|رپورٹ: نمائندہ ورکرنامہ|
میٹرو کیش اینڈ کیری پاکستان، میٹرو گروپ جرمنی کا ایک ذیلی ادارہ ہے جو کہ سنہ 2006ء سے پاکستان میں کام کر رہا ہے اور2011ء سے اب تک مقامی حبیب گروپ کے ساتھ شراکت داری میں ہے۔ چند روز قبل میٹرو حبیب ورکرز یونین پاکستان کے جنرل سیکرٹری، فاروق حسن کو گرفتاری عمل میں آئی تھی۔ اس بابت جاننے کے لئے جب ورکرنامہ کے نمائندے نے یونین کے چیئرمین، اقتدار حیدر سے اس مسئلے پر بات کی تو انہوں نے بتایا کہ میٹرو کی مینجمنٹ نے ورکرز کی لاعلمی میں کئی سال سے ایک یونین رجسٹرکروا ئی ہوئی تھی جو کہ بطور سی بی اے کا کام کر رہی تھی۔ اس کا چیئرمین ایک ایسا شخص ہے جو کہ کمپنی کا ملازم ہی نہیں ہے اور اپنے قریبی رشتہ دار ، جو کہ جنرل سیکرٹری ہے، کے ساتھ مل کر اس پاکٹ یونین کو چلارہا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جب میٹرو ملازمین کو یہ بات پتہ چلی تو انہوں نے اس پاکٹ سی بی اے کو مسترد کرتے ہوئے اپنی یونین بنا کر اس پاکٹ یونین کو نیشنل انڈسٹریل ریلیشنز کمیشن آف پاکستان میں چیلنج کر دیا اور زیادہ ووٹ لے کر سی بی اے حاصل کرلیا۔ لیکن مینجمنٹ نے اس نئی سی بی اے کے ساتھ رسمی مذاکرات سے مستقل کنارہ کشی کی اور ورکرز کے مطالبات پر کسی قسم کی پیش رفت نہ ہونے دی۔ اسی دوران پاکٹ یونین نے اس سی بی اے کو چیلنج کر دیا۔ جس کے بعد مینجمنٹ نے بغیر قانونی طریقہ کار اختیار کیے اس سی بی اے کو تحلیل کرتے ہوئے اور سی بی اے کے کورٹ سے سٹے آرڈر لینے کے باوجود نئے ریفرنڈم کا علان کر دیا اورساتھ ہی اس یونین کے عہدیداران اور متحرک ممبران کے خلاف انتقامی کاروائیوں کا بھی آغاز کر دیا۔ کچھ ملازمین کی جبراً نوکری سے نکال دیا گیا، کچھ کو معطل ، کچھ کا تبادلہ اور کچھ سے زبردستی استعفیٰ لے لیا گیا۔ مزید یہ کہ ان تمام ملازمین کی تنخواہیں بھی روک دی گئیں جبکہ یہ عدالت کے فیصلے کے خلاف تھا اور توہینِ عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔
حاضر سروس ملازم ہونے کے باوجود سی بی اے عہدیداران اور متحرک ملازمین کے کمپنی کے کسی بھی حصے میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ کمپنی کی مینجمنٹ نے آنے والے اس ریفرنڈم کے لیے اپنی من پسند یونین کی انتخابی مہم خود چلانی شروع کر دی جبکہ تحلیل شدہ سی بی اے کو صرف کمپنی کے اندر ہی نہیں بلکہ باہر بھی انتخابی مہم چلانے نہ دی گئی اور کہیں یہ مہم چلائی گئی تو پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعہ ہراساں کیا گیا اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں۔
