|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، ملتان|
ملتان کے تمام ہسپتالوں چلڈرن، نشتر، کارڈیالوجی سنٹر، ڈینٹل ہسپتال، شہباز شریف ڈسٹرکٹ ہسپتال، فاطمہ ہسپتال، سول ہسپتال کے سینکڑوں ملازمین نے حکومت کے ہسپتالوں کو ٹھیکہ پر دینے کے فیصلہ کے خلاف 30 نومبر 2017ء کو احتجاجی ریلی نکالی۔ ریلی کے شرکا نے بینرز اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے۔ ریلی سے اے ڈی کنول(مرکزی ایجوکیشن سیکرٹری وصوبائی سینئر وائس چیئرمین پیرامیڈیکل سٹاف )، اقبال طاہر(صوبائی چیئرمین ہیلتھ سپورٹ سٹاف)، کلیم سرانی(صدر کارڈیالوجی)، محمد اسماعیل (صدر چلڈرن)، مختار راٹھور(صدر ایپکا)، شمیم اختر(صدر ینگ نرسز ایسوسی ایشن)، رانا عامر علی(جنرل سیکرٹری نشتر)، ممتاز خان(چلڈرن ہسپتال)، عمران احمد(صدر ای ڈی او آفس)، مقبول گجر(صوبائی جنرل سیکرٹری پیرامیڈکس)، رخسانہ انور (صوبائی صدرلیڈی ہیلتھ ورکر)، رستم علی(صدر ڈسپنسر)، اشرف ساقی(صدر نشترہسپتال)، اللہ دتہ سندیلہ(نشترہسپتال)، عمران یوسف، محمد عقیل(شہباز شریف ہسپتال)، محمد وقاص، محمد الیاس(فاطمہ ہسپتال) نے ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے تمام سرکاری اداروں کوپنجاب ہیلتھ فیسیلٹی منیجمنٹ کمپنی اور انڈس گروپ کے حوالے کرنا عوام، ملازمین اور سرکاری اداروں کے ساتھ سراسر ظلم ہے۔ عوام کو صحت اور تعلیم کی سہولیات فراہم کرنا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے جبکہ ہماری حکومتیں تمام اداروں کو ٹھیکے پر دیے جا رہے ہیں۔ نشتر ہسپتال اور باقی کچھ اداروں کے بلڈ بینک کو انڈس گروپ کے حوا لے کر دیا ہے اورباقی ضلعی ہسپتال، تحصیل ہسپتال اور انسٹیٹیوٹ کے بلڈبینک، ریڈیالوجی، پیتھالوجی ڈیپارٹمنٹ بھی ان کے حوالے کرنے کی تیاریاں مکمل کر چکے ہیں ہم تمام ہسپتالوں کے ملازمین اسکا بائیکاٹ کرتے ہیں۔
وزیراعلیٰ نے محکمہ صحت کی بہتری کے لئے دو وزیرصحت اور دو سیکرٹری صحت بنا دئیے ان کے دفاتر بھی الگ الگ بنائے اور ان سے کام لینے کے بجائے اداروں کو ٹھیکے پر دے دیا۔ ان سیکرٹریوں اور وزیروں کی تنخواہوں پر اگر نظر دوڑائی جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے گویا پورے ملک کا نظام صحت انہی کے دم سے ہے اور اگر یہ نہ ہوں تو سب ختم۔ جبکہ ہزاروں عام محنت کش جو دن رات صحت کے شعبے میں معمولی سی تنخواہوں پر کام کرتے ہیں یہی لوگ ہیں جن کی بدولت صحت کا نظام چلتا ہے۔ اگر یہ لوگ اپنا ہاتھ روک دیں تو واقعی میں سب کچھ ختم ہو جائیگا۔ ظلم تو یہ ہے کہ جو دن رات سب کچھ کرتے ہیں نجکاری اور تنخواہوں میں کٹویوں کی صورت میں سارا بوجھ بھی انہی کے کندھوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ جتنے پیسے ان وزیروں اور سیکرٹریوں کی تنخواہوں میں ضائع کر دیے جاتے ہیں اگر اتنی رقم مریضوں کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کی جاتی تو آج پاکستان میں لوگ قابل علاج بیماریوں کی وجہ نہ مرتے۔ ہسپتالوں کی حالت زار دیکھیں کہ ایک بستر پر دو مریض اور چلڈرن ہسپتال میں تو ہر وقت ایک بستر پر تین سے چار بچے لیٹے ہوتے ہیں لیکن پھر بھی آبادی کے تناسب سے ہسپتال انتہائی کم ہیں اور نئے ہسپتال نہیں بنائے جا رہے۔ حکومت نئی مشینری خرید کرہسپتالوں میں ہنگامی طورپر لگانے میں مصروف عمل توہے مگر اسکا مقصد سارا سسٹم اعلیٰ درجے کا بنا کر ان پرائیویٹ کمپنیوں کے حوالے کرنا ہے تاکہ وہ صحت جیسے بنیادی انسانی ضرورت کے شعبے سے خوب منافع بٹور سکیں۔ وزیراعلیٰ کو چاہیے کہ وہ ہسپتال ٹھیکہ پر دینے کی بجائے عوام کے لئے سہولیات فراہم کریں اور محکمہ صحت کی ٹیم تبدیل کر کے اسکو چلانے کے لئے قابل اور اہل لوگوں کا انتخاب کریں۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے عطائیت کے خاتمہ کے لئے ہیلتھ کیئر کمیشن بنایا ہے، اس کے ذریعہ بھی یہ کام نا ممکن ہے جب تک پاکستان میں گورنمنٹ کے اداروں، میڈیکل فیکلٹی، بورڈ اور یونیورسٹیوں سے(ٹیکنیشن، ٹیکنالوجسٹ، ایم فل، پی ایچ ڈی) کی تعلیم حاصل کرنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کے لئے الائیڈ ہیلتھ (پیرامیڈکس)کونسل کا قیام عمل میں نہیں لایا جاتا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو پرائیویٹ اداروں میں کام کرنے سے روکا جا رہا ہے اور کوالیفائیڈ ٹیکنیشن اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو عطائیت میں شامل کیا گیا ہے خاص طور پر پیتھالوجی، ریڈیالوجی، فیزیوتھراپی، ڈینٹل، میڈیکل ٹیکنیشن، ڈسپنسر کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو۔ الائیڈ ہیلتھ (پیرامیڈکس)کونسل کے قیام تک ان محنت کشوں کو ہراساں نہ کیا جا ئے اور انھیں جائز اور حلال رزق کمانے سے نہ روکا جا ئے۔
ریلی کے شرکاء کی جانب سے درج ذیل مطالبات پیش کیے گئے:
1۔ تمام سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کا فیصلہ فوری طوری واپس لیا جائے۔ اور ہسپتالوں میں آبادی کے تناسب سے بستر و دیگر سہولیات فراہم کی جائیں۔
2۔ الائیڈ ہیلتھ پروفیشنلز سکیل 5 تا 17 کے 24 نومبر 2011ء کے 4 درجاتی سروس سٹرکچر پر فوری طور پرپنجاب کے تمام اضلاع میں عمل درآمدمکمل کرایا جائے۔
3۔ ہیلتھ سپورٹ سٹاف سکیل 1تا17ملازمین کے سروس سٹرکچرپرفوری طور پرعمل درآمدکرایا جائے ۔
4۔ الائیڈ ہیلتھ پروفیشنلز اورہیلتھ سپورٹ سٹاف سکیل5تا18کو ڈاکٹراور نرسز کی طرز پر ہیلتھ پروفیشنل الاؤنس، ہیلتھ رسک الاؤنس اور پے پروٹیکشن دیے جائیں۔
5۔ کنٹریکٹ، ڈیلی ویجز اور بورڈ آف منیجمنٹ کے تمام ملازمین کو فوری طورپر ریگولر کیا جائے۔ بشمول ان تمام آسامیوں کے جن کو2009ء میں بھی ریگولر نہیں کیا گیا۔
6۔ الائیڈ ہیلتھ پروفیشنل کونسل کے قیام تک کوالیفائیڈ پیتھالوجی، ریڈیالوجی، فیزیوتھراپی، ڈینٹل، میڈیکل ٹیکنیشن، ڈسپنسر کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو حراساں نہ کیا جا ئے۔
احتجاجی ریلی میں تمام ہسپتالوں سے سینکڑوں ملازمین شامل ہوئے اور انھوں نے کہا کہ اگر نجکاری کا یہ سلسلہ بند نہ کیا گیا اور دیگر تمام جائز مطالبا ت پورے نہ کیے گئے تو محکمہ صحت کے تمام ملازمین4نومبر کو پنجاب کے تمام ہسپتالوں میں ایمر جنسی کے علاوہ مکمل ہڑتال کریں گے اور احتجاجی ریلیاں نکالیں گے۔ ملتان میں تمام ہسپتالوں کے ملازمین ریلیوں کی صورت میں کچہری چوک پر پہنچ کر احتجاجی دھرنا دیں گے۔ احتجاج کے دوران کسی بھی قسم کے ہونے والے نقصان کی ذمہ داری حکومت پنجاب پر ہوگی۔