|رپورٹ: نمائندہ ورکرنامہ|
محکمہ اکلاس(Azad Kashmir Lodging and Sawmills Corporation-AKLASC) مظفرآباد کے ملازمین گزشتہ دو ہفتوں سے اکلاس کے ہیڈ آفس کے سامنے احتجاجی دھرنا جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن تاحال حکومت آزاد کشمیر نے ان کے مطالبات تسلیم نہیں کئے۔ ریڈ ورکرز فرنٹ کے نمائندگان نے ان احتجاجی محنت کشوں کے دھرنے میں شمولیت اختیار کی اور ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔
اکلاس محکمہ جنگلات کا ایک ذیلی ادارہ ہے جو تعمیراتی اور غیر تعمیراتی لکڑی کو حفاظت کے ساتھ ذخیرہ کرنے اور اس کی سرکاری نرخوں پر فروخت کا کام کرتا ہے۔ وادئ نیلم میں دیار کے ہزاروں ایکڑ پر پھیلے ہوئے جنگلات پائے جاتے ہیں جن میں سے سالانہ ہزاروں یا شاید لاکھوں ایسے درخت جو اپنی طبعی عمر پوری کر نے کے بعد خود گرتے ہیں اور کچھ مزید درختوں کی کٹائی کی جاتی ہے، جن میں کافی بڑی تعداد میں درخت مقامی لوگوں کے زیر استعمال (تعمیرات یا ایندھن) آتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد بھی کروڑوں اربوں روپے مالیت کی لکڑی غیر سرکاری ٹھیکیداروں اور ٹمبر مافیا کی لوٹ مار کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد بھی اتنی بھاری مقدار میں لکڑی محکمہ اکلاس کے ملازمین جمع کرتے اور سرکاری سطح پر فروخت کرتے رہے کہ 90ء کی دہائی کے آخری سالوں میں محکمہ اکلاس کشمیر کا سب سے منافع بخش ادارہ بن چکا تھا جس کی ناصرف مظفرآباد اور اسلام آباد میں اپنی جائیداد تھی بلکہ مختلف دیگر اداروں کو یہ محکمہ قرضے بھی دیتا تھا۔
محکمہ اکلاس کی نگرانی میں اس قیمتی لکڑی کی کٹائی اور فروخت حکمرانوں کی بے پناہ کرپشن کے باوجود حکومت کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ تھا۔ 1997ء کے بعد ’ہرے‘ درختوں کی کٹائی پر پابندی عائد کر دی گئی جس کے باعث ایک جانب یہ ادارہ اپنی آمدن کے ذرائع سے محروم ہونا شروع ہو گیا تو دوسری جانب یہ قیمتی لکڑی ٹمبر مافیا کی لوٹ مار کا شکار ہو گئی۔ 2015ء میں حکومت نے اس محکمے کی ڈاؤن سائزنگ کا فیصلہ کیا جس میں تقریباً 506ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک دے کر فارغ کیا جانا تھا جبکہ باقی تقریباً 159 ملازمین کونارمل میزانیے پر لا کر مستقل کیا جانا تھا۔ اس وقت محکمہ میں کل 750ملازمین کام کرتے ہیں جبکہ 550 ملازمین ریٹائرڈ ہیں جو پنشن وصول کرتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے گزشتہ دنوں پچھلی حکومت کے 2013ء کے فیصلے کو تبدیل کرتے ہوئے محکمہ اکلاس کو مکمل طور پر ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد سے محکمہ اکلاس کے ملازمین ادارہ کے ہیڈ آفس کے سامنے دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔ اس سے پہلے 2013ء میں اس محکمہ کے ملازمین نارمل میزانیے پر آنے کے لئے تحریک چلا چکے ہیں۔
اس وقت محکمہ اکلاس کے ملازمین 2015ء کے حکومتی نوٹیفیکیشن پر عملدرآمد کا مطالبہ کر رہے ہیں جس کے تحت یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ادارے کی ڈاؤن سائزنگ کے عمل میں فارغ کئے جانے والے ملازمین کو ایک مناسب پیکج دیا جائے اور باقی ملازمین کو نارمل میزانیے پر لایا جائے جبکہ ادارہ بدستور قائم رہے۔ درحقیقت حکمران اس انتہائی قیمتی لکڑی کی لوٹ مار کے عمل میں اب خود اپنے بنائے گئے اس ادارے کی مداخلت کو بھی ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ تاکہ بلا کسی طویل عمل اور حساب کتاب کے اپنے منظور نظر ٹمبر مافیا کے ٹھیکیداروں کو اس لکڑی کی خرید و فروخت کے ٹھیکے دیئے جا سکیں اور اس عمل سے خود بھاری کمیشنز وصول کئے جائیں۔ اس سارے عمل میں محکمہ اکلاس کے سادہ لوح محنت کش بھی کسی حد تک اس بات پر آمادہ نظر آتے ہیں یا ان کی قیادت نے انہیں اس بات پر آمادہ کیا ہوا ہے کہ وہ اس محکمے کو بچانے کی جدوجہد نہیں کر سکتے محض ایک اچھے پیکج کے حصول کے لئے لڑا جا سکتا ہے۔ یہ نجکاری کا ایک بھیانک حملہ ہے جو سب سے پہلے محنت کشوں کے سب سے کمزور حصے پر کیا گیا ہے لیکن اس کیخلاف ابھرنے والی یہ شاندار تحریک اس بات کی عکاسی ہے کہ ان اداروں کے محنت کشوں کی قیادت نجکاری کے خلاف لڑائی کو منظم کرے تو یہ لڑائی اس سامراجی لوٹ مار کی پالیسی کے مکمل خاتمے تک ناصرف لڑی جا سکتی ہے بلکہ اس کو کامیابی سے ہمکنار بھی کیا جا سکتا ہے۔