|تحریر: ولید خان|
مشرقِ وسطیٰ اس وقت آگ اور خون کی لپیٹ میں ہے جو واضح کرتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت دنیا میں امن ممکن نہیں۔ یہ نظام پوری دنیا میں عوام کی وسیع اکثریت کو غربت، ذلت اور محرومی میں دھکیل رہا ہے اور مشرقِ وسطیٰ کے محنت کش عوام اس میں سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ تیل اور دیگر معدنی وسائل کے باعث یہ خطہ سامراجی قوتوں کا اکھاڑا رہا ہے اور اسی مقصد کے تحت یہ قوتیں اس کو تاراج کرتی رہی ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ ان خطوں میں شامل ہے جو اپنے جغرافیائی حدود و اربعہ، سیاسی و معاشی اثرو رسوخ یا پھر اپنے سامراجی عزائم کی وجہ سے خطے میں موجود اپنے ہمسایوں اور عمومی عالمی صورتحال پر اثر انداز ہونے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سرمایہ داری کے خوشحال ادوار میں یہ ممالک اپنے ہمسایوں اور عالمی برادری میں ایک ایسا توازن برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ہیں جس میں ان کے مفادات کا حصول پر امن ذرائع سے ممکن تھا لیکن پھر عالمی معاشی نظام کے بحران اور عدم استحکام کے ادوار میں پرانی بچھائی گئی تمام بساط پلٹ جاتی ہے اور تمام پرانے طریقہ کار اور حربے و سفارتکاری تاریخی ناکامی سے ہمکنار ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں داخلی اور بیرونی ہیجان کا ایک ایسا سنگم جنم لیتا ہے جس کے زیر اثر خطہ تو بربادی کا شکار ہوتا ہی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ عالمی سیاست اور طاقتوں کے توازن پر دور رس اثرات کے ساتھ عالمی بحران ایک نئی معیاری جست کے ساتھ اور گہرا ہوتا چلا جاتا ہے۔ حکمران طبقہ اس بدلتی صورتحال میں اپنی تاریخی متروکیت کا واضح اظہار کرتے ہوئے نہ صورتحال کو سمجھ پاتا ہے اور نہ وقت کا دھارا ان کی منشا کے مطابق بہتا ہے۔ اس کے تخلیق کردہ تمام سماجی رشتے، ریاستی ادارے اور عوام کے ساتھ سماجی معاہدے ہوا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ عوام پچھلی بہت ساری روایات اور طریقہ حکمرانی کو اپنی نظروں کے سامنے نہ صرف ٹوٹتا اور بکھرتا دیکھتے ہیں بلکہ ایسی صورتحال میں ہر لمحہ بگڑتی سیاسی و معاشی صورتحال کے تحت مجبوراً تاریخ کے دھارے میں براہ راست مداخلت کیلئے پر تولنا شروع کر دیتے ہیں۔ غرض حکمران طبقہ اور عوام، ملک اور خطہ، علاقہ اور عالمی دنیا؛ تمام ایک جدلیاتی رشتے میں بندھے، ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس صورتحال کی سب سے واضح مثال مشرق وسطیٰ اور بالخصوص سعودی عرب ہے۔
5دسمبر 2017ء منگل کے دن کویت میں گلف کوآپریشن کونسل (GCC) کی میٹنگ شروع ہوئی۔ ایران اور یمن کے علاوہ خلیج فارس کے تمام ممالک GCC کے ممبر ہیں جن میں سعودی عرب، عرب امارات، کویت، قطر، بحرین اور عمان شامل ہیں۔ اس میٹنگ کی خاص بات یہ تھی کہ سوائے کویت اور قطر کے شاہوں کے، باقی تمام ممبران نے میٹنگ کا بائیکاٹ کرتے ہوئے مندوب کے طور پر وزرا یا ڈپٹی وزرائے اعظم کو بھیجا۔ کئی مہینوں سے افواہیں گرم تھیں کہ سعودی۔قطری تنازعے کی وجہ سے میٹنگ کا انعقاد بہت مشکل ہے لیکن کویتی شاہ شیخ صباح الاحمد الصباح ( جوسعودی۔قطری تنازعے کو حل کروانے کی کوشش کر رہا ہے) نے کونسل کی ساکھ رکھنے کیلئے میٹنگ بہرحال منعقد کرا ہی ڈالی۔ میٹنگ کے آغاز میں الصباح نے کہا کہ اس میٹنگ کا منعقد ہونا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ مشکل حالات کے باوجود علاقائی مفاد کیلئے سب مل کر بیٹھنے کو تیار ہیں۔ قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی نے اس عزم کا اظہار کیا کہ خلیج کے مفادات کا ہر ممکن تحفظ کیا جائے گا۔ لیکن دو دن کی یہ میٹنگ شروع ہونے کے چند ہی گھنٹوں بعد ختم کر دی گئی۔ میٹنگ سے محض چند گھنٹوں پہلے عرب امارات نے اعلان کیا کہ امارات اور سعودی عرب نے تمام سیاسی، سماجی، معاشی اور علاقائی معاملات میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیلئے ایک کمیشن تشکیل دیا ہے جس میں دونوں ممالک آپسی معاملات کو خوش اسلوبی سے چلائیں گے۔ اس حوالے سے فی الحال سعودی عرب کا کوئی موقف سامنے نہیں آیا ہے۔ چھتیس سال پرانی GCC، جس کے عزائم میں 2010ء تک خلیج میں مشترکہ محصولات، مشترکہ منڈی اور مشترکہ کرنسی کا انعقاد تھا، فی الحال اپنی تاریخ کے بدترین بحران سے گزر رہی ہے اور اسی میں ہمیں مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کی سفارتکاری کا شیرازہ بکھرتا ہوا نظر آتا ہے۔
سعودی عرب اور ایران کی سامراجی لڑائی
عالمی سطح پر امریکی سامراج کا خصی پن واضح طور پر نظر آ رہا ہے جس کا سب سے کھلا اظہار مشرق وسطیٰ میں نظر آتا ہے۔ اس خلا کو ایران اور سعودی عرب پُر کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں اور ان دونوں ممالک کے حکمران طبقات کی سامراجی لڑائی کے اثرات پاکستان سمیت پورے خطے پر مرتب ہو رہے ہیں۔ اس لڑائی میں ترکی، روس، چین اور دیگر یورپی سامراجی ممالک بھی شامل ہیں لیکن سعودی عرب اور ایران اس کھیل کے سب سے کلیدی کھلاڑی ہیں جو شیعہ اور سنی مسالک کو بھی اس جنگ میں بطور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔
کئی دہائیوں سے سعودی عرب کا حکمران طبقہ نام نہاد امت مسلمہ کا روحانی پیشوا، مشرقِ وسطیٰ میں خارجی مزدوروں کا سب سے بڑا مسکن اور خطے کی سب سے بڑی رد انقلابی قوت رہا ہے۔ امریکی سامراج کی گماشتگی، کٹر وہابی نظریات کا ساری دنیا میں پرچار اور دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت سعودی عرب کی خارجہ پالیسی کا خاصہ ر ہے ہیں۔ خطے میں سب سے بڑے تیل کے ذخائر نے سعودی عرب کو وہ سیاسی اور معاشی طاقت بخشی جس کے ذریعے سعودی عرب کا حکمران طبقہ اپنے علاقائی اور عالمی مفادات کا تحفظ کرتا رہا ہے۔ لیکن تیل کی قیمتوں میں گراوٹ، خلیجی ممالک میں چپقلشوں، مشرق وسطیٰ میں سیاسی و عسکری شکستوں اور عوامی تحریک کے خوف نے جہاں سعودی ریاست کو شدید بحران میں مبتلا کر دیا ہے وہیں پر حکمران خاندان کی اندرونی لڑائیاں بھی شدید عدم استحکام کا باعث بن رہی ہیں۔
ایران دوسری عالمی جنگ کے بعد خطے میں امریکی سامراج کی گماشتگی کا کردار ادا کر رہا تھا اور رضا شاہ پہلوی امریکی سامراج کا نمائندہ تھا۔ لیکن شاہ کیخلاف انقلابی تحریک نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ اس انقلاب کی قیادت ایران کے بائیں بازو خصوصاً کمیونسٹ پارٹی کے پاس تھی لیکن سٹالنسٹ نظریات کے باعث یہاں سوشلسٹ انقلاب کی منزل تک پہنچنے کی بجائے تحریک کی قیادت رجعتی ملاؤں کو سونپ دی گئی جن کا انقلاب میں کوئی کردار نہیں تھا۔ ان ملاؤں نے بر سر اقتدار آتے ہی کمیونسٹوں کا قتل عام کروایا اور ریاست پر اپنی آمرانہ گرفت کو مضبوط کیا۔ اس وقت سے خطے میں بھی طاقت کا توازن تبدیل ہوا۔ 88-1980ء کی ایران عراق جنگ کے دوران دونوں ممالک کے حکمرانوں نے اپنے اپنے ملک میں عوامی تحریکوں اور بائیں بازو کی قوتوں کو کچلنے کے لیے بیرونی دشمن کا واویلا کیا۔ اس دوران دونوں طرف حکمرانوں نے سماج پر اپنی آمرانہ جکڑ کو مزید سخت کیا۔ اس جنگ میں سعودی عرب نے عراقی ریاست کی مالی اور سیاسی معاونت کی ا ور امریکہ کے دیرینہ اتحادی ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایران پر لگی پابندیوں کی حمایت بھی کرتا رہا۔ لیکن دونوں ممالک کی لڑائی پھٹ کر عراق جنگ 2003ء اور خاص طور پر 2011ء میں شام میں شروع ہونے والی خانہ جنگی میں سامنے آ ئی ہے۔ ایران کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے امریکہ کے پاس ایک اہم قوت عراق تھی، جس کو خود اس نے تباہ و برباد کر کے رکھ دیا اور اس کے بعد نہ صرف ایران بلکہ ترکی کے لئے بھی خطے میں بھرپور سامراجی مداخلت کا دروازہ کھل گیا۔
2003ء میں عراق میں امریکی جارحیت کے باعث عراق کی ریاست ٹوٹ پھوٹ گئی اور اس کی تعمیر نو کا منصوبہ بھی بری طرح ناکام ہوا۔ اس صورتحال کا فائدہ ایران نے اٹھایا اور اپنے اثر و رسوخ میں کئی گنا اضافہ کیا۔ اوباما نے ایران کے ساتھ معاہدہ کر کے طاقتوں کے اس نئے توازن کو تسلیم کیا تھا لیکن ٹرمپ کے فیصلوں نے پھر امریکی سامراج کی کمزوری کو ننگا کر دیا ہے۔ اس وقت یمن سے لے کر عراق و شام تک سعودی عرب اور ایران ایک دوسرے کیخلاف اپنی پروردہ دہشت گرد تنظیموں اور مختلف قبائلی گروہوں کی مدد سے اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس ساری لڑائی میں ابھی تک ایران کا پلڑا بھاری ہے جس نے عراق، شام اور لبنان تک اپنی عسکری قوت اور اتحادیوں کے ذریعے اپنا تسلط بڑھایا ہے جبکہ سعودی عرب کو امریکی آشیر باد کے باوجود پسپائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
سعودی عرب اور ایران کی سامراجی جنگ میں جہاں دونوں ممالک شیعہ اور سنی مسلک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں وہاں صدیوں پرانے عربی اور عجمی کے تعصب اور عرب قوم پرستی کو بھی حمایت جیتنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب اسلام کے مقدس ترین مقامات پر کنٹرول کو پیسہ کمانے اور مسلم ممالک پر اجارہ داری کے لیے استعمال کرتا ہے لیکن اب ایران بھی کربلا اور نجف کے مقدس مقامات پر زائرین کی بڑی تعداد کو متوجہ کر رہا ہے اور اس کنٹرول کو اپنے سامراجی مفادات کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
