|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، کشمیر|
کشمیر کے محنت کش عوام نے مہنگے بجلی کے بل ادا کرنے سے انکار کر دیا ہے اور پچھلے دو ماہ سے بل ادا نہیں کر رہے۔کشمیر بھر میں مفت بجلی اور آٹے سمیت تمام اشیا خورد و نوش پر سبسڈی کے حصول کی جاری تحریک پر ریاستی جبر نے عوامی بغاوت کو مزید مشتعل کر دیا ہے۔ 29 ستمبر کو پولیس نے مختلف اضلاع میں جاری احتجاجی دھرنوں اور کیمپوں پر رات کے اندھیرے میں حملے کرتے ہوئے دھرنوں میں موجود کارکنان کو گرفتار کرنے کے ساتھ کئی مقامات پر کیمپ بھی اکھاڑ دیے۔ کئی مقامات پر عوامی ایکشن کمیٹیز کے متحرک کارکنان کو گرفتار کرنے کے لیے ان کے گھروں پر بھی چھاپے مارے گئے۔ اس سے ایک روز قبل باغ میں چند کارکنان کو گرفتار کیا گیا تھا جنہیں احتجاج کے بعد رہا کر دیا گیا۔
سوشل میڈیا پر اس ریاستی دہشت گردی کی خبریں سامنے آتے ہی عوامی غیض و غضب میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔ کوٹلی میں رات کو ہی سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں نے جمع ہو کر دھرنے کی جگہ پر قبضہ کر کے دوبارہ دھرنا شروع کر دیا جن میں بڑی تعداد خواتین کی بھی تھی۔ رات کو ہی سوشل میڈیا پر 30 ستمبر کو احتجاج کی تیاریوں کی مہم شروع کر دی گئی۔ بیشتر دیہاتوں کی مساجد میں رات کو ہی صبح کے احتجاجوں کے اعلانات کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا تھا۔
30 ستمبر کے روز کشمیر کے زیادہ تر اضلاع میں اس ریاستی دہشت گردی کے خلاف لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ راولاکوٹ، کھائیگلہ، ہجیرہ، عباسپور، تھوراڑ، پلندری،تراڑکھل، بلوچ، باغ، کوٹلی، ناڑ، تتہ پانی، فتح پور تھکیالہ، گھمیر، اور مظفر آباد سمیت کئی علاقوں میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ زیادہ تر علاقوں میں ہونے والے احتجاج اس تحریک کے اب تک ہونے والے سب سے بڑے احتجاج تھے۔ زیادہ تر علاقوں میں احتجاج آج بھی پر امن رہے اور بعض علاقوں میں مظاہرین نے پولیس تھانوں کا گھیراؤ کر کے گرفتار کارکنان کو رہا ئی بھی دلائی۔ راولاکوٹ سمیت زیادہ تر مقامات پر دوبارہ دھرنوں کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
مظفرآباد میں پولیس نے مظاہرین کو روکنے کے لیے وحشیانہ تشدد، لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا اندھا دھند استعمال کیا لیکن اس کے باوجود پر عزم مظاہرین نے وحشیانہ ریاستی تشدد کو شکست دیتے ہوئے شہر کے بیشتر علاقوں سے پولیس کو دم دبا کر بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ شہر کی زیادہ تر سڑکوں پر عوام کا کنٹرول رہا اور عوام نے ٹائر جلا کر ہر قسم کی ٹریفک کو روک دیا۔ مظفر آباد شہر کی سڑکیں اور گلیاں سارا دن میدان جنگ کا منظر پیش کرتی رہیں۔ مظاہرین نے اس وحشیانہ جبر کا مقابلہ کرتے ہوئے مرکزی پریس کلب کے سامنے اپنے احتجاجی کیمپ کو دوبارہ قائم کر دیا لیکن اس کے باوجود شہر کے مختلف حصوں میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ مظفر آباد میں تحریک کو کچلنے کے لیے اب ریاست متحرک کارکنان پر دہشت گردی کے مقدمات قائم کر رہی ہے۔
