|تحریر: ایلن ووڈز، ترجمہ: ولید خان|
”جب قائدین امن کی بات کرنی شروع کر دیں تو عوام کو معلوم ہو جاتا ہے کہ جنگ شروع ہونے والی ہے۔“ (برتولت بریخت)
یہ گفتگو کا ایک حصہ تھا جو کوئی بھی انجانے میں سن لے اور پھر دوبارہ اس طرف اس کا خیال نہ جائے۔ یہ اس وقت کا ذکر ہے جب ہم ایک ہسپانوی سیاحی مقام سانتاندر (Santander)کے ساحل پر ایک صبح چہل قدمی کر رہے تھے۔ سورج چمک رہا تھا۔ کل کچھ بپھرا ہوا سمندر آج جھیل کی مانند ساکن تھا اور سارا ماحول شاندار امن اور سکون کی تصویر بنا ہوا تھا۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
”کیا تمہیں افق پر کالے بادل نظر آ رہے ہیں؟
نہیں، مجھے تو نظر نہیں آ رہے۔ کہاں ہیں؟
کیا تمہیں دور گھن گرج سنائی دے رہی ہے؟
نہیں، مجھے تو بس ساحل پر لہروں کا شور سنائی دے رہا ہے۔“
جس تیزی سے گفتگو شروع ہوئی، اسی تیزی کے ساتھ ختم بھی ہو گئی اور ہر طرف امن اور خاموشی چھا گئی۔ لیکن بظاہر غیر اہم معلوم ہونے والی یہ گفتگو مجھے ماضی میں لے گئی۔ اپنے ذہن میں مجھے ایک اور وقت میں کئی ساحل یاد آنے لگے، میرے اپنے ملک کے ساحل۔ شغل میلے اور سکون کی جگہیں، خاندانوں سے بھری ہوئیں جن میں بچے مٹی کے محل بنا رہے ہیں جن کا سمندری لہریں جلد ہی نام و نشان مٹا دیں گی۔
بچے ہنس رہے ہیں، آئس کریم کھا رہے ہیں، کھیل رہے ہیں اور یہ سب اتنا فطری، اتنا بظاہر، اتنا یقینی لگتا ہے کہ یہ منظر وقت میں منجمد محسوس ہوتا ہے جیسے ہنسی خوشی اور طمانیت کے یہ لمحات ابدی ہیں۔ لیکن ایسا نہیں تھا۔ چند مہینوں میں یہ دائمی امن خس و خاک کی مانند بہہ کر ایسے تباہ و برباد ہو جائے گا جیسے ساحل سمندر پر بچوں کے محنت سے بنائے ہوئے مٹی کے محل۔
اس منظر کی تاریخ 1939ء کا موسم سرماء تھا۔
انسانی نفسیات میں ضرور کچھ ایسا ہے جو اسے تشدد اور غم سے دور رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ سیاست رہنے دو! کل کی کل دیکھیں گے! آج زندگی کے مزے لے سکتے ہو تو لے لو کیونکہ ہمیں معلوم ہے ہم نے ہمیشہ زندہ نہیں رہنا۔
ہاں۔ ایسے خیالات سمجھ میں آتے ہیں۔ لیکن پرفریب جنتوں پر یقین کرنا بیوقوفی ہے جو کسی بھی لمحے ایک بچے کے مٹی کے محل کی طرح نیست و نابود ہو سکتے ہیں۔
اس وقت مشرق وسطیٰ پر منڈلاتے بادل کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کے لیے خطرناک ترین خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔ ان میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو غزہ کے دھواں اڑاتے کھنڈرات سے ہزاروں میل دور رہتے ہیں اور غلط سوچ رہے ہیں کہ یہ طوفان کبھی ان کے ساحلوں سے نہیں ٹکرائے گا۔
پنپتا طوفان
اگر آپ تھوڑا دھیان لگا کر سنیں تو اس تحریر کو لکھتے وقت بجنے والا طبلِ جنگ واضح طور پر سنائی دے گا۔ یہ دور کی طوفانی گھن گرج ہے جو شروع میں سنائی نہیں دیتی لیکن نزدیک آتے طوفان کے ساتھ ساتھ اس کا شور بھی بڑھتا جاتا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں صورتحال بارودی سرنگوں کا وسیع جال کی مانند ہے جو کسی بھی ایک بہانے پر پھٹ کر ہیبت ناک تباہی و بربادی پھیلانے کو بیتاب ہے۔ اس تماشے میں تمام اداکار اپنا کردار ایک مخصوص قسمت پرستانہ انداز میں نبھا رہے ہیں جسے اپنے اگلے ہی قدم کا کچھ علم نہیں۔ وہ ایسی مشینوں کی طرح حرکت کر رہے ہیں جنہیں مخصوص اقدامات کرنے کے لیے پروگرام کیا گیا ہو اور جن کے بارے میں ان کی کوئی سمجھ بوجھ ہو اور نہ ہی اپنے اوپر کوئی کنٹرول ہو۔
ہر تماشے کی طرح یہاں بھی سورماء اور بدمعاش موجود ہیں۔ ہر جنگ کی طرح اچھائی کی قوتیں برائی کی قوتوں سے نبرد آزماء ہیں۔ لیکن دونوں قوتیں بظاہر الگ اور متحارب ہونے کے باوجود عالمی سطح پر تباہی و بربادی پھیلانے کی سازشیں کر رہی ہیں۔
یہ کوئی نیا تماشہ نہیں ہے۔ اس کا آغاز ایک صدی قبل ہوا تھا۔ لیکن اس میں نئے اور سب سے خونی باب کا آغاز 7 اکتوبر 2023ء کو ہوا جب حماس نے سیکیورٹی کے وہ تمام حصار توڑ ڈالے جن کے پیچھے اسرائیلی عوام غلط طور پر اپنے آپ کو حملوں سے محفوظ سمجھتی تھی۔
اس وقت پوری دنیا کی عوام کو شدید صدمے میں مبتلا کرنے والے اس حملے کی بربریت پر بحث مباحثہ کرنا بیکار ہے۔ اُس وقت اسرائیل ستم زدہ نظر آ رہا تھا اور اگر حکمران طبقہ کسی ایک کردار کو نبھانے میں ماہر ہے تو وہ ستم زدہ ہونے کا کردار ہے۔
ساری دنیا جانتی ہے کہ نازیوں نے یہودیوں پر کیا ہولناک مظالم ڈھائے۔ اس بنیاد پر موجودہ اسرائیلی ریاست کے پاس ہر وقت تیار شدہ ایک جواز حاضر رہتا ہے کہ وہ دیگر اقوام پر ہر قسم کا ظلم و جبر کرے جبکہ ایک انگلی مسلسل ماضی میں رونماء ہونے والے ہالوکاسٹ کی طرف رہتی ہے تاکہ ہر معاملے میں یہ جواز تیار رہے۔
آج جو بھی اسرائیلی ریاست کے اقدامات پر تنقید کرنے کی ہمت کرتا ہے اسے فوری طور پر یہودی مخالف ہونے کا مجرم قرار دے دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ ایک سفاک جھوٹ ہے۔ اسرائیلی ریاست اور اس کی موجودہ حکومت کے جرائم پر تنقید کرنا اور عمومی طور پر یہودی عوام کے خلاف نسل پرستانہ جذبات رکھنا متوازی معاملہ ہرگز نہیں ہے۔