ایران نے بحرین اور سعودی عرب کے مشرقی علاقوں میں موجود شیعہ آبادی میں اپنا سامراجی اثر و رسوخ بڑھایا ہے تو سعودی عرب نے خلیجی ممالک کے ساتھ خلیجی کونسل بنا کر اور مختلف ممالک میں سنی عوام کے مذہبی جذبات ابھار کر ان میں اپنا اثرو رسوخ بنایا ہے۔ اسی وجہ سے المیہ یہ ہے کہ لڑائی ان دو ممالک کے حکمران طبقات کے درمیان ہوتی ہے اور فسادات میں لوگ کسی دور افتادہ ملک میں مارے جا تے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایران کی منظم کردہ ملیشیا اور عسکری ماہرین (ایرانی انقلابی گارڈ، القدس برگیڈ وغیرہ) عراقی فوج کے ساتھ عراق کے بیشتر علاقوں پر قابض ہیں، شروع سے شامی صدر بشار الاسد کی حمایت کرتے ہوئے اب وہ روس کے ساتھ مل کر شام میں بھی بیشتر علاقوں پر قابض ہیں، فلسطین میں حماس کی حمایت کے ذریعے اسرائیلی۔ فلسطینی تنازعہ میں بھی اثرو رسوخ رکھتے ہیں، لبنان میں حزب اللہ کے ذریعے ایک تہائی پارلیمنٹ ان کے قبضے میں ہے، بحرین کی شیعہ عوام میں (گو کہ تحریک مذہبی منافرت سے بالا تر تھی)13-2011ء کی تحریک کی پسپائی کے بعد اثرو رسوخ بنا رہے ہیں اور یمن کے حوثی باغیوں کی دہائیوں سے حمایت کر رہے ہیں جنہوں نے تین سال کی جنگ میں سعودی عرب کو ناکوں چنے چبوا دئیے ہیں۔ سعودی عرب کے مشرقی علاقوں میں شیعہ اکثریت دہائیوں سے محرومی اور ریاستی جبر کا شکار رہی ہے جس کے خلاف یہاں کی مقامی آبادی مزاحمت بھی کرتی رہی ہے۔ یہاں کے مشہورشیعہ عالم شیخ نمر النمر کا جنوری 2016ء میں ریاستی قتل کر کے جہاں سعودی عرب، ایران کو مداخلت کے خلاف واضح پیغام دینا چاہتا تھا وہیں پر مقامی آبادی کو بھی خوف و ہراس میں مبتلا رکھنا چاہتا تھا لیکن اب سعودی ریاست کو ڈر ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ایران کی واضح بالادستی، یمن میں حوثیوں کی کامیابی اور ان کے تیل کے ذخائر سے مالا مال مشرقی ساحلی علاقوں کی شیعہ عوام کی کسی بڑی بغاوت کے نتیجے میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف مشرق وسطیٰ میں سعودی مہرے پٹ رہے ہیں او ر اب صرف مصری فوجی جنتا سعودی پیسوں پر منحصر ہونے کی وجہ سے ان کی کسی حد تک حامی ہے لیکن مشرق وسطیٰ میں بالا دستی کے لئے یہ کافی نہیں۔ ایران کی مخالفت میں 41 ممالک پر مشتمل ایک نام نہاد مسلم امہ کی فوج بنائی گئی ہے لیکن فی الحال یہ فوج کاغذی شیر ہی ثابت ہو رہی ہے۔ سعودی عرب کی اپنی فوج کوئی جنگ لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتی اور اسے مصر یا پاکستان کی فوج کی ضرورت پیش آ رہی ہے۔ اتحاد میں شامل دیگر عرب ممالک کی افواج کی صورتحال بھی ایسی ہی ہے۔ پاکستان اس صورتحال میں نیوٹرل رہنے کا ناٹک کر رہا ہے کیونکہ اس سامراجی کھینچا تانی کا حصہ بننے کی وجہ سے اس کی اپنی فوج مسلک کی بنیاد پر دو حصوں میں تقسیم ہو رہی ہے۔ جبکہ مصر کی فوج کا بھی کھل کر سامنے آنا ممکن نہیں۔ ایسے میں سعودی عرب ان کو اپنے ساتھ شامل کرنے کے لیے لالچ اور دھمکیوں سمیت ہر حربہ استعمال کر رہا ہے۔
صدر ٹرمپ نے ایرانی جوہری معاہدے کو کوڑے دان میں پھینکنے کی کوشش کی ہے جس کی سعودی عرب نے پرجوش حمایت کی ہے لیکن یہ معاملہ بھی اتنا آسان نہیں۔ بہت سے یورپی ممالک نے، جو ایران کے ساتھ اس معاہدے کا حصہ ہیں، ٹرمپ کے اقدام کی مذمت کی ہے اور وہ اس معاہدے کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ ان ممالک کی نظریں ایران کے بڑھتے ہوئے کردار، اس کی داخلی منڈی اور اس کے تیل (دنیا میں چوتھے بڑے)اور گیس(دنیا میں دوسرے بڑے) کے ذخائر پر ہیں۔ اس وجہ سے بھی سعود ی عرب اور ایران میں عالمی منڈی میں حصے داری اور تیل کی قیمت کے تعین پر لڑائی رہتی ہے۔ ایران پر پابندیوں کے وقت سعودی عرب کے لئے تیل کی قیمتوں اور منڈی میں حصہ داری کا تعین کرنا قدرے آسان تھا لیکن اب پابندیوں کے ختم ہونے یا ان میں آسانیاں آنے کی وجہ سے سعودی عرب کے لئے مشکلات پیدا ہو رہی ہیں کیونکہ ایران کو تیل اور گیس کی اتنی اونچی قیمتیں درکار نہیں جتنی سعودی عرب کو اپنی معیشت چلانے اور سماجی استحکام کیلئے درکار ہیں۔
اس سال نومبر میں سعودی ریاست نے انتہائی بھونڈے طریقے سے لبنان میں عدم استحکام اور سیاسی انتشار پیدا کر کے حزب اللہ اور ایران کے اثر ورسوخ کو ختم کرنے کی کوشش کی جب لبنان کے وزیر اعظم سعد حریری کو سعودی دارلحکومت ریاض بلا کر بندوق کے زور پر اس سے استعفیٰ دلوایا گیا۔ فرانسیسی صدر کی کوششوں سے سعد حریری کی باز یابی ہوئی اور اس نے لبنان واپس پہنچ کر استعفیٰ واپس لینے کا اعلان کیا۔ سعد حریری لبنان میں سعودی عرب کا سب سے اہم مہرہ تھا۔ یہ شخص دنیا کے امیر ترین افراد کی فہرست میں شامل ہے اور اس کا بیشتر کاروبار اور پیسہ سعودی عرب میں ہے۔ لیکن اس کے باوجود اب ولی عہد محمد بن سلمان کے اقدامات کے باعث یہ سعودی عرب سے دور ہو چکا ہے۔ اس عمل سے سعودی حربوں کی ساری دنیا میں جگ ہنسائی بھی ہوئی۔ لیکن اس طرح کی کوششوں سے یہ واضح ہے کہ دونوں سامراجیوں کی بالادستی کی جنگ ختم ہونے کے بجائے مزید بڑھے گی اور یہ دنیا کے مختلف ممالک، خاص طور پر پاکستان جیسے ممالک میں آنے والے وقت میں انتہائی شدت کے ساتھ اظہار بھی کرے گی جس سے مزید علاقائی اور عالمی سیاسی، سماجی اور معاشی عدم استحکام بڑھے گا۔
اس دوران خلیج میں ابھرنے والاسعودی۔ قطری تنازعہ بھی کوئی ڈھکا چھپا نہیں، حالانکہ دونوں خلیجی کونسل کے ممبران ہیں اور دہائیوں سے ایک دوسرے کے اتحادی بھی رہے ہیں۔ قطر خلیج میں واقع ایک انتہائی چھوٹا ملک ہے جس کی ایک ہی زمینی سرحد ہے اور وہ سعودی عرب کے ساتھ لگتی ہے۔ باقی تین اطراف خلیجی سمندر ہے۔ لیکن زمینی اور عوامی حجم میں کمی ہونے کے باوجود قطر میں دنیا کے تیسرے بڑے گیس کے ذخائر ہیں اورمشرق وسطیٰ میں امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اڈہ، دارالحکومت دوحہ سے بیس میل دور العدید ائر بیس ہے جس میں 11ہزار امریکی فوجی اور ائر فورس کی ایڈوانس سنٹرل کمانڈ کے دفاتر موجود ہیں۔ سعودی عرب، مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی معیشت اور مذہبی تقدس کے باعث سیاسی طور پر مشرق وسطیٰ پر بالا دست رہا ہے لیکن قطر بھی اپنی بے پناہ گیس کی دولت اور امریکہ کا قریبی حلیف ہونے کے ناطے 90ء کی دہائی سے اپنی پالیسیوں کو آزادانہ چلانے کا خواہش مند رہا ہے۔ اس حوالے سے کویت، عمان، بحرین اور عرب امارات سعودی قیادت میں چلتے رہے ہیں لیکن قطر کے ایران کے ساتھ سفارتی و تجارتی تعلقات ہیں اور ماضی میں قطر مصر میں اخوان المسلمین کی حکوت کی بھی معاونت کرتا رہا ہے جو کہ سعودی عرب کی پالیسی سے متصادم تھا۔ پھر قطر کا الجزیرہ ٹی وی چینل اپنی تنقیدی رپورٹنگ کی وجہ سے سعودی عرب کے لئے ایک کانٹا بنا ہوا ہے۔ جون 2017ء میں عمان اور کویت کے علاوہ دیگر خلیجی کونسل کے ممبران نے مصر سمیت قطر سے تمام سفارتی، زمینی اور بحری تعلقات منقطع کر دئیے اور ایک تیرہ نکاتی ایجنڈہ، جس میں ایران سے قطع تعلقی، الجزیرہ ٹی و چینل کی بندش، شام میں موجود انتہا پسند گروہوں کی معاونت سے دست برداری اور دیگر مطالبات شامل تھے۔ قطر نے مطالبات ماننے سے انکار کر دیا جس کے بعد اس کی ناکہ بندی کر دی گئی لیکن اس موقع پر ایران اور ترکی نے قطر کی امداد کا اعلان کیا بلکہ ترکی نے اپنے فوجی بھی قطر میں بھیج دیے۔ ابھی تک قطر میں ایران اور ترکی بحری اور فضائی راستے سے اشیا ئے ضرورت لارہے ہیں۔ پھر امریکہ میں بھی پینٹاگون اور وزارت خارجہ کی سپورٹ قطر کو حاصل ہے کیونکہ مشرق وسطیٰ کی سب سے اہم امریکی فوجی بیس وہاں پر ہے۔ گوکہ ٹرمپ نے پہلے سعودی عرب کے اس اقدام کی حمایت کا اعلان کر دیا لیکن بعد میں امریکی ریاستی اداروں کے دباؤ پر اس نے اپنا بیان واپس لیا اور اس کشیدگی کو حل کروانے کی کوشش شروع کی۔ لیکن ابھی تک یہ تعلقات کشیدہ ہیں۔ حالیہ خلیجی کونسل کی شدید ناکامی نے جہاں اس کونسل کی مکمل نااہلیت کا اعلان کر دیا ہے وہیں پر سعودی عرب کی سخت گیر پوزیشن اور قطر کے جھکنے سے انکار پر کہا جا سکتا ہے کہ معاملہ مزید پیچیدگی اور شدت کی طرف جائے گا۔
پچھلے چند سالوں سے ذرائع ابلاغ اور نجی ملاقاتوں میں یہ خبر آتی رہی ہے کہ اسرائیل اور سعودی عرب، ایران سے مشترکہ دشمنی کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ سفارتی اور عسکری تعلقات استوار کرنے کے خواہش مند ہیں۔ سعودی عرب کی مشرق وسطیٰ میں ہزیمت، اسرائیل کی مشرق وسطی کی جنگ میں شمولیت اور دونوں کا امریکی اتحادی ہونا بھی دونوں کو ایک دوسرے کو قریب آنے پر مجبور کر رہا ہے۔ اس سال اسرائیل کے حکومتی ارکان کی طرف سے جون میں، خاص طور پر اسرائیلی انٹیلی جنس اور ٹرانسپورٹ وزیر یسرائیل کاٹز کی طرف سے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی اور تجارتی تعلقات بنانے کی دعوت دی گئی۔ ولی عہد محمد بن سلمان کو اسرائیل کے دورے کی دعوت بھی دی گئی۔ صدر ٹرمپ اپنے سعودی عرب کے دورے کے بعد ڈائریکٹ فلائٹ پر تل ابیب پہنچا جسے ایک تاریخی اقدام قرار دیا گیا۔ افواہیں یہ بھی گرم ہیں کہ شہزادہ محمد بن سلمان اس سال اسرائیل کا ایک خفیہ دورہ کر آیا ہے اور قیاس کیا جا رہا ہے جلد ہی اسرائیلی ائر لائن کو سعودی فضا استعمال کرنے کی اجازت مل جائے گی اور نچلی سطح پر سفارتی تعلقات شروع کر دئیے جائیں گے جبکہ ایران اور مشرق وسطیٰ کے حوالے سے بھی دونوں میں مشترکہ مفادات کی بنا پر تعاون کیا جا ئے گا۔ اگر یہ تمام معاملے اسی طرح چلتے ہیں تو جہاں سعودی نام نہاد ساکھ کو مسلم عوام میں شدید دھچکا لگے گا وہیں پر اسرائیل کی سامراجی منافقت اس کے عوام پر عیاں ہو گی لیکن دونوں ممالک کے حکمران حالات سے مجبور ہو کر ایک دوسرے کے قریب آنے کی کوشش جاری رکھیں گے۔
ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز نے 2015ء میں یمن پر جنگ مسلط کر دی تھی۔ اس کی وجوہات میں یمن میں بڑھتی خانہ جنگی میں ایرانی اثرورسوخ کی روک تھام، مشرق وسطی کی پالیسی میں ناکامی اور سعودی عرب کے داخلی انتشار پر قابو پانا تھا تا کہ عوام میں ا پنے آپ کو بطور ’’عظیم سپہ سالار‘‘ اور ’’مضبوط لیڈر‘‘ کے منوا یا جاسکے اور اپنے اقتدار کو مستحکم کیا جائے۔ لیکن امریکی اور برطانوی انٹیلی جنس کی امداد، خلیجی ممالک اور پاکستان کی معاونت، مکمل ناکہ بندی اورمستقل بمباری کے باوجود محمد بن سلمان اپنی حکمت عملی میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اس وقت یمن میں صنعااور ملحقہ علاقوں پرحوثیوں کا قبضہ ہے، عدن اور ملحقہ علاقوں میں الہادی (سعودی اتحادی) کی حکومت ہے جبکہ درمیانی علاقہ انصار الشریعہ (القاعدہ) کے قبضے میں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ سعودی عرب اور اتحادیوں کو اس القاعدہ کی کوئی خاص پرواہ نہیں جس کے خلاف پچھلے پندرہ سالوں سے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ لڑی جا رہی ہے کیونکہ امید یہ کی جا رہی تھی کہ وہ حوثی قبائل کی راہ روکنے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہ حکمت عملی بھی چوپٹ ہو چکی ہے۔
سعودی عرب کی پالیسی کو سب سے بڑا دھچکا 5دسمبر کو لگا جب حوثیوں نے سابق صدر عبداللہ صالح کو قتل کر دیا۔ عبداللہ صالح کئی دہائیوں تک یمن کا صدر رہا لیکن 2011ء کی عرب بہار میں اس کا تختہ الٹ دیا گیا۔ اس وقت وہ سعودی عرب کا حامی تھا لیکن کچھ عرصے بعد اس نے حوثیوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسو خ کے باعث ان سے اتحاد کر لیا۔ سعودیوں کو مجبوراً اس کے نائب الہادی کو اپنا مہرہ بنانا پڑا۔ لیکن دسمبر کے آغاز پر صالح نے دوبارہ سعودیوں کی حمایت کا اعلان کیااور حوثیوں سے غداری کی۔ یہ سعودیوں کے لیے ایک بہت بڑی کامیابی تھی لیکن چند ہی روز بعد صالح کا قتل ان کے لیے ایک بہت بڑی شکست ہے۔ اس کے بعد صالح کی حامی قبائلی افواج بکھر چکی ہیں اور اس کے مقبوضہ علاقے حوثیوں کے کنٹرول میں ہیں۔
