|تحریر: صدیق جان، ریڈ ورکرز فرنٹ خیبر پختونخواہ|
اس وقت پوری دنیا عالمی معاشی بحران کا شکار ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ مزید گہرا ہوتا جا رہاہے۔ کورونا وباء نے اس بحران کو مزید گہرا اور پیچیدہ کر دیاہے۔ کورونا وباء کے دوران لوگ بڑے پیمانے پر بے روزگار ہوئے ہیں جبکہ چھوٹے کاروبار بھی تنزلی کا شکار ہیں۔
پوری دنیا کے اندر معاشی بحران کا تمام تر بوجھ محنت کش طبقے پر ڈالا جا رہا ہے جس میں اجرتوں میں کٹوتی، نجکاری، مستقل روزگار کا خاتمہ، ڈاؤن سائزنگ، ٹیکسوں میں اضافہ، مہنگائی اور دوسرے اقدامات شامل ہیں لیکن ان بدترین معاشی حالات میں بھی پوری دنیا میں سرمایہ دار طبقے کو نوازا جا رہا ہے اور وباء کے دوران بھی سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل کارپوریشنوں نے کھربوں ڈالر کمائے ہیں اور ان کی دولت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ اسی طرح پاکستان، جو کہ ایک پسماندہ سرمایہ دارانہ ملک ہے جو ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے سامراجی مالیاتی اداروں کے ٹکڑوں پر پلتا ہے، پر معاشی بحران کے اثرات کہیں زیادہ تباہ کن ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کے نااہل حکمران طبقے، گھن زدہ ریاست اور اسکے عوام دشمن اداروں کے جبر واستحصال نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے۔ پاکستان پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضے اپنی انتہاؤں کو چھو رہے ہیں اور اندرونی قرضے اس کے علاوہ ہیں، جبکہ مزید قرضے بھی لئے جا رہے ہیں۔ عمران خان نے وزیراعظم بننے کے بعد بہت بڑھک بازیاں کی تھیں اور کہا تھا کہ وہ آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں لے گا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان جیسی ریاست آئی ایم ایف کے قرضوں کے بغیر ایک دن بھی نہیں چل سکتی۔ اس لئے عمران خان کو جلد آئی ایم ایف سے قرض لینا پڑا لیکن اس بار آئی ایم ایف نے نیا قرضہ دینے کیلئے سخت ترین شرائط عائد کیں جس میں اجرتوں میں کمی، عوامی اداروں کی نجکاری، ڈاؤن سائزنگ، پنشنوں کا خاتمہ، بجلی اور تیل و گیس کی قیمتوں اور ٹیکسوں میں اضافہ شامل ہیں۔ آئی ایم ایف پاکستان کو چھ ارب ڈالر کا قرضہ 39 مہینوں میں قسط وار دے رہا ہے جس میں ہر نئی قسط کو جاری کرنے سے پہلے آئی ایم ایف پچھلی قسط کی شرائط کو لاگوکرنے کا جائزہ لیتا ہے اور اگر حکومت ان شرائط کو پورا کرے تو نئی قسط جاری کی جاتی ہے۔
اگر ایک طرف پوری دنیا کے اندر معاشی بحران کا سارا بوجھ محنت کش طبقے پر ڈالا جا رہا ہے تو دوسری طرف اس کے خلاف پوری دنیا کے اندر محنت کش طبقے کی تحریکیں بھی ابھر رہی ہیں جس میں پچھلے عرصے میں فرانس میں پیلی واسکٹ تحریک، چلی، ایکوا ڈور، لبنان اور دوسرے ملکوں کی تحریکیں شامل ہیں جبکہ امریکہ میں کورونا وباء کے دوران نسلی تعصب اور معاشی استحصال کے خلاف ایک بڑی تحریک دیکھنے میں آئی۔
پاکستان میں پچھلے کچھ سالوں میں تقریبا ہر ادارے اور نجی صنعتی علاقے میں محنت کشوں کی چھوٹی چھوٹی تحریکیں موجود رہی ہیں۔ دوسری طرف طلبہ کی بھی فیسوں میں اضافے اور دیگر مطالبات کیلئے تحریک موجود ہے۔ اسی طرح پاکستان کے اندر مزدوروں اور سرکاری ملازمین کے اتحاد بھی بننا شروع ہوگئے ہیں جس میں سب سے نمایاں آل گورنمنٹ ایمپلائیز گرینڈ الائنس خیبر پختونخواہ ہے۔ اس طرح کے اتحادوں کا بننا آگے کی طرف ایک معیاری قدم ہے۔ پچھلے دو مہینوں کے اندر آل گورنمنٹ ایمپلائیز گرینڈ الائنس کے پی کے نے زبردست احتجاجوں کو منظم کیا ہے جس میں ہزاروں سرکاری ملازمین نے شرکت کی۔ اس الائنس کے مطالبات میں اجرتوں میں اضافہ، روزگار کی مستقلی، نجکاری وڈاؤن سائزنگ اور نام نہاد پنشن ریفارمز کا خاتمہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف اور حکومت کی ملازم کش پالیسیوں پر بھی شدید تنقید کی جا رہی ہے۔
اب تک الائنس کی لیڈر شپ نے خاصی دلیری کا مظاہرہ کیا ہے اور بہت بہادری اور جوش و جذبے کے ساتھ اس تحریک کو منظم کیا ہے لیکن کسی بھی تحریک کی کامیابی کا ضامن صرف جوش و جذبہ اور بہادری نہیں ہوتی بلکہ تحریکوں کی کامیابی کیلئے جوش و جذبے کے ساتھ درست نظریات اور طریقہ کار ولائحہ عمل بھی بہت ضروری ہوتے ہیں۔ ان نظریات کے بغیر کوئی بھی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی۔
