|رپورٹ: ورکرنامہ|
21 دسمبر کو پونچھ بھر میں مکمل ہڑتال اور احتجاجی مظاہروں کے ساتھ باغ اور سدھنوتی کے مختلف مقامات پر عوامی احتجاجات نے آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف تحریک کو تین اضلاع تک پھیلا دیا ہے۔ شدید سردی کے باوجودان احتجاجوں میں بڑے پیمانے پر عوام کی شرکت مہنگائی اور دیگر مسائل کے خلاف مجتمع ہونے والے غم و غصے کا اظہار ہے۔ بظا ہر آٹے کی قیمتوں میں ہونے والا حالیہ اضافہ ہی اس احتجاجی تحریک کی وجہ بنا لیکن درحقیقت گزشتہ دس ماہ سے کورونا وباء کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کیے جانے والے بار بار کے لاک ڈاؤن اور عمومی طور پر معاشی بحران اور تمام اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے باعث تباہ حال عوام کی مزید معاشی جبر سہنے کی گنجائش ختم ہو چکی ہے۔ حکمران طبقات سرمایہ داری نظام کے بحران کا تمام تربوجھ پہلے سے برباد عوام کے کاندھوں پر لاد کر اپنی عیاشیوں اور لوٹ مار کو جاری رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران بنیادی ضروریات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے اور مزدور طبقے سے تعلق رکھنے والے گھرانوں کی خوراک کی ضروریات پوری کرنے کی لاگت ساٹھ سے ستر فیصد بڑھ گئی ہے جبکہ دوسری جانب آمدن پہلے سے بھی کم ہو گئی ہے۔ نام نہاد آزاد کشمیر کی حکومت نے کورونا وباء کو روکنے کے لیے سب سے سخت اور طویل لاک ڈاؤن کیے اور آخری پندرہ روزہ لاک ڈاؤن 6 دسمبر کو ختم ہوا، اس کے علاوہ جب مکمل لاک ڈاؤن نہیں ہوتا پھر بھی ہفتے میں دو دن جمعہ اور منگل کو لاک ڈاؤن رہتا ہے۔ ان تمام تر سختیوں کے باوجود ان حکمرانوں نے عوام کو کسی بھی قسم کا ریلیف دینے کے بارے میں سوچا بھی نہیں اور آخری لاک ڈاؤن کے دوران آٹے کی قیمتوں میں 530 روپے فی من اضافہ کر دیا گیا۔ کشمیری محنت کش لاکھوں کی تعداد میں پاکستان اور مشرق وسطیٰ سمیت دنیا بھر کی منڈیوں میں اپنی قوت محنت بیچ کر اپنے خاندانوں کی بنیادی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ اس سال کے دوران دنیا بھر میں کورونا لاک ڈاؤن اور معاشی بحران نے ان کی بھی ایک بڑی تعداد کو بیروزگاری کی کھائی میں دھکیل دیا ہے۔ طویل عرصے سے اس نظام کی بربریت، استحصال، طبقاتی محرومی، قومی غلامی اور ریاستی جبر کے خلاف سطح کے نیچے پلنے والا غم و غصہ اس حد تک بڑھ چکا تھا کہ اسے سطح پر آنے کے لیے کسی ایک آخری جھٹکے کی ضرورت تھی اور آٹے کی قیمتوں میں حالیہ اضافے نے اسی چنگاری کا کام کیا۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں اس نظام کے خلاف ابھرنے والی تحریکوں اور بالخصوص پاکستان میں محنت کشوں کے احتجاجوں اور ہندوستان کے کسانوں کی کئی ہفتوں سے جاری تحریک کے اثرات بھی شامل ہیں۔ سب سے بڑھ کر اس تحریک کی بنیاد میں عام عوام اور غریب لوگوں کا اس نظام، اس کے سیاسی اداروں اور قیادتوں کے ذریعے اپنے مسائل کے حل کی امید کا خاتمہ اور خود اجتماعی طور پر سیاست کے میدان میں داخل ہونے کی تاریخی ضرورت کا ابتدائی مبہم احساس ہے۔
