رپورٹ: |راول اسد|
پروگریسو یوتھ الائنس(PYA) کے زیر اہتمام 17جولائی 2016ء کو ایک روزہ مارکسی سکول منعقد کیا گیا۔ سکول مجموعی طور پر دو سیشنز پر مشتمل تھا۔ پہلے سیشن کا موضوع ’’عالمی و پاکستان تناظر‘‘ تھا جسے آصف لاشاری نے چئیر کیا اور دوسرے سیشن کا موضوع مارکسی تصنیف داس کیپیٹل کا پہلا باب ’’جنس(commodity)‘‘ تھا جسے ماہ بلوص اسد نے چئیر کیا۔
پہلے سیشن میں راول اسدنے بحث کا آغاز کیا اور عالمی تناظر پر مفصل بات رکھی اور بتایا کہ عالمی پیمانے پر 2008ء کے بعد ایک نئے عہد کا آغاز ہو چکا ہے جس کا اظہار عالمی پیمانے پر مختلف تحریکوں، سماجی بے چینی میں ہوتا نظر آتا ہے اور محنت کش طبقے اور نوجوانوں کے شعور آگے بڑھ رہا ہے۔ دنیا بھر میں پولرائزیشن کے عمل میں شدت دیکھی جا سکتی ہے اور ہر جگہ ہی دائیں اور بائیں طرف نئے رجحانات جنم لے رہے ہیں۔ امریکہ میں جہاں ہمیں برنی سینڈر نظر آتا ہے وہیں ہمیں ڈونلڈ ٹرمپ کا مظہر بھی دیکھنے کو ملتا ہے ۔برطانیہ میں جہاں ہمیں جیرمی کاربین کا ابھار نظر آتا ہے وہیں ہمیں دائیں بازو کے نئے رجحانات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہی عمل ہمیں سپین، فرانس اور یونان میں نظر آتا ہے ۔اس کے بعد انعم پتافی ،فضیل اصغر ،اور آفتاب نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے بحث کا آگے بڑھا یا اور دنیا کے مختلف خطوں کی سماجی، معاشی اور سیاسی صورتحال پر بات رکھی۔ راول نے بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ برطانیہ کا یورپی یونین کا انخلاء سرمایہ داری کے بحران میں مزید اضافہ کرے گا اور بہت جلد اس کے اثرات یورپ اورعالمی پیمانے پر اپنا اظہار کریں گے۔
دوسرے سیشن میں بحث کا آغاز فضیل اصغر نے کیا اور کہا کہ کارل مارکس نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف داس کیپیٹل میں سرمایہ داری کا سائنسی تجزیہ پیش کیا اور اس نظام میں چھپی ہوئی محنت کی قوت کے استحصال کو واضح کیا۔ سرمایہ دارانہ سماجوں کی دولت اجناس کے مجموعے کی صورت میں ہوتی ہے اس لیے مارکس نے اپنی کتاب کا آغاز جنس کے تجزیے سے کیا۔ جنس سب سے پہلے ہم سے باہر موجود کوئی شے ہے، ایسی شے جس کی خصوصیات ایک یا دوسری قسم کی انسانی ضروریات کو پورا کرتی ہیں۔ ہر مفید شے کو مقداری اور معیاری حوالے سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ہر شے کو اس کی خصوصیات کی بنا پر کئی طرح سے استعمال کیا جا سکتا ہے اور تاریخ اس کے مختلف استعمالات کو دریافت کرتی ہے اور مختلف سماجی پیمانوں کا تعین کرتی ہے ۔اس کے بعد انعم پتافی اور ماہ بلوص اسد نے بحث میں حصہ لیا۔ آخر میں سوالات کی روشنی میں آفتاب اشرف نے بحث کو سمیٹا۔ انٹرنیشنل گا کر سکول کا اختتام کیا گیا۔