|رپورٹ: ورکر نامہ کشمیر|
میرپور اور جہلم کے علاقوں میں گذشتہ روز 24 ستمبر کو سہہ پہر تین بجے ایک زلزلہ آیا جس کی شدت ریکٹر سکیل پر 5.8 بتائی جاتی ہے۔ تقریباً پچاس سیکنڈ تک جاری رہنے والے اس زلزلے کے باعث میر پور، بھمبر اور جاتلاں اور ان سے منسلک بے شمار دیہات بڑے پیمانے پر متاثر ہونے کی خبریں آ رہی ہیں جبکہ اس کے ساتھ جہلم میں بھی بعض مکانات کو جزوی نقصان پہنچا اور ایک مکان کی چھت بھی گر گئی۔ انگریزی اخبار ڈان کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی خبر کے مطابق اب تک میرپور کے ضلعی ہیڈکواٹر ہسپتال میں 400 سے زائد زخمیوں کو لایا جا چکا ہے جبکہ ابھی تک دور دراز دیہاتوں سے مریضوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے جبکہ 25 لوگوں کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات ہیں۔ یہ توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ زخمیوں کی تعداد کے ساتھ مزید ہلاکتیں بھی ہو سکتی ہیں جبکہ مرنے والوں میں خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والا انجینئرنگ یونیورسٹی کا طالبعلم بھی شامل ہے جس نے ہاسٹل کی بالائی منزل سے چھلانگ لگادی تھی۔ سوشل میڈیا پر آنے والی تصاویر میں درجنوں عمارتوں کو ہونے والے نقصان کے ساتھ میرپور جاتلاں روڈ پر پڑنے والے شگاف دیکھے جاسکتے ہیں اس کے علاوہ بے شمار گاڑیوں اور املاک کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ اس کے علاوہ نہر اپر جہلم میں پڑنے والے شگاف کے نتیجے میں نہر کا پانی ملحقہ علاقوں میں داخل ہو گیا ہے۔
زلزلے سے ہونے والے نقصان کی مکمل تفصیلات آنے والے ایک دو دنوں تک ہی سامنے آسکتی ہیں لیکن ابھی تک سامنے آنے والے مناظر میں بھی واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ زیادہ تر ایسی عمارات زمین بوس ہوئی ہیں جن کی تعمیر ناقص تھی۔ ہر قدرتی آفت میں ہمیشہ یہ ناقص تعمیرات کرنے والے ہی بربادی سے دوچار ہوتے ہیں اور ان آفات کے باعث ہلاکتوں کا بھی سب سے زیادہ نشانہ یہی لوگ بنتے ہیں۔ ان ناقص تعمیرات میں اکثر اوقات کچھ سرکاری عمارات بھی شامل ہو جاتی ہیں جیسے اس زلزلے میں میر پور جاتلاں روڈ جو نہر اپر جہلم کے کنارے واقع ہے اور جس کو حال ہی میں تعمیر کیا گیا تھا وہ بھی مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔ یہ ناقص تعمیرات ہمیشہ غریبوں اور محنت کشوں کی ہوتی ہیں جن کی محنت اس نظام کے حکمران لوٹ کر اپنی تجوریاں بھر لیتے ہیں اور ان کے پاس اپنا سر چھپانے کے لئے ایک محفوظ ٹھکانے بنانے کے وسائل بھی نہیں بچتے یا دوسری جانب وہ سرکاری عمارات جو غریبوں کو کوئی سہولت فراہم کرنے کے لئے بنائی جاتی ہیں ان کی تعمیر کے دوران سرکاری اہلکار اور ٹھیکیدار ملی بھگت سے اتنی بڑی بدعنوانی کرتے ہیں کہ یہ عمارات کسی بھی درمیانے درجے کی قدرتی آفت کا سامنا بھی نہیں کر پاتیں۔ امیروں کے محل اور حکمرانوں کے ایوان تو نہ کسی زلزلے میں گرتے ہیں نہ کسی سیلاب کی زد میں آتے ہیں لیکن غریبوں کے جھونپڑے تو ہوا کے تیز جھونکوں کے سامنے بھی نہیں ٹک پاتے، زلزلوں کے جھٹکے بھی نہیں سہہ پاتے اور سیلاب بھی انہی کو بہا لے جاتے ہیں۔
عام طور پر ہر اس قسم کی آفت میں ہونے والی بربادی پر زور و شور سے یہ بھاشن جھاڑے جاتے ہیں کہ یہ تباہی قدرت کی طرف سے ہے لیکن یہ سب سے بڑا جھوٹ ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ زلزلے زیر زمین ٹیکٹونک پلیٹوں کی حرکت کے باعث آتے ہیں لیکن اس تھرتھراہٹ کے باعث کس کا گھر گرے اور کس کا نہیں اس کا فیصلہ سماجی نظام کرتا ہے۔ درحقیقت اس نظام میں ہونے والی ہر بربادی کے ذمہ دار یہ حکمران طبقات ہوتے ہیں جو اس سماج کی اکثریت کی محنت سے پیدا ہونے والی دولت پر ڈاکہ ڈال کر صرف اپنے لئے محفوظ محل اور ایوان تعمیر کرتے ہیں یا اپنی اولادوں کے لئے یورپ اور امریکہ میں جائیدادیں بناتے ہیں لیکن اس ملک کے غریبوں کے لئے ایک دو کمروں کا محفوظ گھر تعمیر نہیں کر سکتے۔ اس نظام میں فطرت کی بربادی بھی امارت اور غربت کی تفریق پر مبنی ہے چونکہ فطرت کے خلاف وہی محفوظ رہ سکتا ہے جس کے پاس فطرت سے لڑنے کے لئے زیادہ دولت اور وسائل موجود ہیں اور اس نظام میں یہ وسائل حکمران طبقات یا کسی حد تک درمیانے طبقے کے کچھ لوگوں کے پاس ہیں۔ یہ غریب لوگ تو ان آفات کے نہ ہونے کی صورت میں بھی اپنی غربت کے باعث کبھی قابل علاج بیماریوں کا خرچہ نہ اٹھانے سکنے کی وجہ سے مرتے رہتے ہیں اور کبھی سفر کی ناقص اور غیر محفوظ سہولیات کے باعث ہونے والے حادثات کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ اگر ایسا کچھ بھی نہ ہو تو اپنی اور خاندان کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کی تگ و دو میں ہر لمحہ مرتے رہتے ہیں۔
سماج میں موجود امارت اور غربت کی تقسیم، جس کے باعث یہ فطرت غریبوں کے لئے اتنی تباہ کن ہے، وہ اس طرح کے حادثات میں کھل کر جب سامنے آنے لگتی ہے تو حکمران طبقات اور ان کے پالتو صحافی، دانشور، ملا اور سیاست دان اس تفریق کو چھپانے کے لئے اس بربادی کی ذمہ داری فطرت کے سر ڈال کر ان حکمرانوں کی لوٹ مار کو تحفظ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آج انسان نے اتنی تکنیکی صلاحیت حاصل کر لی ہے کہ منصوبہ بندی کے ذریعے اگر سماج کی تعمیر کی جائے اور سماج کے تمام وسائل و دولت اجتماعی ملکیت میں لیتے ہوئے ہر انسان کو ایک بہتر معیار زندگی دینے کے لئے استعمال کیے جائیں تو اس سے کئی گنا زیادہ شدت کے زلزلوں اور دیگر قدرتی آفات سے محفوظ رہائش گاہیں اوردیگر انفراسٹرکچر تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ لیکن جب تک یہ نظام باقی رہے گا سماج کی اکثریت کی محنت سے پیدا کردہ دولت کو حکمران طبقات کا چھوٹا سا گروہ لوٹتا رہے گا تب تک غریبوں کواس قسم کی بربادیوں سے محفوظ رہنے کے وسائل ہی نہیں میسر آسکیں گے۔
یہ بربادی فطری نہیں ہے بلکہ اس سماج کی طبقاتی تفریق اور ان حکمران طبقات کی پیدا کردہ ہے اور ایسی ہر بربادی میں مرنے والوں کے قاتل یہ حکمران طبقات ہیں لیکن اس نظام اور اس کے قوانین بھی انہی حکمرانوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں حکمران طبقات کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس زلزلے سے متاثر ہونے والوں کی مکمل بحالی کے عمل کو فوری یقینی بنایا جائے اور تمام متاثرین کو حکومتی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ان کے تمام مالی نقصان کو پورا کیا جائے اور بے سہارا رہ جانے والے خاندانوں کی مکمل کفالت کا مستقل بندوبست کیا جائے۔
زلزلہ متاثرین سے ہمدردی رکھنے والوں کو بھی یہ سمجھنا ہو گا کہ اس نظام کی پیدا کردہ ان نام نہاد قدرتی آفات اور دیگر سماجی و معاشی بربادیوں سے نجات کے اس نظام کو تبدیل کرنے کی جدوجہد کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ عالمی سطح پر ماحولیاتی بربادی کا عمل ان حکمران طبقات کی منافع خوری کے باعث جس تیزی سے بڑھتاجا رہا ہے اس کے باعث جو ماحولیاتی اور موسمی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں وہ آنے والے دنوں میں موسمی طوفانوں کو ایک معمول بنا دیں گی جن کے باعث یہ دنیا انسانوں کے رہنے کے قابل ہی نہیں رہے گی۔ ماحولیاتی آلودگی کے خلاف اس وقت عالمی سطح پر بھی بہت بڑے احتجاج کئے جا رہے ہیں لیکن بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اس نظام پر براجمان حکمران طبقات جنہوں نے اپنے منافعوں کے ساری دنیا کو بربادی کے حقیقی خطرے سے دوچار کر دیا ہے وہ اپنے منافعوں سے خود دستبردار نہیں ہوں گے بلکہ ان کو ایک انقلاب کے ذریعے اکھاڑ پھینکنا پڑے گا۔ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی اس کرہئ ارض اور نسل انسان کا تحفظ ممکن ہے اور ہر باشعور انسان کا فریضہ ہے کہ وہ نسل انسان کی نجات کی اس لڑائی کو شعوری بنیادوں پر منظم کرنے کے لئے اپنا کر دار ادا کرے۔