اس وقت حکومت اور نام نہاد اپوزیشن عوامی اداروں کی نجکاری، پنشنوں کے خاتمے، جبری برطرفیوں اور دوسری ملازم کش پالیسیوں کے حوالے سے ایک پیج پر ہیں اور اگر آج تحریک انصاف کی حکومت نہیں ہوتی اورکسی اور پارٹی کی حکومت ہوتی تو وہ بھی آئی ایم ایف کی پالیسیوں کو اسی طرح شدو مد سے لاگو کرتی۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ آج تک کسی بھی سیاسی پارٹی نے اس حوالے سے کوئی بیان نہیں دیا ہے اورنہ ہی کسی پلیٹ فارم پر ان پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کے راہنماؤں یا نمائندوں سے ملنے اور اپنے مطالبات پیش کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن اس پر زیادہ توانائی صرف کرنے سے سخت گریز کرنا چاہیے اور ان مزدور دشمنوں سے کسی بہتری کی ذرا سی بھی امید رکھنا تو پرلے درجے کی حماقت ہو گی۔ ہمارے پاس منظم احتجاج اور ہڑتال ہی وہ ہتھیار ہیں جن کے ذریعے ہم اپنے حقوق چھین سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ اگر اپوزیشن پارٹیاں ہماری بات سنتی ہیں یا اس حوالے سے بات کرتی بھی ہیں تو وہ ایسا صرف اپنے کسی مخصوص مفاد کیلئے کریں گی اور فیصلہ کن وقت پر محنت کشوں کو ہمیشہ دھوکہ دیں گی۔ اس کی واضح مثال سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کے خلاف گرینڈ ہیلتھ الائنس کی تحریک ہے جس نے کئی دفعہ اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ مذاکرات بھی کئے اور انکے نمائندوں کو اپنے احتجاجوں میں بھی بلایا مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
اسی طرح حکومت آئی ایم ایف کی پالیسیوں کو سختی سے نافذ کرنے کی کوشش کرے گی۔ اس کے لئے ریاست محنت کشوں پر جبر بھی کرے گی، طاقت کا استعمال بھی کرے گی اور ان کے خلاف ہر قسم کا اوچھا ہتھکنڈا بھی آزمائے گی جس طرح گرینڈ ہیلتھ الائنس کے احتجاجوں کے دوران ینگ ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرامیڈیکس کو سڑکوں پر گھسیٹا، مارا اور گرفتار کیاگیا۔ اس لئے ضروری ہے کہ سرکاری ملازمین اپنی تحریک کو مستقل اور مضبوط بنیادوں پر منظم کریں جس کے لئے ایک بڑی کمپئین کی ضرورت ہے تاکہ صوبے کے تمام ملازمین تک الائنس کے مطالبات اور پیغام پہنچایا جاسکے کیونکہ اس وقت بھی سرکاری ملازمین کی اکثریت ان احتجاجوں میں شریک نہیں ہوتی کیونکہ انہیں اس حوالے سے معلومات نہیں ہوتیں۔ اسکے علاوہ یونین کونسلوں، تحصیل، ضلعی اور صوبائی سطح پر ورکرز کنونشن بلائے جائیں تاکہ تمام ملازمین کو نہ صرف الائنس کے مطالبات، طریقہ کار اور لائحہ عمل کا پتہ چلے بلکہ ان کی رائے سے اس میں مزید بہتری بھی لائی جا سکے۔ اس طرح الائنس کی قیادت کو بھی ملازمین کے سامنے اپنے قول وفعل کے لئے جواب دہ ہونا پڑے گا اور اس کے بغیر عام ملازمین کا اعتماد جیتنا ناممکن ہے۔ اس وقت سرکاری اداروں کے ملازمین کی اکثریت ان اداروں میں موجود تنظیموں کا حصہ نہیں ہے اور کم از کم الائنس کے ابھی تک کے احتجاجوں میں شامل ملازمین ان تنظیموں کی کال کی بجائے آزادانہ طور پر ان میں شامل ہوئے ہیں کیونکہ وہ یہ شعور حاصل کر چکے ہیں کہ ان کے پاس لڑنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں۔ اس لئے الائنس کو اپنی کمپئین صرف ان تنظیموں تک محدود نہیں کرنی چاہیے بلکہ تمام ملازمین تک اپنا پیغام پہنچانا چاہئے۔ اسی طرح الائنس کو چائیے کہ عوام کو بھی اپنے ساتھ اس جدوجہد میں جوڑے کیونکہ اس وقت مہنگائی، بے روزگاری اور دوسرے مسائل کے حوالے سے عوام میں ایک زبردست غم وغصہ موجود ہے اور یقینا ان کی ہمدردیاں جیتی جاسکتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہمیں ایک اور بات ذہن نشین کرنی چاہئے کہ اس وقت محنت کش و ملازمین اپنے حقوق کیلئے لڑنے کے لئے تیار ہیں۔ اس لئے جن دھرنوں اور احتجاجوں کو شیڈول کیا گیا ہے ان کو اس خوف سے کہ اس میں ملازمین شاید شرکت نہیں کرینگے، موخر نہیں کرنے چاہئیں، بلکہ منظم کمپئین کرتے ہوئے پوری جرات کیساتھ آگے بڑھنا چاہئے۔
آگے بڑھو محنت کش ساتھیو! ہمارے پاس کھونے کوصرف زنجیریں ہیں اور پانے کو سارا جہاں پڑا ہے۔
مزدور اتحاد، زندہ باد!
آئی ایم ایف، مردہ باد!
مزدور دشمن حکومت، مردہ باد!