ہزاروں سے لاکھوں لوگوں تک پہنچائیں گے۔

یہ بلاشبہ ایک چیلنج ہو گا لیکن ہم بھرپور جرات کے ساتھ اس کے لیے تیار ہیں۔

Comments are closed.