لیکن اس تمام تر جنگ کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں۔ یمن میں 40 ہزار سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔ پورا ملک شدید غذائی قلت کی لپیٹ میں ہے، ایک کروڑ سے زیادہ عوام کو فوری طور پر بنیادی اشیائے زندگی کی ضرورت ہے اور دنیا میں سب سے بڑی ہیضے کی وبا اس وقت یمن میں پھوٹی ہوئی ہے۔ سعودی عرب پر عالمی دباؤ بھی بڑھ رہا ہے کہ اب معاملات کو کنٹرول کیا جائے۔ یہ رپورٹیں بھی آ رہی ہیں کہ سعودی یمنی سرحد پر تعینات ہزاروں سعودی فوجی بھگوڑے ہو چکے ہیں۔ یمن دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ وہاں پر سعودی، برطانوی اور امریکی سامراج کی تین سالوں میں ناکامی دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان سامراجیوں کی درحقیقت کیا کیفیت ہے۔ سعودی عرب بے پناہ عسکری وسائل صرف کرنے کے باوجود اپنے اہداف میں کامیاب نہیں ہو سکا اور یمن بھی ایران اور سعودی عرب کی لڑائی کے بدولت ایک رستا ہوا زخم بن چکا ہے۔
سعودی شاہی خاندان کی لڑائیاں
2011ء کی عرب بہار میں سعودی عرب میں کوئی ملک گیر عوامی تحریک نہیں ابھری گو کہ حکمرانوں کے خلاف پہلی دفعہ مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے اور ہڑتالیں دیکھنے میں آئیں۔ اس وقت یہ کہا جانے لگا کہ دنیا میں کچھ ایسے ممالک بھی ہوتے ہیں جن پر علاقائی یا عالمی عوامی تحریک کا اثر نہیں ہوتا۔ لیکن سرمایہ داری ایک عالمی معاشی نظام ہے اور تمام مقامی منڈیاں اس میں ایک لڑی میں پروئی ہوئی ہیں۔ جلد یا بدیر عالمی معاشی کیفیت، مقامی منڈی پر اثر انداز ہوتی ہے، چاہے کتنی ہی مضبوط معیشت اور پر امن سماج کیوں نہ ہو۔ پھر انٹرنیٹ اور عالمی ذرائع ابلاغ سے جڑے نوجوان اور محنت کش دنیا کی ہر لمحہ بدلتی کیفیت اپنے موبائل فون پر دیکھ رہے ہوتے ہیں جو پھر ان کی شعوری تبدیلی اور عالمی جڑت کا باعث بنتی ہے۔ سعودی شاہی خاندان نے عرب بہار سے پہلے اور اس کے دوران، خطرات کو بھانپتے ہوئے 130 ارب ڈالر کی خطیر رقم خرچ کر کے حکومتی اہلکاروں کی تنخواہیں بڑھانے سے لے کر دیو ہیکل پراجیکٹس شروع کرنے تک، عوامی تحریک کے امکانات کو ختم کرنے کیلئے تمام حربے استعمال کئے۔ لیکن 2014ء میں تیل کی قیمتوں میں خوفناک گراوٹ نے تمام حکمت عملیاں اکارت کر دیں۔ پھر مشرق وسطی میں بڑھتے ہوئے خوفناک عدم استحکام اور ایران کے ساتھ علاقائی بالادستی کی جنگ میں بھی سینکڑوں ارب ڈالر کی خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود ریاست اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ سعودی عرب کے مالیاتی فنڈ کو 2014ء سے اب تک 200 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہو چکا ہے۔ شاہی خاندان میں کافی عرصے سے عمر رسیدہ شہزادوں اور نئی نسل کے درمیان تضادات پک رہے تھے۔ یہ تضادات اس وقت کھل کر سامنے آئے جب جنوری 2015ء میں شاہ عبداللہ کی موت کے بعد شہزادہ سلمان بن عبد العزیز بادشاہ بنا۔ عمر رسیدہ (81سالہ ) ہونے کے ساتھ ساتھ وہ الزائمر کا مریض بھی ہے لیکن شاہی روایت کے مطابق اس کو متفقہ طور ر بادشاہ بنایا گیا۔ امور ریاست اور شاہی خاندان کے معاملات چلانے کے لئے اس نے اپنے نو بیٹوں میں سے محمد(عمر 32سال) کاانتخاب کیا۔ محمد، جس کا اس سے پہلے تجارت، سفارت یا ریاستی امور کا کوئی تجربہ نہیں تھا، نے آتے ہی بڑی تیزی کے ساتھ شاہی امور اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے خاندان کی بقیہ قبائلی شاخوں کواپنے راستے سے ہٹانا شروع کر دیا۔ شاہی خاندان کی اہم ترین قبائلی شاخیں روایتی طور پر ریاست کے مختلف امور پر قابض رہی ہیں اور اس طرح باہمی اتفاق سے لوٹ مار میں اپنا حصہ وصول کرتی رہی ہیں۔ محمد بن سلمان نے پہلے ولی عہد شہزادہ مقرن بن عبدالعزیز کو راستے سے ہٹایا اور چند ماہ پہلے شہزادہ محمد بن نائف کو ہٹا کر خود ولی عہد بن گیا۔ اسی طرح وہ ڈپٹی وزیر اعظم اول، اکانومک اور ڈویلپمنٹ کونسل کا صدر، وزیر دفاع اور شاہی دربار کا کنوینر ہونے کے بعد سعودی عرب کی طاقتور ترین شخصیت بن چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سعودی آرامکو (دنیا میں تیل کی پیداوار کا سب سے بڑا ریاستی ادارہ) بھی اس کے کنٹرول میں ہے۔ تمام وزارتوں پر خاندان کے مخالف دھڑوں کا تسلط توڑ دیا گیا ہے اور ریاستی اداروں کے عہدے دار بھی تبدیل کر دیئے گئے ہیں۔ نومبر 2017ء میں دو درجن سے زائد شہزادوں اور اتنے ہی اعلی عہدے داروں کو کرپشن میں ملوث ہونے پر گرفتار کر لیا گیا جن میں بزنس مین ولید بن طلال، نیشنل گارڈ کا سربراہ متعب بن عبداللہ، وزیر معاشیات اور پلاننگ عادل فکیہ، سعودی بحریہ کا سربراہ عبداللہ بن سلطان، سابقہ وزیر معاشیات ابراہیم الاساف، ریاض کا سابقہ گورنر ترکی بن عبداللہ، بن لادن گروپ کا سربراہ بکر بن لادن اور MCB ٹی وی نیٹ ورک کا مالک الولید بن ابراہیم شامل ہیں۔ ایک ہزار سے زائد افراد کے 800 ارب ڈالر کے اکاؤنٹ منجمد کر دئیے گئے ہیں۔ بظاہر تو یہ کرپشن کے خلاف معاملہ دکھایا جا رہا ہے لیکن تھوڑا کھوج لگانے پر معلوم ہوتا ہے کہ محمد بن سلمان ریاست پر اپنی گرفت کو مضبوط تر کرتے ہوئے اپنے تمام مخالفین کو دیوار سے لگا رہا ہے اور ساتھ ہی خالی ہوتے خزانوں کا پیٹ بھرنے کی بھی کوشش کر رہا ہے۔ حال ہی میں ایک خبر کے مطابق تمام گرفتار شہزادے حکومت کے ساتھ ڈیل کرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ خبروں کے مطابق حکومت کی کوشش ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے 100 ارب ڈالر اکٹھے کئے جائیں۔ یہ بھی سعودیہ کی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے کہ شاہی خاندان کے افراداتنے بڑے پیمانے پر ایک دوسرے کیخلاف برسر پیکار ہیں۔ دہائیوں میں پروان چڑھائی گئی ریاستی مشینری کے عہدیدار تبدیل کرنے کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہوتا کہ ادارہ بھی تبدیل ہو گیا ہے۔ آنے والے وقت میں شاہی خاندان کی لڑائیاں، مختلف اداروں میں اپنا اظہار کرتی نظر آئیں گی اور مزید عدم استحکام اور انتشار پھیلے گا جو ریاست کے انہدام پر بھی منتج ہو سکتا ہے۔ فنانشل ٹائمز اور سرمایہ داری کے دیگر سنجیدہ ترجمان لکھ رہے ہیں کہ شام اور عراق کی خونریزی اور خانہ جنگی سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لینے کی جانب بڑھ رہی ہیں اور ان نسبتاً پر سکون سماجوں پر خونی طوفان منڈلا رہے ہیں۔
سعودی سماجی و معاشی اصلاحات
پچھلی نو دہائیوں میں سعودی عرب کی معیشت کا تمام تر انحصار تیل پر رہا ہے۔ لیکن تیل کی گرتی قیمتوں، اربوں ڈالر کی کرپشن، بیروزگاری اور روزانہ بڑھتی مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لئے محمد بن سلمان نے سرمایہ دارانہ نظام کے سب سے بڑے بینکوں، مالیاتی فنڈوں اور مشاورتی کمپنیوں کو 2015ء میں ٹاسک دیا کہ ملکی معیشت کا تیل پر انحصار کم سے کم کرتے ہوئے معیشت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔ یہ اوپر سے کی جانے والی اصلاحات کسی عوامی مفاد کے بجائے شاہی خاندان کی ساکھ اور مستقبل میں اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لئے ہیں۔ ابھی تک سعودی عرب ایک ارب ڈالر سے زائد رقم ان مشیروں پر لگا چکا ہے جن میں میک کنزے، جے پی مورگن، پیلاڈیئم، بلیک سٹون، گولڈمین ساکس وغیرہ شامل ہیں۔ اپریل2016ء میں پلان کے دو حصے دنیا کے سامنے لائے گئے۔ ایک نیشنل ٹرانسفارمیشن پروگرام 2020ء ہے اور ایک وژن2030ء ہے۔ سرمایہ داری کے ان مشیروں نے وہی حل پیش کیا ہے جو دہائیوں سے پیش کرتے آ رہے ہیں۔ ان میں پورے ملک کے تمام اثاثہ جات، جن میں میونسپلٹی، بجلی گھر، سکول، ہسپتال، کلینک، پراپرٹی اور ہاوسنگ سوسائیٹیوں کے پرمٹ، پانی کے فلٹریشن پلانٹ، ائرپورٹ، بندرگاہیں، بس اور ریلوے اڈے، انرجی سیکٹر، حج اور عمرہ کی سہولیات، معدنی وسائل، ٹیلی کمیونیکیشن، فٹ بال کلب غرضیکہ ہر چیز کی نجکاری شامل ہے۔ سینما گھروں اور تفریحی و سیاحی مقامات کی ڈویلپمنٹ شامل ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کی سب سے بڑی تیل کی کمپنی آرامکو کے 100 ارب ڈالر کے حصص کی فروخت شامل ہیں۔ اس منصوبے میں پانی، بجلی، تیل، اشیا خورد و نوش وغیرہ پر تمام سبسڈی کو ختم کرنا، محصولات اور ٹیکسوں میں اضافہ اور بڑے پیمانے پر سودی قرضہ جات کا حصول اور انشورنس کمپنیوں کا پھیلاؤ شامل ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ہتھیاروں کی انڈسٹری میں سرمایہ کاری کے منصوبے بھی بن رہے ہیں۔ 24 وزارتوں کی از سر نو تنظیم کاری کی جا رہی ہے تاکہ بیرونی سرمایہ کاری اور تجارتی سرگرمیوں کو جلد از جلد بڑھایا جائے اور افسر شاہی کی رکاوٹوں کو دور کیا جا سکے۔ 500 ارب ڈالر کی لاگت سے ایک نیا شہر نیوم بنانے کا اعلان کیا گیا ہے جس میں تمام سہولیات روبوٹس اور آٹومیشن سے مہیا کی جائیں گی۔ ایسے تفریحی جزیروں کو ڈویلپ کیا جائے گا جہاں سعودی قانون لاگو نہیں ہو گا اور کلب اور شراب خانے کھلم کھلا دھندہ کر سکیں گے۔ اس حوالے سے پوری دنیا میں چرچا کیا جا رہا ہے اور پوری دنیا سے مشیر کمپنیاں، بینک، فنڈ اور سروسز کمپنیاں اس وقت سعودی عرب میں ڈیرے ڈالے بیٹھی ہیں۔
سعودی عرب کی تقریباً 70 فیصد آبادی کی عمر 30 سال سے کم ہے۔ بے روزگاری کی شرح 11.7 فیصد ہے جبکہ سالانہ تقریباً ڈھائی لاکھ نوجوان محنت کی منڈی میں داخل ہو رہے ہیں۔ تمام کمپنیوں اور اداروں میں پچھلے کئی سالوں سے خارجی مزدوروں کی بجائے سعودی نوجوانوں کو جگہ دینے کا عمل جاری ہے۔ جدید معیشت سے ہم آہنگی کے لئے خواتین کو جولائی 2017ء میں گاڑی چلانے کی اجازت دی گئی اور کوشش کی جا رہی ہے کہ ہر سیکٹر میں خواتین کی نوکریوں کی شرح کو بڑھایا جائے تا کہ ان کی سستی لیبر سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ اس سال سے مختلف میوزیکل شوز، ثقافتی سرگرمیوں اور کھیلوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے جن میں خواتین کی شمولیت کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔
