|تحریر: نمائندہ عالمی مارکسی رحجان، مراکش|
حکومت ’باغی رِیف‘ سختی سے نمٹ رہی ہے۔ مراکش کی بغاوت دوبارہ ابھر رہی ہے۔
26 مئی، گزشتہ جمعے کے دن الحسیمہ شہر میں مساجد میں آنے والے لوگ اپنے مذہبی رہنماؤں کے خطبات سن کر حیرت اور غصے میں مبتلا ہو گئے۔ خدا کی بجائے ریاست کے اِن رشوت خور ملازم ملاؤں نے نماز جمعہ کا سیاسی استعمال کرتے ہوئے ہیرک (Hirak) تحریک اور اس کے کرشماتی لیڈر الذفذافی کے خلاف حملہ آور ہوئے اور اس پر ملک میں فتنہ پھیلانے کا الزام لگایا گیا۔ زیادہ تر لوگوں نے اسی وقت ہی غصے میں آکر احتجاجاً مساجد چھوڑ کر احتجاج کرنا شروع کر دیا۔
الذفذافی نے خود بھی اس کے بعد(ہیرک) تحریک کے دفاع میں تقریر کی جو گزشتہ چھ ماہ سے مسلسل سماجی تفریق، پولیس اور فوج کے جبر کے خلاف اور ان کے جائزمقبول عام مطالبات کے گرد جاری ہے۔ یہ مت بھولیں کہ کس طرح گزشتہ سال ایک مچھلی فروش کی دہلا دینے والی موت، رِیف کے سبھی پہاڑی علاقوں اور سلطنت کے سبھی اہم شہروں میں عوامی تحریک کا موجب بن گئی تھی۔ اہم مطالبات میں نوکریاں، ہسپتال، انفراسٹرکچر، یونیورسٹی، 1959ء سے خطے میں چلی آ رہی تفریق کا خاتمہ، ہر طرف پھیلی ہوئی کرپشن کا خاتمہ اور سیاسی آزادی کا حصول شامل ہیں۔
مذہب کا سیاسی استعمال
شہر بھر میں خود رو احتجاج کے ابھار نے پولیس کو مداخلت کرنے اور دلال میڈیا کو خاص کر باغی تحریک کے لیڈر کے خلاف زہریلی عوامی مہم چلانے کا بہانہ فراہم کیا۔ مذہبی امور کی وزارت (جو براہ راست بادشاہ کے کنٹرول میں ہے، بادشاہ نے(جو کہ مومنین کا سربراہ ہے اور مبینہ طور پر پیغمبر کابراہ راست وارث ہے)، ان ’مقدس مقامات کے خلاف ہونے والے حملے ‘ کے خلاف ایک بیان جاری کیا اور الذفذافی کی مذمت کی۔ آمریت پر مبنی مراکش کی سیاست میں، مذہبی معاملات(در حقیقت سیاسی معاملات ) میں موجودبادشاہ کی اجارہ داری کو چیلنج کرنے کا مطلب خطرے کی سرخ لکیر کو پار کرنے کے مترادف ہے۔ الذفذافی کا چیلنج مذہبی سے بڑھ کر سیاسی ہے، اس نے سخت گیر مطلق العنانیت کی اتھارٹی کو چیلنج کیا ہے۔ یہ برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
بغیر کوئی وقت ضائع کیے ریاست کے سبھی ادارے بڑے منظم انداز میں الحسیمہ کے گرد دائرہ تنگ کرنے میں لگ گئے۔ الذفذافی کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا گیا اور بیس لیڈروں کو فوری طور پر گرفتار کر لیا گیا۔ الذفذافی فوری طور گرفتاری سے بچ نکلا اور اپنے گھر کی چھت سے خطاب کیا۔ اور وہ تب تک چھپتا رہا جب تک کہ 29 مئی کو پولیس نے اسے گرفتار نہیں کر لیا۔ پولیس کی جانب سے کیمروں کی موجودگی میں گرفتاری کا حقیقی ’فلمی سین ‘کرنے کا مقصد ایک’ دہشت گرد یا حقارت آمیز‘ لیڈر کی گرفتاری کا تاثر دینا تھا۔