درحقیقت اس بوکھلائے ہوئے ریاستی جبر کا آغاز 28 ستمبر کو کشمیر بھر میں ہونے والی سرگرمیوں کے بعد ہوا۔ کشمیر کے تمام شہری اور دیہی مراکز میں جاری احتجاجی کیمپوں میں ماہ ستمبر کے تمام بل جمع کیے گئے تھے جنہیں 28 ستمبر کو احتجاجی ریلیوں کے بعد جلایا گیا۔ مظفر آباد کے احتجاجی کیمپ میں جمع ہونے والے بلوں سے کارکنان نے کشتیاں اور جہاز بنانے کا عمل چند دن قبل سے ہی شروع کر رکھا تھا جنہیں اجتماعی طور پر دریا نیلم میں پھینک دیا گیا۔ اسی طرح بعض علاقوں میں لوگوں نے ان بلوں کو ایک جنازے کی شکل میں دفنا دیا۔
بجلی کے بلوں کو جلانے، دریا برد کرنے یا دفنانے کی یہ سرگرمیاں عوامی احتجاجوں کے ساتھ عوامی میلوں کی شکل اختیار کر گئی تھی۔ کئی علاقوں میں عوام جلوسوں کی صورت میں ڈھول بجاتے ہوئے ان بلوں کو چوکوں میں لے آئے اور انہیں جلا کر ایک جشن منایا گیا۔ یہ مناظر سوشل میڈیا کے ذریعے لاکھوں لوگوں نے دیکھے جن میں عوامی بغاوت اپنی اجتماعی طاقت کا نیم شعوری احساس و ادراک حاصل کرنے کے ساتھ ہی ایک جشن اور میلے میں تبدیل ہو گئی۔ ان مناظر نے حکمران طبقات کی نیندیں اڑا کر رکھ دیں اسی لیے اگلے ہی روز متحرک کارکنان کے خلاف جھوٹے اور بوگس مقدمات درج کر کے ان کو گرفتار کرنے اور احتجاجی کیمپوں کو اکھاڑنے جیسی ریاستی دہشت گردی کی مہم کا آغاز کیا گیا۔
اس کے ساتھ ہی گزشتہ ہفتے میں وزیراعظم آزادکشمیر پونچھ کے دورے پر تھے اور اس دوران پونچھ میں اس تحریک کے سرکردہ کارکنان سے ملاقات کی کوششیں کی گئیں تا کہ تحریک کو علاقائی بنیادوں پر توڑا جائے مگر پونچھ میں تحریک کے سرکردہ کارکنان نے اس ملاقات کی پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے یہ موقف اپنایا کہ کشمیر کی 30 رکنی مرکزی عوامی ایکشن کمیٹی کے اجلاس میں ہی یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ کب مذاکرات کیے جا سکتے ہیں۔ عوامی تحریک کے نمائندوں کی جانب سے اس حکومتی پیشکش کو ٹھکرائے جانے کا عنصر بھی اس ریاستی جبر کی ایک وجہ بنا۔ اس ریاستی جبر کے ذریعے تحریک کو توڑنا مقصود تھا لیکن اس کے برعکس ریاستی جبر نے عوام کو مزید مشتعل کر دیا اور 30ستمبر کو کشمیر کی تاریخ کے سب سے بڑے احتجاج دیکھے گئے۔ تقریباً تمام تر احتجاجی کیمپ دوبارہ سے بحال کر دیے گئے ہیں اور بعض دیہاتوں میں نوجوانوں کی دفاعی کمیٹیاں بنانے کی بحث کا بھی آغاز ہو چکا ہے تا کہ پولیس کے چھاپوں اور گرفتاریوں کے عمل کو روکا جا سکے۔ ایک دیو ہیکل عوامی مزاحمت کے بعد مزید گرفتاریوں کا عمل تا حال رُک چکا ہے۔ یہ عوامی تحریک کی ایک بڑی فتح ہے مگر ریاستی جبر کے عمل کا مکمل خاتمہ نہیں ہوا بلکہ یہ محض ایک نئے حملے کی تیاری تک روک دیا گیا ہے۔