ان احتجاجوں کو دبانے کے لیے حکومت وحشیانہ تشدد اور قانونی جبر کے استعمال کا آغاز بھی کر چکی ہے۔ 23 دسمبر کو ضلع باغ کے ایک نواحی علاقے ریڑہ میں پر امن مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کا استعمال کیا گیا جس کے نتیجے میں کئی مظاہرین زخمی ہوگئے لیکن مظاہرین نے لاٹھی چارج کا مقابلہ کرتے ہوئے پولیس کو بھاگنے پر مجبور کردیا اور اپنا احتجاج جاری رکھا۔ مظاہرین کو طاقت کے زور پر منتشر کرنے میں ناکامی کے بعد پولیس نے تیس سے زائد مظاہرین پر مقدمات درج کر لیے جبکہ مزید ساٹھ سے زائد نا معلوم افراد کو بھی اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ باغ میں مظاہرین پر تشدد حکومت آزاد کشمیر کی شدید بوکھلاہٹ اور خوف کی عکاسی ہے۔
21 دسمبر کو ضلع پونچھ کے مختلف علاقوں میں ہزاروں مظاہرین نے ہڑتال کر کے تمام اہم شاہرات کو بند کر دیا تھا۔ اس ہڑتال کے زیر اثر یہ تحریک دیگر اضلاع میں بھی پھیلنا شروع ہو گئی تھی اسی لیے حکومت نے تحریک کو پھیلنے سے روکنے کے لیے وحشیانہ جبر کا استعمال کیا جس کے الٹ نتائج برآمد ہوئے۔ جمعہ کو باغ کے تمام چھوٹے بڑے دیہاتوں میں اس ریاستی جبر اور مہنگائی کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے گئے اور باغ میں ہونے والی پولیس گردی کے خلاف پورے کشمیر میں علامتی احتجاج کیے گئے۔ یہ غم وغصہ صرف آٹے کی قیمتوں میں اضافے کی مخالفت تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ تراڑکھل کے تاجران نے حکومت کے جمعہ اور منگل کے لاک ڈاؤن کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ضلع سدھنوتی کی تحصیل تراڑکھل سے ملحقہ علاقوں، بلوچ، بیٹھک سمیت تحصیل منگ میں بھی 21 دسمبر کو زبردست احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ اس طرح مہنگائی کے خلاف یہ احتجاجی تحریک تین اضلاع میں شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ مظفرآؓباد میں بھی ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور یوں اس تحریک کے پورے کشمیر میں پھیلنے کے امکانات موجود ہیں۔ ایک جانب آٹے جیسی بنیادی ضرورت کی قیمت میں بے تحاشا اضافے کے خلاف ہونے والے مظاہرین پر ریاستی جبر کیا جا رہا ہے اور دوسری جانب وزیر اعظم آزاد کشمیر اپنے بیانات میں نہ صرف مظاہرین کو تشدد کی دھمکیاں دے رہا ہے بلکہ مسلح جتھوں کی عددی کمزوری کا بھی رونا رو رہا ہے کہ’میرے پاس فورسز کم ہیں نہیں تو میں سڑکیں بند کرنے والوں کو بتاتا‘۔ اسی طرح وزیر اعظم نے ایک بیان میں کہا کہ آٹے کی قیمت اس لیے بڑھائی گئی ہے کہ میں اپنے ملازمین کو تنخواہیں دے سکوں اور اس میں کمی نہیں کی جائے گی۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ آٹا پورے کشمیر میں مہنگا ہوا ہے صرف پونچھ میں نہیں۔ وزیر اعظم کے یہ تینوں بیانات دو باتوں کی وضاحت کرتے ہیں؛ ایک جانب پونچھ ڈویژن کی حد تک محدود ہونے کے باوجود عوامی طاقت کا خوف حکمرانوں کے اعصاب پر حاوی ہو رہا ہے اور حکمران جبر کے ذریعے اس تحریک کو کچلنے یا دبانے کی نا اہلی کا اعتراف بھی کر رہے ہیں اور دوسری جانب عوام کو بھی یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ یہ حکومت عوامی مطالبات کو پورا کرنے کی صلاحیت سے ہی عاری ہے اور ان کے پاس سوائے جبر کے دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے لیکن عوام پر جبر کرنا شائد اتنا آسان نہیں ہے۔
انقلابی بیداری کی پہلی لہر
آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف ابھرنے والی یہ احتجاجی تحریک زندگی کے حقیقی مسائل کو اجتماعی جدوجہد کے ذریعے حل کرنے کی جانب ایک زبردست آغاز ہے۔ دہائیوں سے عوامی مسائل سے مکمل لا تعلق موضوعات کے گرد ہونے والی سیاست کو یکسر مسترد کرتے ہوئے عوام کی اکثریت نے اپنی سیاسی وابستگیوں یا ہمدردیوں کو بالائے طاق رکھ کر دیہی سطح پر عوامی کمیٹیوں کی تشکیل کے ذریعے جڑت بنانے کا آغاز کیا ہے۔ اس عمل نے تمام پارٹیوں کی مرکزی قیادت کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے اور وہ ایک جانب بے وقعت تماشائیوں کی طرح کھڑے ہیں جبکہ دوسری جانب انہی پارٹیوں کے لڑاکا کارکنان اس مزاحمتی تحریک میں سرگرمی سے حصے لے رہے ہیں۔ دیہی علاقوں کی نیم پرولتاری پرتوں کی کسی بھی تحریک کے آغاز پر جو چھوٹی موٹی نظم و ضبط کی خامیاں فطری طور پر موجود ہوتی ہیں، وہ اس تحریک میں بھی موجود ہیں، جس پر کچھ اطراف میں کھڑے مسترد سیاستدان اور ان کے حواری بہت زیادہ ہڑبوم مچا رہے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ان انتہائی معمولی خامیوں کو خامی کہنا ہی مکمل طور پر غلط اس لیے ہے کہ پہلی بار کسی ہڑتال اور احتجاجی تحریک کو اپنے تئیں منظم کرنے والے محنت کشوں اور نوجوانوں نے چند لڑاکا سیاسی کارکنان کی مدد سے جس طرح 21 دسمبر کی ہڑتال کو کامیاب بنایا اس کی مثال کشمیر کی حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ گزشتہ دو سالوں میں خود کو مزاحمت کی سیاست کا چیمپئین سمجھنے والی تمام پارٹیوں اور ان کے اتحادوں کی جانب سے کی جانے والی اس قسم کی سرگرمیوں کا بھیانک انجام سب کے سامنے ہے۔ اس لیے ان کی جانب سے اس تحریک میں نظم و ضبط کی خامیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی اصل وجہ ان کی تحریک میں شمولیت کی نا اہلی ہے اور اس کے ساتھ استرداد کے احساس کو مٹانے اور خود کو تسلی دینے کے لیے یہ بکواس کی جا رہی ہے۔ دوسری اہم وجہ ان کا عوام اور محنت کشوں پر عدم اعتماد ہے جس کی بنیاد پر یہ عام نجی محفلوں میں عوام کو جاہل اور بے وقوف قراردیتے رہے ہیں۔ لیکن آج جب عوام نے خود کو منظم کرتے ہوئے ایک احتجاجی تحریک کا آغاز کیا اور اس عمل میں عوام نے ان بزعم خود قائدین کو یکسر مسترد کیا تو ان کی خود پرستی کو شدید دھچکا لگ چکا ہے۔ عوام اور نوجوانوں نے نہ صرف پہل گامی کی بلکہ تحریک کو وسیع پیمانے پر پھیلانے کے لیے دیگر علاقوں کے محنت کشوں اور عوام کے حقیقی مزاحمتی نمائندوں سے رابطے استوار کرنے کی جانب قدم بھی خود ہی اٹھایا۔ اس کے ساتھ عوامی کمیٹیاں انتہائی بہترین خود تنقیدی کے طریقہ کا ر پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنی ہر سرگرمی میں ہونے والی غلطیوں کی اصلاح کرنے کے عمل کو بھی تیز کر رہی ہیں اور دوسری جانب ان کمیٹیوں کے اجلاسوں میں جس طرح کھل کر جمہوری انداز میں مباحثے اور تنقید کی اورسنی جاتی ہے اس کا کسی بھی سیاسی پارٹی میں تصور بھی موجود نہیں ہے اور اسی لیے تحریک پر عوام کے اس جمہوری کنٹرول نے تمام سیاسی لیڈروں کو خوفزدہ کر دیا ہے۔ عوام نے سیاسی عمل میں اپنے پہلے قدم سے ہی لینن کے اس قول کو ثابت کر دیا ہے کہ ”عوام کسی بھی انقلابی پارٹی سے ہزار گنا زیادہ انقلابی ہوتے ہیں“ اس کے باوجود کہ یہ تحریک ابھی تک نیم پرولتاری عوام اور نوجوانوں تک ہی محدود ہے اور اس میں خدمات کے شعبے سے وابستہ محنت کشوں نے شمولیت اختیار نہیں کی۔
عوام کی یہ تحریک زبردست جوش و خروش کے ساتھ انتہائی فنکارانہ طریقے سے علاقائی اور قبائلی تعصبات کے ساتھ سیاسی پارٹیوں کی پیدا کردہ تقسیموں کو بھی بتدریج مٹاتے ہوئے عوامی جڑت کو مضبوط بنانے کی جانب بڑھ رہی ہے۔ واحد چیز جس کو خامی کہا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ کچھ بے انتہا پر جوش اور جذباتی مگر لڑاکا پرتیں انتہائی اقدام اٹھانے کے حوالے سے کچھ بے صبری کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ درحقیقت اس خامی کی وجہ بھی ان کی سوچوں سے زیادہ ان کے ارد گرد کے ماحول میں موجود ہے۔ عوام کے اندر نہ صرف اس ظلم کے خلاف بے انتہا نفرت موجود ہے بلکہ اس کے ساتھ لڑاکا پرتوں میں اس ظلم کے خاتمے کے لیے ہر حد تک جانے اور ہر قربانی دینے کا جذبہ بھی پایا جاتا ہے جو احتجاجی تحریک میں شامل ہزاروں کی تعداد میں عوام کی اجتماعی طاقت کے احساس کو اپنے اندر سمو کر کچھ زیادہ ہی سرفروشانہ ہو جاتا ہے۔ اس سے زیادہ اس تحریک پر تنقید درحقیقت کسی تعصب، ذاتی یا گروہی مخاصمت کی پیداوار ہو سکتی ہے جس کی کوئی عملی افادیت نہیں۔