الحسیمہ کے نوجوانوں نے بڑی دلیری سے ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے خطے کے مختلف شہروں میں احتجاج کیے اور پولیس اور فوج کے خلاف باغیانہ طرز عمل اختیار کیا۔ ایک عام ہڑتال نے الحسیمہ کو جام کر دیا۔ گزشتہ روز شہر میں سب سے بڑا احتجاجی مظاہرہ ہوا جس میں جڑت، یکجہتی اور نظم و ضبط کا شاندار مظاہرہ کیا گیا۔ حکومت کو لگا کہ وہ تحریک کے لیڈرز کو گرفتار کر کے اسے ختم کر دیں گے۔ اور اب ہو یہ رہا ہے کہ عوام ایسے منظم ہو رہے ہیں جیسا کہ پہلے کبھی بھی نہ ہوئے تھے۔ خاص کرتحریک کو آگے بڑھانے میں نوجوان لڑکیوں اورخواتین کا کردار قابل تحسین ہے۔
احتجاجوں کو کچلنے کے طریقہ کار پرحکومت کے آپسی تضادات
حکومت کی اشتعال انگیزی مایوسی کی علامت ہے۔ چھ ماہ پہلے میڈیا کے ذریعے ہمدردی کا مظاہرہ کر تے ہوئے، کچھ بڑے سرکاری افسران کو نوکریوں سے فارغ کرکے اور سرمایہ کاری کرنے کا کلاسیکی وعدے کرکے انہیں لگا کہ تحریک واپس مڑ جائے گی۔لیکن ایسا نہیں ہوا۔
درحقیقت، حکومت کو اس سے آگے کچھ معلوم ہی نہیں ہے کہ احتجاجوں سے کیسے نمٹا جائے۔ مہینوں سے وہ رِیف کی تحریک میں موجود لوگوں کواس امید پر نسل پرست اور علیحدگی پسند کہہ رہے ہیں تا کہ وہ مایوس ہو کر تنہا ہو جائیں۔ انہوں نے کچھ لیڈرز کو کرپٹ کرنے کی کوشش بھی کی ہے اورکچھ نئے لیڈز کوتوحکومت کے علاقائی ڈھانچوں کا حصہ بھی بنایا ہے۔ پھر دس دن پہلے مرکزی حکومت نے اپنے سات(!) وزراء کو وعدوں (ہاں ایک بار پھر!)سے بھری ٹوکریاں دے کر شہر بھیجا۔ لیکن لوگ وعدے نہیں کھا سکتے۔ انہیں پہلے ہی جھوٹے وعدے کھا کر بد ہضمی ہو چکی ہے۔ عوام نے اس منافقانہ نمائش کاجواب غصے اور شدیدبے حسی کا مظاہرہ کر کے دیا ہے۔ لیکن اس منافقانہ نمائش کے ساتھ ساتھ حکومت نے اپنے مسلح جتھوں کی ٹکڑیوں کو بھی حرکت میں لانا شروع کر دیا ہے۔ طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے تیاریاں کی جارہی تھیں۔ گزشتہ جمعہ کو چیزیں اس نہج پر آ گئی کہ کچھ کرنا لازم ہوگیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ حکومت کا یہ عمل حکومت پر ہی گھوم کر جوابی حملہ بن جائے گا۔
سب سے پہلی بات تو یہ کہ شہر کی آبادی آج پہلے سے کہیں زیادہ باغیانہ رحجان کی حامل ہے۔ حکومت آبادی کے ایک ایسے حصے کو نشانہ بنانے جا رہی ہے کہ جس میں نوآبادیت مخالف جدوجہد(1921-1926ء کے دوران سپین اور فرانس سے الریف کی جنگ) اور سیاسی تحریکوں (1958-59 ء کی جنگ)کی پُر عزم روایت موجود رہی ہے۔ اب انہیں ڈر نہیں لگتا! درحقیقت خوف نے اپنی جگہ بدل لی ہے۔ خطے کے چھوٹے شہر بھی تحریک کا حصہ بن رہے ہیں۔ خواتین جو کہ ثانوی کردار کی حامل ہوا کرتی تھیں اب آگے آ رہی ہیں۔ ناظور جیسے بڑے شہر ابھی تک اتنے متحرک نہیں ہوپائے جتنا الحسیمہ ہوچکا ہے۔ اگر الناظور جیسا شہر بھی تحریک کا ’شکار‘ ہو جاتا ہے،جہاں پولیس کی موجودگی کم اور اس کاموجود ہوناکہیں زیادہ مشکل ہے (کیونکہ یہ شہر الحسیمہ سے تین گنا بڑا ہے) تو حکومت کے لیے واقعتا شدید پریشانیوں کا آغاز ہو جا ئے گا۔
رِیف تنہا نہیں ہے!
