|تحریر: صدیق جان|
جب کسی نظام میں معاشی آسودگی ختم ہو جاتی ہے اور معاشی بحران گہرا ہوتا جاتا ہے تو معاشرے میں جرائم کی شرح بھی بڑھتی جاتی ہے۔ یوں تو مملکت خداد میں بچے، خواتین، مظلوم قومیتیوں سے تعلق رکھنے والے لوگ، محنت کش اور یہاں تک کہ جانور بھی محفوظ نہیں ہیں، لیکن خواجہ سراوں کے ساتھ جنسی زیادتی سے لے کر کئی قسم کے دل دہلا دینے والے واقعات آئے روز سامنے آتے رہتے ہیں۔
9 ستمبر کو گل پانڑہ اور اسکی ساتھی چاہت پر نامعلوم افراد نے پشاور کے علاقے پلوسہ میں اس وقت قاتلانہ حملہ کیا جب دونوں ایک پروگرام سے واپس آرہی تھیں، جس میں گل پانڑہ کو چھ گولیاں لگیں اور ہسپتال پہنچنے سے پہلے دم توڑ گئی جبکہ چاہت شدید زخمی ہے اور خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں داخل ہے۔
یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ 2017 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں خواجہ سراوں کی کل آبادی 10ہزار 418 ہے جبکہ ٹرانس جنڈر کمیونٹی کے مطابق ان کی آبادی پانچ لاکھ ہے۔ انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والے تیمور کمال نے ایکسپریس ٹریبون اخبار کو بتایا کہ 2015 سے 2017 تک دو سال کے عرصے میں پاکستان میں 53 خواجہ سراوں کو قتل کیا گیا جبکہ 300 سے زیادہ خواجہ سراوں پر تشدد کیا گیا جس میں ریپ، گینگ ریپ، اغواء اور جسمانی تشدد شامل ہے۔ خواجہ سراوں کے حقوق کیلئے سرگرم گروپ ٹرانس ایکشن(Trans Action) کے مطابق صرف خیبر پختون خواہ میں 2018 میں 8 خواجہ سراوں کو قتل کیا گیا جبکہ 479 پر جسمانی تشدد کیا گیا۔ ان اعداد و شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ خواجہ سرا پاکستان میں کتنے غیر محفوظ ہیں اور انکے ساتھ کس قدر بھیانک اور غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اکثر اوقات پولیس تھانے میں خواجہ سراوں کی FIR تک درج نہیں کی جاتی۔ اسی طرح 2017 میں خیبر میڈیکل کالج کے مردہ خانے میں یہ کہہ کر ایک خواجہ سرا کی لاش کو رکھنے سے انکار کر دیا گیا کہ اس کی لاش سے مردہ خانہ گندہ ہو جائے گا، جبکہ سرکاری کنٹریکٹر نے اس کو دفنانے سے بھی انکار کر دیا۔
خواجہ سرا، جنہیں تیسرا جنس بھی کہا جاتا ہے، ایسے لوگ ہیں جن کو معاشرے میں اور خصوصا پاکستانی معاشرے میں کسی بھی صورت قبول نہیں کیا جاتا۔ اگر کسی کے گھر میں خواجہ سرا پیدا ہو جائے تو گھر والے سماجی بدنامی کی وجہ سے یا تو اسے مار دیتے ہیں یا اسے گھر سے نکال دیتے ہیں۔ جب خواجہ سراؤں کو گھر سے نکال دیا جاتا ہے تو ان کے سامنے صرف تاریک دنیا ہوتی ہے، وہ جا کر دوسرے خواجہ سراوں سے مل جاتے ہیں جہاں پر وہ اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کیلئے ناچ گانا شروع کردیتے ہیں اور شادی بیاہ یا دوسری تقریبات میں جا کر ناچتے ہیں یا پھر وہ سیکس ورکر بن جاتے ہیں۔ چونکہ ریاست کی طرف سے خواجہ سراؤں کیلئے تعلیم، رہن سہن اور روزگار کا کوئی بندوبست نہیں کیا جاتا لہٰذا خواجہ سرا ناچنے، بھیک مانگنے اور اپنا جسم بیجنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور اکثریت نشے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ Fan African Journal کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 39.2 فیصد خواجہ سرا جسم بیجنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، 37.6 فیصد نشے کے عادی ہو جاتے ہیں، سماجی امتیاز کی وجہ سے 38.6 فیصد خواجہ سرا خودکشی کے بارے میں سوچتے ہیں جبکہ 18.5 فیصد خود کشی کی کوشش کرتے ہیں۔
پاکستان میں خواجہ سراؤں کے تحفظ کے حوالے سے قوانین بھی بنائے گئے ہیں لیکن وہ صرف کاغذی کاروائی کی حد تک محدود ہیں جبکہ حقیقت میں ان پر کوئی عملدرامد نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح پاکستان میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے حوالے سے کئی غیر سرکاری تنظیمیں کام کرتی ہیں لیکن ان کا کام صرف فوٹو سیشنز اور رپورٹس بنانے کی حد تک ہے جس پر وہ بیرونی اداروں سے بھاری فنڈ وصول کرتے ہیں۔ اگر یہ لوگ کسی خواجہ سرا کو کوئی نوکری یا کوئی اور عہدہ دلوا بھی دیں تو پھر اسے مثال بنا کر پیش کرتے ہیں اور موٹا فنڈ وصول کر کے اپنی جیب گرم کرتے ہیں۔ اس فنڈ میں سے خواجہ سراؤں کو آٹے میں نمک کے برابر دیا جاتا ہے۔
اس وقت سرمایہ درانہ نظام شدید بحران کا شکار ہے۔ سرمایہ درانہ ریاستوں میں یہ اہلیت نہیں کہ وہ کوئی ایک بنیادی مسئلہ حل کرسکیں۔ جب تک یہ نظام موجود ہے یہ محنت کش اور مظلوم لوگوں کا خون پیتا رہے گا۔ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی یہاں پر ایک ایسا معاشرہ تعمیر کیا جا سکتا ہے جس میں استحصال کا خاتمہ ہو اور سماج کی تمام پرتوں کو انسان کا درجہ ملے اور وہ ایک محفوظ اور خوشحال زندگی بسر کر سکیں۔