تحریک میں شامل عوام کی اکثریت کی سیاسی نا تجربہ کاری کے عنصر پر بھی کچھ لوگ معترض ہیں لیکن اس میں بھی کوئی ایسا مواد نہیں ہے جس کو زیر بحث لایا جا سکے یا جس کی وضاحت ضروری ہے۔ سیاسی ناتجربہ کاری کا پہلو اگرچہ موجود تھا لیکن جہاں تحریک زیادہ سرگرم رہی وہاں کی عوام نے تین ہفتوں کے مختصر دورانیے میں ہی عملی سیاست میں شمولیت کے ذریعے سیاسی تجربہ کاری کا وہ معیار حاصل کر لیا ہے جو یہاں کی تمام مزاحمت کار سیاسی پارٹیوں اور قائدین کے معیار سے عظیم تر ہے۔ سیاسی ناتجربہ کاری کی اصطلاح کے پس پردہ جو اعتراض اس تحریک پرکیا جا رہا ہے وہ شائد مصالحت کے ذریعے تحریکوں کے خاتمے کا ہے تو اس حوالے سے ان صاحبان کو ہمیشہ ہی اس صدمے سے دوچار رہنا پڑے گا کیوں کہ کوئی بھی حقیقی عوامی تحریک کبھی بھی مصالحت کی سیاست نہ سیکھتی ہے نہ کبھی سیکھے گی۔ عوام کی اپنے حقوق کی جدوجہد کا یہ آغاز ہے جو ہر قسم کے اتار چڑھاؤ، عارضی فتوحات اور شکستوں کے ساتھ پیش قدمیوں اور پسپائیوں جیسے تمام ناگزیر مراحل سے گزرتا ہو ا آگے بڑھے گا۔ جدوجہد کے اس سفر کا ہر قدم عوام کے شعور پر جستوں جیسے اثرات مرتب کرے گا اور عوام کی اکثریت جہاں کامیابیوں اور پیش قدمیوں سے اعتماد اور حوصلہ حاصل کریں گے وہیں شکستوں اور پسپائیوں سے وقتی مایوسی کے ساتھ نہایت سنجیدہ سیاسی اسباق اور انقلابی نتائج اخذ کریں گے۔ دہائیوں کی عدم سرگرمی کے بعد بیداری کی ایک لہر جنم لے چکی ہے جو سستانے کے لیے رکے گی ضرور لیکن ختم نہیں ہوگی۔ حکمران طبقات کے حملوں سمیت دوسرے خطوں اور ممالک میں جاری انقلابی بغاوتوں کا عمل آنے والے عرصے میں اس کو مزید توانا کرے گا۔
کیا 21 دسمبر کے واقعات کو عام ہڑتال کہا جا سکتا ہے؟
عوامی ایکشن کمیٹی نے 21 دسمبر کو ’پونچھ بند‘ کے نام سے ایک ہڑتال کی کال دی جس میں اعلان کیا گیا کہ ضلع پونچھ کو دیگر اضلاع یا راولپنڈی سے ملانے والی تما شاہرات بند کی جائیں گی اور مختلف مقامات پر احتجاج کیے جائیں گے۔ اس کال پر حکمران طبقات کو بھی یقین تھا کہ یہ ایک بڑا احتجاج ہونے جا رہا ہے اور اس کو روکنے کے لیے انہوں نے ہر ہتھکنڈہ استعمال کرنے کی کوشش کی، البتہ جس بھاری مقدار میں عوام نے احتجاج میں شمولیت اختیار کی یہ ان کی توقعات سے بہت زیادہ تھی۔ نہ صرف اس ہڑتال کے موخر ہونے کی جھوٹی خبریں پھیلائی گئیں بلکہ عوام کو ہڑتال میں شامل ہونے سے روکنے کے لیے دوسرے اضلاع سے پولیس کی بھاری نفری پونچھ میں بلائے جانے کی خبروں کو بھی بڑے پیمانے پر مشتہر کیا گیا تا کہ لوگوں کو خوفزدہ کیا جا سکے۔ اس تحریک میں شامل عام عوام کو بھی اپنی ہڑتال کی کامیابی کا مکمل یقین تھا جس کا عملی ثبوت انہوں نے سڑکوں، چوکوں اور چوراہوں میں ہزاروں کی تعداد میں جمع ہو کر دیا۔ صرف کچھ نام نہاد قنوطی سیاسی کارکنان اور قائدین کو یقین نہیں تھا اور 21 دسمبر کو شاہراہوں کو عوام کے قدموں تلے لرزنے کا منظر پھٹی پھٹی آنکھوں سے یوں دیکھ رہے تھے جیسے انہیں اپنی بصیرت کی سچائی پر یقین نہ آ رہا ہو۔ ضلع پونچھ کے شعبہ خدمات کے محنت کشوں کی منظم اور باقاعدہ شمولیت نہ ہونے کے باعث یہ عام ہڑتال کی اصطلاح کے وسیع معنوں پر پورا نہ اترنے کے باوجود ایک زبردست اور مکمل ہڑتال تھی جو عام ہڑتال کے قریب تر پہنچ رہی تھی۔ گردو نواح کے دیہاتوں سے عوام کا جم غفیر جب راولاکوٹ شہر میں داخل ہوا تو تاجران کی تنظیموں کے شٹر ڈاؤن نہ کرنے کے اعلان کے باوجود ہزاروں عوام کی ریلی کے دباؤ کے زیر اثر شٹر ڈاؤن ہو گیا۔ اسی طرح مختلف شعبوں کے ملازمین بھی بڑی تعداد میں دفاتر سے نکل کر ریلی کا حصہ بن گئے۔ اس سے ثابت ہو گیا کہ ایک مکمل عام ہڑتال منظم کرنے میں عوام اور محنت کشوں کی بجائے ان کی قیادت سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ٹرانسپورٹ یونین نے پہلے ہی اس ہڑتال کی مکمل حمایت کا اعلان کر دیا تھا اور انہوں نے دیہاتوں سے عوام کو راولاکوٹ تک لانے اور واپس لے جانے کی سہولت فراہم کی۔ اگرچہ راولاکوٹ کی ریلی اور جلسہ عام میں ہزاروں افراد شریک تھے جنہوں نے حکمرانوں کے ایوانوں کو لرزا کر رکھ دیا لیکن ہڑتال کی عملی کامیابی کو دیگر چند علاقوں کے عوام نے یقینی بنایا۔ راولاکوٹ کو راولپنڈی سے ملانے والی سڑک جسے شاہراہ غازی ملت بھی کہا جاتا ہے، اس کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کرنے کا کارنامہ تھوراڑ کی عوامی ایکشن کمیٹی نے انجام دیا۔ تھوراڑ کی عوام کو شاہراہ غازی ملت پر پہنچنے سے روکنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی لیکن اس کے باوجود عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں نے پولیس کو چکما دے کر شاہراہ غازی ملت پر ریلی کرنے کی اجازت لی اور معینہ مقام سے کچھ فاصلے پر جا کر سڑک بند کر کے دھرنا دے دیا۔ عددی طور پر چند سو ہونے کے باوجود انتہائی جرات کا مظاہر ہ کرتے ہوئے انہوں نے اعلان کے مطابق پونچھ کے ایک داخلی راستے کو دن گیارہ بجے سے شام پانچ بجے تک مکمل بند رکھا۔ اسی طرح راولاکوٹ کو مظفرآباد سے ملانے والی سڑک کو داتوٹ، پاچھیوٹ، بیڑیں اور دیگر علاقوں کے عوام نے کئی میل کا سفر طے کر کے پانیولہ کے مقام سے بند کر دیا۔ اسی طرح ٹائیں کے عوام نے ارجہ کراس سے ٹائیں ڈھلکوٹ روڈ کو بند کر دیا جو ضلع باغ سے راولپنڈی آنے جانے کے لیے ایک مرکزی شاہراہ ہے۔ یوں ضلع پونچھ کو راولپنڈی اور مظفرآباد سے ملانے والی سڑکیں مکمل طور پر بند رہیں۔ ضلع پونچھ ایک علاقے ہجیرہ عباسپور میں علامتی احتجاج کیے گیے جہاں اس ہڑتال کی شدت سب سے کم رہی۔ لیکن اس ہڑتال کے زیر اثر ضلع سدھنوتی اور ضلع باغ کے کچھ مقامات پر بھی زبردست احتجاج منظم کیے گئے۔ سدھنوتی کے علاقوں تراڑکھل، قلعاں اور بلوچ میں شٹرڈاؤن کے ساتھ احتجاج کیے گئے جبکہ منگ کے عوام نے 21 دسمبر کی شام کو اپنے طور پر شاہراہ غازی ملت کو گوئیں نالہ پل سے بند کر دیا جو بعد ازاں انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کے بعد کھول دی گئی۔ یوں پونچھ کی ہڑتال نے اس تحریک کی گونج کو دیگر اضلاع تک بھی پھیلا دیا اور بعد ازاں باغ سمیت مظفرآباد میں بھی احتجاج کیے گئے۔ باغ کے ایک نواحی علاقے ریڑہ میں آٹے کی قیمتوں میں اضافے اورسڑکوں کی خستہ حالی کے خلاف ہونے والے احتجاج پر پولیس گردی نے اس احتجاج کو باغ کے زیادہ تر علاقوں میں پھیلا دیا ہے۔
باغ کے ہی ایک نواحی علاقے میں خواتین کی بڑی تعداد نے بھی ایک احتجاج میں شرکت کی جو ایک زبردست پیش رفت ہے۔ اگرچہ ابھی تک اس احتجاجی تحریک میں خواتین نے عملی شمولیت اختیار نہیں کی لیکن اس تحریک کی بحث ہر گھر میں موجود ہے اور خواتین ان احتجاجوں میں شمولیت کی خواہش کا اظہار بھی کررہی ہیں۔
تحریک کے پھیلاؤ کا خوف حکمرانوں کو مجبور کر رہا ہے اس لیے افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ حکمران آٹے کی قیمتوں میں کچھ کمی کرنے پر غور و فکر کر رہے ہیں۔ دوسری جانب تحریک میں سر گرم عوام کی بڑی اکثریت ان افواہوں کے جواب میں آٹے کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کو مکمل واپس لینے کے ساتھ کشمیر میں گندم پر دی جانے والی سبسڈی، جسے ایک دہائی قبل ختم کر دیا تھا، کی بحالی کے مطالبے کو سامنے لانے کی تجویز پیش کر رہے ہیں۔ عوام کے یہ تاثرات ایک گہری تبدیلی کی عکاسی کر رہے ہیں۔ عوام حکمرانوں سے اب چند ٹکڑے چھین کر مطمئن نہیں ہونے والے، بلکہ یہ طبقاتی استحصال اور محرومیوں کی سبھی شکلوں کے حقیقی خاتمے کی جانب بڑھیں گے۔ یوں یہ کہنے میں اگر کچھ مبالغہ آمیزی شامل ہو پھر بھی یہ کہنا بجا ہو گا کہ یہ مظاہرے انقلابی تحریک کی ابتدائی چنگاری ہے جو آنے والے عرصے میں انقلابی بغاوت کے شعلوں کو ضرور بھڑکائے گی۔ سرمایہ داری کا بڑھتا ہو ا بحران حکمرانوں کو مجبور کرے گا کہ وہ اپنی لوٹ مار اور عیاشیوں کو جاری رکھنے کے لیے بحران کا بوجھ عوام کے کاندھوں پر ڈالنے کی کوشش کریں گے جس کے خلاف ایک کے بعد دوسرے مسئلے پر عوامی تحریکوں کے ریلے ابھریں گے۔ زندگی کے حقیقی مسائل کی ان جدوجہدوں کی حتمی کامیابی ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتی۔ مارکس وادیوں کو اپنے اس فریضے کی تکمیل کے عمل کی رفتار کو بھی تیز تر کرنا ہوگا تا کہ عوام اور محنت کشوں کی اس نظام کے خلاف جدوجہد کو سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے پایہ تکمیل کو پہنچایا جا سکے۔