اگر کسی چیز نے اسرائیل کے نام پر کالک ملنے اور عالمی سطح پر عوام سے نفرت زدہ کرنے کا کام احسن انداز میں کیا ہے تو وہ نتن یاہو اور اس کی حکومت کے 7 اکتوبر سے لے کر اب تک جاری اقدامات ہیں۔
بائبل میں لکھا ہے کہ، ”آنکھ کے بدلے آنکھ، دانت کے بدلے دانت، زندگی کے بدلے زندگی۔“ لیکن جب اسرائیلی ریاست کے اقدامات کا جائزہ لیں تو ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ یہ ”زندگی کے بدلے زندگی“ کا معاملہ نہیں ہے۔ ایک اسرائیلی شہری کی زندگی کی قیمت سینکڑوں اور ہزاروں معصوم فلسطینی مرد، عورتیں اور بچے ادا کر رہے ہیں۔
7اکتوبر کو 1 ہزار 200 افراد قتل ہوئے اور 251 کو یرغمال بنایا گیا۔ لیکن اس وقت سے اب تک غزہ میں 40 ہزار 130 افراد قتل ہو چکے ہیں، جن میں بھاری اکثریت معصوم مردوں، خواتین اور بچوں کی ہے۔
یہ انصاف نہیں ہے، بدلہ بھی نہیں ہے بلکہ ایک قوم کی دوسری قوم پر مسلط کردہ قتل عام کی پالیسی ہے۔ نسل کشی کے الزام پر اسرائیلی بڑا پرجوش احتجاج کرتے ہیں۔ ہم الفاظ کی ہیرا پھیری میں نہیں پڑتے۔ لیکن اگر یہ نسل کشی نہیں ہے، تو پھر یہ اس سے انتہائی قریب تر ضرور ہے، در حقیقت اتنی قریب کے اسے علیحدہ کرنا ناممکن ہے۔
یہ بھی بتایا جائے کہ آج کی جدید اسرائیلی ریاست، ایک دیو ہیکل جابرانہ ریاست، جسے امریکی سامراج نے ہر جدید اور تباہ کن ہتھیار سے مسلح کر رکھا ہے اور مشرقی یورپ کے معصوم نہتے یہودیوں میں کیا مماثلت ہے جنہیں SS (نازی پیراملٹری) آشویٹز اور بیلسین کے گیس چیمبروں میں ہانک رہی تھی؟
نہیں! در حقیقت کردار اپنے الٹ میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ یہاں ستم زدہ جبر کا شکار اسرائیلی نہیں، فلسطینی ہیں، جنہیں سفاکی سے بے دخل کیا گیا، اپنی زمینوں سے مار بھگایا گیا، ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت پر مجبور کیا گیا اور یہ سارا کام ایک جابر اور پرتشدد دشمن ان پر نسلوں سے مسلط کیے بیٹھا ہے۔ اب انہیں ایک تباہ حال زمین کے ٹکڑے پر پناہ لینے پر مجبور کیا گیا ہے جس میں انسانی زندگی گزارنے کا کوئی ایک وسیلہ موجود نہیں، مسلسل جبر اور ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور یہ سب بالکل ویسے ہی ہو رہا ہے جیسے یہودیوں کو زمانہ قدیم میں گھیٹو (ghetto) [مخصوص غلیظ شہری محلے، مترجم] میں نظر بند کر دیا گیا تھا اور ان کے ”بالادست“ دشمن دن رات انہیں اذیت کا نشانہ بناتے تھے۔
جی جی آپ یقینا احتجاج کریں گے کہ یہ موازنہ غلط ہے۔ آپ احتجاج کرتے رہیں۔ لیکن حقائق کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ حقائق بہت مضبوط ہوتے ہیں۔
غزہ کا المیہ
یہاں اسرائیلی فورسز کی جانب سے غزہ کی عوام پر روزانہ ڈھائے جانے والے مظالم اور تشدد کی فہرست جاری کرنا مقصد نہیں۔ یہ حقائق ساری دنیا کو معلوم ہیں۔
ہم اپنے آپ کو حالیہ المناک اعداد و شمار تک محدود رکھتے ہیں۔ فلسطینی وزارتِ صحت کے مطابق جب سے یہ جابرانہ جنگ شروع ہوئی ہے، اب تک 40 ہزار سے زائد فلسطینی قتل ہو چکے ہیں۔ لیکن حقیقی اعداد و شمار اس سے بھی کہیں زیادہ ہیں کیونکہ ابھی بھی ان گنت افراد ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
ظاہر ہے دنیا نے سامراجیت کی جانب سے غریب ممالک کی عوام پر مسلط کردہ ہیبت ناک قتل و غارت گری متعدد مرتبہ دیکھی ہے۔ اس کی سب سے حالیہ ایک مثال یمن ہے جہاں سعودی ریاست نے نام نہاد جمہوری تہذیب یافتہ مغربی حکومتوں کی اعلانیہ حمایت کے ساتھ ایک تباہ حال ملک کی غریب عوام کو قحط اور بمباری سے سالہا سال دو چار رکھا۔ اس سارے جابرانہ عمل میں مغربی میڈیا نے ہمیشہ کی طرح منافقت اور حمایت کرتے ہوئے چپ سادھے رکھی۔
لیکن غزہ کے عوام پر جاری ظلم و جبر کے حوالے سے ایک نیا ہیبت ناک باب رقم کیا گیا ہے۔ ایسی مثال اور کہاں ملے گی کہ تقریباً 22 لاکھ 30 ہزار افراد کو (جنگ سے پہلے) ایک چھوٹے زمین کے ٹکڑے پر محصور کر دیا جائے جس کا کل رقبع لاس ویگاس کے برابر ہے، جہاں زندگی کے تمام وسائل، اشیاء خورد و نوش، رہائش، ادویات یہاں تک کہ پانی بھی دستیاب نہیں ہے؟ ذہن میں ایک ہی جگہ وارسا گھیٹو (Warsaw ghetto) کا خیال آتا ہے۔
ہزاروں بے یار و مددگار افراد روزانہ مسلسل بے رحمانہ بمباری کا نشانہ بن رہے ہیں جو شہری اور فوجی اہداف میں کوئی فرق نہیں کرتی بلکہ صبح شام ایک انتھک قصائی کا کام کر رہی ہے، کچھ نہیں چھوڑتی اور کسی کو نہیں چھوڑتی۔ جو اس دہشت زدہ اور بھوک کی ماری آبادی کی مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ بھی اسرائیلی افواج کی نظروں میں جائز ہدف بن جاتے ہیں۔
غزہ میں تباہی و بربادی، قتل و غارت گری اور ظلم و جبر کی موصول ہونے والی تصاویر اور ویڈیوز عرب عوام کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کی عوام کے لیے شدید غم و غصے اور اشتعال انگیزی کا مسلسل ٹیکہ بنے ہوئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں عرب عوام اور امریکہ میں بھی عوام مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔
اسرائیلی ریاست کا سرکاری ہدف حماس کا خاتمہ تھا۔ کوئی شک نہیں کہ ان کو کافی نقصان پہنچا ہے اگرچہ عام عوام نے اس کی بھاری قیمت چکائی ہے۔ لیکن دس مہینوں بعد بھی اسرائیلی عسکری مہم اپنے مکمل اہداف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔
یرغمالی آزاد نہیں کرائے جا سکے اور حماس ابھی بھی فعال ہونے کے ساتھ مسلسل مزاحمت کر رہی ہے۔ ہر مرنے والے جنگجو کی جگہ غزہ کے تازہ دم نوجوان مسلسل بھرتی ہو رہے ہیں جن کے سینے جابروں کے خلاف نفرت اور بدلے کی آگ میں سلگ رہے ہیں۔
اسرائیل کو زیادہ محفوظ بنانے کے برعکس نتن یاہو کی غزہ عوام پر مسلط جنگ نے اسے ہزار گنا زیادہ غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ اسرائیل میں حکومت مخالف جذبات مسلسل بڑھ رہے ہیں جسے جنگ کو طول دینے اور یرغمالیوں کو بازیاب کرانے میں ناکامی کے حوالے سے مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔
اسرائیل میں احتجاج مسلسل بڑھ رہے ہیں جن میں ہزاروں افراد قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں جن میں نتن یاہو کو یقینا شرمناک شکست ہو گی اور ممکنہ طور پر کورٹ کے چکر کاٹنے پڑیں گے۔ لیکن نتن یاہو پیچھے ہٹنے کے بجائے الٹا جنگ کو مزید طول دینے یہاں تک کہ اس کی تباہی و بربادی کو وسعت دینے کے لیے بیتاب نظر آ رہا ہے جس کے نتیجے میں پورا خطہ جنگ کے شعلوں میں بھڑک سکتا ہے۔
نتن یاہو کا مقصد
اکثر دلیل پیش کی جاتی ہے کہ ”نتن یاہو زیادہ مشکل پوزیشن میں ہے کیونکہ اگر کوئی معاہدہ ہوتا ہے تو یقینا اس کا اتحاد ختم ہو جائے گا۔“ یہ درست ہے کہ نتن یاہو کے انتہائی دائیں بازو اتحادیوں نے اعلان کر رکھا ہے کہ کسی بھی معاہدے کی صورت میں وہ حکومتی اتحاد ختم کر دیں گے جیسے اگر فلسطینی قیدیوں کی ایک بڑی تعداد کو اسرائیلی جیلوں سے نکال کر یرغمالیوں کی بازیابی کے لیے آزاد کر دیا جاتا ہے۔
لیکن یہ تشریح کوئی تشریح نہیں ہے۔ در حقیقت نتن یاہو کو اپنے اقدامات کے لیے اتحادیوں پر انگلی اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ نام نہاد ”انتہائی دایاں بازو“ نہیں ہے جو اسرائیلی حکومت کی پالیسیاں چلا رہا ہے بلکہ یہ بذاتِ خود نتن یاہو ہے۔
اس کا اقتدار ہر طرف سے خطرے میں ہے۔ اس کی شیخی، کہ وہی اسرائیلی سیکیورٹی کا واحد ضامن ہے، 7 اکتوبر کو جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوئی ہے۔ غزہ میں جنگ کے مقرر کردہ اہداف حاصل نہیں ہوئے ہیں اور اسرائیل میں دیو ہیکل مایوسی تیزی سے پھیل رہی ہے۔
نتن یاہو ایک سفاک اور موٹی چمڑی والا سیاست دان ہے جس کا ریکارڈ غلیظ چالبازیوں اور کرپشن سے داغدار ہے۔ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ غزہ جنگ کے خاتمے کے بعد اس کا اقتدار ختم ہو جائے گا اور جیل اس کا انتظار کر رہی ہے۔ ظاہر ہے سیاسی کیریئر کا ممکنہ خاتمہ اس کے لیے خاص دلچسپی کا باعث نہیں ہے۔ ایک اسرائیلی جیل میں طویل قیام کا خیال تو ویسے ہی نیند اڑانے کے لیے کافی ہے۔
اسے ایک ہی امید ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایک مضبوط اور قابل عزت قائد بنا کر پیش کرے، ایک جنگی قائد۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک جنگی قائد کو قیادت کرنے کے لیے ایک جنگ چاہیے۔ اب یہاں سے آگے سوچ بچار کرنا مسئلہ نہیں ہے کیونکہ منطقی نتیجہ فوراً ہی واضح ہو جاتا ہے۔
اسرائیل میں عوامی مایوسی کے حوالے سے منظم ہونے والے مسلسل احتجاج درد سر تو ہیں لیکن یہ اتنے طاقتور نہیں ہیں کہ وہ اپنا راستہ تبدیل کرنے پر مجبور ہو جائے۔ لندن اور نیو یارک کی سڑکوں پر عوامی احتجاج ان ممالک کے سیاست دانوں کے لیے پریشانی ہوں گے لیکن یہ ان کا مسئلہ ہے جس میں اسرائیلی وزیراعظم کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
امریکیوں کی جانب سے الفاظ، منت سماجت، خوشامد یا دھمکیاں بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑیں گی (اسے معلوم ہے ان سب کی کوئی اوقات نہیں ہے)۔ نتن یاہو کو جنگ کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی اسے سانس لینے کے لیے ہوا کی ضرورت ہے۔ جو خون آشام راستہ اس نے اپنے لیے چنا ہے اس سے وہ ایک انچ پیچھے نہیں ہٹے گا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کون سی جنگ؟ غزہ میں جنگ اب مکمل طور پر منجمد ہو کر رہ گئی ہے۔ پورا علاقہ ملیا میٹ کرنے کے بعد اب اسرائیلی فوج کے پاس بمباری اور تباہ کرنے کے لیے کچھ نہیں بچا۔ کچھ جرنیلوں نے بھی اس صورتحال پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
اس لیے نتن یاہو کو اب کچھ نیا سوچنا پڑے گا۔ اسے اسرائیلی عوام کو قائل کرنا پڑے گا کہ ان کے وجود کو بیرون ملک دشمنوں سے خطرہ ہے اور ان دشمنوں کا مقابلہ طاقت کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ صرف طاقت کی زبان ہی سمجھتے ہیں۔
اس وقت اسے خطے میں ایک وسیع جنگ اور اس میں امریکی مداخلت کی اشد ضرورت ہے، ایک ایسی صورتحال جس میں امریکی اور اس کے اتحادی کھل کر اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہوں۔ اس حد تک نتن یاہو مکمل طور پر پُر عزم ہے کہ خطے میں ایک جنگ شروع ہو جس میں امریکہ براہ راست اسرائیلی معاونت کے لیے مداخلت کرنے پر مجبور ہو جائے۔
