(The Molecular Process of Revolution)
کیمیائی ردعمل کے وقوع پذیر ہونے میں ایک ایسا فیصلہ کن مرحلہ آتا ہے جسے عبوری حالت کہتے ہیں۔ اس مقام پر، جب کہ کیمیائی عمل میں حصہ لینے والے اجزا ماحصل (Product)میں تبدیل نہیں ہوئے ہوتے، وہ نہ ایک چیز ہوتے ہیں نہ دوسری۔ پرانے بندھن ٹوٹ رہے ہوتے ہیں اور نئے بن رہے ہوتے ہیں۔ اس فیصلہ کن مقام سے گذرنے کے لیے جس توانائی کی ضرورت ہوتی ہے اسے ’’گبز کی توانائی‘‘ (Gibbs Energy) کہتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ سالمہ کیمیائی عمل میں حصہ لے سکے، اسے توانائی کی کچھ مقدار درکار ہوتی ہے جو اسے ایک خاص مقام پر عبوری حالت میں لے آتی ہے۔ عام درجہ حرارت پر سالموں کا محض تھوڑا سا حصہ یہ توانائی رکھتا ہے۔ زیادہ درجہ حرارت پر سالموں کی زیادہ تعداد میں یہ توانائی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ کیمیائی عمل کو تیز کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ انہیں حرارت پہنچائی جائے۔ اس عمل کو’’عمل انگیز‘‘ کی مدد سے بھی تیز کیا جا سکتا ہے جن کا استعمال صنعت میں عام ہے۔ عمل انگیزوں کے بغیر بھی بہت سے عمل وقوع پذیر ہو سکتے ہیں لیکن وہ اس قدر سست رفتار ہوں گے کہ معاشی اعتبار سے غیر فائدہ بخش ہو جائیں گے۔ یہ عمل انگیز نہ تو عمل میں شامل اجزا کی ترکیب کو بدل سکتا ہے اور نہ ہی گبز کی توانائی کو تبدیل کر سکتا ہے مگر یہ ان کے درمیان آسان راستہ مہیا کر سکتا ہے۔
اس مظہر اور تاریخ میں فرد کے کردار کے درمیان کئی قسم کی مماثلت پائی جاتی ہے۔ یہ غلط تاثر عام ہے کہ مارکسنرم میں اس امر کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ افراد اپنے کردار کے ذریعے اپنے مقدر کی تشکیل پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ اس مضحکہ خیز نقالی کی رو سے تاریخ کا مادی تصور ہر شے کو گھٹا کر’’پیداواری قوتوں‘‘ تک محدود کر دیتا ہے۔ انسان کو معاشی قوتوں کے تابع ایسی کٹھ پتلیاں تصور کرتا ہے جو تاریخی طور پر معین دھاگوں سے بندھی ناچ رہی ہیں۔ تاریخی عمل کے اس میکانکی تصور کا یعنی معاشی جبریت کا مارکسی جدلیاتی فلسفے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
تاریخی مادیت کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ مرد وزن اپنی تاریخ خود تخلیق کرتے ہیں۔ لیکن خیال پرستوں کے اس تصور کے برعکس کہ انسان مکمل طور سے خود مختار ہے، مارکسنرم واضح کرتا ہے کہ اس خودمختاری کی حدود کو اس معاشرے کی مادی صورت حال متعین کرتی ہے جس معاشرے میں انسان جنم لیتا ہے۔ یہ حالات بنیادی طور پر پیداواری قوتوں کی ترقی کی سطح پر منحصر ہوتے ہیں، جو بالآخر ایسی بنیاد ہے جس پر تمام انسانی ثقافت، سیاست اور مذہب تشکیل پاتے ہیں۔ بہرحال یہ چیزیں معاشی ترقی سے براہ راست تشکیل نہیں پاتیں بلکہ ایسا ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے کہ یہ اپنے طور پر حیات پا جائیں۔ ان تمام مراحل کے درمیان نہایت پیچیدہ تعلق ہے۔ جس کا کردار جدلیاتی ہے نہ کہ میکانکی۔ افراد ان حالات کو نہیں چنتے جن میں ان کی پیدائش ہوتی ہے۔ یہ دیئے گئے ہوتے ہیں۔ نہ ہی یہ ممکن ہے کہ افراد محض اپنے ذہن کی عظمت اور کردار کی قوت کے بل پر معاشرے پر اپنی خواہشات مسلط کر دیں جیسا کہ خیال پرست کہتے ہیں۔ یہ نظریہ کہ تاریخ ’’عظیم افراد‘‘ بناتے ہیں محض بچوں کو خوش کر سکتا ہے۔ اس کی کم و بیش وہی سائنسی قدر ہے جو اس نظریہ سازش کی جس کے تحت انقلابات شورش بپا کرنے والوں کے بدنام کن اثر کے باعث رونما ہوتے ہیں۔