ریفرنڈم سے پہلے اس کے عہدیداران کے خلاف اقدامِ قتل، ہلڑبازی اور دیگر جرائم پر مبنی جھوٹے مقدمات قائم کر دیئے گئے، جو کہ شواہد کی عدم دستیابی کی وجہ سے عدالت نے خارج کر دیئے۔ ان تمام اقدامات کے بعد کمپنی نے تحلیل شدہ سی بی اے ممبران کے ناموں کو ووٹر لسٹوں تک میں شامل نہ کیا اور ریفرنڈم میں کوئی بھی یونین کم سے کم لازم ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہی اور کمپنی دوبارہ پولنگ کروانے پر مجبور ہو گئی ہے، جس پر اسلام آباد میں بات چل رہی ہے۔
مزید یہ کہ دو جون 2018ء کو میٹرو حبیب ورکرز یونین (تحلیل شدہ سی بی اے) کے جنرل سیکرٹری فاروق حسن کو ناہید قریشی کے ہمراہ میٹرو سٹار گیٹ سٹور، کراچی، میں بلایا گیا، پہلے تو کافی دیر جان بوجھ کر انتظار کرایا گیااور پھر آفس میں بلایا گیا، آفس میں داخل ہوتے ہی پہلے سے پلان شدہ طریقے سے انہیں گرفتار کر لیا گیااور حقارت آمیز طریقے سے لے جایا گیا۔ پلان کے مطابق عام تعطیل پر گرفتار کیا گیا تاکہ کسی قسم کی قانونی چارہ جوئی نہ ہو سکے۔ایف ائی آر کا خلاصہ ہے کہ سترہ مئی کو رات آٹھ بجے واقع ہوا اور گیارہ دن بعد پولیس اسٹیشن کو اطلاع دی گئی۔ مینجمنٹ اپنے خلاف درج شدہ مقدمات جن میں توہینِ عدالت شامل ہے، کو خارج کروانے کے لئے ہر قسم کے مظالم اور دھمکی آمیز پیغامات کا استعمال کررہی ہے۔
میٹرو کے ورکرز لمبے عرصے سے اس جدوجہد میں مصروف ہیں لیکن، ان تمام واقعات سے یہ واضح ہے کہ صرف اور صرف عدالتی طریقہ کار سے کسی قسم کے نتائج حاصل نہیں ہوں گے کیوں کہ میٹرو جیسی بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لئے قانون اورعدالت گھر کی لونڈیاں ہیں۔ قوانین اور عدالتیں پہلے ہی مزدوروں کی دشمن ہیں جبکہ لیبر ڈیپارٹمنٹ سرمایہ داروں کا ٹاؤٹ ہے۔ کم از کم تنخواہ پہلے ہی حکمرانوں نے قابل شرم حد تک کم رکھی ہوئی ہے اور وہ قانون بھی کہیں لاگو نہیں ہے۔ اس کے علاوہ آٹھ گھنٹے کام کے اوقات کار اور ہفتہ وار چھٹی ایک خواب بن چکی ہے۔ کنٹریکٹ اور ڈیلی ویجز پر کام کرنے والے محنت کشوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے جو بنیادی ضروریات کے بغیر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ ہر سال ہزاروں مزدور صنعتی حادثات میں ہلاک ہو جاتے ہیں۔ مزدور یونین بنانا سنگین ترین جرم بن چکا ہے اور اس جرم کی سزا پولیس اور دیگر ریاستی ادارے انتہائی گھناؤنے جبر کی صورت میں کرتے ہیں۔
حال ہی میں میٹرو حبیب ورکرز یونین کی قیادت نے تمام محنت کشوں سے یکجہتی اور مدد کی اپیل کی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہی درست راستہ ہے۔ یونین قیادت کو تمام ورکرز کو اعتماد میں لیتے ہوئے اور ان کی آرا کو مقدم رکھتے ہوئے اس لڑائی کو آگے بڑھانا ہوگا۔ قانونی لڑائی کے ساتھ ساتھ ہڑتال جیسی عملی لڑائی کی طرف بھی دیکھنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ ناصرف کراچی بلکہ ملک بھر کے محنت کشوں، مزدور تنظیموں اور ٹریڈ یونینز سے یکجہتی کی اپیل اور لڑائی کو جوڑنا ہوگا۔