سعودی ریاست کا اندازہ ہے کہ تمام ریاستی اداروں کی فروخت سے 200 ارب ڈالر کمائے جائیں گے جنہیں پبلک انوسٹمنٹ فنڈ میں ڈال کر ساری دنیا میں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کی جائے گی جس سے حاصل ہونے والے منافع سے امور ریاست چلائے جائیں گے۔ پرائیویٹ سیکٹر تمام نئی نوکریوں کا ذمہ دار ہو گااور ریاست کا کام صرف ریگولیشن، قانون سازی اور نئے سیکٹروں کی تعمیر میں معاونت فراہم کرنا ہو گا۔
بیرونی کمپنیوں، مالیاتی اداروں اور مشیروں کی ہوس سے قطع نظر، سرسری طور پر بھی اس پورے معاشی و سماجی پلان پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ پلان ایک ڈھکوسلے کے علاوہ کچھ نہیں۔ سرمایہ داری کا مسئلہ یہ ہے کہ زائد پیداوار کے بحران کی وجہ سے اشیا بے پناہ ہیں لیکن منڈی میں اتنی سکت ہی نہیں کہ سارا مال کھپایا جا سکے۔ اس وقت دنیا بھر میں فیکٹریاں اور صنعتی ادارے یا تو بند ہو رہے ہیں یا گھسٹ گھسٹ کر چل رہے ہیں۔ سرمایہ دار نئی فیکٹریاں اور صنعتیں لگانے کو تیار نہیں کیونکہ پہلے سے پیدا کردہ مال بک نہیں رہا۔ اسی طرح دنیا میں خام مال کا سب سے بڑا استعمال کنندہ چین شدید معاشی مسائل میں گھرتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے خام مال کی کھپت کم ہوتی جا رہی ہے۔ یعنی سعودی عرب کا تمام تر صنعتی پلان ’’بہت دیر کی مہرباں آتے آتے‘‘ جیسا ہے۔ اوپر سے جن صنعتوں کے اجرا کی بات کی جا رہی ہے، وہ خطے میں پہلے سے ہی بڑے پیمانے پر موجود ہیں۔ مثلاً آئی ٹی اور پراپرٹی کی سرمایہ کاری یا کام کے لئے دبئی موجود ہے۔ تفریح اور عیاشی کے بھی کئی اڈے دبئی، مناما اور بیروت میں پہلے سے موجود ہیں۔ ان تمام اقدامات کے لئے رجعتی ملاؤں کو بھی جیلوں میں ڈال کر یا پھر افہام و تفہم سے منایا جا رہا ہے لیکن رجعتی ملا اپنی کم ہوتی طاقت کو ایک وقت آنے پر برداشت نہیں کر پائیں گے اور ریاست کے ساتھ تصادم نا گزیر ہو جائے گا جس میں ناراض شاہی دھڑوں کی مداخلت بھی شامل ہو گی۔ پھر اس کے ساتھ ساتھ جو سماجی تبدیلیاں تیز تر انداز سے کی جا رہی ہیں، وہ ناگزیر طور پر عوام میں نئی اصلاحات اور بالآخر سماجی و سیاسی مطالبات پر منتج ہوں گی جن میں سر فہرست مطالبہ جمہوریت کا ہو گا۔ نجکاری کا پلان پچھلی تین دہائیوں میں برطانیہ سے لے کر روس تک سب میں لاگو کیا جا چکا ہے اور سوائے معاشی ابتری اور عوامی معیار زندگی میں گراوٹ کے وہاں کچھ حاصل نہیں ہوا کیونکہ سرمایہ کار کا مقصد خریداری کر کے شرح منافع کمانا ہے، عوام کو سہولیات فراہم کرنا نہیں۔ علاقائی عدم استحکام، شاہی خاندان کی اندرونی لڑائیوں اور سامراجی یلغار کے نتیجے میں سعودی عرب ایک ایسا جوالا مکھی بننے جا رہا ہے جس کے پھٹنے پر دنیا دہل جائے گی۔ ہزاروں سال پہلے گرتی ہوئی سلطنت روم نے بھی کلوزئم میں شیروں اور غلاموں کے تماشوں سے عوام کو رام کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ کوشش بھی ناکام ہوئی تھی اور سعودی عرب میں نوجوانوں کو بہلانے اور حسین مستقبل کے خواب دکھانے کی یہ کوشش بھی ناکام ہو گی۔
عراق اور شام: کیا داعش کے خاتمے سے امن ممکن ہے؟
2003ء میں عراق میں امریکہ کی سامراجی مداخلت کے باعث مشرقِ وسطیٰ کے عدم استحکام کا آغاز ہوا۔ اس سامراجی مداخلت سے جہاں امریکہ تیل کے ذخائر پر براہ راست قبضہ کرنا چاہتا تھا وہاں خطے میں اپنا براہ راست اثر و رسوخ بھی جمانا چاہتا تھا۔ لیکن آج پندرہ سال بعد امریکہ اس خطے میں کوئی بھی اہم کردار ادا کرنے سے قاصر ہے اور اس کے اتحادی شدید انتشار کا شکا ر ہیں۔ 08-2007ء کے عالمی مالیاتی بحران نے امریکی سامراج کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس کے بعد 2011ء کے عرب انقلابات نے خطے میں موجود دہائیوں پرانی آمریتوں کو اکھاڑ کر پھینک دیا اور ایک نئی سیاسی کشمکش کا آغاز ہوا۔ پورے شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں کروڑوں لوگ سڑکوں پر آ گئے۔ مصر پر تین دہائیوں سے قابض حسنی مبارک کا تختہ الٹ گیا، لیبیا میں معمر قدافی ایک عوامی تحریک اور اس کیخلاف سامراجی مداخلت کے ٹکراؤمیں مارا گیا، تیونس میں بن علی کو اقتدار چھوڑ کر بھاگنا پڑا، مراکش انقلابی تحریک کی لپیٹ میں آ گیا، کویت، بحرین، سعودی عرب کے مشرقی علاقے، اردن، لبنان یہاں تک کہ اسرائیل میں بھی لاکھوں لوگ مہنگائی اور بیروزگاری کے خلاف مذہبی، لسانی اور نسلی تفرقات سے بالا تر ہو کر احتجاج کیلئے نکل پڑے۔ غرضیکہ عرب بہار نے خطے کی سیاسی ہیئت تبدیل کر کے رکھ دی۔ متوسط طبقے کی سازشی تھیوریوں کے برعکس امریکی سامراج اس عرصے میں اتنا کمزور ہو چکا تھا، عالمی معاشی بحران کے اثرات اتنے شدید ہو چکے تھے اور انقلابی طوفان اتنا تیز و تند تھا کہ امریکی سوائے ہاتھ ملنے کے اور کچھ نہیں کر سکے۔ نہ وہ اپنے پرانے مہرے بچا سکے اور نہ ہی حالات میں کوئی بارآور مداخلت کر سکے۔ اس حوالے سے سعودی عرب سمیت مشرق وسطیٰ کی تمام بادشاہتوں کو یہ خطرہ لاحق ہو گیا کہ اگر امریکی سامراج دیگر ممالک کے حکمرانوں کیلئے کچھ نہیں کر سکا تو وقت آنے پر ہمارے لئے بھی کچھ نہیں کر پائے گا۔ پھر حکمران طبقات یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ انقلابی تحریکوں میں لوگ حکمران طبقات کے مسلط کردہ تعصبات اور تقسیموں سے بالاتر ہو کر جڑت بنا رہے ہیں۔ اس کی سب سے واضح مثال ہمیں اسرائیلی عوام کے احتجاجوں میں ملتی ہے جن میں لاکھوں یہودی، مسلم، عرب اور مسیحی ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر احتجاج کر رہے تھے اور نعرہ تھا کہ ’’عوام سماجی انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں‘‘۔ اس دوران امریکی سامراج کی خطے میں اور عالمی طور پر معاشی و سیاسی کمزوری کو بھانپتے ہوئے پوری دنیا میں مختلف مقامی سامراجی طاقتوں نے آزادانہ طور پر اپنی سامراجی پالیسیوں پر عملدرآمد شروع کر دیا اور امریکی زوال کے پیدا کردہ خلا کو پر کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ مشرق وسطیٰ سعودی عرب، ترکی اور ایران کی بالا دستی کی لڑائی کا اکھاڑا بن گیا۔
مشرق وسطیٰ میں اس سارے عمل میں معیاری جست دو بڑے واقعات کی وجہ سے آئی۔ مارچ 2011ء میں شام میں عرب بہار سے متاثر ہو کر معاشی تنگی اور کئی سالوں کی مسلسل اقتصادی گراوٹ کے نتیجے میں ایک عوامی تحریک ابھری جسے شامی ریاست نے خون میں نہلا دیا اور پھر اس کیفیت میں سامراجی مداخلت سے خانہ جنگی کا آغاز ہوا۔ دوسرا بڑا واقعہ جون 2014ء میں پیش آیا جب تیل کی قیمت عالمی منڈی میں 120ڈالر فی بیرل سے گر کر آدھی سے بھی کم رہ گئی اور تیل پر منحصر معیشتیں کھوکھلی ہو نا شروع ہو گیں۔ ان دو واقعات کے خطے کی سیاست، معیشت اور سماج پر تباہ کن اثرات پڑے۔
ایسی صورتحال میں امریکہ کے لیے برا ہ راست مداخلت کرنا ممکن نہیں تھا۔ امریکہ عراق میں شکست کھا چکا تھا اور اس ملک کا ریاستی ڈھانچہ پہلے ہی تباہ کر چکا تھا۔ طاقت کے نشے میں خود امریکی سامراج نے خطے میں موجود اس تجربہ کار فوج، جو ایران کی عسکری قوت کا مقابلہ کر سکتی تھی، کا خاتمہ کر دیا۔ اسی دوران ایران کی عراق میں مداخلت میں کئی گنا اضافہ ہوا اور یہاں بننے والی شیعہ اکثریتی حکومت امریکہ کی بجائے ایران کے زیادہ قریب ہو گئی۔ اسی دوران ا یران سعو دی عرب تضاد پھٹ کر سامنے آیا کیونکہ عراق میں ایران کے اثر ورسوخ میں بے پناہ اضافہ ہو رہا تھا اور اسی کیفیت کے نتیجے میں سعودی عرب نے اپنے سامراجی عزائم کی تکمیل کی خاطر داعش کو تخلیق کیا۔ اس تمام عرصے میں امریکی سامراج کا عراق کو ایک جدید ریاست بنانے کا دعویٰ ریزہ ریزہ ہو چکا تھا۔ عراق باڈی کاؤنٹ ویب سائٹ جو عراقی اموات کے حوالے سے سب سے مستند معلومات رکھتی ہے، کے مطابق امریکی سامراج کی یلغار اور خانہ جنگی کے نتیجے میں تقریباً 300,000 عراقی مارے جا چکے ہیں جبکہ مستند ذرائع کے مطابق جنگ کے نتیجے میں بے گھر ہونے والوں کی تعداد 30 لاکھ سے زائد ہے۔
عراق میں امریکی مداخلت القاعدہ کی موجودگی کا بہانہ بنا کر کی گئی اور وہ ملک، جس میں القاعدہ کا نام و نشان تک موجود نہیں تھا، القاعدہ کی آماجگاہ بن گیا جس نے بعد میں متعدد دہشت گرد گروپوں کی تخلیق کے لئے بنیاد فراہم کی، گو کہ اب ان گروپس کے سامنے القاعدہ کی حیثیت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ داعش کا ابھار جنگی تباہی، سماجی بحران، سیاسی متبادل کی عدم موجودگی اور پرانی ریاست کی ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں ہوا جس کی سعودی عرب نے بھرپور معاونت کی۔ حالیہ عرصے میں ایسی خونخوار انتہا پسند تنظیم پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ علاقائی ریاستوں کی کمزوری، خانہ جنگی، محنت کش طبقے کی بڑی تحریک کی عدم موجودگی میں 2013ء میں بننے والی داعش نے حیران کن تیزی کے ساتھ عراق اور شام کے بڑے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ یہاں تک کہ داعش ایک وقت میں اتنی طاقتور ہو گئی کہ اس نے اپنے سابقہ آقا سعودی عرب میں آپریشن کرنے کی بھی دھمکیاں دینی شروع کر دیں جس کے نتیجے میں سعودی ریاست کو اپنی ہی تخلیق سے خطرہ لاحق ہو گیا۔ شام میں عوامی تحریک کی ناکامی کے بعد قومی فوج کے کچھ کمانڈروں اور دستوں نے بغاوت کر کے آزاد شامی فوج (FSA) بنائی تھی۔ امریکہ اور یورپی سامراجی طاقتوں نے اس فوج کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا جس کے نتیجے میں یہ ٹوٹ کر بکھر گئی۔ موقع محل دیکھتے ہی سعودی عرب اور ایران اس خانہ جنگی میں کود پڑے۔ شام کے صدر بشار الاسد کی معاونت عراقی شیعہ مسلح گروپس، ایران اور لبنان کی حزب اللہ نے کی اور 2015ء میں روس بھی اس میں شامل ہو گیا۔ سعودی عرب، عرب امارات، قطراور کویت نے دیگر اسلامی انتہا پسند گروہوں کی معاونت کی۔ ترکی کا جابر حکمران اردوگان موقع پاتے ہی عثمانی خلافت کی نشاہ ثانیہ کے خواب آنکھوں میں سجائے اس دلدل میں کود پڑا اور سامراجی مقاصد کے حصول کے لیے اسلامی انتہا پسندوں کی پشت پناہی کرتا رہا، یہاں تک کہ داعش کے زخمی جنگجوؤں کا علاج اس کی بیٹی کے ہسپتال میں ہوتا رہا۔ انتہا پسند گروہوں میں جبہۃ النصرہ(اب نام جبہۃ فتح الشام ہو چکا ہے)اور داعش سب سے بڑے گروہ ہیں۔ FSA کی حیثیت اب ثانوی ہے جبکہ 2014ء میں امریکی مداخلت کے بعد شامی جمہوری فورسز (SDF) میں موجود کرد عوامی تحفظ یونٹس (YPG) کو بڑے پیمانے پر امریکی معاونت حاصل ہے۔ ایک وقت میں صورتحال یہ ہو چکی تھی کہ امریکہ داعش اور القاعدہ کے ساتھ عراق میں لڑ رہا تھا جبکہ شام میں اسی القاعدہ کے حمایت یافتہ گروہوں کی معاونت کر رہا تھا۔ حالات یہاں تک آن پہنچے کہ مختلف انتہا پسند گروہ صبح اتحادی ہوتے تھے اور شام کو دست و گریباں۔ معیاری تبدیلی روس کی عسکری مداخلت سے رونما ہوئی۔ اس ساری صورتحال میں سب سے زیادہ نقصان خلیجی ممالک نے اٹھایا کیونکہ جنگ کو اپنے ممالک سے دور رکھنے اور اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے وہ براہ راست فوج کشی کرنے سے گریزاں تھے۔ ویسے بھی خلیجی ممالک کی افواج کوئی ایسی قابل ذکر نہیں کہ وہ کسی بڑی جنگ کا بار اپنے کندھوں پر اٹھا سکیں۔ دوسری طرف امریکی عوام کی عراق اور افغانستان کی جنگوں سے نفرت، ان جنگوں میں شکست اور شدید معاشی بحران کی وجہ سے امریکہ اپنی فوجیں بھیج نہیں سکتا تھا۔ اس لیے عسکری اعتبار سے جنگ میں سب سے زیادہ مضبوط پوزیشن شام، ایران اور روس کی تھی۔ اس کا منطقی انجام یہ ہوا کہ شامی ریاست نے اپنے سامراجی اتحادیوں کے ساتھ شام کے بڑے حصوں پر قبضہ کرتے ہوئے حلب پر دسمبر 2016ء میں قبضہ کر لیا جبکہ شامی افواج دیر ازور میں مشرق سے18ستمبر کو داخل ہو کر قابض ہو گئیں۔ دوسری طرف امریکی معاونت میں شامی کردوں کیYPG نے داعش کو الرقہ شہر سے مار بھگایا ہے۔ ادھر عراق میں عراقی فوج، پاپولر موبلائزیشن فورسز (PMF)، درجنوں ایرانی شیعہ ملیشیا اور عراقی کرد پیش مرگا ملیشیا نے امریکی 60 ملکی اتحاد کی معاونت سے موصل کے اہم شہر اور داعش کے مرکزپر قبضہ کر لیا ہے۔