قیادت کی حکمت عملی بھی اس تحریک کے مستقبل کے حوالے سے نہایت اہم کردار ادا کرے گی۔30 ستمبر کو ہر علاقے میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے تھے کہ اگر جرات مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تھانوں کا پرامن گھیراؤ کرنے کی پالیسی اپنائی جاتی تو تمام گرفتار کارکنان کو نہ صرف فوری رہائی دلائی جا سکتی تھی بلکہ ایک نئے فوری ریاستی حملے کا راستہ بھی روکا جا سکتا تھا۔ گرفتار کارکنان کو عوامی طاقت کی بنیاد پر رہائی دلانے میں کامیابی عوام کے جوش و ولولے اور اپنی اجتماعی طاقت پر اعتماد میں بے پناہ اضافہ کر دیتی جو اس تحریک اور مستقبل کی لڑائیوں کے لیے ایک بیش قیمت اثاثہ بن جاتی۔
دوسری جانب قیادت کی اس بے ضرر و بے اثر مزاحمت کی پالیسی کے باعث تحریک کی اجتماعی حکمت عملی بھی متاثر ہوگی اور عوامی تحریک کے زیادہ لڑاکا حصے انفرادی طور پر کسی مزاحمتی پالیسی کی جانب جا سکتے ہیں جو مجموعی طور پر تحریک کے حوالے سے ایک خطرناک عمل ہو گا۔
یہ درست ہے کہ تحریک کو از ممکن حد تک پر امن رکھنے کی ضرورت ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کس قیمت پر؟ درحقیقت ہر عوامی تحریک ہمیشہ پر امن ہی ہوتی ہے۔ عوام کبھی بھی تشدد کی تیاری کر کے کسی احتجاج کا حصہ نہیں بنتے بلکہ ہمیشہ ریاستی جبر تحریک کو مزاحمت کا راستہ اپنانے پر مجبور کرتا ہے اور ریاستی جبر و تشدد سے بچاؤ کی خاطر عوام دفاعی لڑائی لڑتے ہوئے تھوڑا بہت تشدد کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ عوامی تحریک کی قیادت اور کارکنان کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ تحریک ہماری جانب سے پر امن ہے اور رہے گی مگر ریاست کی جانب سے پر تشدد حملوں کا آغاز ہو چکا ہے اور ہمیں اس کا مقابلہ کیسے کرنا ہے؟ اس حکمت عملی پر بحث و مباحثہ کرنے کی ضرورت ہے۔
مظفر آباد میں نہتے عوام پر نہ صرف وحشیانہ ریاستی تشدد کیا گیا ہے بلکہ اب متحرک کارکنان پر دہشت گردی کے مقدمات بھی قائم کیے جا رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست سب سے پہلے مظفر آباد میں ریاستی جبر کے ذریعے تحریک کو مکمل طور پر کچل دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہو چکی ہے۔ مظفر آباد کے عوام پر جاری اس وحشیانہ جبر کے خلاف پورے کشمیر میں احتجاج منظم کرنے کی ضرورت ہے تا کہ عوامی طاقت کی بنیاد پر اس ریاستی جبر کا راستہ روکا جا سکے۔ مظفرآباد میں ہونے والے ریاستی تشدد کی ذمہ داری عوام اور کارکنان پر نہیں بلکہ اس جابر ریاست پر عائد ہوتی ہے اور ہمیں پوری جرات مندی کے ساتھ اس ریاستی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے ریاست پر اس کی ذمہ داری عائد کرنے کی ضرورت ہے۔ ریاست کی جانب سے تشدد کا الزام لگا ئے جانے کے خوف میں مبتلا ہو کر ضرورت سے زیادہ محتاط رویہ اختیار کر لینا بھی دانشمندی نہیں ہو گی۔
