رپورٹ:| RWF ملتان|
ریل کا جو نظام انگریز بنا کر گئے تھے، اس میں نوآبادیاتی نفسیات کے حامل ہمارے نام نہاد آزادحکمرانوں نے رتی بھر بہتری نہیں کی۔ کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپنے برطانوی آقاؤں کی یاد کو تازہ رکھنے کی خاطر یہ اس میں کوئی بہتری نہیں کرتے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سرمایہ دار طبقہ معاشرے اور انفراسٹرکچر کے اُس حصے پر زیادہ پیسے لگاتا ہے جس سے فوری اور بے تحاشا منافعے ملیں، یا پھر جو خود اس کے استعمال میں آنا ہو۔ مثلاً بڑی سڑکیں کہ جن سے ان کی مال بردار گاڑیاں گزرتی ہیں، بندرگاہیں، جیسے گوادر پورٹ کہ جہاں سے ان کے مال کی تجارت ہوگی۔ جبکہ دوسری طرف عام لوگوں کے استعمال اور ضرورت سے منسلک ہر شعبہ دن بدن برباد ہوتا جا رہا ہے۔
یہی حال پاکستان ریلوے کا بھی ہے کہ جسے حکمرانوں نے کبھی اپ ڈیٹ نہ کرنے کی قسم اٹھا رکھی ہے، کیونکہ اس سے تو محض عام لوگ ہی سستا سفر کرتے ہیں۔ اسی طرح مئی 2016 ء میں حکومت نے ریلوے کو اسٹیشنز کی تعمیر و مرمت کے لیے گیارہ ارب روپے کی سبسڈی دی ہے، اس کا مقصد بھی قطعاً عام مسافروں کو سہولت میسر کرنا نہیں ہے ۔ انہی کے مالکان اور ریلوے افسرشاہی کو ٹھیکوں کی صورت میں نوازنے کے لیے یہ رقم دی گئی ہے، جو کہ آخر کار یہاں کے مزدورں کی محنت سے بنائی ہوئی دولت ہے۔ تمام ریلوے ملازمین کی تنخواہوں سے رہائشی کوارٹروں کی مرمت کی مد میں ہر ماہ 5فیصد کٹوتی کی جاتی ہے، جبکہ ملتان ریلوے کے مزدورں کا کہنا تھا کہ قیام پاکستان کے بعد تعمیر کئے جانے والے ان مرغی کے ڈربے نما کوارٹروں کی کبھی مرمت ہی نہیں کی گئی۔ حکومت اور ریلوے افسر شاہی مزدوروں کی انتہائی قلیل تنخواہوں سے یہ رقم کاٹ کر بھتے کی طرح استعمال کر رہے ہیں۔ زیادہ تر کوارٹرز میں تو باتھ روم کے دروازے ہی نہیں لگائے گئے تھے، جو آج بھی اسی طرح بے در کھڑے ہیں۔ کوارٹرز کی خستہ حالی کا عالم یہ ہے کہ آئے روز کوئی نہ کوئی حادثہ پیش آتا رہتا ہے، جس سے خاص کر چھو ٹے بچے اور بڑے بوڑھے زخمی ہو جاتے ہیں۔ ایسی کیفیت میں فوری طور پر میسر ریلوے ہسپتال جانا ایک اور عذاب کے سلسلے کو پیدا کر دیتا ہے، جہاں ڈاکٹر دوائی میسر نہ ہونے کا کہہ کر کہیں اور بھیج دیتا ہے، جبکہ ریلوے افسران کو ان کی کوٹھیوں میں جا کر دوائیوں سمیت علاج کی سہولت مہیا کی جاتی ہے۔
ریل مزدوروں نے وہاں گئے ہوئے ریڈ ورکرز فرنٹ کے ساتھیوں سہیل بھٹہ، ماجد قیوم، راول اسد اور انعم پتافی کو بتا یا کہ اکثر اوقات تو ان کے پاس دوائی تو دور کہیں اور جا کر علاج کرانے کے لیے لوکل ٹرانسپورٹ کا کرایہ تک نہیں ہوتا ۔ ریلوے مزدوروں کو سینکڑوں یونینز اور ایسوسی ایشز میں تقسیم کیا گیا لیکن کوئی قیادت ان کے حقیقی مسائل پر لڑائی لڑنے کو تیار نہیں ہے۔ کوارٹرز کی مرمت کا مسئلہ سب شعبوں کے مزدوروں کا سانجھا ہے۔ اس کے حل کی خاطر سب مزدوروں کو مل کر احتجاج اور ہڑتال کے ذریعے لڑائی لڑنا ہوگی۔ لگ بھگ دو صدیاں قدیم ریلوے نظام کو جس ہنر، مہارت اور رسک پر ریل مزدور چلا رہے ہیں وہ دیدنی ہے۔ اسے چلانے والوں کو متحد ہو کر لڑائی لڑ کے ہی ان عذابوں سے نجات مل سکتی ہے۔