سامراجی کمزوریوں، داعش کی بڑھتی تباہی و بربادی اور پھیلاؤ اور خلیجی ممالک کو لاحق خطرات کے پیش نظر سامراجی قوتوں نے فیصلہ کیا کہ پہلے داعش سے نمٹا جائے اور باقی معاملات بعد میں دیکھے جائیں۔ سعودی عرب کی ہمیشہ کوشش رہی کہ امریکہ فوری طور پر شامی جنگ میں مداخلت کرے۔ امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے اتحادیوں کو خوش کرنے اور اپنی ساکھ قائم رکھنے کیلئے 3دسمبر 2012ء میں شامی صدر بشار الاسد کو خبردار کیا کہ ’’میں اسد اور اس کے زیر کمان لوگوں کو خبردار کرتا ہوں، دنیا دیکھ رہی ہے۔ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال مکمل طور پر ناقابل قبول ہے اور اگر تم نے ان ہتھیاروں کے استعمال کی افسوس ناک غلطی کی تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے اور تمہارا سخت ترین محاسبہ ہو گا‘‘۔ اگست 2013ء میں خان الاصل حملے میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا۔ یہ استعمال سعودی حمایتی انتہا پسند گروہوں نے کیا یا واقعی بشار کی حکومت نے، یہ ایک الگ بحث ہے لیکن اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ صدر اوباما اس سلسلے میں عملی طور پر کچھ نہیں کر سکا جو پھر امریکی سامراج کی کمزوری کا واضح اظہار تھا۔ امریکہ نے 2014ء میں شام میں باقاعدہ مداخلت شروع کی اور وہ بھی انتہا پسند دہشت گرد گروہوں کی معاونت اور تربیت کے لئے۔ ایک بار پھر امریکی خصی پن کا اظہار دنیا نے دیکھا جب 2016ء میں یہ انکشاف ہوا کہ CIA کی حمایت یافتہ فرسان الحق اور پینٹاگون کی حمایت یافتہ SDF آپس میں ہی لڑ رہے ہیں۔ ایک اور CIA کا انتہا پسندوں کی ٹریننگ کا پروگرام 500ملین ڈالر کی خطیر رقم خرچ کرنے کے بعد بند کر دیا گیا جب یہ انکشاف ہوا کہ اب تک صرف 60 جنگجو ہی تربیت حاصل کر پائے ہیں۔ اس حوالے سے ہمیں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ حقیقت یہ نہیں کہ روسی، ایرانی اور ترکی سامراج نے راتوں رات طاقت حاصل کر لی ہے اور وہ امریکہ سے زیادہ خونخوار سامراجی بن گئے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سامراجی صرف امریکہ کے خالی کردہ خلا کو ہی اپنے کمزور و ناتواں قدموں سے پر کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
اس وقت اگر عراق کے نقشے کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ عملی طور پر یہ سابقہ ریاست تین حصوں میں بٹ چکی ہے۔ تل افاراور ہاویجہ سے نیچے تمام جنوبی علاقہ عراقی ریاست کے قبضے میں ہے۔ ان سے اوپر شمالی علاقہ جات کرد ملیشیا کے قبضے میں ہے جہاں ان کی خود مختار حکومت اربل میں قائم ہے۔ مغرب میں کچھ علاقہ داعش کے قبضے میں رہ گیا ہے جسے جلد یا بدیر خالی کرا لیا جائے گا۔ شام میں معاملات انتہائی پیچیدہ اور گھمبیر ہیں۔ بی بی سی کی13دسمبر 2013ء کی ایک تفصیلی رپورٹ کے مطابق اندازہ ہے کہ یہاں پر ہزار سے زیادہ مختلف مسلح گروہ سرگرم ہیں جن کے پاس ایک لاکھ سے زیادہ مسلح جنگجو موجود ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر مقامی ہیں لیکن کچھ گروہ علاقائی سطح پر کام کر رہے ہیں۔ اگر شام کے نقشے پر نظر ڈالی جائے تو یہ سابقہ ریاست چھ حصوں میں بٹ چکی ہے۔ ہامہ، حمص، پامیرا اور دمشق سمیت وسطی علاقہ جات شامی حکومت کے قبضے میں ہیں۔ مشرق اور مغرب کے کچھ سرحدی علاقے، جن میں سب سے قابل ذکر ادلیب ہے، القاعدہ کے قبضے میں ہے جس کی ترکی پشت پناہی کر رہا ہے۔ شمال اور شمال مشرق کے بیشتر علاقے، جن میں طرابلس، کوبانی، رقہ وغیرہ شامل ہیں، کرد ملیشیا کے قبضے میں ہیں۔ شمال مغرب کا علاقہ ازاز، ترکی کے حمایت کردہ جنگجوؤں کے پاس ہے۔ مشرق میں چند علاقے داعش کے پاس ہیں اور جنوب مغرب میں گولان پہاڑی علاقہ اسرائیل کے قبضے میں ہے۔ دونوں ممالک کی صورتحال دیکھ کر کئی حقیقتوں کا ادراک ہوتا ہے۔ ایک تو یہ کہ یہ ممالک مکمل طور پر تباہ و برباد ہو چکے ہیں اور ان کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔ دوسرا یہ کہ سامراجی قوتوں نے اپنی حمایت کردہ قوتوں کے ذریعے جہاں پر داعش سے جان چھڑائی وہیں پر جنگ بندی کرنے سے پہلے زیادہ سے زیادہ علاقہ ہتھیانے کی کوشش میں انتہائی سفاکی سے پورا خطہ تاراج کر کے رکھ دیا۔ محتاط اندازوں کے مطابق اب تک شام میں 5لاکھ سے زائد لوگ مارے جا چکے ہیں جبکہ 66 لاکھ بے گھر ہو چکے ہیں۔ تیسرا یہ کہ شام اور عرا ق میں انتشار کم ہونے کے بجائے زیادہ سے زیادہ بڑھتا جا رہا ہے جس کی واضح مثال یہ ہے کہ پچھلے کئی مہینوں سے ترکی، ایران اور روس کی کوششوں کے باوجود ابھی تک آپسی معاملات (علاقائی بندر بانٹ) طے نہیں ہو پا رہے۔ آنے والے دنوں میں ہم انتشار میں مزید اضافے کے ساتھ ساتھ ان اتحادیوں کا آپس میں ٹکراؤ بھی دیکھیں گے۔ اور خلیجی ممالک کی نظر میں سب سے اہم نتیجہ یہ ہے کہ کئی سالوں اربوں ڈالر کی خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود دونوں علاقوں میں طاقت کی رسہ کشی سے خلیجی ممالک اور خاص کر خلیج کی سب سے بڑی معاشی قوت سعودی عرب، مکمل طور پر باہر ہیں۔
اگر تمام فاتح ملیشیا، ان کے معاون سامراجیوں، زیر تسلط علاقوں اور خود فاتح ملیشیا ؤں کی اپنی بناوٹ کو دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ اس خطے میں سامراجی جبر کے تحت امن کسی صورت ممکن نہیں۔ سامراجی آقاؤں کے اپنے عالمی اور علاقائی مفادات ہیں، ملیشیاؤں میں موجود مقامی لوگوں کے اپنے مفادات ہیں اور اسی لئے شدید معاشی بد حالی، سماجی تباہی، سیاسی افراتفری اور اثرو رسوخ کی اس جنگ میں کمی کے بجائے مزید شدت آئے گی جس کے نہ صرف اس خطے پر بلکہ پوری دنیا میں تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔
کرد وں کا قومی سوال
پچھلے کچھ سالوں میں اسلامی انتہا پسند گروہوں کی ناکامی اور علاقائی سامراجیوں پر عدم اعتماد کے نتیجے میں امریکہ نے سابقہ سامراجیوں کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ایک بار پھر کرد ملیشاؤں کو اپنے سامراجی عزائم کیلئے استعمال کیا ہے۔ یہ صورتحال ترکی، ایران، عراق اور شام، چاروں کیلئے بے حد تشویش ناک ہے۔ تاریخی طور پر کرد عوام علاقائی سلطنتوں کے زیر تسلط ہی رہے اور مکمل قومی آزادی حاصل نہیں کر سکے۔ یہ سچ ہے کہ تاریخی طور پر کرد عوام کے اندر کرد قومیت کا احساس سرمایہ داری کی یلغار سے پہلے موجود نہیں تھا اور ان کی سیاست ایک اکائی بھی نہیں تھی۔ لیکن قومی تشخص کے ابھار، پہلی عالمی جنگ کی بندر بانٹ میں حصہ نہ ملنے اور بعد میں علاقائی قوتوں کے جبر کے نتیجے میں کردوں نے اپنے آپ کو منظم کر کے سیاسی ومسلح جدوجہد کا سلسلہ شروع کیا جو کہ دہائیوں سے جاری ہے۔ کرد جنوب مشرقی ترکی، شمال مغربی ایران، شمالی عراق اور شمالی شام کے علاقوں میں پائے جاتے ہیں اور دہائیوں سے آزادی اور آزاد وطن کی جدوجہد کر رہے ہیں، گو کہ مختلف علاقوں میں اس کی نوعیت مختلف ہے۔ کردوں کی قومی آزادی کی تحریک میں بائیں بازو کے نظریات ہی حاوی رہے ہیں لیکن دائیں بازو کی پارٹیاں اور رجحانات بھی موجود ہیں۔ اسی طرح ان علاقوں میں موجود قومی آزادی کی جدوجہد کرنے والی پارٹیوں کے بھی ایک دوسرے سے شدید اختلافات ہیں اور یہ ایک دوسرے کو ختم کرنے کی جدوجہد کرتی رہتی ہیں خواہ اس کے لیے کسی سامراجی طاقت کا ہی سہارا کیوں نہ لینا پڑے۔ ان علاقوں میں ان کی کل آبادی ڈھائی سے ساڑھے تین کروڑ کے درمیان ہے اور اس حوالے سے یہ مشرق وسطیٰ کی چوتھی سب سے بڑی قوم ہیں۔ عراق میں امریکہ کی سامراجی مداخلت میں بھی ان کردوں کو استعمال کیا گیا جس کے بدلے شمالی عراق میں انہیں عراق کی ریاست میں رہتے ہوئے بڑے پیمانے پر خود مختاری دی گئی۔ 2011ء کے عرب انقلابات کے بعد کردوں کی قومی آزادی کی تحریکوں میں بھی شدت آئی۔ شام میں خانہ جنگی کے دوران بشارالاسد نے انہیں ان کے حقوق دینے کا وعدہ کیا تا کہ یہ اس کیخلاف ہتھیار نہ اٹھائیں لیکن صورتحال تیزی سے تبدیل ہوتی رہی۔
2013ء کے درمیانی عرصے میں داعش نے شمالی شام پر قبضے کے بعد اپنی علاقائی وسعت کو بڑھانے کیلئے کردوں پر حملے کرنے شروع کر دئیے جس کے نتیجے میں شامی کردستان کی ڈیموکریٹک یونین پارٹی (PYD) کے مسلح ونگ عوامی تحفظ یونٹس (YPG)نے ان کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کر دی۔ جون 2014ء میں شمالی عراق کی طرف بڑھتے ہوئے داعش نے وہاں کے کردوں پر بھی حملے شروع کر دئیے جس کے نتیجے میں عراقی افواج نے پسپائی اختیار کی اور شمالی عراق کے آزاد کرد علاقے(KRG) کی حکومت نے اپنی پیش مرگا ملیشیا کے ذریعے ایک طرف داعش کے خلاف مزاحمت کی تو دوسری طرف عراقی فوج کے چھوڑے ہوئے علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا۔ اس لڑائی میں امریکی بمباری کے زیر سایہ پیش مرگا، YPG اور دیگرنے متحد ہو کر جنگ لڑی۔ ستمبر 2014ء میں داعش نے شمالی شام میں موجود کرد قصبے کوبانی پر حملہ کر دیا جس کی وجہ سے ہزاروں کرد قریبی سرحد پار کر کے ترکی میں پناہ گزین ہو گئے۔ اس دوران ترکی نے نہ ہی داعش کے خلاف مزاحمت کی اور نہ ہی ترکی کے کردوں کو شامی کردوں کی مدد کرنے کی اجازت دی۔ جنوری 2015ء میں کرد جنگجوؤں نے کوبانی پر کنٹرول واپس حاصل کر لیا۔ اس وقت سے اب تک کرد شامی جمہوری افواج (SDF) کے بینر تلے اکٹھے ہو کر مقامی عرب ملیشیاؤں کے ساتھ امریکی اتحاد میں لڑ رہے ہیں اور انہوں نے ہزاروں مربع کلومیٹر علاقہ خالی کر ا کے ترک سرحد سے ملحقہ علاقوں پر مضبوط کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ SDF کے جنگجو اب رقہ اور دیار الزور پر بھی قابض ہو چکے ہیں۔ عراق اور شام میں سینکڑوں کلومیٹر وسعت حاصل کرنے کے بعد کرد عراق، شام، ترکی اور ایران کیلئے درد سر بن رہے ہیں کیونکہ اب یہ ممالک خوفزدہ ہیں کہ بھرپور کامیابیوں اور امریکہ کے اہم اتحادی ہونے کا فائدہ اٹھا کر ان علاقوں کے کرد متحد ہو کر آزادی کی بھرپور جدوجہد کا راستہ اختیار کر سکتے ہیں۔ لیکن کرد قیادت میں بھی بے شمار آپسی تضادات اور مسائل موجود ہیں۔