ہر کارکن جانتا ہے کہ ہڑتالوں کا باعث شورش بپا کرنے والے نہیں بلکہ کم اجرت اور خراب حالات کار ہوتے ہیں۔ بعض سنسنی خیزی کے رسیا اخبارات کے تاثر کے برعکس ہڑتالیں معمول کی چیز نہیں ہیں۔ سال ہا سال تک ایک فیکٹری یا کام کی جگہ پرسکون رہ سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ مزدور اپنے حالات کار کی خرابی اور اجرتوں میں کمی ہونے پر بھی کوئی ردعمل ظاہر نہ کریں۔ یہ ان حالات میں خاص طور سے زیادہ درست ہے جب بے روزگاری عام ہو یا ٹریڈ یونینوں کی قیادت کی طرف سے اشارہ نہ ملے۔ اکثریت کی یہ ظاہری بے پروائی عام طور سے باعمل لیکن تعداد میں کم مزدوروں میں مایوسی کا باعث بنتی ہے۔ وہ اس سے یہ غلط نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ باقی کے مزدور پسماندہ ہیں اور کبھی کچھ نہیں کریں گے۔ لیکن حقیقت میں بظاہر پرسکون سطح کے نیچے تبدیلیاں واقع ہو رہی ہوتی ہیں۔ ہزارہا چھوٹے چھوٹے واقعات، معمولی زیادتیاں، ناانصافیاں، زخم، رفتہ رفتہ مزدوروں کے شعور پر اپنے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ٹراٹسکی نے بڑی مہارت سے اسے ’’انقلاب کے سالماتی عمل‘‘ کا نام دیا تھا۔ یہ کیمیائی عمل میں’’گبز کی توانائی‘‘ کے مساوی ہے۔
کیمیائی عمل کی طرح حقیقی زندگی میں بھی سالماتی عمل وقت لیتے ہیں۔ کوئی بھی کیمیا دان یہ شکایت نہیں کرتا کہ متوقع کیمیائی عمل زیادہ وقت لے رہا ہے خاص طور سے اگر حرارت وغیرہ کی کمی ہو جس سے عمل تیز ہو سکتا ہے۔ آخر کار کیمیائی عبوری حالت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس مقام پر عمل انگیزکی موجودگی عمل کو تیزی سے اور فائدہ بخش انداز میں کامیاب بنا سکتی ہے۔ اسی طرح ایک خاص نقطے پر فیکٹری کے مزدوروں کی بے اطمینانی پھٹ پڑتی ہے۔ چوبیس گھنٹے میں ساری صورتحال تبدیل ہو جاتی ہے۔ اگر سرگرم عمل لوگ اس کے لیے تیار نہیں ہیں اور وہ بظاہر پرسکون نظر آنے والے حالات سے دھوکہ کھا گئے ہیں تو وہ عدم تیاری کی حالت میں دھرے رہ جائیں گے۔
جدلیاتی اعتبار سے، جلد یا بدیر چیزیں اپنی ضد میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔انجیل کے الفاظ میں’’اول آخر ہوگا اور آخر اول۔‘‘ ہم نے ایسا ہوتے کئی بار دیکھا ہے، اکثر عظیم انقلابات کی تاریخ میں بھی۔ پہلے بے جان اور پسماندہ نظر آنے والی پرتیں دھماکہ خیز طریقے سے ساتھ آ ملتی ہیں۔ شعور اچانک چھلانگیں لگا کر ترقی کرتا ہے۔ یہ کسی بھی ہڑتال میں دیکھا جا سکتا ہے اور کسی بھی ہڑتال میں انقلاب کے غیر ترقی یافتہ اور غیر پختہ عناصر کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ایسی صورتوں میں ایک باشعور اور نڈر اقلیت وہی کردار ادا کر سکتی ہے جو کیمیائی عمل میں عمل انگیز کرتا ہے۔ بعض اوقات محض ایک فرد بھی فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے۔
نومبر 1917ء میں روسی انقلاب کی قسمت کا فیصلہ بالآخر دو افراد نے کیا تھا—- لینن اور ٹراٹسکی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کے بغیر انقلاب کو شکست ہو جاتی۔ دوسرے لیڈر کامینیف، زینوویف اور سٹالن، دوسرے طبقات کے دباؤ میں آ کر پیچھے ہٹ گئے۔ یہاں سوال مجرد’’تاریخی قوتوں‘‘ کا نہیں بلکہ لیڈروں کی تیاری کی سطح، دور اندیشی، ذاتی ہمت اور قابلیت جیسے ٹھوس عوامل کا تھا۔ آخر ہم کوئی ریاضی کی مساوات حل نہیں کر رہے بلکہ زندہ اور جیتی جاگتی قوتوں کی جدوجہد کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں۔
تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ تاریخ کی خیال پرستانہ توضیح درست ہے؟ کیا سب فیصلے عظیم افراد کے ہاتھوں ہوتے ہیں؟ حقائق کو خود بولنے دیں۔1917ء سے پہلے،25 سال تک لینن اور ٹراٹسکی نے اپنی زندگیاں عوام سے دور گزاری تھیں اور اکثر اوقات لوگوں کے چھوٹے چھوٹے گروہوں کے ساتھ کام کیا تھا۔ کیا وجہ ہے کہ وہ 1916ء یا 1890ء میں یہی فیصلہ کن اثر ڈالنے میں ناکام رہے؟ کیونکہ معروضی صورت حال موجود نہیں تھی۔ اسی طریقے سے جب کوئی یونین کا سرگرم رکن اس وقت بار بار ہڑتال کی کوشش کرتا ہے جب مزدوروں میں عمل کا موڈ نہیں ہوتا تو لوگ اس رکن پر ہنستے ہیں۔ اسی طرح جب انقلاب ناقابل بیان پسماندگی اور طاقتوں کے طبقاتی توازن میں تبدیلی کے باعث محدود ہوگیا تو لینن اور ٹراٹسکی افسر شاہانہ رد انقلاب کو نہ روک سکے جس کی قیادت سٹالن کر رہا تھا جو ہر لحاظ سے ان دونوں سے کمتر تھا۔ مختصراً، انسانی تاریخ میں موضوعی اور معروضی عوامل کے درمیان جدلیاتی تعلق ہے۔
’’مارکسی فلسفہ اور جدید سائنس ‘‘ سے اقتباس