|تحریر: رائے اسد|
نیا سال شروع ہو چکا ہے لیکن سرمایہ داری کی وحشت برقرار ہے بلکہ ہر نئے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ 8 جنوری کی صبح کا آغاز انتہائی المناک خبر سے ہوا۔ پاکستان کے مختلف علاقوں سے کچھ بد بخت سیر و تفریح کے لیے مری روانہ ہوئے اور درد ناک موت کا شکار ہو گئے۔ شدید برف باری کی وجہ سے 1000 سے ذائد گاڑیاں بے یار و مدد گار برف میں پھنسی رہیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق 22 سے زیادہ لوگوں کی موت واقع ہو چکی ہے۔ یہ خبر سوشل میڈیا پہ پھیل گئی اور لوگ سوال اٹھا رہے تھے کہ حکومت کہاں ہے۔ ظاہر ہے ذمہ داران گرم کمروں میں آرام فرما رہے تھے۔ ان کے آرام میں خلل پیدا ہوا اور کئی گھنٹوں کے بعد ریسکیو آپریشن شروع کیا گیا۔ اس واقعے نے ایک بار پھر اس ریاست اور نظام کی نا اہلی کو واضح کر دیا ہے۔
ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ ہنستے کھیلتے لوگ کسی جگہ بے موت مارے جائیں۔ پاکستان میں ہر سال ہزاروں لوگ ٹریفک حادثات میں مرتے ہیں۔ کتنے ہی لوگ روزانہ مناسب علاج نہ ملنے کی وجہ سے دم توڑ جاتے ہیں۔ ہزاروں لوگ دہشتگردی کی نظر ہوئے۔ کہیں فیکٹریوں میں آگ لگتی ہے اور ان میں کام کرنے والے مزدور جل کے راکھ ہو جاتے ہیں۔ کہیں کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے کان کن حفاظتی اقدامات نہ ہونے کی وجہ ملبے میں دب کے مر جاتے ہیں۔ کبھی زلزلوں میں مکانوں کی چھت گرنے سے کچھ بے نصیب نیند میں کچلے جاتے ہیں۔ کبھی واپڈا کے لائن مین بجلی ٹھیک کرنے کے لیے بے سر و سامان کھمبوں پہ چڑھتے ہیں اور ان کی لاشوں کو وہاں سے اتارا جاتا ہے۔ کتنے لوگ زندگی سے تنگ آ کر خودکشی پہ مجبور ہوتے ہیں۔ لیکن آج تک کسی بھی حوالے سے ریاست کی جانب سے کوئی سنجیدہ اقدام نہیں کیا گیا۔ آج تک صرف مذمتی بیان ہی دیے گئے ہیں اور کچھ نہیں!
پاکستان انتہائی ناقص انفراسٹرکچر رکھنے والے ممالک میں سرِ فہرست ہے۔ آج تک یہ ریاست اور اس کا حکمران طبقہ بجلی کا بحران نہیں حل کر پایا۔ اس جدید دور میں بھی پاکستان کے کچھ علاقوں میں بجلی ناپید ہے اور کئی علاقوں میں روزانہ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ ایک معمول ہے۔ پاکستان کے کئی علاقوں میں گیس سرے سے ہے ہی نہیں اور جہاں موجود ہے وہاں گیس کی لوڈ شیڈنگ بھی معمول ہے یا اس کے بل اتنے زیادہ ہیں کہ غریب لوگ یہ عیاشی برداشت ہی نہیں کر سکتے۔ بڑی توندوں والے وزیر ٹی وی پہ بکواس کرتے ہیں کہ لوگ گیس کے غیر ضروری استعمال سے گریز کریں۔ سرکاری ہسپتالوں کی حالت اتنی ناقص ہے کہ غریب آدمی کے لیے چھوٹی موٹی بیماری بھی ایک بھیانک خواب ہے۔ کسی بھی ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں ایک بیڈ پر دو تین مریضوں کا لیٹنا ایک عام سی بات ہے۔ آبادی کے تناسب سے ہسپتالوں کی شدید کمی ہے۔ تعلیم کے انفراسٹرکچر کی حالت یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں پاکستان کے کئی سکولوں میں بچوں کے بیٹھنے کے لیے کرسیاں نہیں ہیں۔ آج تک عہدِ وحشت کا نصاب نہیں بدلا جا سکا۔ لاکھوں بچے سکول جانے کی عمر میں مزدوری کر رہے ہیں۔ یہی حال سڑکوں کا ہے۔ چند بڑی سڑکوں کو چھوڑ کے شاید ہی کوئی سڑک ایسی ہو جس کو دوبارہ تعمیر کرنے کی ضرورت نہ ہو۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ سڑکیں نہیں بنائی جاتیں، بلکہ بار بار بنائی جاتی ہیں۔ لیکن اتنی ناقص بنائی جاتی ہیں کہ کچھ عرصہ بعد دوبارہ اسی سڑک کا ٹھیکہ لے کر کروڑں روپے کمائے جائیں۔ دولت کی اس ہوس کے نتیجے میں روز کتنے حادثات ہوتے ہیں اور انسانی خون پانی کی طرح سڑکوں پہ بہتا ہے۔ بہت سے ایسے واقعات بھی آئے روز سامنے آتے ہیں کہ کوئی معصوم سا بچہ گلی کے کسی گٹر میں گر کے مر گیا!