ایک وقت میں شام میں صدر بشار الاسد نے کردوں کو نظر انداز کئے رکھا کہ یہ داعش سے لڑ رہے ہیں لیکن اب وہ کردوں کے مفتوحہ علاقوں میں واپس اپنا تسلط بحال کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اب یہ کام اتنا آسان نہیں کیونکہ جنوری 2014ء میں سب سے بڑی کرد پارٹی ڈیموکریٹک یونین پارٹی (PYD) سمیت مختلف کرد سیاسی پارٹیوں نے آفرین، کوبانی اور جازیرہ پر مشتمل علاقے کو ایک ’’آزاد علاقہ‘‘ قرار دے دیا تھا۔ مارچ 2016ء میں انہوں نے داعش سے خالی کرائے گئے علاقوں کے ساتھ ایک ’’وفاقی نظام‘‘ کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ اس کی شامی حکومت، شامی حزب اختلاف، ترکی اور امریکہ نے کھل کر مخالفت کی۔ PYD کا کہنا ہے کہ وہ آزادی نہیں مانگتے لیکن کسی بھی امن معاہدے کے نتیجے میں کرد عوام کے حقوق اور آزادی کا ہر صورت تحفظ ہونا چاہیے۔
عراق میں سیاسی جدوجہد اور آزادی کیلئے مصطفی بارزانی نے 1946ء میں کردستان ڈیموکریٹک پارٹی (KDP)کی بنیاد رکھی اور 1961ء میں مسلح جدوجہد کا آغاز کر دیا۔ 1988ء میں ایران عراق جنگ میں ایران کی حمایت کرنے کی پاداش میں صدر صدام حسین نے بدترین مظالم، قتل و غارت اور کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے ہزاروں کردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ قبائلی لڑائیوں اور سیاسی لائحہ عمل پر اختلافات کے نتیجے میں KDP کے اندر موجود جلال طالبانی، ابراہیم احمد دھڑے نے جون 1975ء میں محب وطن کردستان اتحاد (PUK) کی بنیاد رکھی۔ دونوں پارٹیاں کبھی اتحاد اور کبھی خانہ جنگی میں ایک دوسرے کے ساتھ عراقی کرد سیاست کی بالادستی کیلئے لڑتے رہے۔ 2003ء میں امریکی جارحیت کے بعد دوہک، ایربیل اور سلیمانیہ کے علاقوں کو ملا کر ایک کردستان علاقائی گورنمنٹ (KRG) بنائی گئی جس کا پہلا صدر KDPکا مسعود بارزانی (مصطفی بارزانی کا بیٹا) بنا اور2006 میں جلال طالبانی کو عراق کا پہلا کرد صدر بنا دیا گیا۔ ستمبر 2017ء میں مسعود بارزانی نے شدید معاشی مسائل سے توجہ ہٹانے اور سیاسی تنہائی سے جان چھڑانے کیلئے عراقی کردستان اور داعش سے چھینے گئے علاقوں میں آزادی پر ایک ریفرنڈم کرایا جس میں 93.25فیصد لوگوں نے آزادی کی حمایت کر دی۔ اس ریفرنڈم کی عراقی حکومت نے شدید مخالفت کی اور اس کے نتیجے میں مسعود بارزانی کو مستعفی ہونا پڑا۔ ساتھ ہی عراقی افواج نے کرکوک اور دیگر علاقوں کی طرف پیش قدمی شروع کر دی جس کے نتیجے میں پیش مرگا نے پسپائی اختیار کی اور داعش سے چھینے گئے علاقے واپس عراقی ریاست کی تحویل میں چلے گئے۔
ترکی کردستان میں 1978ء میں عبداللہ اوجلان نے کردستان ورکرز پارٹی (PKK) کی بنیاد رکھی جس نے چھ سال بعد آزادی کی مسلح جدوجہد شروع کر دی۔ اس وقت سے اب تک اس خانہ جنگی میں 40 ہزار کرد مارے جا چکے ہیں اور لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ 1990ء کی دہائی میں PKK نے آزادی کا مطالبہ سیاسی اور ثقافتی آزادی کی حمایت میں ترک کر دیا لیکن مسلح جدوجہد جاری رہی۔ 1999ء میں عبداللہ اوجلان کو ترک حکومت نے امریکی سی آئی اے کی مدد سے گرفتار کر لیا اور ابھی تک وہ زیر حراست ہے۔ 2013ء میں اردگان حکومت سے خفیہ مذاکرات کے نتیجے میں جنگ بندی کا اعلان کیا گیا۔ یہ جنگ بندی جولائی 2015ء میں کرد قصبے سوروک میں داعش کے خود کش حملے کے نتیجے میں ختم ہو گئی جس کا ذمہ دار کردوں نے ترک حکومت کو ٹھہرایا۔ ترک حکومت نے اس کے بعد ترکی کے کردوں کیخلاف بد ترین فوجی آپریشن شروع کر دیا جس میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیا اور بہت سے چھوٹے شہروں کو بمباری سے مسمار کر دیا گیا اور ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ ترکی میں اردگان کیخلاف ابھرنے والی عوامی تحریک تھی جس نے پہلی دفعہ ترکی میں کردوں اور ترکوں کو طبقاتی بنیادوں پر اکٹھا کیا تھا۔ اس دوران HDP کی شکل میں ایک نئی سیاسی پارٹی بھی ابھری جس کی قیادت کردوں کے پاس تھی لیکن اس نے ترک علاقوں میں بھی بڑے پیمانے پر ووٹ اور حمایت حاصل کی اور پہلی دفعہ کوئی کرد پارٹی دس فیصد سے زائد ووٹ لے کر اسمبلی میں پہنچی۔ لیکن اردگان کی حکومت اس پارٹی کیخلاف بھی بد ترین انتقامی کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
اگست 2016ء میں ترکی نے شمالی شام میں داعش کے خلاف افواج بھیج کر سرحدی قصبے جارابلوس اور الباب پر قبضہ کر لیا تاکہ SDF کی قوتیں ان پر قبضہ کر کے آفرین کے ساتھ ان علاقوں کا الحاق نہ کر لیں۔ ترکی کا مؤقف ہے کہ YPG اور PYD درحقیقت PKK کے ہی پیدا کردہ گروہ ہیں، ان کے نظریات ایک ہیں اور یہ سب دہشت گرد تنظیمیں ہیں۔ جبکہ حقیقت میں یہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
ایرانی کردستان کے کردوں کی صورتحال باقی کرد علاقوں سے مختلف ہے۔ گو کہ ایران نے ہمیشہ ان کی آزادی کی مخالفت کی ہے لیکن یہاں کے کردوں کے آزادی کے حوالے سے وہ تحریک موجود نہیں جو دیگر علاقوں میں موجود ہیں۔ لیکن ایران کو اب یہ خطرہ لاحق ہو رہاہے کہ دیگر علاقوں میں کرد اثرورسوخ کی بڑھوتری، موجودہ علاقوں میں وسعت اور آزاد کردستان کی جدوجہد کے ایرانی کردوں پر بھی اثرات پڑیں گے اور یہ بات ایرانی ریاست کے لئے ایک وقت آنے پر خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ اسی طرح سعودی عرب اور دیگر سامراجی طاقتیں ایران کیخلاف ان کردوں کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
اگر کرد سوال کو سمیٹا جائے تو یہ واضح نظر آ رہا ہے کہ کرد قومی آزادی کی تحریک بکھری ہوئی ہے اور اس میں مختلف رجحانات ہیں۔ عراق، شام اور ترکی کے ساتھ ملحقہ علاقوں میں کردوں نے بے جگری سے لڑتے ہوئے داعش کا خاتمہ کیا ہے لیکن اس کے لیے انہیں امریکی سامراج کی حمایت حاصل رہی ہے۔ اپنی تحریک کو کامیاب کرنے کے لیے مختلف سامراجی طاقتوں میں موجود دراڑوں اور تضادات کو استعمال کرنا غلط نہیں لیکن ان کی کٹھ پتلی بن جانا ایک سنگین جرم ہوتا ہے۔ کردوں کی آزادی خطے کے دیگر محنت کش عوام کے ساتھ طبقاتی اتحاد کے بغیر ممکن نہیں اور قومی آزادی کی تحریک کا بنیادی اور اولین مقصد بھی اسی جڑت کو قائم کرنا ہونا چاہیے۔ لیکن شام میں نظر آیا کہ اس مقصد کو حاصل کرنے کی بجائے امریکی سامراج پر انحصار کو بنیادی لائحہ عمل بنایا گیا۔ اس کے نتائج اب واضح ہو رہے ہیں جس میں امریکہ روس کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لیے کردوں کا سودا کرنے جا رہا ہے۔ ان سامراجی طاقتوں کی لڑائیوں میں مظلوم قومیتوں کی حیثیت ہمیشہ سے سودے بازی کے لیے ریزگاری کی ہی رہی ہے۔ اور اب واضح نظر آ رہا ہے کہ اس لڑائی میں کردوں نے امریکہ کو نہیں بلکہ امریکہ نے کردوں کو استعمال کیا ہے۔
فلسطین کی آزادی
6دسمبر 2017ء بروز بدھ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے ریاستی اداروں کو حکم صادر کیا کہ تل ابیب سے امریکی سفارت خانے کو یروشلم منتقل کرنے کیلئے ضروری اقدامات کریں۔ اعلان سے قبل بیشتر ممالک کے سفارت کاروں اور قیادت نے ٹرمپ کو اس اقدام سے منع بھی کیا۔ لیکن ٹرمپ نے اپنی روایتی ڈھٹائی سے دہائیوں پرانی امریکہ کی سامراجی پالیسی سے نقاب ہٹاتے ہوئے اس کا حقیقی غلیظ چہرہ دنیا پر عیاں کر دیا۔ ٹرمپ نے اپنے اعلامیے میں کہا کہ ’’میں یہ سمجھتا ہوں کہ یروشلم کو سرکاری طور پر اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ سابقہ صدور کی (انتخابی) مہم کا وہ وعدہ، جسے وہ پورا کرنے سے قاصر رہے، میں پورا کر رہا ہوں۔ میرا آج کا یہ بیان، اسرائیل فلسطین تنازعے کے حوالے سے ایک نیا زاویہ نگاہ ہے جو نئے دروازے کھولنے کا موجب بنے گا‘‘۔ اس کے فوری بعد اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو نے ٹی وی پر آ کر امریکی صدر اور امریکہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی ریاست اور عوام امریکہ کی دوستی کے اس ثبوت کو کبھی فراموش نہیں کرے گی۔ اس اعلان کے بعد دنیا بھر میں امریکہ کیخلاف احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہو گیا اور ہر طرف ا س اقدام کی شدید مذمت کی گئی۔ یورپ سمیت بہت سے ممالک کے حکمرانوں نے منافقانہ سفارتکاری کے اس نقاب کے اتارنے پر ٹرمپ کی شدید مذمت کی اور فلسطینیوں کی حمایت میں مگر مچھ کے آنسو بہاتے رہے۔ جہاں اسرائیل کی صیہونی ریاست اور اس کے سامراجی عزائم کیخلاف دنیا بھر میں نفرت موجود ہے وہاں اسرائیل کے اندر نوجوانوں اور محنت کشوں کی بڑی تعداد بھی اس کیخلاف احتجاج کرتی رہتی ہے۔ اس اعلان پر بھی اسرائیل کے اندر غم و غصے اور بے چینی میں اضافہ ہوا۔ دوسری جانب فلسطین میں ایک نئے انتفادہ کے آغازکی بحث چھڑ گئی ہے۔ لیکن فلسطین کے حکمران اس تمام تر صورتحال کو بھی اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ محمود عباس اور حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ نے بھی امریکہ کے اس اقدام کے خلاف بیانات دیے ہیں لیکن فلسطینی عوام کو ان سے کوئی امید نہیں۔ ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد دو ریاستی حل کا ناٹک اپنے انجام تک پہنچ چکا ہے۔ اس سے پہلے اسلامی بنیادی پرستی اور قوم پرستانہ مسلح جدوجہد کا طریقہ کار بھی بند گلی میں پہنچ چکا تھا۔ اس تنازعے کا واحد حل ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ایک رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کا قیام ہے جس میں سرمایہ دارانہ ریاست اور سامراجی عزائم کا مکمل خاتمہ ہو جائے اور تمام مذاہب اور قوموں کے لوگ استحصال سے پاک غیر طبقاتی سماج میں بغیر کسی خوف اور جبر کے آزادانہ زندگی گزار سکیں۔