کشمیر میں عوام کی اپنے بنیادی مسائل کے حل کی احتجاجی تحریکوں کا یہ سلسلہ تین سال سے جاری ہے اور یہ تحریکیں مسلسل پھیلتی اور مضبوط ہوتی جا رہی ہیں۔موجودہ تحریک ان تین سالوں کی مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں پہلی بار پورے کشمیر کے عوام کی ایک تحریک بن چکی ہے۔ اس تحریک نے ریاست کو لرزا کر رکھ دیا ہے اور اب ریاست جبر کے ذریعے اس تحریک کو کچلنے کا راستہ اپنا رہی ہے۔آنے والے ایام کے دوران اس تحریک میں نہایت اہم اتار چڑھاؤ متوقع ہیں۔
تحریک کی حاصلات کا انحصار محض عوام کی طاقت پر ہی نہیں ہے بلکہ اس زوال پذیر سرمایہ داری نظام اور بحران زدہ ریاست کی تاریخی اہلیت پر بھی ہے۔ عوامی مطالبات کو پورا کر سکنے کی اہلیت سے محرومی ریاست کو جبر پر مجبور کر رہی ہے جبکہ ریاستی جبر عوامی تحریک کو مزید آگے بڑھانے کا موجب بن رہا ہے۔ کشمیر میں جاری یہ تحریک اس وقت ایک غیر معمولی عوامی بغاوت بن چکی ہے جس کی اس خطے کی حالیہ تاریخ میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ یہ تحریک بہت بڑے پیمانے پر پاکستان کے غریب عوام اور محنت کشوں پر اپنے اثرات مرتب کر رہی ہے جس کا بڑے پیمانے پر فوری طور پر نہ سہی مگر بہت جلد اظہار ہمیں دیکھنے کو ملے گا۔ کشمیر کے اندر بھی یہ تحریک کسی سیدھی لکیر میں آگے بڑھتے ہوئے کامیابی کی منزل تک نہیں پہنچ پائے گی بلکہ اس میں بھی کئی اتار چڑھاؤ آئیں گے۔ کشمیر کے عوام اس گلے سڑے نظام کے اندر رہتے ہوئے مفت بجلی جیسے دیگر مطالبات منوانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں دونوں صورتوں میں یہ تحریک مستقبل کی دیوہیکل انقلابی تحریکوں کو بھڑکانے والی ایک چنگاری کا کردار ضرور ادا کر رہی ہے۔
عوام کی بنیادی مسائل کے حل کی اہلیت سے محروم اس نظام میں تحریکوں کا یہ سلسلہ وقفے وقفے سے جاری رہے گا اور ہر پسپائی کے بعد عوام زیادہ بڑی طاقت کے ساتھ دوبارہ میدان عمل میں داخل ہوں گے۔ بعض تحریکوں کو جزوی کامیابیاں بھی حاصل ہوں گی لیکن عوام کے عمومی حالات زندگی بہتر ہونے کی بجائے بدتر ہوتے جائیں گے چونکہ اس زوال پذیر سرمایہ داری نظام کے اندر عوامی مسائل کو حل کرنے اور ان کے حالات زندگی کو بہتر بنانے کی گنجائش ہی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ اسی عمل سے گزرتے ہوئے محنت کش طبقے کی اکثریت اس تاریخی سچائی سے شعوری آشنائی حاصل کرے گی کہ محنت کشوں کے تمام مسائل کا حل اس نظام کے خاتمے کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ محنت کش عوام اپنے مسائل کو خود اپنی جدوجہد کے ذریعے حل کرنے کے تاریخی عمل میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں اور اب یہ سلسلہ اپنے تمام ناگزیر اتار چڑھاؤ کے ساتھ عوام کی حتمی فتح پر منتج ہو کر ہی رہے گا۔
عوامی اتحاد زندہ باد!
عوامی تحریک زندہ باد!
ریاستی جبر مردہ باد!