اس کام کے لیے جس دشمن کا انتخاب کیا گیا ہے وہ ایران ہے۔
اسرائیل مسلسل ایران کو اشتعال دِلا رہا ہے
اسرائیلیوں نے فوراً مسلسل اشتعال انگیزی کا ایک پروگرام بنایا جس کا مقصد ایران کو جنگ کرنے پر مجبور کرنا ہے۔ یکم اپریل کو دمشق میں ایرانی سفارت خانے کے کونسلر سروسز کے حصے پر ایک اسرائیلی حملے میں دو تجربہ کار کمانڈروں سمیت سات ایرانی قتل ہوئے۔
اس کے فوراً بعد ماہر قوال ٹولی کی مانند امریکی اتحادیوں نے ایران پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا کہ ’تحمل‘ کا مظاہرہ کرے۔ ویسے یہ عجیب بات نہیں کہ ہمیشہ ایران پر ہی دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ ”تحمل کا مظاہرہ کرے“، لیکن اسرائیل کو کبھی ایسا کچھ نہیں کہا جاتا؟ حالانکہ یہ اسرائیل ہے جس پر تمام تر دباؤ ہونا چاہیے۔
در حقیقت مسلسل اسرائیلی اشتعال انگیزی کے باوجود یہ ایران ہی ہے جس نے بار ہا تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس لیے اپریل میں انہوں نے بہت احتیاط کے ساتھ اپنا رد عمل اپنایا اگرچہ اسرائیل کی ننگی جارحیت تھی کہ کسی طرح جنگ ہو جائے۔
جب 13 اپریل کو ایران نے اسرائیل پر 300 سے زیادہ ڈرونز اور میزائلوں کے ساتھ حملہ کیا تو انہوں نے امریکیوں (اور اسرائیلیوں) کو اس حملے پر پہلے سے خبردار کیا جس کو چند مخصوص اہداف تک محدود رکھا گیا تھا۔
دیکھنے کا زاویہ کوئی بھی ہو، اسی کو ”تحمل“ کہتے ہیں۔ لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ ایران کے تحمل کو فوری طور پر مغربی میڈیا میں کمزوری بنا کر پیش کیا گیا۔ اسرائیلیوں کو روکنے کے برعکس، اس رد عمل نے انہیں اور زیادہ شیر کر دیا۔ اب انہوں نے نئے اور زیادہ اشتعال انگیز اقدامات اٹھانے کی ٹھان لی۔
کیا یہ عجیب نہیں کہ تہران میں حماس کے سیاسی قائد اسماعیل ہانیہ کے اسرائیلی قتل کی کوئی مذمت نہیں کی گئی؟ 31 جولائی کو ایک بیرون ملک کے دارالخلافہ میں حماس قائد اسماعیل ہانیہ کا قتل ایک جنگی قدم تھا۔ لیکن اس واقعے پر پورا مغرب خاموش بیٹھا رہا۔
کوئی اقوام متحدہ کی قرار داد نہیں، اسرائیل کے خلاف پابندیوں کا کوئی ذکر نہیں، کچھ بھی تو نہیں! اگرچہ یہ ایرانی نہیں اسرائیلی ہیں جو مسلسل جارحانہ اشتعال انگیزی کر رہے ہیں تاکہ صورتحال مزید بھڑک اٹھے اور پورا خطہ جنگ کی لپیٹ میں آ جائے۔ لیکن ہمارا ”آزاد میڈیا“ کبھی اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرتا۔
اس کے برعکس ایران کو جارح اور اسرائیل کو مظلوم بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ جس قصائی کی چھری خون میں لت پت ہے وہ معصوم ہے، جبکہ بکری بدی کا گڑھ ہے جس نے مسلسل شور مچا کر اپنی گردن کٹوا لی ہے!
جی نہیں، خواتین و حضرات! اس تماشے میں ایرانی جارح نہیں ہیں۔ انہیں امریکہ کے ساتھ جنگ کرنے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ ایسی کوئی بھی جنگ دور دور تک ان کے مفاد میں نہیں ہے۔
امریکی کردار
نتن یاہو کی پوری کوشش ہے کہ امریکہ کو ایران کے ساتھ جنگ میں گھسیٹ لیا جائے اور امریکیوں کے موجودہ اقدامات سے لگتا ہے اس کی چالبازیاں درست ہیں۔ ان تمام واقعات پر واشنگٹن کا کیا رد عمل رہا ہے؟
7اکتوبر کو جوبائیڈن کا ردعمل متوقع تھا، وہ فوراً ایک ہوائی جہاز میں بیٹھا، اسرائیل پہنچا، ساری دنیا کے سامنے نتن یاہو کو گلے لگایا اور اعلان کیا کہ حماس کے خلاف اسے امریکہ کی غیر مشروط اور لامتناہی حمایت حاصل ہے۔ یہ پہلا بلینک چیک تھا، ایک انتہائی بیوقوفانہ پالیسی جس کی ساری قیمت واشنگٹن نے ادا کرنی تھی۔
ایک سفارتی بیوقوفی نے بائیڈن کا کلیجہ ٹھنڈا نہیں کیا بلکہ اس نے ایران سے تصادم کا سن کر فوراً ایک اور غلطی کی۔ اس نے ایک اعلامیہ جاری کیا کہ، ”ایران اور اس کی پراکسیوں کی جارحیت کے خلاف اسرائیلی سیکیورٹی پر ہمارا عزم آہنی اور غیر متزلزل ہے۔“
نتن یاہو کو ایک اور بلینک چیک جاری کر دیا گیا، جسے اس نے مستقبل میں بھرپور قیمت پر کیش کرانے کے لیے چپکے سے اپنی جیب میں ڈال لیا، اب وہ یہی کام کر رہا ہے۔ جو بائیڈن بھرپور اور اس سے بھی زیادہ قیمت ادا کرنے پر مجبور ہے۔
غزہ میں شہریوں کے قتل عام نے انتخابات میں بائیڈن کی دوسری بار کامیابی کے امکانات پر پانی پھر دیا ہے اور کئی اہم حلقوں میں اس کی ساکھ بری طرح مجروح ہو چکی ہے۔ اسرائیل کے لیے اندھی حمایت اور غزہ میں مستقل جنگ بندی کا مطالبہ نہ کرنے سے مسلم ووٹر اور نوجوان شدید متنفر ہو چکے ہیں۔
ڈیمو کریٹک پارٹی میں بھی گہری دراڑیں موجود ہیں۔ امریکی حکومت اس وقت دو دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے، ایک ”ایران کی طبیعت درست“ کرنا چاہتا ہے اور جنگ کرنے کے لیے بے چین ہے جبکہ دوسرا دھڑا ابھی بھی ہوش و حواس میں ہے اور نتائج سے خوفزدہ ہے۔
مشرق وسطیٰ میں بحران اب تیزی سے کمالہ ہیرس کی انتخابی مہم میں خلل ڈال سکتا ہے۔ حکومت ایک ناقابل حل مسئلے میں پھنس چکی ہے۔ یہ معما کیسے حل ہو گا؟
ایک طرف حکومت (بشمول ہیرس) مرتے دم تک اسرائیل کی حمایت کرنے کی قسمیں اٹھا رہی ہے۔ دوسری طرف وہ ایک نیا محاظ کھلنے سے روکنے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں امریکہ کو براہ راست مداخلت کرنی پڑ سکتی ہے۔