فلسطین کی آزادی کی تحریک کی قیادت آغاز سے ہی بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے پاس رہی ہے جنہوں نے1964ء میں PLOکے نام سے ایک اتحاد بھی بنایا تھا۔ لیکن سٹالنسٹ نظریات اور مسلح جدوجہد کے غلط طریقہ کار کے باعث آزادی کی جدوجہد کرنے والی یہ تنظیم لازوال قربانیوں کے باوجود انتہا پسندی اور موقع پرستی کی کھائیوں میں گرتی رہی ہے۔ سٹالنسٹ نظریات کے باعث قومی جدوجہد کو طبقاتی جدوجہد اور سرمایہ داری کو مکمل طور پر اکھاڑنے کی جدوجہد کے ساتھ نہیں جوڑا جا سکا۔ اسی طرح بم دھماکوں، طیاروں کی ہائی جیکنگ اور دیگر کاروائیوں کے نتیجے میں آزادی کی منزل قریب آنے کے بجائے دور ہوتی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ جب 1987ء میں فلسطین کے پہلے انتفادہ یا وسیع عوامی تحریک کا آغاز ہوا تو اس وقت عوام کی قیادت کرنے کے لیے بالشویک طرز کی کوئی سیاسی پارٹی موجود نہیں تھی۔ اس تحریک کا انجام اوسلو معاہدے میں ہوا جس میں عالمی سطح پر فلسطینیوں کے حقوق کو تو تسلیم کیا گیا مگر آزادی کی منزل حاصل نہیں ہو پائی۔ دوسری طرف پی ایل او کو اسرائیل کا وجود تسلیم کرنا پڑا۔ 2000ء میں شروع ہونے والے دوسرے انتفادہ میں بھی ایسی ہی صورتحال تھی۔ ان عوامی تحریکوں کے نتیجے میں مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں نیم آزادی تو ملی لیکن اسرائیل کی سامراجی ریاست کا جبر پہلے کی نسبت کئی گنا بڑھ گیا۔ اس دوران بائیں بازو کی زوال پذیری، موقع پرستی، بد عنوانی اور مفاد پرستی کی کھائی میں گرنے کے باعث اسلامی بنیاد پرستی کو ابھرنے کا موقع ملا۔ اس عمل میں اسرائیل کی صیہونی ریاست کی پشت پناہی بھی شامل تھی۔ لیکن گزشتہ ایک دہائی کے دوران فلسطین کی مذہبی بنیاد پرست پارٹیوں کی حقیقت بھی عوام کے سامنے آ شکار ہوئی ہے اور ان کی بد عنوانی اور عوام پر بد ترین جبر کے واقعات نے ان کی حقیقت عیاں کر دی ہے۔ اس وقت پی ایل او کی سب سے بڑی پارٹی الفتح اور مذہبی بنیاد پرست حماس دونوں ہی فلسطین میں جیل کے وارڈن کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ جہاں فلسطین کی آزادی کے لیے سامراجی ریاستوں اور مشرق وسطیٰ کے تمام حکمرانوں کے خلاف طبقاتی جنگ کرنے کی ضرورت ہے وہاں فلسطین کے اندر موجود ان گماشتہ لیڈروں کو بے نقاب کرنا اور ایک حقیقی بالشویک پارٹی کی تعمیر بھی ضروری ہے۔
فلسطین کا مسئلہ صرف وہاں تک ہی موجود نہیں بلکہ لاکھوں فلسطینی دیگر عرب ممالک میں بھی موجود ہیں اور وہاں بھی تمام بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ شام کی خانہ جنگی میں بشار الاسد کیخلاف بھی فلسطینی اپنے حقوق کی جدوجہد کرتے رہے۔ اسی طرح دیگر عرب ممالک میں بھی وہ دیگر محنت کش عوام کے ساتھ حقوق کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ صرف لبنان اور اردن میں اس وقت لاکھوں فلسطینی پناہ گزین موجود ہیں جو پچھلی کئی دہائیوں سے پناہ گزین کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ ان کیمپوں اور پناہ گزینوں پر کبھی اسرائیل کی جانب سے بمباری کی جاتی رہی ہے اور کبھی اردن کے حکمرانوں نے پاکستانی افواج کی مدد سے ان کا بے دریغ قتل کروایا ہے۔ موجودہ خانہ جنگی اور انتشار میں بھی ان فلسطینیوں کو عرب حکمران استعمال کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ مصر کا حکمران طبقہ اسرائیل کے ساتھ مل کر ان پر مظالم ڈھاتا رہتا ہے اور ابھی بھی ان پر سختیاں کی جا رہی ہیں۔ لیکن 2011ء کے عرب انقلابات میں واضح طور پر نظر آیا کے مصر سمیت پورے مشرقِ وسطیٰ کے محنت کش عوام فلسطین کی آزادی کی نہ صرف حمایت کرتے ہیں بلکہ آزادی کی اس جدوجہد کو کامیاب بھی وہی کر سکتے ہیں۔ اس دوران اسرائیل میں ابھرنے والی عوامی تحریک نے بھی تمام دیگر تقسیموں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے طبقاتی جڑت کا نعرہ بلند کیا جو آنے والے روشن مستقبل کا واحد راستہ ہے۔
سامراجی تضادات اور طبقاتی کشمکش
فلسطین سمیت مشرقِ وسطیٰ میں جاری جنگیں اور خانہ جنگیاں براہ راست عالمی معاشی بحران اور سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں اس لیے ان کا درست ادراک حاصل کرنے کے لیے عالمی سامراجی ممالک اور علاقائی سامراجیوں کی اندرونی سیاسی، سماجی اور معاشی کیفیت پر ایک طائرانہ نظر ڈالنا ضروری ہے۔
امریکی سامراج اس وقت شدید اندرونی خلفشار کا شکار ہے۔ معیشت سست روی کا شکار ہے(1.6فیصد شرح نمو)، ریاست بھرپورکٹوتیوں کی پالیسی پر گامزن ہے اور تمام ریاستی ادارے اور سیاسی پارٹیاں عوامی انقلاب کے خوف سے ایک دوسرے کے ساتھ گتھم گتھا ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی اس وقت شدید انتشار کا شکار ہے اور محنت کشوں پر ہونے والے جبر اور حملوں کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں۔ عوامی مایوسی اور غم و غصے کے نتیجے میں صدر ٹرمپ تاریخ کے کم ترین ووٹوں اور مقبولیت کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں منتخب ہوا ہے اور پہلے دن سے شدید ہوتی ریاستی لڑائی کا شکار ہے۔ اسی طرح وزارت خارجہ، پینٹاگون، CIA، کانگریس، سپریم کورٹ وغیرہ تمام ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراؤ میں آ رہے ہیں۔ دوسری طرف 2011ء میں شروع ہونے والی آکوپائی وال سٹریٹ تحریک کے بعد سے امریکہ میں گزرتے وقت کے ساتھ تحریکوں کا حجم اور شدت بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ فائٹ فار 15، بلیک لائیوز میٹر، خواتین اور طلبا کی ٹرمپ کے منتخب ہونے کے خلاف تحریکوں وغیرہ نے ریاست اور سیاسی پارٹیوں کے اعصاب شل کر دئیے ہیں۔ اندرونی اور بیرونی قرضہ جات تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں، بے روزگاری، غربت، عدم مساوات اور سماجی انتشار بڑھتا جا رہا ہے۔ یروشلم کو دارالحکومت تسلیم کرنے کے معاملے کو بھی اسی حوالے سے دیکھنے ضرورت ہے۔ ٹرمپ جن پچھڑی ہوئی سماجی پرتوں اور رجعت پسند مسیحی ووٹوں پر جیت کر آیا تھا، ان میں اس کی بچی کھچی ساکھ بڑی تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہے اور یروشلم اعلان ان میں مقبولیت حاصل کرنے کی ایک بھونڈی کوشش ہے۔ ٹرمپ پچھلی کئی دہائیوں میں امریکی ریاست کے تمام اندرونی اور بیرونی معاہدوں، اصلاحات، ذمہ داریوں غرضیکہ ہر چیز کو بحران سے مجبور ہو کر جلد از جلد لپیٹنے کے چکروں میں ہے۔ اس کی مثال ہمیں NATO تنازعہ، پیرس ماحولیات معاہدہ سے اخراج اور نئے مالی معاہدوں وغیرہ سے ملتی ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ؛ مشرق وسطی، ایشیا، یورپ، لاطینی امریکہ، کاریبین، غرض ہر خطے میں اپنی سیاسی اور ثقافتی طاقت کھو رہا ہے جن کی وجہ پھر امریکی مالیاتی بحران میں پیوستہ ہیں۔ اس حوالے سے اس سال کیریبین میں سمندری طوفانوں کی تباہی اور اس میں موجود امریکی روایتی حلیفوں کے شدید غم و غصے کا اظہار اس کا واضح ثبوت ہے۔ آنے والے دنوں میں کمزور ہوتی معیشت، اندرونی خلفشار اوربیرونی مہم جوئیوں کے نتیجے میں ہم امریکی ریاست سیمزید ایسے اقدامات دیکھیں گے۔
اس طرح روس بھی شدید معاشی بحران کا شکار ہے اور پیوٹن کے لیے دیوالیہ پن سے بچنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ امریکہ کیخلاف سامراجی لڑائی میں وقتی کامیابیوں سے اپنے ملک میں اس کی حمایت میں اضافہ تو ہواہے لیکن آنے والے وقت میں معاشی بحران اس کیخلاف نفرت بڑھانے کا باعث بنے گا۔ اپوزیشن پارٹیاں کوئی واضح متبادل دینے میں ناکام رہی ہیں اور درحقیقت سرمایہ دار طبقے کے مختلف حصوں کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ روس کی کمیونسٹ پارٹی وسیع عوامی بنیادیں رکھتی ہے لیکن سرمایہ داری کے خاتمے کا پروگرام ابھی تک اس کے منشور میں شامل نہیں۔ ایسے میں پیوٹن مشرقِ وسطیٰ کی جنگ پر مکمل کنٹرول حاصل کر کے اپنے زیر تحت استحکام لانا چاہتا ہے جو ممکن نہیں۔ اس سال شام میں اس کے ایران سے اختلافات کی خبریں بھی گردش کرتی رہی ہیں اور آنے والے عرصے میں اس میں اضافہ ہو گا۔ افغانستان سے لے کر یوکرائن تک جاری جنگیں اور خانہ جنگیاں روس کو اس دلدل میں مزید کھینچیں گی اور اس کے معاشی بحران میں اضافہ ہو گا۔
اس وقت روس اور ترکی ایک دوسرے کے اتحادی ہیں جبکہ ٹرمپ کی پالیسیوں کے نتیجے میں امریکہ کے اپنے ایک اہم نیٹو اتحادی ترکی سے شدید اختلافات بن چکے ہیں۔ اکتوبر میں ترکی نے امریکی قونصلیٹ میں کام کرنے والے چند افراد کو گرفتار کر لیا۔ اس کے بعد امریکہ نے ترکی کے لوگوں کے لیے ویزہ سروس بند کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد اردگان اور ٹرمپ کے بیانات کے باعث کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ ترکی اور امریکہ کے درمیان سفارتی تعلقات معطل ہو گئے اور ان ممالک کے ہزاروں لوگ ویزہ دفاتر کے باہر چکر لگاتے رہے۔ اسی باعث ترکی کی کرنسی کو 17فیصد تک گراوٹ کا بھی سامنا کرنا پڑا اور ترکش ائیر لائن کی آمدن میں بھی خاطر خواہ گراوٹ ہوئی۔ اس کی ایک اہم وجہ ترکی کی روس کے ساتھ تعلقات کی استواری ہے جس کے ساتھ مل کروہ مشر ق وسطیٰ میں اپنے سامراجی عزائم حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ اردگان امریکہ سے مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ فتح اللہ گولن کو اس کے حوالے کرے جسے اردگان کے خلاف ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کا سرپرست قرار دیا جا رہا ہے۔ ٹرمپ کے یروشلم کے فیصلے پر بھی ترکی نے شدید تنقید کی ہے اور اسلامی ممالک کے اتحاد OICکے استنبول میں13 دسمبر کو ہونے والے ایک اجلاس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ مشرقی یروشلم کو فلسطین کا دارلحکومت تسلیم کیا جائے۔