اس وضاحت کا نچوڑ یہ ہے کہ مری میں ہونے والے واقعے کی تمام تر ذمہ داری اس ریاست اور حکمران طبقے پر عائد ہوتی ہے۔ ان کے ہاتھ کروڑوں بے گناہوں کے خون سے رنگے ہیں۔ مری کا علاقہ سیاحت کے بڑے مراکز میں سے ایک ہے۔ وہاں تک کھلی اور اچھی سڑکیں بنانا، سڑکوں سے باقائدگی سے برف کی صفائی کرنا یا دیگر حفاظتی اقدمات کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟ اس ریاست اور حکمران طبقے کی ذمہ داری ہے! مرنے والے لوگوں کو موردِ الزام ٹھہرانے والے یہ بھیڑیے ہی اصل مجرم ہیں۔ فواد چوہدری جیسا گدھ کہہ رہا تھا کہ سیاحوں کی تعداد حد سے تجاوز کر گئی تھی اور ہمارے منع کرنے کے باوجود لوگ وہاں جاتے رہے۔ اس گدھ کے بقول انتظامیہ کا کوئی قصور نہیں ہے۔ اول تو یہ کہ کچھ دن پہلے تک سیاحت کے فروغ کی بانگیں دی جا رہی تھیں اور شادیانے بجائے جا رہے تھے کہ پاکستان میں سیاحت کتنی زیادہ ہے۔ دوسری بات یہ کہ اگر خطرے کا اتنا ہی علم تھا تو ان لوگوں کے لیے سڑکیں بند کرنا کتنامشکل کام ہے؟ یہ وہی ملک ہے نا جس میں کسی افسر کی گاڑی نے گزرنا ہو تو کچھ دیر کے لیے ساری ٹریفک روک دی جاتی ہے؟ یہی وزیرِ اعظم تھا جس کے دھرنے کے لیے مہینوں تک اسلام آباد کی شاہروں کو کنٹینر لگا کر بند رکھا گیا تھا۔ اسی ریاست اور حکمران طبقے کی دلال سیاسی جماعتوں کے جلسوں کے لیے سڑکیں بند کی جاتی ہیں اور پورے شہر میں ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ پھر مری جانے والے راستے بند کرنے میں کیا دِقت تھی؟ جواب یہ ہے کہ ہمیشہ کی طرح سوشل میڈیا پر عوامی ردِ عمل آنے سے پہلے انہیں فکر ہی نہیں تھی۔ ان وحشیوں کے مرنے والے 22 انسان نہیں بلکہ کیڑے مکوڑے تھے۔ پریس کانفرنسوں میں مگر مچھ کے آنسو بہانے کے بعد یہ لوگ اپنے عیاشی کے اڈوں میں لوٹ جائیں گے۔
ریسکیو آپریشن بھی بہت تاخیر سے شروع کیا گیا اور”اب“ قریبی ہوٹلوں کو متاثرین کے لیے کھولا گیا ہے۔ اتنے گھنٹے ہزاروں گاڑیاں برف میں پھنسی رہیں۔ ننھے بچے سردی میں ٹھٹھرتے رہے اور ماں جیسی ریاست سو رہی تھی! آرمی کے درجنوں ریسٹ ہاؤس خالی پڑے تھے لیکن لوگ سردی میں مرتے رہے۔ اگر کوئی مدد کے لیے آیا تو وہ قریبی علاقوں کے ”عام“ لوگ تھے۔ عورتیں اپنے جہیز کے کمبل لے کر پہنچیں۔ مقامی لوگوں سے جو بن پڑا انہوں نے کیا۔ ہم سوال کرتے ہیں کہ اگر اسی برف میں کوئی جج، جرنیل، سیاستدان یا کوئی حکمران طبقے کا فرد پھنسا ہوتا تو کیا اسی طرح لاپرواہی برتی جاتی؟ ہرگز نہیں! ایک حالیہ مثال لے لیتے ہیں۔ کچھ ماہ قبل گوجرانوالہ میں ایک کمشنر کا کتا گمشدہ ہونے پر ساری نفری کی دوڑیں لگ گئی تھیں۔ اوپر سے حکم تھا کہ کسی بھی حال میں کتے کو ڈھونڈنا ہے اور کچھ ہی گھنٹوں میں کتا ڈھونڈ کر کمشنر صاحب کو دے دیا گیا۔ کیونکہ وہ ”کمشنر“ کا کتا تھا لیکن مری میں مرنے والے ”عام انسان“ تھے۔ وہ عام لوگ جو اپنی روزمرہ کی بد ترین زندگیوں میں کچھ وقت نکال کر سیر و تفریح کے لیے نکلے تھے۔ شاید وہ بد نصیب بھول گئے تھے کہ وہ کس جہنم کے باسی ہیں اور اس جہنم میں برف باری سے لطف اندوز ہونے کی خواہش جرم ہے اور اس کی سزا بھیانک موت ہے۔
یہ نظام صرف موت بانٹ سکتا ہے۔ آج تکنیک اتنی ترقی کر گئی ہے کہ اس طرح کے مسائل آسانی سے حل کیے جا سکتے ہیں۔ انہی پہاڑوں پہ وسیع اور مضبوط سڑکیں بنائی جا سکتی ہیں۔ باقائدہ منصوبہ بندی کے تحت شہروں کی تعمیر کی جا سکتی ہے اور ہر قسم کے خطرے سے بچا جا سکتا ہے۔ عوام کا پیسہ چند ہاتھوں میں نہ جائے تو ہر محلے میں اعلیٰ معیار کے ہسپتال اور سکول بنائے جا سکتے ہیں۔ سیر و تفریح سے منافعے کا عنصر ختم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن انسانی ترقی کی اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ نجی ملکیت اور منافع پر مبنی یہ نظام ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس نظام کو سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے جڑ سے اکھاڑ کر منصوبہ بند معیشت کے تحت مزدور ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے اور سوشلزم کی تعمیر کا کام شروع کیا جائے۔ اسی سماج میں انسان محفوظ اور خوشگوار زندگی گزار سکتا ہے۔