|تحریر: پارس جان|
29 مارچ کو ایک ناگہانی حادثے کے نتیجے میں کامریڈ مہران جمالی ہم سے بچھڑ گئے۔ وہ عالمی مارکسی رجحان کی سالانہ کانگریس میں شرکت کے لئے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ براستہ ٹرین حیدرآباد سے لاہور آرہے تھے۔ ٹرین جب رائیونڈ کے قریب پہنچی تو کامریڈ مہران نے ٹرین سے باہر جھانکا تو ان کا سر باہر کھمبے سے ٹکرا گیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ شاید ان کا پاؤں پھسل گیا ہو۔ بہرحال اس درد ناک حادثے کے باعث وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔ یہ حادثہ نہ صرف میر مہران خان جمالی کے خاندان بلکہ ملک بھر میں استحصال، جبر اور نا انصافی پر مبنی اس نظام کے خلاف جدوجہد کرنے والے نوجوانوں اور محنت کشوں کے لئے بھی کسی قیامت سے کم نہیں تھا۔ میر مہران خان جمالی کے تین انقلابی ساتھیوں نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر چلتی ٹرین سے چھلانگ لگا کر میر مہران خان جمالی کو بچانے کی کوشش بھی کی مگر وہ بے بس رہے اور ان کے پہنچنے سے پہلے ہی کامریڈ مہران اپنی آخری سانسیں لے چکے تھے۔ 30 اور 31 مارچ کو منعقد ہونے والی عالمی مارکسی رجحان کی سالانہ کانگریس کا آغاز ہی میر مہران خان جمالی کی جدوجہد کو خراجِ تحسین پیش کرنے سے ہوا۔ کامریڈ مہران جمالی کی یاد میں کانگریس کے تمام شرکا نے ایک منٹ کی خاموشی کی مگر اس کے فوری بعد ہال ’مہران تیرا مشن ادھورا۔۔ہم سب مل کر کریں گے پورا‘ اور ’انقلاب انقلاب سوشلسٹ انقلاب‘ کے نعروں سے گونج اٹھا۔
کامریڈ مہران جمالی 25 اپریل 1997ء کو سندھ کے شہر دادو میں ایک ترقی پسند گھرانے میں ایک انسان دوست سکول ٹیچر کے ہاں پیدا ہوئے تھے۔ اس حوالے سے ان کی عمر بمشکل 22 سال تھی۔ مگر اتنی چھوٹی سی عمر میں انہوں نے ظلم اور جبر پر مبنی اس نظام کے خلاف ناقابلِ فراموش جدوجہد کی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو جاننے والی ہر آنکھ ان کی مفارقت کے غم میں اشک بار اور ہر دل سوگوار ہے۔ کامریڈ مہران نے اپنی سیاست کا آغاز ہی نہ صرف سندھ بلکہ ملکی سیاست میں سب سے زیادہ حساس سمجھے جانے والے مسئلے میں جراتمندانہ طریقے سے سرگرم ہوتے ہوئے کیا۔ وہ جبری طور پر گمشدہ سیاسی کارکنوں کی بازیابی کے لیے لگائے جانے والے ہر کیمپ، ریلی اور مارچ میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔ جلد ہی انہیں اور ان کے پرعزم ساتھیوں کو یہ احساس ہو گیا کہ ان کو سیاسی طور پر منظم ہونے کی سخت ضرورت ہے۔ وہ سندھ یونیورسٹی میں پہلے سے موجود نام نہاد قوم پرست یا لبرل طلبہ تنظیموں کی حقیقت اور اصلیت سے مکمل طور پر باخبر تھے اسی لیے انہوں نے پروگریسو یوتھ سوسائٹی کے نام سے ترقی پسند طلبہ کو منظم کرنا شروع کر دیا۔ مگر جلد ہی انہیں اندازہ ہو گیا کہ اس سماج میں کسی ایک یا دوسرے مسئلے کے حل کی جدوجہد کے لئے اس نظام کو تبدیل کرنے کی جدوجہد کرنا ہو گی۔ نظام کو تبدیل کرنے کے لئے نظام کی سمجھ بوجھ بہت ضروری تھی۔ اس لیے انہوں نے اپنی اور دیگر نوجوانوں کی تربیت کے لئے سینئر ساتھیوں کی رہنمائی میں باقاعدہ سٹڈی سرکل کا بھی آغاز کیا۔ بعد ازاں اس پروگریسو یوتھ سوسائٹی کو وطن دوست سٹوڈنٹس فیڈریشن میں بدل دیا گیا۔ اور کامریڈ مہران جمالی اس تنظیم کے پہلے جنرل سیکرٹری منتخب ہو گئے۔
سچے نظریات کی پیاس اور نظام کی تبدیلی کی بے لوث جدوجہد انہیں قوم پرستی کی تنگ و تاریک کال کوٹھڑی سے نکال کر مارکسی نظریات کے وسیع و عریض نظریاتی و سیاسی میدان میں کھینچ لائی۔ اسی اثنا میں سوشل میڈیا کے طفیل ان کی ملاقات پروگریسو یوتھ الائنس اور عالمی مارکسی رجحان کے ساتھیوں سے ہوئی اور یکے بعد دیگرے بہت سی نشستوں میں مختلف موضوعات پر طویل بحث مباحثے اور سوال و جواب کے بعد کامریڈ مہران جمالی نے دیگر دوستوں کے ہمراہ عالمی مارکسی رجحان میں باقاعدہ شمولیت کا اعلان کر دیا۔ امتحانی مصروفیات اور دیگر مسائل کے باعث وہ گزشتہ برس دسمبر میں پروگریسو یوتھ الائنس کے لاہور ہی میں منعقد ہونے والے مرکزی کنونشن کا حصہ نہ بن سکے۔ اسی اثنا میں حال ہی میں حیدرآباد پریس کلب میں وطن دوست سٹوڈنٹس فیڈریشن کا کنونشن بھی منعقد کیا گیا جس میں سندھ بھر سے سینکڑوں طلبہ انقلابی جذبات کے ساتھ شریک ہوئے۔ اس کنونشن میں پروگریسو یوتھ الائنس کے ساتھ وطن دوست سٹوڈنٹس فیڈریشن کے باقاعدہ الحاق کا اعلان بھی کیا گیا اور نئی منتخب کابینہ میں پھر مہران خان جمالی کو بطور جنرل سیکرٹری اپنی جدوجہد کو جاری رکھنے کا فریضہ بھی تفویض کیا گیا۔ یہ پرجوش انقلابی نوجوانوں کے مہران جمالی پر مکمل اعتماد اور ان کے نظریات سے ہمدردی کا اظہار تھا۔
کامریڈ مہران جمالی نے اپنے مختصر سیاسی سفر میں طلبہ کے تمام مسائل کے حل کی جدوجہد کی قیادت کی۔ سندھ یونیورسٹی میں فیسوں کے اضافے کے خلاف، طلبہ کو پینے کے صاف پانی اور ٹرانسپورٹ کی فراہمی کے لئے اور انتظامیہ کی دھونس دھاندلی کے خلاف ہر لڑائی میں کامریڈ مہران جمالی بھرپور طریقے سے سرگرم رہے۔ خاص طور پر طلبہ یونین کی بحالی اور نہ صرف سندھ بلکہ ملک بھر میں مفت تعلیم کے حصول کی جدوجہد اب ان کا اوڑھنا بچھونا بن چکی تھی۔ عالمی مارکسی رجحان کے ساتھی جہاں ان کے غم سے نڈھال ہیں وہیں اس نظام کے خلاف جدوجہد کو تیز تر کرنے کے عزم کا اعادہ بھی کرتے ہیں۔ سوشلسٹ انقلاب تک ناقابلِ مصالحت اور غیر متزلزل جدوجہد جاری رہے گی۔ کامریڈ میر مہران خان جمالی کا خواب حقیقت کا روپ ضرور دھارے گا اور ہم اس جہنم بن جانے والے کرۂ ارض کو جنت نظیر بنا کر ہی دم لیں گے۔ سچے جذبوں کی قسم جیت ہماری ہو گی۔