مشرق وسطیٰ میں ایک عمومی جنگ کے عالمی (اور امریکی) معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے، جو پہلے ہی ایک نئی معاشی گراوٹ کے دہانے پر کھڑی ہے۔ پھر مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں امریکی فوجی اڈے موجود ہیں جن پر آسانی سے حملہ کیا جا سکتا ہے، اس کے علاوہ کئی معاشی اور کمرشل مفادات بھی موجود ہیں۔
اس لیے مشرق وسطیٰ میں ایک وسیع جنگ میں مداخلت کرنا امریکہ کے لیے انتہائی خطرناک جوا ثابت ہو سکتا ہے۔ ڈیمو کریٹس کے لیے یہ ایک ناقابل تلافی تباہی ہو گی۔ اس کا سب سے پہلا شکار تو کمالہ ہیرس خود ہو گی جس کے نومبر انتخابات میں پرخچے اڑ جائیں گے۔
اس بنیاد پر واشنگٹن کے بحران کے حوالے سے ہیجان سے بھرپور رد عمل کو سمجھا جا سکتا ہے۔
”مذاکرات“
مشرق وسطیٰ میں جنگ کی وسعت کو روکنے یا کم ازکم ملتوی کرنے کے لیے واشنگٹن اسرائیل، مصر، قطر اور حماس پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے مذاکرات میں شامل ہوں۔
یہ جو بائیڈن کی پہل گامی تھی جو نومبر میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ہاتھوں شکست کے امکانات بڑھنے پر بہت زیادہ پریشان ہو چکا تھا۔ اگر وہ ان مذاکرات میں کامیاب ہو جاتا تو امید تھی کہ ڈیموکریٹک پارٹی اور امریکی کیمپسوں میں اس کے ناقد خاموش ہو جاتے اور اسے انتخابات جیتنے میں مدد مل جاتی۔
31مئی کو بائیڈن نے غزہ جنگ بندی کا ایک مجوزہ پلان پیش کیا۔ حماس نے اسے قبول کر لیا۔ لیکن نتن یاہو نے مذاکرات میں ہیرا پھیری اور ان کو تباہ و برباد کرنے کے فن کو عروج پر پہنچا دیا ہے۔ اب اس کی چالبازیاں از بر ہو چکی ہیں۔ سب سے پہلے وہ جھوٹ بولتا ہے، اشاروں میں کہتا ہے کہ بس وہ معاہدے پر متفق ہوا چاہتا ہے لیکن پھر عین وقت پر پورے عمل کو پیروں تلے روند کر عجیب و غریب مطالبات اور اعتراضات اٹھانے شروع کر دیتا ہے، جن پر اسے یقین ہوتا ہے کہ یہ کامیابی سے مذاکرات کو ناکام کریں گے۔
اس مرتبہ بھی ایسے ہی ہو گا۔ یہ یقین کرنا بیوقوفی ہو گی کہ اسرائیل غزہ میں انسانی المیے کو حل کرنے کے لیے سنجیدگی سے کوشاں ہے جبکہ اسی دوران مسلسل عسکری جارحیت کے ذریعے انسانی المیے کو گھمبیر سے گھمبیر تر کیا جا رہا ہے۔
جب نتن یاہو تل ابیب میں بلنکن کے ساتھ گرم جوش مذاکرات کر رہا تھا تو اسی وقت اسرائیل نے اعلان کیا کہ اس کے ہوائی جہازوں اور فوجیوں نے پچھلے دن ”درجنوں دہشت گردوں کو قتل“ کیا ہے، حماس تنصیبات اور ایک سرنگی نیٹ ورک کو تباہ کر دیا ہے جہاں سے راکٹ اور میزائل ملے ہیں۔
فلسطینی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ پیر کے دن خان یونس کے شمالی شہر میں کسی انٹرنیٹ پوائنٹ کے پاس ایک اسرائیلی فضائی حملے میں چھ افراد قتل ہوئے ہیں اور شمال میں غزہ شہر میں ایک گاڑی پر حملے کے نتیجے میں چار افراد قتل ہوئے ہیں۔ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف آباد کاروں کی قاتلانہ جارحیت بھی جاری ہے۔
بلنکن جھوٹا ہے
امریکہ نے اپنے کلیدی مذاکرات کار، امریکی سیکریٹری برائے ریاست انتھونی بلنکن کو بھیجا تاکہ وہ نام نہاد امن مذاکرات کو بچائے جن سے متعلق اس نے کہا کہ یہ ”شائد آخری موقع ہے“ کہ ایک امن معاہدہ قائم ہو جائے۔
اگر امریکیوں کو واقعی سنجیدہ خواہش تھی کہ اسرائیل کو غزہ جنگ بندی پر آمادہ کیا جائے تو یہ کام خاموشی سے کیا جا سکتا تھا۔ امریکہ غزہ پٹی میں نسل کشی کے لیے مسلسل ہتھیار اور پیسہ فراہم کر رہا ہے۔ اسرائیل کو 20 ارب ڈالر تک کی سبسڈی فراہم کی جا رہی ہے۔
اس حمایت کے بغیر اسرائیل ایک دن جنگ جاری نہیں رکھ سکتا۔ اگر واشنگٹن جنگ بندی کا خواہشمند ہے تو اسے اسرائیل کو ایک سخت تنبیہ دینے کی ضرورت ہے کہ اگر جنگ بندی قبول نہ کی تو فوری طور پر ہر قسم کی امداد بند ہو جائے گی۔
لیکن ایسی کوئی تنبیہ نہیں کی گئی۔ مستقبل میں بھی نہیں ہو گی۔ نتن یاہو کو سب اچھی طرح معلوم ہے اور اس لیے وہ اپنے فائدے کے لیے رچائے جانے والے سفارتی تماشے کا مسلسل تمسخر اڑا رہا ہے۔
امریکیوں اور اسرائیلیوں کی جانب سے جاری کردہ تمام اعلامیوں کو سفارتی لفاظی میں بھگو بھگو کر پیش کیا جاتا ہے، ”اشاریے مثبت ہیں“، ”دونوں فریقین کے درمیان فاصلے کم ہو رہے ہیں“، ”ایک معاہدہ جتنا آج ممکن ہے پہلے کبھی نہیں تھا، یا اتنا فوری نہیں تھا“ وغیرہ وغیرہ۔
ظاہر ہے بلنکن کی پہلی منزل تل ابیب تھا جہاں اس کی نتن یاہو سے تین گھنٹے ملاقات رہی۔ ان کے درمیان کیا بات چیت ہوئی؟ ہمیں یقینا تو نہیں پتہ کیونکہ سارا معاملہ خفیہ رکھا گیا ہے۔ لیکن ہم ایک اچھا اور مستند اندازہ لگا سکتے ہیں۔
بلنکن نے جنگ بندی کی التجاء کی۔ نتن یاہو نے کچھ دیر بعد کہا کہ ہاں میں کسی بھی مناسب تجویز پر غور و فکر کرنے کے لیے تیار ہوں، بلکہ میری کچھ اپنی تجاویز بھی ہیں جن پر مجھے یقین ہے کہ مستقبل کے مذاکرات میں ضرور غور و فکر ہو گی تاکہ ایک وسیع پیمانے کے معاہدے کے تحت تمام مسائل حل کیے جائیں۔