رباط (سیاسی دارالحکومت)، البیضاء (معاشی دارالحکومت)، ناظور، وجدہ، تطوان، طنجہ، القنیطرہ، فاس، تاوجطات، قلعہ السراغنہ، اگادیر اور تزنیت کے شہروں میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ پہاڑی اور سرسبز شمال سے لے کر گرم و خشک جنوبی صحرائی علاقوں تک پورا مراکش ابھر رہا ہے۔
11 جون، اتوار کے دن البیضا ء میں قومی سطح پر احتجاج ہونے جا رہا ہے۔ کچھ شہروں میں حکومت نے غنڈوں اور لمپن عناصر کو پیسے دیے تاکہ وہ احتجاجوں کی مخالفت کریں اورپُر تشدد واقعات کی راہ ہموار کریں۔ لیکن یہ واقعات عوامی احتجاجوں کے حجم کے مقابلے میں بہت ہی معمولی نوعیت کے تھے۔ جہاں احتجاج کرنے والے تعداد میں کم تھے وہاں پولیس نے تشدد کے ذریعے انہیں بھڑکانے اور ایک بڑی عوامی تحریک کو دبانے کی کوششیں کیں۔
درمیانہ طبقہ واضح طور حکومت سے الگ ہو کر احتجاجیوں کا طرفدار بن رہا ہے۔ ہزاروں وکیلوں نے سر عام اعلان کیا ہے کہ وہ گرفتار کیے گئے لوگوں کے دفاع میں رضاکارانہ اور مفت مقدمہ لڑیں گے۔ یہ قانونی نظام کے خلاف ایک کھلی بغاوت کے مترادف ہے۔ گرفتار کئے گئے لوگوں کے ساتھ ہونے والا سلوک بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ابتدائی رپورٹس واضح کرتی ہیں کہ ان کے ساتھ بہت برا سلوک اوران پر تشدد کیا جارہا ہے۔ ان میں سے کچھ لوگوں سے تو جبراً ’’بادشاہ، زندہ باد‘‘ کے نعرے لگوائے جاتے ہیں، اور اگر یہ انکار کریں انہیں مارا جاتا ہے ۔ یقیناًوہ انکار کرتے ہیں۔ اس کی بجائے وہ ’’عوام ،زندہ باد!‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں۔ ایک ایسی حکومت جو کہ اپنے نوجوانوں سے زبردستی ’’ با د شا ہ ،زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگواتی تھی، کی مذمت کی جا رہی ہے۔
ماضی میں کارکنان کی گرفتاری سے تحریک پیچھے چلی جایا کرتی تھی۔ تحریک کے ابتدائی مطالبات بھلا دئیے جاتے تھے۔ لیکن اس بار ایسا نہیں ہو رہا۔ ملک میں موجود سماجی اور سیاسی بے چینی کی سبھی وجوہات مل کر سامنے آ رہی ہیں۔
ایک کارکن نے میڈیا 24 پر اس رائے کا اظہار کیا؛ ’’ البیضاء میں ،کہ جہاں میں رہتا ہوں،ٹیکسیوں اور کیفے ایریاز میں موجودلوگوں کی باتیں سنتا ہوں، لوگ غصے سے چیخ رہے ہوتے ہیں، درمیانے طبقے میں بھی یہی حال ہے جنہیں اپنے قرضے واپس کرنے میں دشواریاں کا سامنا ہو رہا ہے۔’’ریف والوں نے‘‘ سب سے پہلے جواب دیا، لیکن میں یہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر نوکریاں نہ مہیا کی گئیں تو، ہم دیکھیں گے کہ ارد گرد کے سبھی علاقوں میں بے تحاشا بیروزگاری کے ساتھ ساتھ کئی نئے الذفذافی نمودار ہوں گے۔ اور یہ والا ان میں سے سب سے بہتر ین ہو گا ۔ ہر سال تین لاکھ نوجوان روزگار کی منڈی میں داخل ہوتے ہیں لیکن ہر سال محض تیس ہزار نوکریاں ہی پیدا کی جاتی ہیں۔ اس کا مطلب ہے ہر سال مزید دو لاکھ ستر ہزار نوجوان بیروزگار ہوتے ہیں۔ ذرا اندازہ لگائیں دس سال میں اس کا کیا مطلب ہوگا۔‘‘