ترکی میں طیب اردوگان کی پارٹی 2003ء سے اقتدار میں موجود ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد اردگان نے خوفناک کٹوتیوں، نجکاری اور مزدور حقوق پر حملوں کی پالیسی اپنائے رکھی ہے۔ ان پالیسیوں کی وجہ سے ترکی کے سرمایہ دار طبقے کو فائدہ ہوا اور معیشت کو وقتی عروج ملااور آبادی کے ایک مخصوص حصے کے معیار زندگی میں بہتری آئی۔ لیکن اب ان پالیسیوں کی حقیقت واضح ہو رہی ہے اور ترکی کا معاشی بحران بڑھ رہا ہے جس کے اثرات آبادی کے وسیع تر حصے محسوس کر رہے ہیں اور اردگان کی حمایت جو پہلے دیہی آبادی اور شہری درمیانے طبقے کے کچھ حصوں میں موجود تھی اب تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ اردگان نے ترکی کے روایتی سیکولر حکمران دھڑے کو بھی شکست سے دوچار کیا ہے اور اس کی جگہ مذہبی بنیاد پرست نظریات کو ریاستی اداروں میں فروغ دیا ہے۔ حکمران طبقے کا سیکولر حصہ اپنے خصی پن کے باعث اس بنیاد پرستی کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے اور اس وقت ایک ہاری ہوئی لڑائی لڑ رہا ہے۔ 2013ء کی غازی پارک کی عوامی تحریک نے اردگان کیخلاف عوام میں موجود نفرت کا اظہار کیا تھا جو ایک خود رو تحریک تھی اور کوئی بھی پارٹی اس کی قیادت نہیں کر رہی تھی۔ اس کے بعد سے ترکی میں مسلسل عدم استحکام بڑھ رہا ہے، معاشی حالات ابتر ہوتے جا رہے ہیں اورحکمران طبقے اور ریاستی اداروں کے داخلی تضادات خوفناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔ اس کا واضح اظہار 2016ء کی ناکام فوجی بغاوت ہے جس کے بعد اردگان نے ریاستی اداروں، فوج اور مخالفین میں موجود ہزاروں افراد کے خلاف انتقامی کاروائیاں کی ہیں جو تاحال جاری ہیں۔ اردگان اور اس کے خاندان پر اقربا پروری اور اربوں ڈالر کی کرپشن کے بھی الزامات ہیں۔ اردگان کے شروع سے ماضی کے عثمانی سلطانوں کی طرح کے سامراجی عزائم رہے ہیں۔ پاکستان سے لے کر قطر تک ترکی اپنے سامراجی تسلط میں اضافہ کرنے کی بھرپور کوششیں کر رہا ہے لیکن آنے والے عرصے میں جہاں اس کے سعودی عرب اورامریکہ سے تضادات میں شدت آئے گی وہاں ایران اور روس سے بھی اختلافات ابھریں گے۔ لیکن فیصلہ کن کردار ترکی کا محنت کش طبقہ ادا کرے گا جو اردگان کے مزدور دشمن اقدامات کے خلاف صف آرا ہو رہا ہے۔ کردوں کے ساتھ لڑائی کے ذریعے اسے قومی بنیادوں پر تقسیم کیا جا رہا ہے۔ لیکن ایک تحریک ان محنت کشوں کو طبقاتی بنیادوں پر یکجا کرے گی اور بائیں بازوکی قوتوں کو وسیع تر حمایت ملنے کے امکانات پیدا ہوں گے۔
گزشتہ ماہ اردگان نے ایران کا بھی دورہ کیا ہے اور دونوں ممالک کے تعلقات کو بہتر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس وقت خطے میں ایران کا پلڑا بھاری نظر آ رہا ہے لیکن ایران کے داخلی تضادات بھی پک رہے ہیں۔ 2009ء میں نوجوانوں کی ایک ملک گیر تحریک نے ملا اشرافیہ کی حکمرانی کو چیلنج کیا تھا۔ اس کے بعد سے حکمرانوں کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا ہے جس کا اظہار مختلف شکلوں میں سامنے آتا رہتا ہے۔ حسن روحانی کے پہلے صدارتی انتخابات میں بھی اس کا اظہار ہوا تھا جب وہ آیت اللہ خامنہ ای کی مرضی کیخلاف صدر منتخب ہو گیا تھا۔ اس کے بعد بھی ریاستی اداروں میں تضادات بڑھ رہے ہیں۔ حال ہی میں پاسداران کی اربوں ریال کی بدعنوانی کی خبریں سامنے آئی ہیں جو ریاست میں بڑھتی ہوئی ٹوٹ پھوٹ کا اظہار ہیں۔ عراق میں بھی ایران کے سامراجی کردار کیخلاف نفرت موجود ہے جس کا اظہار مقتدیٰ الصدر کے گرد تحریکوں میں ہوتا رہتا ہے۔ آنے والے عرصے میں یہ تضادات شدت اختیار کریں گے اور ایران کا محنت کش طبقہ پورے خطے کی سیاست کو تبدیل کرنے کی طرف جائے گا۔ ایران میں تحریکوں کو کچلنے کے لیے امریکہ اور اسرائیل کی بیرونی دشمنی کا خوف ابھارا جاتا ہے لیکن گزشتہ عرصے میں خود امریکہ کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھائی گئیں جس سے حکمرانوں کی منافقت عوام پر عیاں ہو گئی۔ آنے والے عرصے میں ایسے واقعات اور یو ٹرنز میں اضافہ ہو گا۔
اسرائیل میں بھی عوامی بے چینی اور تحریکوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اسرائیلی صدر نیتن یاہو کئی سالوں سے بر سراقتدار ہونے کے باوجود بے روزگاری، بڑھتی مہنگائی، عدم استحکام اور دیگر سماجی مسائل کے حوالے سے کچھ نہیں کر پایا۔ پھر خطے میں بدلتی صورتحال سے اپنے آپ کو علیحدہ رکھتے ہوئے اثر انداز ہونے کی کوشش کے بھی منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ پچھلے کئی سالوں سے اسرائیلی ریاست کی کوشش تھی کہ مشرق وسطیٰ کی تباہ کاریوں سے بچتے ہوئے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات استوار کئے جائیں اور ایران کی ہر فورم پر مخالفت کی جائے۔ لیکن یکم دسمبر 2017ء کو دمشق سے تیرہ کلومیٹر دور موجود ایرانی فوجی اڈے پر میزائل حملے کے بعد اسرائیل بھی اب مشرق وسطیٰ کی پھیلتی جنگ کا حصہ بن چکا ہے۔ حکومت سادہ اکثریت سے اقتدار سے چمٹی ہوئی ہے اور شدید عدم استحکام کا شکار ہے۔ خود نیتن یاہو پر اس وقت کرپشن کے کیس چل رہے ہیں جن کی وجہ سے ٹرمپ کے اعلان کو وہ اپنی کامیابی بنا کر پیش کر رہا ہے اور اندرونی اور بیرونی مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔
مصرمیں 2011ء کی شاندار عوامی تحریک کے نتیجے میں چار دہائیوں سے مسلط حسنی مبارک کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔ لیکن انقلابی متبادل نہ ہونے کی صورت میں اقتدار اخوان المسلمین کو مل گیا۔ 2013ء میں انسانی تاریخ کی سب سے بڑی تحریک، جس میں ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ لوگ سڑکوں پر نکل آئے، کے نتیجے میں اخوان المسلمین کی چھٹی تو ہو گئی لیکن ایک بار پھر سیاسی متبادل نہ ہونے کی وجہ سے فوج کو دوبارہ براہ راست اقتدار پر قبضہ کرنے کا موقعہ مل گیا۔ اس کے بعد سے اب تک ریاست، تحریک کے ہزاروں سرگرم کارکنوں، صحافیوں، نوجوان لیڈروں اور دیگر کو جیلوں میں ڈال چکی ہے۔ معیشت کی دگر گوں حالت کی وجہ سے صنعتی علاقوں میں محنت کشوں اور گلی محلوں میں عوام کے احتجاجوں کا سلسلہ وقتاً فوقتاً جاری ہے۔ مصر میں بھی پہلے اخوان المسلمین کو قطر کی حمایت حاصل تھی اور اب فوجی جنتا کو سعودی عرب اور اتحادی مالی اور سیاسی طور پر سپورٹ کر رہے ہیں۔ جون 2017ء کو مصر نے سعودی عرب کے اثرو رسوخ کا واضح اظہار کرتے ہوئے دو جزائر سعودی حکومت کو دان کر دئیے جس پر مصری عوام کا شدید رد عمل دیکھنے میں آیا۔ اس حوالے سے خلیجی ممالک کی آپسی چپقلش اور عوام کی روزانہ دگر گوں ہوتی حالت کے نتیجے میں مصر ایک ایسا ٹائم بم ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ محنت کشوں کی تحریکوں کو کچلنے کے لیے دہشت گردی کا خوف بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ عرصے میں وادی سیناء میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں اضافہ ہوا ہے جس کیخلاف آپریشن کیا جا رہا ہے۔
جزیرہ نما سیناء مصر کا حصہ ہے۔ یہ ایک مثلث نما علاقہ ہے جو افریقی اور ایشیائی، دونوں براعظموں کے ساتھ رابطے میں ہے۔ یہاں آباد بدو ملک کے دیگر حصوں سے کہیں پیچھے شدید پسماندگی میں رہ رہے ہیں۔ تحریک کی پسپائی کے بعد وہاں بھی بنیاد پرست اپنی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عراق اور شام کے داعش جنگجو 2013ء سے شمالی سیناء کو اپنا مسکن بنا ئے ہوئے ہیں جہاں سے وہ ایک طرف لیبیا اور دوسری طرف مصر میں کاروائیاں اور مداخلت کر رہے ہیں۔ پچھلے پانچ سالوں میں وہ اب تک ایک ہزار مصری سیکورٹی اہلکاروں کو اپنا نشانہ بنا چکے ہیں۔ 24 نومبر 2017ء بروز جمعہ شمالی سیناء میں بیر العبد کی ایک صوفی مسجد الراؤدا میں25-30 انتہا پسندوں نے نماز کے دوران مسجد میں گھس کرنمازیوں پر دستی بموں سے حملہ کیا اور ساتھ ہی اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ اس واقعے میں 305 لوگوں کی اموات ہوئیں جن میں 27 بچے تھے جبکہ زخمیوں کی تعداد 128تھی۔ گو کہ کسی گروہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن یہ حملہ داعش کے روایتی طریقہ کار سے مماثلت رکھتا ہے۔ کچھ عینی شاہدین کے مطابق ایک حملہ آور نے داعش کا جھنڈا تھام رکھا تھا۔ یہ مصر کی تاریخ کا سب سے خوفناک دہشت گردی کا واقعہ ہے۔ مصری ریاست اپنی بھرپور کوششوں کے باوجود داعش کو شمالی سیناء سے نہیں نکال سکی۔ شام اور عراق کے بعد سیناء کو اپنی بیس بناتے ہوئے داعش مصر اور لیبیا میں اپنی کاروائیوں کو بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے اور خاص طور پر دیگر ممالک میں شکست کے بعد پناہ لینے والے جنگجو یہاں آ کر مسائل میں مزید اضافہ کریں گے۔
خلیج اور شمالی افریقہ کے خطے میں مصری محنت کش طبقہ حجم میں سب سے بڑا اور سب سے زیادہ منظم ہے اور اب پچھلے چند سالوں میں کئی دیو ہیکل تحریکوں کے تجربات اور اسباق اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ مصری محنت کشوں کی آنے والی کوئی بھی تحریک خطے میں دور رس اثرات کا موجب بنے گی۔
مستقبل کا ایک ہی راستہ۔ ۔ سوشلسٹ انقلاب
مشرق وسطیٰ کی تباہ حالی دیکھ کر تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں یہ علاقہ سوشلسٹ تبدیلیوں اور تحریکوں کی آماجگاہ تھا۔ اس وقت شام، مصر، ایران، یمن، لیبیا، لبنان وغیرہ انقلابات اور تحریکوں کی لپیٹ میں تھے۔ ایک ایسا وقت بھی تھا جب بعث پارٹی، جو کہ ایک سوشلسٹ رجحان رکھنے والی قوم پرست پارٹی تھی، کی ایک ہی وقت میں تین ملکوں میں حکومت تھی۔ سٹالنسٹ بیوروکریسی کے ماڈل پر استوار ہی سہی لیکن یہاں منصوبہ بند معیشت (شام)، وسیع عوامی اصلاحات اور قومیانے کی پالیسیوں(مصر) کی ایک روایت موجود ہے۔ آج بھی خطے کے محنت کشوں اور نوجوانوں میں وہ انقلابی نظریات موجود ہیں۔ بائیں بازو کی قوتیں فلسطین اور لبنان سے لے کر عراق اور ترکی تک وسیع بنیادیں رکھتی ہیں۔ عرب انقلابات اور ان کی پسپائی کے تلخ اسباق بھی اس خطے کے عوام نے حاصل کیے ہیں۔ یہاں پر موجود آمریتوں کے خلاف ابھرنے والی تحریک میں سب سے پہلا نعرہ جمہوریت کا ہی ہو سکتا تھا۔ لیکن گزشتہ سات سال کے تجربات نے واضح کر دیا ہے کہ سرمایہ داری میں رہتے ہوئے آج جمہوریت کا حصول بھی ممکن نہیں۔ بورژوا جمہوریت خود امریکہ اور یورپ میں دیوالیہ پن کا شکا ر ہے۔ ایسے میں مشرقِ وسطیٰ کے عوام کے پاس اس خونریزی سے باہر نکلنے کا واحد رستہ سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ہے جو صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ممکن ہے۔ اس انقلاب کے ذریعے ہی یہاں پر موجود تمام سامراجی تقسیموں اور جنگوں کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے اور ایک رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن بناتے ہوئے یہاں پر عوام کو تمام بنیادی ضروریات مہیاکی جا سکتی ہیں۔ اس سوشلسٹ فیڈریشن میں جہاں ہر قسم کے قومی اور مذہبی جبر کا خاتمہ ہوگا وہاں حکمران طبقے کے مفادات کے لیے عوام کا خون بہانے کا سلسلہ بھی اختتام پذیر ہو گا۔ مشرقِ وسطیٰ کی سوشلسٹ فیڈریشن عالمی سوشلسٹ انقلاب کا آغاز کرے گی۔