سیکریٹری برائے ریاست کو اچھی طرح معلوم ہے کہ حماس واضح کر چکا ہے کہ وہ مئی کے اختتام پر بائیڈن کے مجوزہ معاہدے پر دستخط کرنے کو تیار ہے لیکن اس کے علاوہ اور کوئی نئی تجویز اب زیر بحث نہیں ہو سکتی۔ لیکن اس نے خاموشی سے اسرائیلی وزیراعظم کو سنا جیسے ایک ڈرا ہوا بچہ سکول ماسٹر سے ڈانٹ کھا رہا ہو۔
اس مہذب گفتگو کے بعد امریکی نمائندے اور اسرائیلی حکومت کے درمیان معاہدہ ہو گیا ہو گا۔ یعنی اول الذکر نے کوڑا گھونٹ پیا، بعد الذکر نے کوڑا گھونٹ پلایا اور بعد الذکر نے اول الذکر کی کسی ایک التجاء پر کان تک نہیں دھرا۔
19اگست کو بلنکن نے اعلان کیا کہ نتن یاہو نے غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے لیے امریکی ”عبوری تجاویز“ پر اتفاق کر لیا ہے۔ بلنکن نے یہ بھی کہا کہ اب یہ حماس کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی متفق ہو اور اسے امید ہے کہ کسی احتجاج کے بغیر اتفاق ہو جائے گا۔ پیغام واضح تھا، اگر حماس نے اتفاق نہیں کیا تو حماس اور صرف حماس مذاکرات کی ناکامی کے لیے ذمہ دار ہے۔
عجیب بات ہے کہ سیکریٹری برائے ریاست نے کسی بھی لمحے پر یہ نہیں بتایا کہ نتن یاہو کے ساتھ کیا ”عبوری تجاویز“ متفق ہوئی ہیں۔ ظاہر ہے اس عبوری راستے کی ایک ہی سمت ہے! اطلاعات کے مطابق نتن یاہو نے بلنکن کو کہا ہے کہ وہ ”اس ہفتے قاہرہ میں ایک مذاکراتی ٹیم بھیجنے کا سوچ رہا ہے“ جہاں مصری، قطری اور امریکی ثالث بھی موجود ہوں گے۔
یہ الفاظ انتہائی مشکوک ہیں۔ سب سے پہلے تو ہمیں صرف بلنکن نے بتایا ہے کہ نتن یاہو کچھ تجاویز پر متفق ہے۔ اس معاملے پر اسرائیلی وزیراعظم کی جانب سے قبر سے زیادہ گہری خاموشی ہے۔
نتن یاہو کے عزائم واضح ہیں۔ مذاکرات میں مسلسل نئی تجاویز گھسا کر وہ ان مذاکرات کو لامتناہی طول دینا چاہتا ہے یا اس سے بھی بہتر انہیں سبوتاژ کرنا چاہتا ہے تاکہ حماس پر ناکامی کا سارا ملبہ ڈال دیا جائے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ معاہدے کو حماس نہیں اسرائیل سبوتاژ کر رہا ہے۔
حماس نے الزام لگایا ہے کہ اسرائیل نئے مطالبات لے کر آ رہا ہے اور مذاکرات کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ وہ پچھلے مہینے متفق کردہ معاہدے پر عمل کرنے کے لیے تیار تھے۔ یہی حقیقت ہے۔ بنیامین نتن یاہو مسلسل نئی تجاویز نکال رہا ہے جن میں اسرائیل کے دوبارہ جنگ شروع کرنے کے حق کو تسلیم کرنا بھی شامل ہے۔
وہ اصرار کر رہا ہے کہ اسرائیلی افواج غزہ-مصر سرحد پر تعینات رہیں گی تاکہ ہتھیاروں کی اسمگلنگ بند ہو۔ در حقیقت اس کا مطلب غزہ پر اسرائیلی تسلط کا جاری رہنا ہے اور حماس کے لیے یہ ناقابل قبول ہے۔
نتن یاہو بہت پُر اعتماد ہے کہ اسے امریکی حمایت حاصل ہو گی کیونکہ وہ پہلے بھی یہی کھلواڑ کرتا رہا ہے۔ اسے پتہ ہے کہ امریکہ میں طاقتور اسرائیل نواز لابی ہر وزارت سے مطالبات منوائے گی، چاہے نتائج کچھ بھی ہوں۔
اگر نتائج اتنے گھمبیر نہ ہوتے تو یہ سب کھلواڑ ایک بھونڈا مذاق ہوتا۔ آج اس غلاظت کی ڈھیری کو سفارتکاری کہا جاتا ہے! اور یقینا نتائج انتہائی خوفناک ہوں گے۔
ایران کا ردِ عمل
اسماعیل ہانیہ کا قتل ایک معیاری موڑ تھا۔ اس نے فوراً اسرائیلی حکومت کے حقیقی عزائم کو واضح کر دیا۔ اگر مذاکرات سنجیدہ ہیں تو پھر ہانیہ کو کیوں قتل کیا گیا ہے؟ پھر اس قتل کا دانستہ طور پر اس وقت منصوبہ بنایا گیا جب نئے ایرانی صدر مسعود پیزیشکیان کی حلف برداری کی تقریب جاری تھی، یعنی ایک ایسا عمل جس سے ایران کی زیادہ سے زیادہ جگ ہنسائی ہو۔
جنگ بندی کے مذاکرات میں ہانیہ حماس کا مرکزی مذاکرات کار تھا۔ اسے عام طور پر معتدل سمجھا جاتا تھا۔ ایسے تو ہو نہیں سکتا کہ مذاکرات میں ایک فریق سکون سے دوسرے فریق کے مرکزی مذاکرات کار کو قتل کر دے اور اس کے بعد مذاکرات ایسے جاری رہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
توقعات کے مطابق اسماعیل ہانیہ کے قتل پر ایرانیوں کا شدید ردعمل آیا۔ ایک مرتبہ پھر مغربی سفارتکاری کا سارا دباؤ ایران پر تھا کہ ”اپنا موقف نرم کرو“، یعنی شدید جارحیت کے سامنے منہ بند کیے بیٹھے رہو۔ اس جارحیت کے خالق اسرائیل کو ایک لفظ تک نہیں کہا گیا۔
امریکی ”اتحادی“ (یعنی غلام) فوراً اطاعت میں سرشار ہو گئے۔ فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے قائدین نے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا، جس میں اسرائیل کے بجائے تہران کو مخاطب کر کے حکم دیا گیا کہ کسی بھی جارحانہ حملے سے اجتناب کیا جائے ”جو خطے میں مزید اشتعال انگیزی کا باعث بن سکتا ہے“۔ جن واقعات نے اس تناؤ کو جنم دیا ہے، یعنی اسماعیل ہانیہ اور بیروت میں ایک حزب اللہ قائد کا قتل، اس پر کوئی ایک لفظ تک نہیں!
اس اعلامیے کے الفاظ دانستہ طور پر ایرانیوں کو مشتعل کرنے کے لیے لکھے گئے۔ برطانوی ”لیبر“ وزیراعظم کیئر سٹارمر اور جرمن چانسلر اولاف شولز نے صدر پیزیشکیان کو فون کالیں کیں اور اپیل کی کہ عسکری جارحیت میں مزید اضافے سے ہر ممکن طور پر بچا جائے۔
سٹارمر نے ایرانی صدر سے درخواست کی کہ ”موجودہ عسکری حملے سے پیچھے ہٹا جائے“۔ ان حضرات کی رعونت اور تکبر ناقابل یقین ہے۔ ذرا سوچیے کہ اگر ایران ایک میزائل حملے کے ذریعے لندن میں ایک اہم خارجی شخصیت کو اسی دن قتل کر دے جس دن تاج پوشی ہو!