ریف کے ابھرتے ہوئے اور بہادر نوجوان تمام کچلے ہوئے اوراپنے دکھوں کے مداوے کے طلبگار لوگوں کے لیے مثال بن چکے ہیں۔ ملک کے زیادہ تر علاقے ایسی ہی پسماندگی کا شکار ہیں۔ اس سوچ میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے کہ یہ سب ایک ہو کر آگے آ سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسامظہر ہے جسے حکومت نے نظر انداز کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے۔
جمہوری تنظیم اور ایک انقلابی پروگرام کی ضرورت
ایک سبق تو یہ ہے کہ تحریک کو خودرو تحریک کے مرحلے سے آگے بڑھنا ہوگا اور خود کو مکمل طور پر منظم کرنا ہوگا۔ ناصر الذفذافی ایک جرات مند اور سچا لیڈر ہے۔ کسی کو اس پر شک نہیں ہے۔ لیکن تحریک جتنی بڑی ہوگی ، اتنا ہی ایک لیڈر یا لیڈروں کا گروہ بھی، سب کو منظم کرنے، تربیت دینے اور رہنمائی کرنے کی خاطر ناکافی ہوجائیں گے۔ تحریک کا ہراول، فردِ واحد کے فیصلے، رائے اور اس کی ذہنی کیفیت پر نربھر نہیں کر سکتا۔ سکولوں، یونیورسٹیوں، کام کی جگہوں اور علاقوں پر مشتمل ایک بہت وسیع اور جمہوری ڈھانچے کی ضرورت ہے۔
آمریت میں ہر چھوٹا مطالبہ بھی سیاسی نوعیت اختیار کر جاتا ہے اور حکمران طبقے کی عیاشیوں کو چیلنج کرتا ہے۔ اسی لیے ہیرک کے اور دیگر بے شمار احتجاجی تحریکوں کے مطالبات اور پروگرا م کو مکمل سیاسی آزادی اور آمریت کے خاتمے کے مطالبے کے ساتھ جوڑنا ہوگا۔
مساجد سے پھیلایا جانے والا اشتعال، ریاست کی مذہب سے علیحدگی کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اپنی طاقت اور عیاشیوں کو جاری رکھنے کے لیے آمریت، لوگوں کے مذہبی عقائد کاخوفناک استعمال کرتی ہے۔ مذہب کو ایک ذاتی معاملہ بننا چاہیے اور اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ یہ جبر کے خلاف جدوجہد کرنے کے لیے بھی ایک اہم نقطہ ہے۔
ریف کی معاشی اور سماجی تفریق اور خطے کو فوجیوں سے مسلح کرنے کے عمل کے خلاف، تمام مطالبات کا بڑھنا بالکل درست ہے۔ ہمارے خیال میں پروگرام کو پورے مراکش میں موجود جبر اور استحصال کا شکار ہونے والوں کے لیے بولنا چاہیے۔ منظم و مربوط بنیادوں پرتحریک آمریت کا خاتمہ کر سکتی ہے۔
سرمایہ داری کے ہوتے ہوئے کوئی حقیقی آزادی اور انصاف نہیں ہو سکتا، جبر، غربت اور استحصال کا خاتمہ نہیں ہو سکتا، جنگ اور بیماریوں کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ اس کے برعکس ملک میں موجود قدرتی اور انسانی ذرائع کو استعمال میں لاتے ہوئے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو مکمل طور پر تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ یہ ہماری زندگیوں میں ممکن ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے ایک انقلاب کی ضرورت ہے، ایک سوشلسٹ انقلاب کی، جو امیروں اور کرپٹ لوگوں سے سب چھین لے گا، جوکہ سست بادشاہوں اور دوسروں کے خون پر پلنے والے شہزادوں سے طاقت واپس چھین لے گااورجو پیداوار کا ایک جمہوری منصوبہ بنائے گا کہ جس سے آبادی کی ساری ضروریات پوری ہوں گی۔ واقعتاً اپنے تمام مطالبات کے حصول کے لیے ہمیں جلد از جلد اس سوشلسٹ انقلاب کی ضرورت ہے۔ مراکش میں عالمی مارکسی رحجان کا حصہ بنیں اوراس مقصد کے حصول کی خاطر تحریک بنانے میں ہماری مدد کریں۔