مسٹر پیزیشکیان نے سر کیئر سٹارمر سے کہا کہ یہ مغربی ممالک کی اسرائیلی حمایت ہے جو اسے مسلسل ظلم و جبر کرنے کی کھلی چھوٹ دے رہی ہے اور اسی وجہ سے خطے کا امن اور سیکیورٹی خطرات کا شکار ہیں۔
”پیزیشکیان نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے نکتہ نظر سے دنیا کے کسی بھی حصے میں جنگ کسی بھی ملک کے مفادات میں نہیں ہے۔ اس نے درست طور پر نشاندہی کی کہ ایک جارح کے خلاف تعزیری ردعمل ریاستوں کا قانونی حق ہے اور جرم اور جارحیت کو روکنے کا ایک طریقہ کار ہے“، اور یہ درست ہے۔
اسرائیلی حملہ ایک جنگی عمل تھا اور اس کا سخت ردعمل ہی بنتا ہے۔ ہمیں یاد ہونا چاہیے کہ کس مکروہ انداز میں امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور فرانس نے فوراً 7 اکتوبر کے حملے کے بعد اسرائیل کے ”حقِ دفاع“ کے لیے شور مچانا شروع کر دیا تھا۔
ظاہر ہے ایرانی وزارت خارجہ نے اسی حقارت سے لندن، پیرس اور برلن کی صبر کی تلقین کو ٹھوکر ماری جو حق بنتا تھا۔ ناصر کانانی نے کہا کہ، ”ایسے مطالبات سیاسی منطق سے عاری، عالمی قانون کے اصولوں اور قواعد کے بالکل خلاف ہیں اور انتہاء کو پہنچے ہوئے ہیں۔“
ظاہر ہے تہران میں اس وقت اتفاقِ رائے نہیں ہو گا کہ کون سا ردعمل بہترین ہے۔ مغربی میڈیا مسلسل دعویٰ کرتا ہے کہ ایران مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے مرکزی خطرہ ہے، حالانکہ ایرانیوں کو اسرائیل اور خاص طور پر امریکہ کے ساتھ جنگ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
پہلے کئی مرتبہ انہوں نے اعتدال کی درخواستیں قبول کی ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ انہوں نے تحمل کا کتنا مظاہرہ کیا ہے۔ اور اس کا نتیجہ کیا رہا؟ اسرائیلی مزید حملے کرنے میں شیر ہو گئے۔ اس لیے انہوں نے اب درست نتیجہ اخذ کیا ہے کہ بے لگام جارحیت کے سامنے اعتدال اور تحمل بیکار ہے، بلکہ ناقابل تلافی نقصان کا موجب ہے۔
اگر کوئی چیز ایرانیوں کو اسرائیل پر حملہ کرنے سے روک سکتی ہے تو وہ غزہ میں ایک کامیاب جنگ بندی ہے۔ لیکن یہ مسٹر نتن یاہو کے تمام مفادات کے منافی ہو گا اس لیے اس کے امکانات ناممکن ہی ہیں۔
ہم پھر دہراتے ہیں کہ نتن یاہو ایران سے جنگ کے لیے بیتاب ہے جس کے نتیجے میں پورا خطہ جنگ کی لپیٹ میں بھڑک اٹھے گا اور اس میں امریکہ سمیت دیگر قوتوں کو بھی کودنا پڑے گا۔ یہی اس کا مقصد ہے اور وہ کسی کے کہنے یا کسی بھی رکاوٹ سے باز نہیں آئے گا۔
ایرانی اپنی حکمت عملی بنا رہے ہوں گے اور جلد یا بدیر وہ اپنا جواب دیں گے۔ لیکن اس مرتبہ وہ ہاتھ ہلکا نہیں رکھیں گے اور پہلے سے خبردار بھی نہیں کریں گے۔
امریکہ کیسے ”تناؤ کم“ کرتا ہے
اگرچہ امریکہ اور اس کے اتحادی تہران کو اعتدال اور تحمل کی تلقین کر رہے ہیں، لیکن خود وہ یروشلم میں اپنے دوستوں کی جارحیت کو کم کرنے کے لیے کچھ نہیں کر رہے اور غزہ عوام کی مسلسل نسل کشی ہو رہی ہے۔
وہ ایرانیوں سے اپیلیں کرر ہے ہیں کہ ایسا کچھ نہ کرو جس سے صورتحال بے قابو ہو جائے اور براہ راست جنگ شروع ہو جائے، لیکن خود وہ مسلسل مسلح ہو رہے ہیں اور مشرق وسطیٰ میں بے تحاشہ جنگی سامان پہنچا رہے ہیں۔ یہ جلتی پر تیل ہے، اگرچہ انہیں آگ بھڑکانے کے لیے محنت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
امریکہ نے خبردار کیا ہے کہ وہ اس ہفتے میں ممکنہ ایرانی یا اس کی پراکسیوں کی جانب سے ”قابل ذکر حملوں“ کا مقابلہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے اور مشرق وسطیٰ میں اپنی عسکری موجودگی کو بڑھا رہا ہے تاکہ ”اسرائیل کا دفاع“ کیا جا سکے۔ واہ! واہ! اب ہمیں راگ کا پتہ ہے بلکہ شاعری بھی وہی پرانی ہے۔
امریکہ نے فوراً اعلان کیا کہ اس نے یو ایس ایس جارجیا (USS Georgia)، جوہری طاقت سے چلنے والی ایک گائیڈڈ میزائل آب دوز کو مشرق وسطیٰ میں تعینات کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
اسی طرح یو ایس ایس ابراہیم لنکن (USS Abraham Lincoln)ایئر کرافٹ کیریئر سٹرائیک گروپ کو بھی خطے میں پہنچنے کا حکم مل گیا ہے، جبکہ یو ایس ایس تھیوڈور روزویلٹ (USS Theodore Roosevelt)ایئر کرافٹ کیریئر سٹرائیک گروپ پہلے سے خلیج عمان میں موجود ہے۔ خطے میں اضافی F-22 لڑاکا طیارے بھی بھیجے جا چکے ہیں، جبکہ یو ایس ایس واسپ (USS Wasp)، ایک بڑا بحری جنگی جہاز F-35 لڑاکا طیارے لیے بحیرہ روم میں موجود ہے۔
اس طرح واشنگٹن ”تناؤ کم“ کر رہا ہے۔ ایرانیوں کے خلاف اس سے بڑھ کر جارحیت سوچنا محال ہے جبکہ توقع یہ ہے کہ ایران ہاتھ پر ہاتھ رکھے خاموش بیٹھا رہے گا۔
پھر حال ہی میں اسرائیلیوں نے اعلان کیا ہے کہ ایک مرتبہ جنگ شروع ہو جائے تو امریکہ کے کچھ قریبی ترین اتحادی (یعنی کٹھ پتلیاں) ممکنہ طور پر اسرائیل کی حمایت کا اعلان کریں گے۔ یہ اعلامیہ فوری طور پر آن لائن سے ہٹا دیا گیا تھا لیکن جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اس میں برطانیہ اور فرانس کا ذکر تھا۔
ظاہر ہے یہ سب کچھ برطانیہ اور فرانس اور دیگر عالمی اقوام کے لیے ایک بڑی خبر ہو گا جنہیں اس وقت مکمل طور پر جنگی جنونیوں کی چالبازیوں کے حوالے اندھیرے میں رکھا جا رہا ہے۔
ایک وسیع تر جنگ کا خطرہ
لبنان کے پاس ایک ہزار اور ایک وجوہات ہیں کہ جنگ کیوں نہیں کرنی۔ اس کی معیشت تباہ حال ہے۔ ابھی تک وہ 2006ء میں اسرائیل کے ساتھ جنگ سے مکمل طور پر بحال نہیں ہوا ہے اور ایک نئی بھرپور جنگ ملک کے انفراسٹرکچر اور عوام کو تباہ و برباد کر کے رکھ دے گی۔
لیکن اس وقت فوری خطرہ اسرائیل اور لبنان کے درمیان جنگ کا ہے۔ در حقیقت دونوں ریاستیں ابھی سے جنگ کر رہی ہیں۔ اس سرحد پر روزانہ IDF (اسرائیلی ڈیفنس فورسز) اور ایرانی حمایت یافتہ حزب اللہ کے درمیان گولہ بارود کا تبادلہ ہو رہا ہے، جس کے نتیجے میں سینکڑوں افراد قتل ہو چکے ہیں جن میں بھاری اکثریت لبنانیوں کی ہے۔
شمال میں 60 ہزار سے زیادہ اسرائیلی اپنا گھر اور ذریعہ معاش ترک کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں اور اس سے زیادہ لبنان میں بے آسرا ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی حکومت پر اندرون ملک دباؤ بڑھ رہا ہے کہ حزب اللہ کا مسئلہ ”حل“ کیا جائے اور ان قوتوں کو لبنان میں دریا لیتانی سے شمال کی جانب دھکیل دیا جائے تاکہ اسرائیل پر میزائلی حملوں کا خطرہ کم سے کم ہو۔
دوسری طرف حزب اللہ ایک بڑے اسرائیلی حملے اور فوج کشی کا جواب دیو ہیکل اور مسلسل میزائل، ڈرون اور راکٹ حملوں سے دے گا جو ممکنہ طور پر اسرائیل کے آئرن ڈوم دفاع کو ناکارہ بنا سکتا ہے۔ اسرائیل میں کوئی بھی علاقہ پہنچ سے دور نہیں ہو گا۔
یقینا سمندر میں موجود امریکی بحریہ اسرائیل کی حمایت میں متحرک ہو گی۔ ایران کو مجبوراً جنگ میں شامل ہونا پڑے گا۔ یہ ایک قابل ذکر قوت ہو گی۔ اس کے پاس بالسٹک میزائل کا بڑا ذخیرہ ہونے کے ساتھ ساتھ عراق، یمن اور شام میں پراکسیوں کا ایک وسیع نیٹ ورک موجود ہے جسے اسرائیل پر سخت حملوں کے لیے متحرک کیا جا سکتا ہے۔
جنگی جنونی مردہ باد!
اس پیچیدہ مسئلے میں ایک اور پہلو بھی ہے جس پر شاذ و نادر ہی مغربی میڈیا تبصرہ کرتا ہے۔ حالیہ ہفتوں میں روسی نمائندوں نے ایران کے ساتھ مذاکرات کیے ہیں۔
عالمی سطح پر روس ان چند ممالک میں سے ہے جو ایران کے ساتھ کاروبار کر رہے ہیں۔ روس نے ایران کے بنائے ہوئے بم والے ڈرون یوکرین میں استعمال کیے ہیں۔
روس کے قومی سیکیورٹی کونسل سیکریٹری سرجی شوئگو نے حال میں تہران کا دورہ کیا ہے۔ یقینا عرصہ پہلے اس دورے کا پروگرام بنا ہو گا۔ لیکن اس وقت جو صورتحال بنی ہوئی ہے، اس میں ہانیہ کے قتل کا موقع ”ہاتھ سے جانے دینا ناممکن“ تھا۔
ظاہر ہے ایرانی حکومت کے ساتھ ان مذاکرات میں اور بھی بہت سارے سوال زیر بحث آئے ہوئے ہوں گے، جن میں خاص طور پر ماسکو اور تہران کے درمیان عسکری تعاون سرفہرست ہو گا۔ حالیہ دور میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ مستقبل میں خطے میں جو بھی جنگی صورتحال بنے گی اس میں ان کا قابل ذکر اثر ہو گا۔
چین خاموشی سے مشرق وسطیٰ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔ پچھلے سال چین نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان ایک معاہدہ کروایا جس کے تحت دونوں ممالک نے آپسی جارحیت کو کم کیا ہے۔ اس قدم نے سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان امریکی مفاہمت کے پلان کو چکنا چور کر دیا ہے۔
جولائی میں چین نے ایک مرتبہ پھر واشنگٹن کی ناراضگی پر حماس اور الفتح (مغرنی کنارے میں امریکی حمایت میں فلسطینی اتھارٹی میں مرکزی دھڑا) کے درمیان ایک معاہدہ کروایا۔ چین نے اسرائیل پر اپنا موقف بھی سخت کیا ہے اور اس پھر کھلی تنقید کر رہا ہے، حالانکہ اس کا روایتی طریقہ کار تمام فریقین کو تحمل کی تلقین کرنا ہے۔
لیکن ضبط کا وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ مستقبل کی کسی بھی جنگ میں چین کا ایک کلیدی کردار ہو گا۔ یہ تمام عوامل مل کر ایک ہیبت ناک صورتحال کو جنم دے رہے ہیں۔ ایک مرتبہ جنگ کا دھماکہ ہو گیا تو نتائج اور اختتام کی پیش گوئی کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔
برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی اور امریکہ میں کروڑوں افراد بے خبر سکون کی زندگیاں گزار رہے ہیں جبکہ مشرق وسطیٰ پر جنگ کے کالے بادل منڈلا رہے ہیں۔ ایک وسیع تر جنگ کے اثرات کئی ممالک میں محسوس ہوں گے، ان میں بھی جو اس خطے سے ہزاروں میل دور ہیں۔
یہ سامراج اور خاص طور پر امریکی سامراج کی مجرمانہ پالیسیاں ہیں، دنیا کی سب سے جارحانہ اور جابرانہ رد انقلابی قوت، جو پوری دنیا کے کروڑوں افراد کو ایک دیو ہیکل اجتماعی تکلیف، تباہی و بربادی اور قتل کی
جانب دھکیل رہی ہیں۔
نام نہاد ”آزاد میڈیا“ ایک مجرمانہ کردار ادا کر رہا ہے، جو مسلسل جھوٹ اور منافقت کے ذریعے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہا ہے اور عوام کی نظروں سے اہم عوامل چھپا رہا ہے۔ اس طرح جنگ اور عسکریت پسندی کے خلاف جدوجہد کو جہالت اور غلط حقائق کے دھوئیں میں چھپا دیا جاتا ہے۔
لیکن سب سے غلیظ اور مجرمانہ کردار نام نہاد ”لیفٹ“ ادا کر رہا ہے، جو طبقاتی شعور یا جدوجہد کی رمق تک کھو چکا ہے اور کیئر سٹارمر جیسے دائیں بازو اصلاح پسندوں کا گھٹیا دم چھلا بنا ہوا ہے جو عرصہ دراز پہلے شیطان سے اپنی روح کا سودا کر کے جنگی جنونیوں کی گود میں بیٹھ گیا تھا۔
وقت آ چکا ہے کہ خطرات سے آگاہ کیا جائے!
بیرونی مہم جوئیاں نامنظور!
جنگی جنونیوں کے خلاف جدوجہد زندہ باد!
NATOاور امریکی سامراج مردہ باد!
نتن یاہو اور زیلنسکی کے لیے ہتھیار اور امدا بند کرو!
دنیا بھر کے محنت کشوں ایک ہو جاؤ!